اپنے لیے ہم بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔
گرمیوں کی ڈھلتی سہہ پہر تھی
،دھوپ کی تمازت ختم ہوچکی تھی اورہوا میں ٹھنڈک گھل رہی تھی، میں ایک صاف ستھری گلی
میں کھڑی چاروں جانب دیکھ رہی تھی۔میرے ساتھ جنگ میگزین کے ایڈیٹر اور انگریزی روزنامے
سے وابستہ ایک خاتون بھی تھیں۔ہم اس تبدیلی کا خاموشی سے جائزہ لے رہے تھے جس نے بجا
طور پر اس علاقے میں ایک خاموش انقلاب برپا کردیا تھا ۔یہ ایشیا کی سب سے بڑی ” کچی
آبادی “ اورنگی ٹاؤن تھا۔اس صاف ستھرے علاقے کو اب کچی آبادی کہنا یقینا زیادتی تھا۔کیونکہ
ہمارے لیے کچی آبادی کا تصور کچھ اور تھا۔اورنگی ٹاؤن کی تقریبا14لاکھ آبادی اپنے گھروں
میں آسودگی سے زندگی گذار رہی ہے۔اسے جینے کا قرینہ آگیا ہے ۔ صاف ستھرے محلے ، پختہ
گلیاں، ڈھکے ہوئے گٹر ایک صاف ستھری آبادی نکھر کر سامنے تھی جو ”پوش علاقوں“ سے بھی
زیادہ چمک دمک رہی تھی۔بلاشبہ اس خاموش انقلاب کے بانی معروف سماجی سائنس داں مرحوم
ڈاکٹر اختر حمید خاں تھے،اورنگی کا جائزہ لیتے ہوئے انہی کا ایک شعر مجھے یاد آگیا
۔شاید اسی علاقے کے لیے انہوں نے کہا ہوگا
ہزار شہر بسائے ہیں بادشاہوں نے
اب ایک شہر فقیروں کو بھی بسانے دو
وقت کے ساتھ ساتھ یقینا
تہذیبی ،تمدنی ، معاشرتی ،سماجی اور علمی قدروں میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ۔فکر ونظر
کو نئے زاویے اور ارتقائی رویے اختیار کرنے پڑتے ہیں ۔زندگی اور اس کے مسائل کو سمجھنے
، پرکھنے اور بیان کرنے کی نئی راہیں کھلتی ہیں ۔دنیا بھر میں سماجی بہبود اب ایک باقاعدہ
سائنس کے طور پر ابھر کر سامنے آرہی ہے ۔ اقوام متحدہ نے 1959 میں دانشوروں کی ایک
جماعت کو قومی معاشرتی بہبود کے پروگراموں کی ترقی کے موضوع پر ایک رپورٹ مرتب کرنے
کے لیے کہا تھا،اس جماعت نے یہ سفارش کی تھی کہ ہر حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ اقتصادی
ترقی کے مضر اثرات سے نمٹنے کے لیے انسانی فلاح و بہبود کے منصوبے بنائے ۔خود قران
کریم نے بھی بار بار اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ حاکم کو رعایا کی فلاح کے لیے کوشاں
رہنا چاہیے ۔خلافت راشدہ میں اس کی عملی مثالیں موجود ہیں۔
آج دنیا بھر میں حکومت
کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر فرد اور ادارے بھی تبدیلیوں کے نقیب بن رہے ہیں۔ سماجی
خدمات کے حوالے سے اگرچہ ہمارے ہاں بھی بہت کام ہورہا ہے ۔حکومت کا ہاتھ بٹاتے بے شمار
ادارے ہیں جو ہر شعبے میں فعال ہیں ، تبدیلی کا عمل اگرچہ بہت نمایاں نہیں ہے لیکن
جاری و ساری ہے۔لیکن شاید ہم روایت پرستوں کو تبدیلیوں کو ماننے اور اسے کھلے دل سے
تسلیم کرنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔یہی وجہ ہے کہ ابھی تک سماجی خدمات کوہمارے معاشرے
میں وہ مقام نہیں مل سکا ہے جس کی وہ حق دار ہے ۔حکومت کو تمام کاموں کا ذمے دارسمجھنے
کا تصور ہمارے ہاں عام ہے ۔
کراچی ہی کی مثال دیکھ
لیجیے ،یہ پاکستان کا سب سے بڑا شہرہے جس کی حالیہ آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے بڑھ
چکی ہے اورشرح آبادی یہی رہی تو امید ہے کہ 2020 تک تین کروڑ ڈھائی لاکھ تک پہنچ جائے
گی ۔ ۔بے پناہ آبادی کا بوجھ برداشت کرتا یہ شہر بنیادی سہولیات سے محروم اور مسائل
کا گڑھ بن چکا ہے۔صاف پانی کی کمی اورصفائی کا ناقص نظام شہریوں کی صحت کے لیے بگاڑ
اور پھر علاج کی مد میں ہونے والے اخراجات شہریوں کے لیے ایک اضافی بوجھ بن گئے ہیں۔سیوریج
کا ناقص نظام شہریوں کے لیے ایک ناقابل برداشت مسئلہ بنتا جارہا ہے۔
شہر کے بیشتر حصوں
میں نکاس کا نظام تیس سے چالیس سال پرانا ہوچکا ہے اور اپنی متعینہ مدت پوری کرچکا
ہے۔یہ نظام نہایت خستہ حال ، زنگ آلود اور پرانا ہوچکا ہے۔اس لیے پائپ اور مین ہول
جگہ جگہ سے تڑخ جاتے ہیں اور ان کے بیٹھ جانے سے گندا پانی رسنے لگتا ہے۔شہر کے16 ڈویژنوں
میں سے14میں یہ مسائل آئے دن پیش آتے ہیں۔5 یا 8 ڈویژنوں میں یہ مسئلہ ہر مہینے پیش
آتا ہے جس کے باعث اخراج کا رخ قدرتی نالوں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔
مین لائنیں بہت گہرائی
میں یعنی 15سے25 فٹ نیچے واقع ہیں چنانچہ ان کی صفائی بحرانی حالات میں کی جانے والی
مرمت کے سوا کبھی ممکن نہیں ہوتی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پائپوں کی خستگی بہت تیزی
سے بڑھ رہی ہے۔ ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے لائنوں کا سائز ضرورت سے بہت کم ہے ۔مین
لائنوں اور سیکنڈری لائنوں کی سطحوں میں فرق ہے کیونکہ مناسب لیول کا خیال نہیں رکھا
گیا تھا۔اس لیے یہ نظام گلیوں کی نالیوں سے مکمل طور پر جوڑا نہیں جاسکتا۔اور جہاں
کہیں انہیں جوڑا گیا ہے اوور فلو کا طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔نتیجتاً ٹرنک لائن کچرے
سے اٹ جاتی ہے۔کے ڈبلیو ایس بی کی ایک رپورٹ کے مطابق عملے کے بیشتر انجینئر لیولنگ
مشین استعمال کرنے سے نابلد ہیں۔یہ صلاحیت نکاس کے پائپ زمین میں بچھانے کے لیے نہایت
ضروری ہے۔ لہذا مین لائنیں اور سیکنڈری لائنیں پہلے سے موجود باقی نظام سے منسلک نہیں
ہوپاتی ہیں ۔بعض جگہوں پرلائنوں کے اوپر تجاوزات قائم ہوگئی ہیں جس کے باعث ان کی دیکھ
بھال اور مرمت کرنا ممکن نہیں رہا۔
مندرجہ بالا صورت حال
کے نتیجے میں گندے پانی کے اخراج کے لیے زیادہ تر قدرتی نالوں کو ہی استعمال کیا جاتا
ہے۔لیکن ان نالوں کو اخراج کے ذریعے کے طور پر تسلیم نہ کرنے سے یہ سارا نظام بہتری
سے بہت دور ہوجاتا ہے۔
اس ساری صورت حال پر
او پی پی کی روح رواں اور اپنے شعبے کی ماہر پر وین رحمان تفصیل سے روشنی ڈالتی ہیں
” اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ قدرتی نالے ہی سیوریج کی نکاسی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ ان
قدرتی نالوں کو مین ڈسپوزل کے طور پر تعمیر کیا جائے، یعنی صفائی کرکے باکس سیور بنائے
جائیں۔جس جگہ نالے سمندر میں گرتے ہیں وہاں ٹریٹمنٹ پلانٹ تعمیر کیے جائیں۔ یہاں یہ
غلط فہمی دور کرنا بھی ضروری ہے کہ ڈرینیج اور سیوریج دو علیحدہ علیحدہ سسٹم ہیں۔ ڈرینیج
لائن یا اسٹورم واٹر ڈرین کھلے ہوئے نالوں کو کہا جاتا ہے جو صرف برساتی پانی کی نکاسی
کے لیے سڑکوں کے کنارے یا بیچ میں بنائے جاتے ہیں اور سیوریج لائن گندے پانی کی نکاسی
کے لیے زمین کے نیچے بچھائی جاتی ہے۔ یہ دونوں الگ الگ سسٹم ہیں لیکن کراچی کے نظام
میں یہ دونوں جس طرح خلط ملط ہو چکے ہیں اس پر کسی کو حیرانی نہیں ہو گی۔ہمارے اداروں
کی شاندار کارکردگی کے باعث کہیں برساتی پانی کی نکاسی کا کام سیوریج لائن سے لیا جا
رہا ہے اور کہیں گندے پانی کی نکاسی کھلے نالوں کے ذریعے ہو رہی ہے۔
پروین کا کہنا ہے کہ”جب
تک ان برساتی ندی نالوں کو اہمیت نہیں دی جائے گی مسئلے کی نشان دہی نہیں ہو سکے گی۔
اس مسئلے کا گہرائی اور انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔ ان تمام ندی نالوں کو
نقشے میں اجاگر کیا جائے اور پھر باقاعدہ ایک پروگرام کے تحت ان کو ترقی دی جائے۔“
ناجائز تجاوزات کے
حوالے سے پروین کا کہنا ہے کہ ”اس ضمن میں کوئی رو رعایت نہ برتی جائے۔ کوئی بھی بلڈنگ،
بنگلہ یا عمارت کسی بھی نالے پر قائم ہو اور وہ پانی کی نکاسی میں رکاوٹ بن رہی تو
اسے ڈھا دیا جائے۔ اس کے علاوہ لیاری اور ملیر ندی جو کراچی کے برساتی پانی کی قدرتی
نکاسی کا ذریعہ ہیں یہاں سے بھی ناجائز تجاوزات کا خاتمہ کر کے دونوں اطراف COVER DRAIN بنا
دیے جائیں جو شہر کا سیوریج لے جائیں جبکہ درمیان میں برسات کے پانی کے لیے جگہ چھوڑ
دی جائے۔ مثلاً ملیر ندی کی اصل چوڑائی 200 سے 300 فٹ ہے۔ اگر سیوریج کے لیے باکس ٹرنک
50 فٹ چوڑے بنائے جاتے ہیں تب بھی 250 فٹ زمین موجود ہو گی۔ لیکن خیال رہے کہ یہ سیوریج
کے باکس ٹرنک ڈھکے ہوئے ہونا چاہئیں تاکہ صحت اور صفائی کے مسائل بھی ساتھ ہی حل ہوتے
جائیں۔“
کیا اپنی مدد آپ کے تحت نکاسی آب کے نظام میں بہتری آسکتی
ہے اور کیا او رنگی کی طرح دیگر علاقوں میں بھی لوگ کوئی تبدیلی لا سکتے ہیں؟
"کیوں نہیں" پروین کا جواب تھا ہم پچھلی تین دہائیوں سے اورنگی میں ترقیاتی
کاموں میں مصروف ہیں۔ اورنگی کی حالیہ آبادی تقریبا 16لاکھ ہے۔ ہمارے ادارے او پی پی
کے کام کا بنیادی تصور کمیونٹی کی تنظیم اور افراد کی انتظامی صلاحیتوں اور اجتماعی
کوششوں کے فروغ کے لیے ہر قسم کی سوشل اور تکنیکی امداد پیش کرنا ہے۔
اورنگی پائلیٹ پروجیکٹ
(اوپی پی) کے خالق ڈاکٹر اختر حمید خان تھے۔ ڈاکٹر صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک
تھے جو انسانی تاریخ کی سب سے ہنگامہ خیز اور ہر لحظہ ایک نئی صورت حال سے لبریز بیسویں
صدی کے منظر نامے پر ابھری اور ”عوامی ترقی ، عوام کے لیے ، عوام کے ذریعے“ کے فلسفے
کا عملی نمونہ پیش کرکے دنیا کے اسٹیج پر ایک دیرپا تاثر چھوڑ کر آسودہ خاک ہوگئی۔جنوبی
ایشیا میں عوامی ترقی کے کارکنوں، حامیوں اور علمبرداروں کے لیے ان کا نظریاتی اور
عملی کام آج اور آنے والے وقتوں میں مشعل راہ ثابت ہوگا۔ان کی نظریاتی اساس کی بنیاد
اگرچہ مسلمان فاتحین کے کارناموں کی داستانوں اور صوفیانہ اقدار کے باہمی تعامل سے
تشکیل پائی تھی مگر اپنی ماہیت میں ایک کیمیائی مرکب کی طرح بالکل نئے خواص رکھتی تھی۔۔وہ
نہ تو حصول طاقت کو تریاق کل سمجھتے تھے اور نہ ہی خانقاہی بے عملی کے پرچارک تھے بلکہ
وہ عام لوگوں میں رہ کر ان کے مسائل کی جڑ تک پہنچنے اور پھر اس کی بیخ کنی کرنے کے
قائل تھے۔ان کا ادارہ ان کے نظریات کا عملی ثبوت ہے۔
اوپی پی نے کم لاگت
کے سیوریج پروگرام کے ذریعے اورنگی جیسی کچی آبادی میں انقلاب برپا کردیا۔ اس پروگرام
کے تحت کم آمدنی والے افراد کے لیے بھی اپنے گھروں میں جدید سینی ٹیشن کا نظام تعمیر
کرنا ممکن ہوگیا۔ (جدید سینی ٹیشن سے مراد فلش لیٹرین اور گلی میں زیر زمین پائپ لائن
ہے) مسائل ہر مرحلے پر موجود ہوتے ہیں۔نہ ہی
حکومت تن تنہا تمام مسائل حل کرسکتی ہے اور نہ ہی لوگ تمام مسائل کے حل کی استطاعت
رکھتے ہیں ۔مثال کے طور پر سینی ٹیشن کے کام کے دو مراحل ہیں۔پہلا مرحلہ گلی کے اندر
کا کام ہے جسے اندرونی ترقی کا نام دیا گیا ہے۔اس مرحلے پر کام کا انتظام اور مالی
انتظام گلی کے افراد خود کرتے ہیں۔ دوسرا مرحلہ وہ ہے جسے بیرونی ترقی کا نام دیا گیا
ہے یعنی گلی کے باہر سیوریج کا نظام اور یہ بہرحال لوگوں کے اختیار میں نہیں ہوتا ہے
یہ حکومت کی ذمے داری بن جاتا ہے۔اسی اصول کو اپناتے ہوئے او پی پی نے اپنا طریقہ کار
وضع کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اندرونی
ترقی یعنی گھروں میں فلش لیٹرین کی تعمیر سے گلی میں پائپ لائن بچھانے تک ان کاموں
کے لیے نہ تو حکومت کو زحمت دی گئی اور نہ ہی کہیں سے فنڈز اکھٹے کیے گئے ، لوگوں نے
تمام لاگت خود برداشت کی اور کام بھی خود انجام دیا۔ اوپی پی کے مطابق اورنگی کی
6,775 گلیوں میں 1,00244 گھروں نے گھر کے اندر پختہ لیٹرین اور گلیاں تعمیر کی ہیں۔اس
سارے کام پر مقامی افراد نے اپنے وسائل سے 1.68ملین ڈالر خرچ کیے ہیں جبکہ اندازہ ہے
کہ اگر یہ سارا کام حکومت کرتی تو کم از کم تخمینہ 10 ملین ڈالر تک پہنچ جاتا۔
اوپی پی کے کام کو وہاں کے
لوگ کس طرح دیکھتے ہیں ،محمد سعید صاحب آفریدی کالونی اورنگی کے رہائشی ہیں ان کا کہنا
تھا کہ گٹر لائن کے مسئلے پر ہم نے او پی پی سے رجوع کیا ،اوپی پی نے ہم سے تعاون کیا
جس سے ہمارا مسئلہ حل ہوگیا، فی گھر گٹر لائن ڈالنے پر 400 روپیہ خرچ آیا (یہ ذکر1996کا
ہے) ۔لوگ کس طرح راضی ہوئے؟ سعید صاحب کا جواب تھا ” لوگ تو آسانی سے راضی ہوگئے کیونکہ
وہ خود اس گندگی اور آئے دن کی بیماریوں سے پریشان تھے لہذا انہوں نے فوری طور پر پیسے
ادا کیے۔اس طرح ایک گلی میں ہونے والے کام کو دیکھ کر دوسری گلی کے لوگوں کو بھی یقین
آتا گیا اور پھر ۔۔۔۔ لوگ ساتھ آتے گئے اور کاررواں بنتا گیا۔
اوپی پی کے ساتھ لوگوں کے
کام اور اپنی مدد آپ کے جذبے نے یقینا حکومت کو بھی متاثر کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس
وقت اورنگی کے 80%ندی نالے شہری حکومت کے تحت تعمیر کیے جاچکے ہیں اور وہ بھی صرف
5سالوں میں۔اس کے ساتھ ساتھ بلدیہ ٹاؤن، کورنگی میں چکرا گوٹھ کے علاقوں میں بھی اوپی
پی اور شہری حکومت مل جل کر کام کررہی ہیں۔اپنی مدد آپ کے تحت کیے جانے والے کاموں
میں ایک اور بہت اچھی بات یہ نظر آئی کہ تمام تر منصوبوں یعنی کاغذ پر منصوبہ بندی
سے عمل درآمد تک تمام مراحل میں ان غریب افراد ہی کا فائدہ نظر آتا ہے مثلا عام طور
پر حکومتوں کے زیر نگرانی جب کوئی منصوبہ تیار ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس جگہ سے غریبوں
کی بے دخلی ہی عمل میں آتی ہے یعنی وہ بے چارے سر چھپانے کے آسرے ہی محروم ہوجاتے ہیں۔
لیکن اوپی پی کے طریقہ کار میں ایسا کچھ نہیں ہوتا اور منصوبہ بندی کے عمل میں سب سے
پہلے مقامی آبادی کا تحفط پیش نظر ہوتا ہے۔کراچی میں سیوریج اور سینی ٹیشن کے ذمے دار
ادارے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بھی پچھلے چند سالوں سے او پی پی کے مجوزہ نقشے
پر ہی کا م کر رہا ہے اور اس منصوبے پر کام کرنے والے ماہرین بھی اپنے ہیں اور کسی
غیر ملکی ادارے سے قرض لینے کے بجائے پیسہ بھی وفاقی حکومت نے فراہم کیا ہے۔ یہ مقامی
افراد ، اداروں اور حکومت کے اشتراک کی بہترین مثال ہے۔
اوپی پی کے کام کو بیرون ملک بھی سراہا گیا ہے اور بے شمار
انعامات اور اعزازات دیے گئے ۔اوپی پی کے کام کے نمونے کو سامنے رکھتے ہوئے نہ صرف
اندرون ملک بلکہ کئی دیگر ممالک بھی رو بہ عمل ہیں۔کیا یہ نتائج ہمیں یہ قائل کرنے
کے لیے کافی نہیں ہیں کہ ایک فرد بھی اپنی سطح پر بہت کچھ کرسکتا ہے اور16کروڑ افراد
تو یقینا انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اب وقت کا تقاضا بھی یہی ہے۔
یہ بھی آرائش ہستی کا تقاضا تھا کہ ہم
حلقہ
فکر سے میدان عمل میں آئے
No comments:
Post a Comment