Thursday, May 1, 2008

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

غذائی بحران دنیا کے لیے ایک نیا خطرہ

 سنگین غذائی بحران دنیا کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔اس کا ثبوت عالمی بینک کا تازہ بیان ہے کہ اشیائے خورو نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں دس کروڑ غریب افراد کو مزید غربت کی گہرائیوں میں دھکیل سکتی ہیں۔ یہ بیان بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی اس تنبیہہ کے بعد سامنے آیا ہے جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ جاری رہا تو لاکھوں لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہوں گے۔ اور یہی نہیں بلکہ معاشرتی بے چینی بڑے تنازعات  (غالبا کوئی انقلاب وغیرہ) کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

 اقوام متحدہ کی خوراک و زراعت کی تنظیم ایف اے او نے بھی خبردار کیا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کی مہنگائی ترقی پذیر ملکوں میں لاکھوں انسانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ بن رہی ہیں۔ تنظیم کاکہنا ہے کہ گذشتہ ایک سال میں خوراک کی قیمتوں میں چالیس فیصد اضافہ ہوا ہے جو بہت سے ملکوں کی برداشت سے با ہر ہے اور اگر کسانوں کو فوری طور پر مدد نہیں ملے گی تو بہت سے ملک غذائی بحران کا سامنا نہ کرسکیں گے۔ ادارے نے یہ بھی کہا کہ غذائی بحران کی اہم وجہ37ممالک میں لڑائی ، بدلتی آب و ہوا اوروسیع پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔جس کے تحت پچھلے چند سالوں میں ترقی پذیر ممالک پر خشک سالی اور سیلابوں نے حملے کیے ہیں ۔ تیل کا بڑھتا ہوا بھاؤ اور ساتھ میں اناج سے بننے والے بناسپتی ایندھن کی مانگ بڑھی ہے جس کی وجہ سے یہ بحران اور بھی شدید ہوگیا ہے ۔

 مقام فکر ہے کہ عالمی بینک سے متعلقہ کئی ایجنسیوں کی حالیہ جاری کردہ ایک رپورٹ میں پاکستان بھی ان چھتیس ممالک میں شامل ہے جہاں خوراک کے شدید بحران کا خطرہ موجود ہے۔

 پاکستان میں اس حوالے سے اناج کی قلت ، بڑھتی ہوئی قیمتیں اور غریبوں کی خود کشیاں یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ ہمارے ہاں یہ بحران کس درجے کا ہے اور ہوسکتا ہے ۔ پچھلی حکومت کے پہلے یہ اعلانات کہ گندم بہت زیادہ ہے برآمد کی جاسکتی ہے اور پھر اس قدر کمی کہ لوگوں کو واقعی روٹیوں کے لالے پڑ گئے ، پھر گندم کی مہنگے داموں درآمد  یقینا یہ جادوئی کرتب ہماری حکومتیں ہی کرسکتی ہیں ۔زرعی ملک کی یہ زبوں حالی کہ لوگ دانے دانے کو محتاج ہوچلے ہیں۔عام طور پر قحط کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ کھانے کو کچھ نہ ملے لیکن آج کا بحران انوکھی نوعیت کا ہے کہ لوگوں کو کھانے کو روٹی تو ملے لیکن اس کی قیمت ان کی قوت خرید سے زیادہ ہو۔




 اس سال اناج کی مہنگائی نئے ریکارڈ پر پہنچ گئی ہے جس نے ہر طرح کی غذائی اشیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آج متوسط طبقے کے لوگوں نے خوراک کے لیے اپنے علاج معالجے کو پس پشت ڈالنا شروع کردیا ہے ۔  پاکستان میں یہ نظارے عام ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 2 ڈالر یومیہ کی آمدنی والے افراد نے اپنے بچوں کو اسکول سے اٹھانا شروع کر دیا ہے۔سبزیاں کھانا کم کردی ہیں اور خوراک میں چاول کا استعمال بڑھادیا ہے۔1ڈالر یومیہ آمدنی والے افراد نے سبزیاں اور گوشت کھانا چھوڑ دیا ہے اور دن میں ایک وقت کا کھانا کم کردیا ہے۔لیکن جن لوگوں کی یومیہ آمدنی نصف ڈالر سے کم ہے ان کے لیے حالات انتہائی سنگین ہوگئے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں ایک ارب افراد ایسے ہیں جن کی یومیہ آمدنی ایک ڈالر یومیہ سے کم ہے۔اس حوالے سے ہمارے ملک کے کروڑوں شہری اس فہرست میں شامل ہوں گے۔

 حالیہ مہینوں میں خوراک کی قیمتوں میں کم از کم 40% اضافہ ہوا ہے۔جبکہ کئی ممالک میں قیمتوں میں اس سے کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔تاہم خوراک کی قلت میں آئندہ دنوں میں اس سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آسکتا ہے جب ایشیا میں مون سون کا موسم شروع ہو گا ۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث گذشتہ کئی برسوں سے مون سون کے چکر میں تبدیلی آگئی ہے جس کی وجہ سے خطے کے کئی ممالک کی زراعت متاثر ہوئی ہے۔خصوصا ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اناج کی پیداوار میں بیس فیصد کمی واقع ہوئی اور جس کی وجہ سے بھارتی ذخیروں میں 30 ملین میٹرک ٹن کی کمی واقع ہوئی۔اس سے پہلے 2002 میں جب بھارت کی فصل خراب ہوئی تھی تو اس وقت ملک میں اناج کے وافر ذخائر موجود تھے لیکن اب صورت حال بدل چکی ہے۔

 اناج کی قلت کے اس طوفان میں صرف پاکستان اور بھارت ہی نہیں بلکہ فلپائن اور بنگلہ دیش بھی موجود ہیں۔ویتنام میں فصلوںمیں بیماری پھیل سکتی ہے ۔چین کے دریائے یانگڑ میں 1990کی دہائی جیسا طوفان آگیا تو دنیا کے اناج کے ذخائر پر دباؤ اور بڑھ جائے گا۔
 عالمی بینک ، اقوام متحدہ کے بیشتر اداروں اور 60 ممالک نے علاقائی سطح پر خوراک کی قلت ، قیمتوں میں اضافے اور ماحولیاتی مشکلات پر قابو پانے کے لیے کھیتی باڑی کے طریقوں میں تبدیلی کی حمایت کی ہے لیکن امریکا ،برطانیہ ،آسٹریلیا اور کنیڈا نے ابھی تک اس ضمن میں پیش کی جانے والی رپورٹ انٹر نیشنل اسسمنٹ اف ایگری کلچرل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈیولپمنٹ کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی ہے۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے امیر ممالک سے کہا ہے کہ وہ دنیا میں خوراک کی بڑھتی قلت اور قیمتوں میں اضافے پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر500ملین ڈالر کی امداد دیں واضح رہے کہ چند ممالک میں اشیا خور و نوش کی قیمتوں میں 80% تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ 33ممالک میں اس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کا خطرہ موجود ہے۔ 2500 صفحات کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں پیداوار زیادہ ہونے کے باوجود لوگ بھوکے رہ جاتے ہیں ، بڑھتی ہوئی آبادی اور آمدنیوں میں اضافے کے باعث خوراک کی طلب میں بھی اضافہ ہوا ہے خاص طور پر گوشت اور دودھ کی ڈیمانڈ بہت بڑھ گئی ہے ۔ بائیو فیول ٹیکنالوجی کے فروغ، خوراک کی غیر مساوی تقسیم، اور قدرتی وسائل پر قابو پانے کے لیے مستقبل میں ملکوں کے مابین تنازعات بھی ہو سکتے ہیں،جبکہ2050 تک دنیا کی آبادی 9.2 ارب ہو جانے کی توقع ہے جو اس وقت 6.7 ارب ہے۔

 یہ اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے جس کی تیاری کے لیے حکومتوں ، غیر سرکاری تنظیموں اور امیر و غریب ممالک کی صنعتوں نے 400سائنس دانوں کے ساتھ مل کر مسلسل 4 سال تک کام کیا، اس رپورٹ میں خوراک کی پیداواراور ماحولیاتی تبدیلیوں سے لے کر دنیا بھر میں اس کی تجارت تک پر بحث کی گئی ہے۔

 ہماری نئی حکومت جو ابھی بہت نئی ہے با آسانی یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا سکتی ہے کہ اسے یہ بد حالی ورثے میں ملی ہے اور یہ پچھلے آٹھ سالوں کی بد اعمالیاں ہیں جو پھل پھول رہی ہیں۔ اس کا یہ کہنا درست بھی ہوگا یقینا جمعہ جمعہ آٹھ دن کی حکومت سے آپ یہ توقع نہیں لگا سکتے کہ وہ چراغ کے الہ دین کی طرح پلک جھپکتے میں سب ٹھیک کردے۔لیکن اگر یہ جواز کسی سیاست داں کا ہے تو بالکل ٹھیک ہے لیکن اگر آپ سیاست داں کے بجائے خود کو قوم کا رہنما سمجھتے ہیں تو پھر یقینا یہ عذر لنگ ہے ۔ رہنما وہ ہوتا ہے جو اپنے عزم و حوصلے سے سب کچھ بدل سکتا ہے اور اسے اللہ تعالی کی مدد اور عوام کی سچی دعائیں حاصل ہوتی ہیں ۔16کروڑ افرادی قوت اورایٹمی طاقت کا حامل یہ ملک وسائل سے بھی مالا مال ہے ۔کمی صرف عزم ، حوصلے اور اس نظر کی ہے جو بہت آگے تک دیکھتی ہے۔کیا ہم جنوبی کوریا سے بھی گئے گذرے ہیں کہ جب اسے پندرہ اگست 1945میں جاپانی چنگل سے نجات ملی تو اس وقت تک عالمی جنگ نے ملک کو ایک بڑے کھنڈرمیں تبدیل کردیا تھا، پھر پچاس سے تریپن تک کی جنگ کوریا نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی، اس ملک کے پاس کوئی خاص معدنی دولت بھی نہیں تھی،بس ایک بہتر سا تعلیمی نظام تھا جس نے سیاسی اور فوجی آمریت کے لمبے سائے تلے بھی نہایت تربیت یافتہ افرادی قوت تیار کرلی ۔نتیجہ یہ ہے کہ جب کوریا ساٹھ سال کا ہوا تو وہ دنیا کی دس بڑی صنعتی قوتوں میں شامل تھا اوراس کی فی کس آمدنی اٹھارہ ہزار سالانہ سے زائد تھی۔

 انڈونیشیا کی مثال دیکھ لیجیے ،اگرچہ اس عرصے میں انڈونیشیا تیل سے مالا مال ہونے کے باوجود اتنی ترقی نہ کرسکا جتنی اس کے ہمسایوں نے کی لیکن پھر بھی جب اس نے آزادی کی ساٹھویں سالگرہ منائی تو ملک کم از کم جمہوریت کی راہ پر پوری طرح گامزن ہوچکا تھا۔
 سری لنکا ساٹھ برس کا ہوا تو تامل سنہالہ تنازعے نے ملک کی چولیں ہلادیں تھیں لیکن ان حالات میں بھی اس کی فی کس آمدنی بھارت اور پاکستان کے مقابلے میں ستر فیصد سے زائد رہی اور جمہوریت بھی پٹڑی سے نہیں اتری، اور نوے فیصد تعلیمی خواندگی کے نتیجے میں سری لنکا کو جنوبی ایشیا کا سب سے پڑھا لکھا ملک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

 چین کمیونسٹ انقلاب کے وقت بھارت سے بھی زیادہ پسماندہ تھا لیکن آج ساٹھ سال کی عمر میں چین دنیا کی سب سے بڑی صنعتی اور تیسری بڑی اقتصادی قوت ہے، جو ڈیڑھ ارب آبادی والے اس ملک کے لیے کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔

 ملائشیا ابھی صرف پچاس برس کا ہے، آزادی کے وقت ملائیشا کی شناخت صرف ٹن کی معدنیات اور پام آئل تھی اور اس کا شمار پاکستان سے بھی زیادہ غریب ملک میں ہوتا تھا لیکن پچاس برس بعد ملائیشا جنوب مشرقی ایشیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک کہلاتا ہے۔
 جاپانی جسے ایٹم بم نے راکھ کا ڈھیر بنا دیا تھا اور جہاں اب بھی اس کیمائی آلودگی کے باعث معذور بچے پیدا ہوتے ہیں آج ترقی اور خوشحالی کے عروج پر کھڑا ہے۔ بین الاقوامی اداروں سے قرض لینے کے بجائے ہمیں اپنے وسائل کو بروئے کار لانا ہوگا۔ یہ بڑے بڑے قرضے ذلت اور غلامی کا وہ طوق ہیں جو کسی بھی قوم کو دنیا میں سر اٹھا کر جینے کے لائق نہیں چھوڑتے۔ قرض کا ہر ڈالر سوددر سود ہماری آئندہ نسلوں سے بھی وصول کی جائے گا۔ یہ قرضے وہ مکڑی کے جالے ہیں جس میں غریب ممالک مکھی کی طرح پھنس جاتے ہیں۔ افریقہ کا حال ہمارے سامنے ہے۔

 ایڈز کے ہر ایک سو میں سے ستر مریض افریقہ میں ہیں ۔ روزانہ چھ ہزار مریض مر رہے ہیں اور گیارہ ہزارنئے بن رہے ہیں۔بوٹسوانا اورزیمبیا جیسے ممالک کی چالیس فیصد آبادی اس مرض کی لپیٹ میں ہے جسے ملیریا کہتے ہیں جس کا علاج باقی دنیا میں دس سے بیس روپے میں ہوجاتا ہے اور اس ملیریا سے افریقہ میں ماہانہ ڈیڑھ لاکھ بچے مر رہے ہیں۔کسے فرصت کہ یہ معلوم کرتا پھرے کہ پچھلے چالیس برسوں میں نائیجیریا ، سیرالیون اور انگولا کے معدنی ذخائر خانہ جنگی کا منحوس طوق کیسے بن گئے،کانگو میں گذشتہ چھ برس میں کیسے خانہ جنگی اور امداد کی عدم فراہمی نے اڑتیس لاکھ افراد کو مار ڈالا۔اور اس وقت بھی روزانہ ایک ہزار افراد کیوں مر رہے ہیں۔ جبکہ اسی کانگو میں اقوام متحدہ کی امن فوج کے سولہ ہزار سپاہی گھوم رہے ہیں اور دنیا کے کسی ایک علاقے میں یہ اقوام متحدہ کی سب سے بڑی فوج ہے۔سوڈان کا علاقہ دار فور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور میڈیا کی توجہ کا مسلسل مرکز ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ پچھلے چالیس برسوں کے دوران بیس افریقی ملک کس لیے خانہ جنگی کے خونی تجربے سے گذرے اور اس آگ سے کن کن ترقی یافتہ ممالک اور ان کی کمپنیوں نے اپنے اقتصادی ہاتھ تاپے۔  یہ بھی ایک رونے کا مقام ہے کہ جس برآعظم کا عالمی تجارت میں حصہ محض دو فیصد ہے اور امداد کے لیے ملنے والے ہر دو ڈالر میں سے ایک ڈالر سود کی مد میں چلا جاتا ہے۔اس بر اعظم پر تین سو بلین کا ڈالر کا قرضہ کس نے لادا۔ حالانکہ اس براعظم میں سالانہ ڈیڑھ سو بلین ڈالر کرپشن اور بد انتظامی میں ضائع ہوجاتے ہیں۔یقین نہیں آتا کہ یہ وہی افریقہ ہے جہاں سب سے پہلے انسان نے اوزار بنائے اور آگ کا استعمال سیکھا۔ اور یہیں سے نسل انسانی باقی دنیا میں پھیلی۔

 اب وہ وقت آ گیا ہے کہ جب اس نئے پاکستان کی باشعور عوام سیاست داں اور رہنما میں فرق جان جائے۔

 قافلے دلدلوں میں جاٹھہرے                  -------رہنما پھر بھی رہنما ٹھہرے-----

No comments:

Post a Comment