Tuesday, April 29, 2008

پانی کی بڑھتی ہوئی آلودگی اور صحت کے مسائل

پانی ذندگی کی ضمانت ہے۔۔۔۔یہ وہ حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن اب یہ الفاظ اپنی معنویت کھو رہے ہیں ۔ پانی جو زندگی کے لیے آب حیات کی حیثیت رکھتا ہے اب کہیں کہیں یہ انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بھی بن رہا ہے۔

  یہ سچ ہے کہ زندگی کا تصورپانی کے بغیر ممکن نہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ دریا سمندر اور جھیلوں کے کنارے ہی انسانی تہذیب پھلتی پھولتی اور نشوونما پاکر ترقی یافتہ معاشروں میں ڈھلتی رہی ہے۔گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ اگرچہ سمندر اور دریا اپنے راستے بدلتے رہتے ہیں   لیکن یہ ایک جغرافیائی اور ارتقائی عمل ہوتا ہے جو قدرتی نظام کے تابع ہوتا ہے اور سیکڑوں اور ہزاروں سال میں مکمل ہوتا ہے۔ لیکن آج اگر پانی اپنا کام بدل رہا اور انسانی جاں کے زیاں کا سبب بن رہا ہے تو یہ کسی قدرتی عمل کا حصہ نہیں ہے بلکہ انسان کی اپنی پروائی کا شاخسانہ ہے۔


 زمین پر بڑھتا ہوا درجہ حرارت موسموں کو بے ترتیب کر رہا ہے جس کا سب سے زیادہ اثر پانی کے وسائل پر پڑ رہا ہے۔کرہ ارض پر پانی کے وسائل کم سے کم ہورہے ہیں اورآلودگی حد سے بڑھ رہی ہے۔ یہ آلودہ پانی انسانی جانوں کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہورہا ہے۔پانی کے وسائل پر کام کرنے والے ایک ادارے کراچی واٹر پارٹنر شپ کی تحقیق کے مطابق  دنیا بھر میں سالانہ 10 ملین سے زائد لوگ پانی کی بیماریوں سے مر رہے ہیں اورترقی پذیر ملکوں میں پھیلی ہوئی 37 مہلک بیماریوں میں سے 21 کا تعلق گندے پانی اور سیوریج کے ناقص نظام سے ہے۔

ہمارے ملک میں تو صورت حال اور دگرگوں ہے  یوں تو یہاںکسی قدرتی وسیلے کی کوئی قدر ہے اورنہ اسے بچانے کی فکر اور آبی ذخائر کے ساتھ تو ہمارا سلوک انتہائی  شاندار ہے ، ہم اپنے ان قیمتی ذخائر یعنی سمندر، دریاؤں ، جھیلوں اور چشموںکو بطور  گٹر استعمال کرتے ہیں اور تمام گھریلو ، صنعتی اور زرعی کوڑا کرکٹ ، سیوریج اور فضلہ ان ہی میں بہا دیتے ہیں۔ اب ان ذخائر کے پانی کا کیا حال ہوگا اس کی وضاحت کے لیے نہ کسی پیچیدہ اعدادو شمار کی ضرورت ہے اور نہ بھاری بھرکم سائنسی اصطلاحات کی۔ بس اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ پانی انسانی جانوں کے لیے کسی  واٹر بم  کا کام انجام دیتا ہے۔

  حکومت کے بلند وبانگ دعووں سے ایک عام آدمی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے اسے تو پیٹ بھر روٹی اور دو گھونٹ صاف پانی کے درکار ہیں جس سے وہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ سکے۔ دو گھونٹ صاف پانی جو پاکستان میں جنس نایاب بنتا جا رہا ہے لوگوں تک پہنچانا یہ وہ کم از کم ذمے داری ہے جو حکومتوں پر عائد کی جا سکتی ہے۔ لیکن حکومت کی ترجیحات کیا ہیں؟ ۔۔۔اس حوالے سے کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے۔
 پاکستان کے شہری کس قدر آلودہ پانی پیتے ہیں اس کا اندازہ درج ذیل رپورٹوں سے باآسانی ہوسکتا ہے۔

 PCSIR ہمارے ملک کا ایک معتبر سائنسی ادارہ ہے،روزنامہ جنگ میں اشاعت پذیر اس کی ایک رپورٹ پانی کی شدید آلودگی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔اس کے مطابق کراچی ، لاہور ،اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ میں جو پانی پینے کے لیے استعمال ہورہا ہے اس کا 75 فیصد حصہ پینے کے لیے مضر بلکہ ناقابل استعمال ہے۔مذکورہ ادارے نے پانی کے یہ نمونے ان شہروں کے مختلف اسکولوں کے نلکوں سے حاصل کیے تھے۔

 سندھ ایگری کلچر یونیورسٹی ٹنڈو جام کے ڈپارٹمنٹ آف انرجی اور انوائرنمنٹ کے ایک جائزے میں بھی تقریبا یہی نتائج حاصل ہوئے۔ اس جائزے میں پینے کے لیے استعمال ہونے والے پانی کے 295 نمونے نہروں کنووں   تالابوں  ہینڈ پمپوں اور ٹھٹھہ، بدین اور تھر پارکر میں سرکاری اداروں ( میونسپل کمیٹیوں) کی طرف سے فراہم کیے جانے والے ذرائع سے حاصل کیے گئے تھے۔ نہروں اور نالوں سے حاصل کردہ تو تقریبا سو فیصد نمونوں کو تھرموٹالورینٹ کولیفورم سے آلودہ پایا گیا۔ہینڈ پمپوں  موٹر پمپوں  کنووں اور میونسپل اداروں کی طرف سے فراہم کیے جانے والے پانی کے 76 نمونوں کو تھرموٹالورینٹ کولیفورم سے آلودہ پایا گیا۔ان جائزوں سے یہ بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ پینے کے لیے استعمال ہونے والا آلودہ پانی اپنے مقام اجرا سے ہی آلودگی کا شکار ہوجاتا ہے۔

 پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی جس کی حالیہ آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے بڑھ چکی ہے اورشرح آبادی یہی رہی تو امید ہے کہ 2020 تک تین کروڑ ڈھائی لاکھ تک پہنچ جائے گی ۔کروڑوں کی آبادی والے اس شہر میں پانی کی نہ صرف قلت ہے بلکہ جو پانی میسر ہے وہ بھی انتہائی آلودہ اور صحت کے لیے مضر ہے۔ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کے شہریوں کویومیہ695 ملین گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ پانی کی فراہمی کے دو بڑے ذرائع حب ڈیم اور دریائے سندھ ہیں ، حب ڈیم سے پانی کی فراہمی 30 سے 75ملین گیلن تک ہوتی ہے اور اس کا انحصار بارشوں پر ہوتا ہے جبکہ دریائے سندھ سے645 ملین گیلن پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔شہریوں کو پانی فراہم کرنے سے قبل صاف تو کیا جاتا ہے مگر صفائی کے ناقص انتظام کے سبب مختلف مراحل سے گذرتے ہوئے پانی پھر آلودگی کا شکار ہوجاتا ہے۔اگرچہ فراہمی سے پہلے پانی کو کراچی واٹر اور سپلائی بورڈ کے سی او ڈی ہلز  پپری  گھارو اور سپر ہائی وے فلٹر پلانٹ سے گذارا جاتا ہے۔فلٹر اور ٹریٹمنٹ کے بعد یہاں پانی کا معیار بہتر ہوکر عالمی ادارہ صحت کے معیار کے قریب ہوجاتا ہے۔ پانی کو ٹریٹمنٹ کے عمل سے گذارنے کے لیے ایک خاص مدت کے لیے روکنا ضروری ہوتا ہے لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت کی وجہ سے مقررہ مدت سے کم وقت میں پانی کو چھوڑ دیاجاتا ہے۔

 فلٹر پلانٹ میں ٹریٹمنٹ کے تمام مرحلوں سے گذارنے کے بعد پانی میں کلورین کی ایک خاص مقدار ڈالی جاتی ہے۔اس عمل کو کلورینیشن کہتے ہیں جس کے بعد پانی پینے کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے لیکن عملا ایسا ہوتا نہیں ہے اورڈسٹری بیوشن سسٹم میں پانی دوبارہ آلودگی کا شکار ہو کر صارف تک پہنچتا ہے۔پانی کے آلودہ ہونے کی اہم وجوہات میں فراہمی آب کی بوسیدہ لائنیں ہیں۔  یہ لائنیں پرانی ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ سے رس رہی ہیں ۔ان چھوٹی اور بڑی پائپ لائنوں کی زندگی مکمل ہوچکی ہے لیکن وسائل کی کمی کے باعث پورے سسٹم کو یکسر تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ البتہ مختلف اوقات میں مختلف علاقوں مرمت کا کام ہوتا رہتا ہے۔ان پرانی پائپ لائنوں میں جگہ جگہ خصوصا جوڑوں میں سوراخ ہوگئے ہیں۔زمین کی نا ہمواری ، ہوا میں نمی اور زیر زمین پانی کی سطح بلند ہونے سے اس مسئلے نے مزید شدت اختیار کی ہے۔سیوریج کا پانی ان سوراخوں سے سے پائپ لائنوں میں چلا جاتا ہے۔اس کے علاوہ گھروں میں لوگوں نے پائپ لائنوں سے پانی کھینچنے کے لیے سکشن پمپ لگا رکھے ہیں لہذا جب لائنوں میں پانی نہیں ہوتا ہے تو ایک پریشر پیدا ہوتا ہے جو سیوریج کے پانی کو جو گٹر لائنیں بند ہونے کی وجہ سے پانی کی پائپ لائنوں کے ارد گرد جمع رہتا ہے کھینچ لیتا ہے ۔جب پائپ لائنوں میں پانی پریشر کے ساتھ سفر کرتا ہے تو ان سوراخوں سے رستا بھی رہتا ہے۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پانی کی کمی کاشکارکروڑوں کی آبادی والے اس شہر میں 40% ۔ جبکہ25% یہ انتہائی کمیاب پانی ٹپکتے نلکوں ، دھلتی کاروں اور وسیع و عریض لان میں پیڑوں پودوں کو دے کر ضائع کردیا جاتا ہے۔

کراچی کے شہری کس قدر قدر آلودہ پانی پیتے ہیں ، آئیے یہ بھی جان لیجیے ۔

  ڈاکٹر مبینہ آگبوٹ والاکی تحریر کردہ ایک رپورٹ Environmental Health in Sindh جو آئی یو سی این کی کتابSindh state of Environment & development میں شائع ہوئی تھی، کے مطابق  1997 میں کراچی میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق پینے کے پانی کے دو سو ترانوے نمونوں کو جب چیک کیا گیا تو ان میں صرف اڑتالیس یعنی تقریبا سولہ فیصد کو پینے کے لیے محفوظ پایا گیا۔پھر جن دو سو تینتیس پانی کے نمونوں کو جانچا گیا تھا ان میں سے تریسٹھ فیصدکو ایم پی این 507 سے آلودہ پایا گیا۔

 کراچی ہی میں 2000 میں کیے گئے ایک اور سروے کے مطابق گھریلو استعمال کے لیے جمع کیے جانے والے پانی میں سے کوئی 75فیصد تھرمو ٹالورینٹ کولیفورم سے متاثر تھے۔ایسے پانی میں ای کولی بھی متفرق شرح میں پائی گئی۔ای کولی کی موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ پینے کے پانی کہیں سے انسانی فضلہ بھی شامل ہورہا ہے۔عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق پینے کے صاف پانی میں ای کولی ہر گز نہیں ہونی چاہیے۔

 پانی میں اتنی زیادہ ملاوٹ( یا آلودگی) آنتوں کی متعدد بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔

 1995 میں یونیسیف کے ملٹی پل انڈیکیٹرس کلسٹر سروے کے مطابق پاکستان میں شدید گرمی کے موسم میں پانچ سال کی عمر تک کے 26% بچوں کو دستوں ( ڈائریا) کی بیماری میں مبتلا پایا گیا ان میں سب سے زیادہ تعداد یعنی33% سندھ کے بچوں کی تھی۔1996 کے نیشنل ہیلتھ سروے آف پاکستان کے مطابق جن دنوں یہ سروے کیا جارہا تھا۔ ان دنوں صوبہ سندھ کے اندازہ% 35.9 بچوں کو ڈائریا کی شدید بیماری نے گھیر رکھا تھا۔

 1997 کراچی ہی میں میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق اس بات کا انکشاف ہوا کہ 39%بچوں کو ڈائریا کی بیماری بار بار ہوتی تھی۔ایک اور مطالعے میں جو 2000 اور2001 میں کیا گیا اور جس میں دو ہزار کے قریب بچوں کو مسلسل دو سال تک زیر مطالعہ رکھا گیا ، یہ بات سامنے آئی کہ ان زیر مشاہدہ ہر 100 میں سے1.51کی شرح سے بچے شدید ڈائریا سے متاثر ہوئے۔ماہرین متفق ہیں کہ بچوں میں ڈائریا کی پھیلتی بیماری کا ایک بڑا سبب گندا پانی اور صفائی کا ناقص نظام ہے۔

 معیادی بخار یا ٹائیفائیڈ عموما کسی مخصوص علاقے میں پیدا ہوتا ہے۔لیکن یہ رفتہ رفتہ متعدی بیماری کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور ایسا عموما موسم گرما میں ہوتا ہے۔ کیونکہ اس موسم میں کھانے پینے کی اشیا اور پانی میں سالمو نیلا ٹائی فائیفی (ہاضمے کو نقصان پہنچانے والے جرثومے ) پیدا ہوتے ہیں۔جون 1990اور دسمبر1994 کے درمیان آغا خان یونیورسٹی ہاسپٹل کراچی میں چار ہزار چار سو انتالیس (4439) مریضوں کے خون یا ہڈی کے گودے (بون میرو) سے سالمونیلا ٹائیفائی کے اجزا کو علیحدہ کیا گیا ۔ان مریضوں میں سے 1,441 یعنی 33% چھہ سال سے کم عمر کے بچے تھے ۔

کراچی ہی کے پی ان ایس شفا اسپتال میں جنوری 1994سے لے کر اپریل 1999تک 412ٹائیفائیڈ کے مریض آئے۔اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں1992سے1994کے درمیانی تین سال کے عرصے میں بلڈ کلچر(خون کے تفصیلی جائزے) کے جتنے نمونے بھی موصول ہوئے ان میں سے 7.1 فیصد فساد ہضم کی شکایت سے متاثر تھے۔ ٹائیفائیڈ دراصل ایسے علاقوں میں زور دکھاتا ہے جہاں صفائی کا نظام ناقص ہو۔خصوصا وہ شہری علاقے اس بیماری کا گڑھ بن جاتے ہیں جہاں پینے کے پانی اور سیوریج کی نالیاں باہم مل جاتی ہوں اور پانی آلودہ ہو جائے۔ای کولی کی آلودگی انسانی صحت پر انتہائی خطرناک اثرات مرتب کرتی ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پینے کے اس پانی میں کہیں نہ کہیں سے انسانی فضلہ شامل ہو رہا ہے۔ ناقص اور ٹوٹی پھوٹی سیوریج لائنوں سے رستے ہوئے سیوریج کا پینے کے پانی کی لائنوں سے مل جانا اب کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں ہے بڑے شہروں اورخصوصا کراچی میں تو یہ عام بات ہے۔

 صنعتوں سے نکلنے والے آلودہ پانی کی ملاوٹ سے پینے کے پانی میں مضر دھاتوں خصوصا سیسہ کیڈ میم اورمرکری وغیرہ کا تناسب خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے اور پی سی ایس آئی آر کی 1999کی ایک رپورٹ جو آئی یو سی این کے میگزین جریدہ میں شائع ہوئی تھی کے تحت کورنگی کے صنعتی علاقے کا زیر زمین پانی صحت کے لیے انتہائی مہلک ہے۔اسی جریدے میں ای پی اے کے حوالے سے ایک اور رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کے مطابق ادارہ تحفظ ماحول ای پی اے نے کراچی شہر کے مختلف علاقوں میں کنووں اور بورنگ کے پانی کے نمونوں کا کیمیائی تجزیہ کیا جس سے معلوم ہوا کہ ملیر  کورنگی   ضلع جنوبی کراچی ، محمود آباد   اورنگی ٹاؤن   نارتھ کراچی  لیاری اور فیڈرل بی ایریا کے زیر زمین پانی کے نمونوں میں WHO کے مقرر کردہ معیار سے کئی گنا زیادہ دھاتیں اور زہریلے مواد موجود ہیں۔خصوصا کیڈمیم 16 ، گدلا پن یا مٹی 9 اور فضلاتی آلودگی 3گنا زیادہ پائی گئی۔

 آلودہ پانی انسانی صحت کے لیے کس قدر خطرناک ثابت ہورہا ہے ،کراچی واٹر پارٹنر شپ کے مطابق صرف  کراچی میں سالانہ  30,000اموات ریکارڈ کی گئی ہیںجن میں بچوں کی تعداد20 ہزار ہے۔

کراچی میں پانی کی کمی اور آلودگی دور کرنے اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے منصوبے زیر غور ہیں اور بہت سوں پر عمل بھی شروع ہوچکا ہے سر دست وہ ہمارا موضوع نہیں ہے اور نہ ہی ایک عام صارف کو اس سے کوئی دلچسپی ہے لیکن صورت حال میں بہتری کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے یہ سوال ہم سب کے لیے زیادہ اہم ہے۔

 کیا ایک عام آدمی کچھ کرسکتا ہے ؟ کیا وہ اپنے حالات میں تبدیلی لاسکتا ہے؟آئیے اس سوال کے جواب کی کھوج کرتے ہیں۔
 ہم کیا کرسکتے ہیں؟

 آلودہ پانی کے حوالے سے چند سادہ ،آسان اور آزمودہ طریقے جن کو اختیار کرنے سے صحت اور ماحول پر انتہائی خوشگوار اثرات رونما ہوسکتے ہیں۔

ہم اپنی اور اپنوں کی صحت کے لیے کم از کم پانی ابال کر تو پی ہی سکتے ہیں اور اگر اتنا تردد بھی نہیں کرنا چاہتے تواس سے بھی آسان طریقہ یہ ہے کہ شیشے کی شفاف بوتلوں میں پانی بھر کر دھوپ میں چند گھنٹے کے لیے رکھ دیں۔آپ ان بوتلوں کو چھت پر یاگیلری وغیرہ میں جہاں دھوپ اچھی آتی ہو رکھ سکتے ہیں۔سورج کی شعاعیں پانی کو آلودگی سے پاک کر دیں گی ۔اگر پانی بہت گدلا ہو تو پہلے پھٹکری سے صاف کر لیں کیونکہ سورج کی شعاعیں صرف 10cm تک ہی جراثیم کو مار سکتی ہیں۔

 ڈائریا سے بچنے کے لیے اپنے گھر میں اور خاص طور پر چھوٹے بچوں کو صابن کے استعمال کی ترغیب دیں خصوصابیت الخلا سے آکر صابن سے ہاتھ دھونا لازمی قرار دیجیے ، بچوں کو بھی یاد دلاتے رہیے اور ان کی نگرانی بھی کیجیے کہ وہ ایسا کر بھی رہے یا نہیں۔ یہ کوئی ٹوٹکا نہیں ہے بلکہ اس عمل کو باقاعدہ منصوبے کی صورت میں ایک آبادی پر آزمایا گیاتھا اور وہاں ڈائریا میں 30 فیصد کمی پائی گئی۔

 آلودہ پانی میں سے ڈائریا کے جراثیم کے خاتمے کے حوالے سے ہم اپنے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کا ایک تجربہ پیش کریں گے۔اگرچہ یہ بھی کوئی نیا طریقہ نہیں ہے لیکن اس کی آزمائش اور سائنسی بنیادوں پر چھان پھٹک کر نتائج مرتب کرنے کا سہراڈاکٹر انور حق کے سر ہے جو مائیکرو بائیولوجسٹ ہیں اور میری لینڈ بائیو ٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹ بالٹی مور میں میرین بائیو ٹیکنالوجی سے وابستہ رہے ہیں (ڈاکٹر انور حق جامعہ کراچی کے طالب علم رہ چکے ہیں اوراپنی استادمرحومہ ڈاکٹر نسیمہ ترمذی سے خاص عقیدت رکھتے ہیں۔) ڈاکٹر صاحب نے بنگلہ دیش میں پھیلتی ہوئی ہیضے کی بیماری پر قابو پانے کے لیے پرانی سوتی ساڑھی کا انتخاب کیا اوربرتن پر اس کی چار تہیں لگا کر اس سے پانی چھانا انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اس طریقے سے پانی ننانوے فیصد تک ہیضے کے جراثیم سے پاک ہوگیا ۔  ان کا کہنا ہے کہ پرانی سوتی ساڑھی کے ڈھیلے اور روئیں دار ریشوں میں ہیضے کے بیکٹیریا پھنس جاتے ہیں اور چھن کر برتن میں جانے والا پانی ان سے پاک ہوجاتا ہے۔ ان بیکٹیریا کی ساخت جھینگوں جیسی ہوتی ہے ۔اس ترکیب کی افادیت کو بین الاقوامی صحت کے اداروں نے نہ صرف مانا بلکہ اس کے عام استعمال کی بھی اجازت دی۔ابتدا میں تجرباتی طور پر یہ ترکیب بنگلہ دیش کے 65 دیہاتوں میں ایک لاکھ 33 ہزار افراد پر آزمائی گئی جس سے ان علاقوں میں اس سال صرف0.65 فیصد ہیضے کے کیس ریکارڈ ہوئے۔اب یہ ترکیب وہاں پانی صاف کر نے کے لیے عام ہوچکی ہے ۔ڈاکٹرانور حق کے اس پروجیکٹ میں ان کے ساتھ نیشنل سائنس فاؤنڈیشن واشنگٹن کا ادارہ بھی شامل ہے۔

   مندجہ بالا تمام کم خرچ اورآسان لیکن بہت زیادہ مفید تراکیب سے ہم بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں،خصوصا پرانی ساڑھی سے پانی چھاننے کی ترکیب سے تو دیہی سطح پر پانی کی آلودگی کے حوالے سے انقلاب برپا ہو سکتا ہے ۔ساڑھی کی جگہ پرانے سوتی کپڑے سے بھی کام لیا جاسکتا ہے۔

 ان ترکیبوں پر خود بھی عمل کیجیے اور دوسروں کو بھی ان کی ترغیب دیجیے، اس سے نہ صرف آپ کی اور آپ کے اہل خانہ کی صحت بہتر ہوگی بلکہ کچھ کرنے کا ایک خوشگوار احساس بھی ہوگا ۔ ایک قیمتی خوشی اور ایک انمول طمانیت   خوشیوں کی ان خوبصورت تتلیوں اور سکون کے جگنووں کو مٹھی میں بند کر لیجیے کہیں دیر نہ ہو جائے۔اس موسم گرما میں اپنے اور دوسروں کے لیے بہار کا پیامبر بن جائیے۔ 


No comments:

Post a Comment