Tuesday, October 23, 2007

موسموں کی بے ترتیبی، کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟

کیوٹوپروٹوکول کے بعد نیا معاہدہ ، امریکا کا شمولیت سے انکار

آنے والے موسموں کے تغیرات ہمارے لیے مسائل کا ایک نیا در وا کررہے ہیں اور مسائل بھی ایسے کہ جن سے نمٹنا آسان نہیں ہے ۔گلوبل وارمنگ، گرین ہاؤس گیسی اثرات اورکلائمیٹ چینج جیسی اصطلاحات ماحول کے حوالے سے عام سنائی دے رہی ہیں ۔ابتدا میں ا ن مسائل کو عالمی مسائل سمجھا جاتا تھا لیکن تیزی سے بے ترتیب ہوتے موسموں نے ہمارے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجادی ہے ۔یہ طے ہے کہ کرہ ارض کے باسی ہونے کے باعث تمام مسائل ہم تک ضرور پہنچتے ہیں یا یہ کہنا زیادہ بہتر رہے گا کہ قصور ہمارا ہو یا نہ ہو ترقی پذیر ملک ہونے کے ناطے سزا ہمیں ضرور بھگتنی ہوتی ہے خصوصا ایسی صورت میں جہاں ملک کے کرتا دھرتا لوگ صرف چین کی بانسری ہی بجانا جانتے ہیں ۔ ایک حکومت پانچ سال تک دودھ اور شہد کی نہریں( صرف زبانی دعووں کی حد تک) بہا کر رخصت ہوئی اور آئندہ حکومت بنانے کے لیے جبرکے اس موسم میں بھی سیاست داں الیکشن کی ریوڑیوں پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ان میں سے اکثر معزز لوگ شاید صرف نام کی حد تک موسموں کی بے ترتیبی(Climate change) اور بڑھتی ہوئی حدت (Global Warming) جیسے گمبھیر مسائل سے واقف ہوں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مسائل اس وقت پوری دنیا میں ترجیہات کی فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔تمام ترقیاتی ممالک اس وقت Climate Change کے مسئلے پر انتہائی سنجیدگی سے سر جوڑے کام کررہے ہیں۔اور یہ بھی طے ہے کہ تمام شعبہ ہائے فکرکے ساتھ ساتھ جب تک سیاست داں اسے سنجیدگی سے نہیں لیں گے اس مسئلے کے حل میں کوئی پیش رفت نہیں ہوگی اور اس حوالے سے ہمیں اپنی کم مائیگی میں کوئی شبہ نہیں ہے۔

 دسمبر کا پہلا عشرہ اس حوالے سے انتہائی اہم ہے کہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام Climate Change پرانڈونیشیا کے جزیرے بالی میں عالمی سطح کی ایک کانفرنس منعقد ہورہی ہے جہاں تقریبا190ممالک کے 10,000سے زائد وفود سر جوڑے بیٹھے ہیں۔اس کانفرنس کا اہم ترین ایجنڈاگلوبل وارمنگ ، اس کی وجوہات اور اس کے اثرات سے رونما ہونے والی موسموں کی بے ترتیبی کے ساتھ ساتھ کیوٹو پروٹوکول جیسے کسی نئے معاہدے کی تشکیل ہے۔ 1997 میں تشکیل دیا جانے والا معاہدہ کیوٹو پروٹوکول 2012 تک ختم ہوجائے گا۔

صنعتی ممالک کی چمنیوں سے خارج ہوتی خطرناک گیسوں کی روک تھام کے لئے جاپان کے شہر کیوٹو میں 1997 میں ایک معاہدہ کیوٹو پروٹوکول کا قیام عمل میں لایا گیاتھا۔ اس معاہدے کے تحت 2012 تک صنعتی ممالک کو ان گیسوں کے اخراج میں 5.2 فیصد تک کمی کرنا تھی۔ اس معاہدے پر سوائے امریکا کے سبھی ترقی یافتہ ملکوں نے دستخط کئے ہیں لیکن امریکا نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ امریکا کے اس اقدام سے یورپی ممالک اور ماہرین سخت نالاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا سب سے زیادہ ان گیسوں کی پیداوار کا ذمہ دار ہے لہٰذا تحفظ ماحول کے ا قدامات میں بھی اسے ہی سب سے زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔یوں بھی امریکا جیسے صنعتی ترقی یافتہ ملک کے تعاون کے بغیر ماحولیاتی مسائل پر قابو پانا ناممکن ہے۔حالیہ بالی کانفرنس کا ایک اہم ایجنڈا کیوٹو پروٹوکول کے بعد تشکیل دیے جانے والے معاہدے میں امریکا کو بھی شامل کرنا ہے۔

انڈونیشیا اس عالمی کانفرنس کا میزبان ہے جہاں لاکھوں افراد موجود ہوں گے اوراندازہ ہے کہ ان کی آمد و رفت سے 50,000 ہزار ٹن گرین ہاؤس گیسیس پیدا ہوں گی لہذا ان گیسوں کے انجذاب کے لیے لاکھوں پودے اور درخت لگائے گئے ہیں۔شاید وقت سے سبق سیکھنا اسی کو کہتے ہیں، یاد رہے کہ انڈونیشیا میں 2004دسمبرمیں سونامی نے تباہی مچائی تھی اور اس کا ایک سبب ماہرین ساحلی جنگلات کی کٹائی اور ہ فطری ماحولیاتی نظام میں حد سے زیادہ انسانی مداخلت قرار دے رہے تھے۔

ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق دنیا کی کل آمدنی کا 65% حصہ ان صنعتی ممالک کے پاس ہے ، جب کہ پوری دنیا میں خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا کل 45% حصہ ان ہی صنعتی ممالک کی چمنیوں سے خارج ہوتا ہے۔

 زمینی درجہ حرارت میں بتدریج اضافے کے عمل کو Global Warming کہا جاتا ہے جو عموما گرین ہاؤس گیس اثرات کے باعث رونما ہوتا ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے اثرات سے ہمارے موسم بے ترتیب ہورہے ہیں جس کے سبب پہاڑوں اور گلیشیر کی صورت میں صدیوں سے جمی برف پگھلنے لگے گی۔ سمندروں کی سطح بڑھ جائے گی۔ سیلاب اور سمندری طوفان رونما ہوں گے اور نشیبی سطح پر واقع ممالک اور جزیرے غرق آب ہوجائیں گے۔ موسموں کی ترتیب بگڑنے سے زراعت کی تباہی اور خوراک میں کمی واقع ہوگی۔ درجہ حرارت میں ہر ایک ڈگری کے اضافے کے ساتھ حیاتی انواع کو اپنی بقا کے لیے قطبین کی طرف 90 کلو میٹر قریب ہونا پڑے گا۔ تیزی سے بدلتی ہوئی آب و ہوا اور حالات سے مطابقت نہ کرپانے کے سبب پودے اور بالآخر ان پر انحصار کرنے والی تمام انواع معدوم ہونا شروع ہو جائیں گی ، ماحولیاتی نظام اور فطری مساکن تباہی کے قریب ہوں گے۔

  اس سال کے آغاز پر ماہرین ماحولیات کی یہ رپورٹ یقینا دنیا بھر کے لیے غور طلب تھی کہ رواں سال گرم ترین سال ثابت ہوگا۔برطانیہ کے محکمہ مو سمیات اور ایسٹ اینجلیا یونیوسٹی کے تعاون سے کی گئی اس تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہورہا تھا کہ اس سال درجہ حرارت میں اور اضافہ ہوگا اور امکان ہے کہ یہ سال پچھلے کئی سالوں سے زیادہ گرم رہے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بحر الکاہل میں بعض خاص تبدیلیوں(El- Nino)  کے سبب اس سال کرہ ارض پر درجہ حرارت بڑھے گا اور اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ اس برس 1998 سے بھی زیادہ گرمی پڑے گی۔ اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ 2006 میں اوسطا برطانیہ میں پہلے سے کہیں زیادہ گرمی تھی اور 1914ء، جب سے درجہ حرارت کے ریکارڈ کا سلسلہ شروع ہوا ہے کبھی اتنی گرمی نہیں ہوئی تھی۔

 یہ موسم یک بیک اتنے بے ترتیب کیسے ہو چلے ؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حالات کو اس نہج تک پہنچنے میں ایک عرصہ لگا ہے۔ یہ طے ہے کہ وقت کرتا ہے پرورش برسوں ، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ سو یہ حادثہ بھی کئی دہائیوں کی بے پروائیوں اور غفلت سے رقم ہوا ہے ۔ حضرت انسان نے خود کو عقل کل سمجھ کرایک طرف تو فطرت کے قوانین میں دخل اندازی شروع کردی اور دوسری جانب نام نہاد ترقی سے اپنے موت کے پروانے پر خود دستخط کرنا شروع کردیا۔


 پچھلی صدی کی آخری تین دہائیوں سے ماہرین نے لوگوںکو خبردار کرنا شروع کر دیا تھا لیکن اس وقت شاید دنیا والوں کے لئے یہ نئی اور انہونی باتیں تھیں جنہیں وہ سمجھنے کے لئے تیار نہ تھے لیکن جب الگور کے ساتھ نوبل انعام یافتہ اقوام متحدہ کے انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (IPCC) نے موسمیاتی تغیر (Climate Change) پر اپنی تازہ ترین رپورٹ جاری کی تو جیسے دنیا کے ہر حصے میں ہلچل سی مچ گئی۔ اپریل 2007 میں جاری کردہ 1500 صفحات کی یہ ضخیم رپورٹ 100 ممالک کے 2000 سائنس دانوں کی شب و روز محنت کا نتیجہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق غیر مناسب صنعتی سرگرمیوں سے فضا میں خطرناک گیسوں خصوصاً کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تناسب بڑھ رہا ہے اور ا س کے نتیجے میں زمین کے درجہ ءحرارت میں بھی مسلسل اضافہ جاری ہے۔ 1990 سے جاری یہ اضافہ اگر 1.5 سے 2.5 سیلسیس تک جا پہنچا تو دنیا تباہی کے خوفناک منظر دیکھے گی۔ سیلاب، سمندری طوفان، خشک سالی اور قحط جیسے عذاب انسان کا مقدر بن جائیں گے اور زمین پر موجود 30 فیصد انواع صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گی۔ ”30 فیصد انواع کا معدوم ہونا“ کیا معنی رکھتا ہے کاش اس کی سنگینی کو ہم سمجھ سکتے۔ کسی ایک نوع کے بھی مٹنے سے فطرت کی اربوں سالہ محنت تو برباد ہوتی ہی ہے لیکن اس سے کہیں بڑا نقصان زندگی کی زنجیر میں سے ایک کڑی کا ٹوٹ جانا ٹھہرتا ہے۔ اب ذرا غور کیجئے کہ اس زنجیر کی 30فیصد کڑیوں کو باہر نکال کر پھینک دیا جائے تو اس زنجیر کا کیا حال ہو گا؟

 یہ رپورٹ دو ٹوک انداز میں اس کی بھی وضاحت کرتی ہے کہ فضا کو آلودہ کرنے میں سب سے زیادہ امریکا کا ہاتھ ہے۔ ان خطرناک گیسوں کا 38 فیصد حصہ امریکا ہی کی چمنیوں سے نکلتا ہے لیکن ایک طاقتور اور وسائل سے مالا مال ملک ہونے کے ناتے وہ ان خطرات کا با آسانی مقابلہ کر سکتا ہے۔اصل مسئلہ تو غریب ممالک کا ہے۔جن کے پاس نہ وسائل ہیں اور نہ تیکنیکی مہارت۔

آج آلودگی کو دنیا کا ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ تصور کیا جاتا ہے اور اس کے خاتمے کی بات کی جاتی ہے ۔دنیا سے آلودگی کے خاتمے کے لیے ”پیسے “ کی ضرورت ہے جبکہ ہمارا یہ خیال ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ ”پیسہ“حاصل کرنے کی ہوس ہی ہے جس نے تمام آلودگی کو جنم دیا۔ایک ایسافطری طرز زندگی اپنانا جو کرہ ارض کے لیے نقصان دہ نہ ہو اتنا آسان نہیں ہے لیکن اب اس کے بنا چارہ بھی نہیں ہے۔

غیر محتاط صنعتی سرگرمیوں سے فضا گرین ہاؤس گیسوں سے کس قدر آلودہ ہے اس کے لیے امریکا ہی کی ایک ریسرچ کے نتائج دیکھیئے ۔ہوائی کے جزائر میں قائم ایک امریکی اسٹیشن نے جس کی پیمائش سب سے مستند سمجھی جاتی ہے، بتایا کہ گذشتہ50 برس میں کاربن ڈائی آکسائیڈکی مقدار میں 25 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور یہ متواتر بڑھ رہا ہے۔ تازہ رپورٹ کے مطابق اس گیس کی سطح کاحجم 378 حصہ فی ملین ہوچکا ہے، جو1750ءکی سطح کے مقابلے میں100حصہ زیادہ ہے۔کیوٹو پروٹوکول کی اکثر شقوں کو دیگر صنعتی ممالک ماننے کے لیے تیار تھے مگرامریکی صدر نے نہایت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ماننے سے انکار کردیا ۔امریکا اور چین جیسی بڑی طاقتوں کے تعاون کے بغیر ماحولیاتی مسائل پر قابو پانا نا ممکن ہے۔

فضا میں مضر گیسوں کے کم کرنے کے معاہدے کیوٹو پروٹوکول کا مقصد دراصل ایسے طریقہ ءکار کی تلاش ہے جس کی مدد سے گرین ہاؤس گیسوں کو قابو میں رکھا جائے۔ ان خطرناک گیسوں میں سرفہرست کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے۔

کیوٹو پروٹوکول کے تحت کاربن ڈائی آکسائیڈ گھٹانے کے لئے ایک طریقہ کار Clean Development Mechanism (CDM) وضع کیا گیا ہے۔ اس کے تحت ایسے ترقی یافتہ ممالک جو خطرناک گیسوں میں کمی کے حوالے سے اپنے ملک میں کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھاسکے اور اپنے متعین کردہ اہداف تک نہیں پہنچ سکے وہ کسی بھی ترقی پذیر ملک میں ماحول دوست سرگرمیاں انجام دے کر نتائج کو اپنے اہداف میں شامل کر سکتے ہیں۔ گویا وہ تحفظ ماحول کے حوالے سے غریب ملکوں میں سرمایہ کاری بھی کر سکتے ہیں۔

یہ بات تو اب طے شدہ ہے کہ ماحولیاتی بگاڑ کے ذمے دار صرف اور صرف ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ فضائی آلودگی، گرین ہاؤس گیس اثرات، موسموں کے بے ترتیبی اور اوزون کی تہہ میں شگاف جیسے سنگین جرائم میں پاکستان جیسے غریب ملک کا کوئی ہاتھ نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ عالمی موسموں کی ہر تبدیلی ہم تک ضرور پہنچے گی بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر رہے گا کہ ہم ان آفات سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوں گے کیوں کہ ان سے نمٹنے کے لئے ہمارے پاس وسائل ہیں اور نہ تکنیکی مہارت۔

درجہ ءحرارت کے بڑھنے سے پاکستان کے لے پہلا خطرہ ہمالیائی گلیشیئرز ثابت ہوں گے۔ ان گلیشیئرز سے دنیا کے کئی بڑے دریا مثلاً دریائے سندھ، گنگا، برہم پترا، سلوین، میکا ونگ، یانگ ژی اور زرد دریا نکلتے ہیں جن کا پانی پاکستان، بھارت، چین اور نیپال میں زندگی کو رواں دواں رکھنے کا باعث ہے۔ گرمی کے بڑھنے سے یہ گلیشیئرز تیزی سے پگھلیں گے (اوسطاً 10 تا 15میٹر سالانہ) اور ان دریاؤں میں طغیانی کی کیفیت پیدا ہو گی جس سے کناروں پر آباد لاکھوں افراد کو سیلاب کا سامنا ہو گا۔ کچھ عرصے بعد جب پانی کم ہو جائے گا تو یہی ممالک خشک سالی کا عذاب سہیں گے۔ زراعت تباہی سے دوچار ہو گی، قحط پھیلے گا اور ان غریب ممالک پر افلاس کے سائے اور گہرے ہو جائیں گے۔ یہ وہ کم از کم خطرات ہیں جو کسی ناکردہ جرم کی سزا کے طور پر پاکستان کو بھی بھگتنا ہوں گے۔کسی بھی ملک کا ماحول تباہ ہونے کا مطلب اس کی معیشت اور سماجیات کی بھی تباہی ہے۔ماہرین کے مطابق ایشیا اور افریقہ خصوصا اس کا شکار ہیں ۔خوراک کی کمی بالآخر قحط کی صورت اختیار کر لے گی۔زرعی ملک ہونے کے ناطے گرم موسم پاکستان کی زراعت کو متاثر کر رہے ہیں۔سمندروں کی سطح بلند ہونے سے ہمارے ساحل متاثر ہوں گے جس سے ساحلوں پر آباد لاکھوں افراد بے گھر ہوں گے۔سمندری خوراک کی ایکسپورٹ متاثر ہوگی جس سے ہماری معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔بنگلہ دیش کا حالیہ طوفان اس کی مثال ہے ۔سینٹر فار ایڈوانس اسٹڈیز کے مظہرالاسلام کا کہنا ہے کہ حالیہ طوفان گلوبل وارمنگ ہی کا نتیجہ ہے جس کے نتیجے میں 3,400 لوگ ہلاک ، سیکڑوں لاپتا اور 350,000 بے گھر ہوئے۔اس وقت تمام ممالک کی ضرورت ہے کہ وہ تمام ضروری اقدامات کرتے ہوئے ان بدلتے موسموں سے خود کو ہم آہنگ کرلیں اور محفوظ کرلیں۔لیکن غریب ممالک کا اصل مسئلہ وسائل کی کمی ہے اور نہ ہی وہ تکنیکی طور پر اتنے مضبوط ہوتے ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے بڑی بڑی کانفرنسوں میں رقوم مختص کی جاتی ہیں لیکن یہ مدد ایسی ہی ہوتی جیسے کے اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ بین الاقوامی امدادی ایجنسی آکسفیم کا کہنا ہے کہ یہ امداد غریب ممالک کی توہین کے برابر ہے لہذا حالیہ بالی کانفرنس میں اس پر نظر ثانی کی جائے۔اس حوالے سے ایک مثبت قدم کے طور پرریاض میں منعقد  OPEC سمٹ میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے گلوبل وارمنگ کے مسائل سے نمٹنے اور تکنیکی مہارت کے حصول کے لیے 300 ملین ڈالرز کا فنڈ مختص کیا ہے۔ امید ہے کہ دیگر اسلامی ممالک جہاں قدرت نے تیل کے چشمے بہادیے ہیں اپنی کچھ دولت اس اہم مسئلے کے حل کے لیے بھی استعمال کریں گے۔

دنیا میں غربت اور عالمی سطح پر موجود عدم مساوات کو حل کیے بغیر ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کی تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ کیونکہ صنعتی ممالک کے اپنائے گئے ترقیاتی اہداف بہت سے ماحولیاتی وسائل پر بے پناہ بوجھ کا سبب بنتے ہیں۔آزاد تجارت میں تیزی کے باعث 10سال کے عرصے میں دنیا 10فیصد جنگلات سے محروم ہوئی اور امیر ممالک کی چمنیوں سے نکلتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ نے فضا کو مزید33 فیصد آلودہ کیا۔22 امیر ممالک اپنی صنعتوں کو ہزار ملین ڈالرز سالانہ چھوٹ فراہم کرتے ہیں جس میں ماحول میں خطرناک گیسوں کا اضافہ کرنے والی صنعتوں کو57 بلین ڈالرز دیے جاتے ہیں۔یہ رقم حیرت انگیز طور پر اس رقم کے مساوی ہے جو عالمی سطح پر ان گیسوں کی مقدار پر قابو پانے کے لیے درکار ہے۔آزاد معاشی تجارتی پالیسیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر غربت اور ماحولیاتی تباہ کاری کاعمل تیز تر ہوگیا ہے۔عام طور پر تجارت کی آزادی کو ماحول کے لیے نقصان دہ تصور کیا جاتا ہے۔اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ زیادہ بین الاقوامی تجارت کے معنی زیادہ ہوائی ، سمندری اور زمینی مواصلاتی ذرائع کا استعمال ہے۔

آزاد تجارت کے نظریات کے پیچھے بین الاقوامی تجارتی کمپنیوں، عالمی اداروںاور معاشی و فوجی طور پر طاقتور سرمایہ دار ممالک کا ہاتھ ہے۔خاص طور پر امریکا ، اسی لیے گلوبلائزیشن کا دوسرا نام سامراجیت ہے۔بڑے مالیاتی ادارے اپنے قرضہ جات کا50 فیصد نجی کمپنیوں کو دیتہ ہیں جن کا تعلق G-8 کے ممالک سے ہے۔امریکا اوزون کو نقصان پہنچانے والی مجموعی گیسوں کا تیسرا حصہ پیدا کرتا ہے ۔وہ نہ صرف ان گیسوں میں مسلسل اضافہ کررہا ہے بلکہ کیوٹو پروٹوکول سے انکار کرکے پوری انسانیت کی بقا کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

چند اصلاحات کی عام فہم تشریح:

عالمی درجہ حرارت میں اضافہ  ( Global Warming)

زمینی درجہ حرارت میں بتدریج اضافے کے عمل کو Global Warming کہا جاتا ہے جو عموما گرین ہاؤس گیس اثرات کے باعث رونما ہوتا ہے۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت دنیا کو مشکل میں ڈا ل رہا ہے۔اس سے پہاڑوں اور گلیشیر کی صورت جمی برف پگھلنے لگی گی۔ سمندروں کی سطح بڑھ جائے گی۔ سیلاب اور سمندری طوفان رونما ہوں گے اور نشیبی سطح پر واقع ممالک اور جزیرے غرق آب ہوجائیں گے۔ موسموں کی ترتیب سب گڑ بڑ ہوجائے گی۔ زراعت کی تباہی سے خوراک میں کمی ہوگی۔ درجہ حرارت میں ہر ایک ڈگری کے اضافے کے ساتھ حیاتی انواع کو اپنی بقا کے لیے قطبین کی طرف 90 کلو میٹر قریب ہونا پڑے گا۔ تیزی سے بدلتی ہوئی آب و ہوا اور حالات سے مطابقت نہ کرپانے کے سبب پودے اور بالآخر ان پر انحصار کرنے والی تمام انواع معدوم ہونا شروع ہو جائیں گی ، ماحولیاتی نظام اور فطری مساکن تباہی کے قریب ہوں گے۔

 گرین ہاؤس اثرات اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ

 زمین دن میں سورج سے حرارت جذب کرتی ہے اور رات میں اس حرارت کا کچھ حصہ خلا میں واپس چھوڑ کر ٹھنڈی ہوجاتی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے یہ حرارت آزاد نہ ہوسکے تو زمینی درجہ حرارت بتدریج بڑھ جائے گا۔ 1972 میں تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسری گیسیں مثلا میتھین ، کلوروفلورو کاربنز ،  نائٹرس آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ حرارت کو روک لیتی ہیں اور اسے خلا میں واپس نہیں جانے دیتیں۔ یہ گیسیں اس طرح کام کرتی ہیں جیسے کسی گرین ہاؤس میں شیشہ کام کرتا ہے کہ وہ حرارت کو داخل تو ہونے دیتا ہے لیکن تھوڑی حرارت کو روک لیتا ہے اور گرین ہاؤس سے باہر نکلنے نہیں دیتا۔ یہ گیسیں زمین پر زندگی کے لیے مطلوبہ حرارت کو باقی رکھنے میں ایک حیات بخش کردار انجام دیتی ہیں۔لیکن اب کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار کوئلے اور کنجوری ایندھن کے بے تحاشہ جلانے کی وجہ سے فضامیں داخل ہورہی ہے۔جنگلوں کا تیزی سے گھٹتا ہوا حفاظتی پردہ کرہ ارض میں اس صورت حال کو مزیدخراب کر رہا ہے۔ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور آکسیجن کو ریلیز کرتے ہیں۔ درختوں کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی خاصی مقدار جذب نہیں ہوسکے گی اور فضا میں موجود رہے گی ۔ یہ گرین ہاؤس گیسیں جو ایک دبیز کمبل کی طرح فضا کو ڈھانپے ہوئے ہیں اس عمل کی ذمے دار ہیں جو گلوبل وارمنگ کہلاتا ہے۔

تیزابی بارش

 تیزابی بارش اس وقت ہوتی ہے جب جلتے ہوئے کنجوری ایندھن سے (Fossil Fuel)  سے خارج شدہ سلفر اور نائٹروجن ، سورج کی روشنی  ماحول میں موجود آکسیجن اور پانی کے بخارات کے ساتھ مل کر بارش بناتی ہے ۔ ماہیت کے اعتبارے یہ بارش تیزابی ہوتی ہے۔یوں سمجھ لیجیے کہ سلفیورک اور نائٹرک ایسڈ کا پتلا شوربہ ہوتا ہے۔کچھ گنجان صنعتی یافتہ علاقوں میں ، فضا کے اندر ہائیڈروجن گیسیں ہائیڈروکلورک ایسڈ پیدا کرتی ہیں جو تیزابی بارش کاجزو ترکیبی بھی بن سکتی ہیں۔فضا کے ذریعے یہ آمیزہ بارش ، برف یا خشک ذرات کی شکل میں میٹھے پانی اور زراعتی زمین کی تیزابیت میں اضافہ کردیتا ہے۔

تیزابی بارش جھیلوں ، چشموں اور آبی ذخائر کی تیزابیت میں اضافہ کرتی ہے اور آبی حیات کے لیے شدید خطرے کا باعث ہے۔
تیزابی بارش بنیادوں میں دراڑیں ڈال کر عمارت کو کم زور اور غیر محفوظ بنا دیتی ہے۔ قدیم تاریخی یادگاریں اور عمارات جو تیزابی بارش کی زد میں آجاتے ہیں شکستہ ہوجاتے ہیں انڈیا میں تاج محل اس کی مثال ہے۔جس کا خوبصورت سنگ مر مر اب پیلا پڑ چکا ہے۔
تیزابی بارش بچوں اور بوڑھے افراد کے لیے تنفس کے مسائل اور فضا میں گندھک کی بہت زیادہ مقدار آنکھوں ، دانتوں اور جلد کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔

اوزون کی تہہ

ہمارا فضائی ماحول مختلف اور متعدد سطحوں پر منقسم ہے ۔ زمین کی بالائی فضا میں ان ہی مختلف تہوں کے مابین 10سے 50 کلو میٹر کے درمیانی فاصلے پر اوزون گیس پر مشتمل تہہ واقع ہے۔ درحقیقت اوزون مالیکیول آکسیجن کے تین ایٹموں کے باہم ملنے سے بنتے ہیں جبکہ ہماری سانس لینے والی آکسیجن مخصوص دو ایٹموں کا مرکب ہے۔

آکسیجن کے مخصوص فارمولے سے تخلیق پانے والی یہ فضائی چھتری اپنے اہم کردار کے باعث کرہ ارض پر آباد ہر ذی حیات کے لیے ایک حفاظتی ڈھال کا کام انجام دیتی ہے۔ اس کے منفرد اجزائے ترکیبی میں یہ صفت پائی جاتی ہے کہ وہ سورج سے خارج ہونے والی مضر صحت شعاعوں خصوصا الٹرا وائلٹ شعاعوں کو زمین پر پہنچنے سے پہلے ہی جذب کرکے غیر موثر بنادیں۔ سورج جہاں ہمارے لیے روشنی اور حرارت کا ایک بے پناہ وسیلہ ہے وہیں اس کی ضرر رساں شعاعیں جان دار مخلوق کے لیے انتہائی خطرناک تصور کی جاتی ہےں۔ ان شعاعوں سے بہت سی بیماریاں ، جلدی سرطان ، بینائی کا زیاں وغیرہ ہوتا ہے۔ یہ شعاعیں DNA کو تہہ و بالا کرتی ہیں۔


صنعتی ترقی نے جہاں آسانیاں پیدا کیں وہیں بے شمار ماحولیاتی مسائل نے جنم لیا۔ صنعتوں میں استعمال ہونے والی کلورو فلورو کاربنزیعنی  CFCs جن سے کلورین مونو آکسائیڈ پر مشتمل گیس خارج ہوتی ہے جو اوزون کے لیے انتہائی مہلک ہے۔ کلورین کے سالمے بہت زیادہ متعامل ہوتے ہیں اور بہت جلد تین ایٹموں پر مشتمل اوزون کو علیحدہ کرکے دوایٹمی آکسیجن کی شکل دے دیتے ہیں۔لہذا اب ایسی اشیا کو فروغ دیا جارہا ہے جس میں CFCs کا استعمال نہ ہو۔ اوون کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر ایک معاہدہ ”مانٹریال پروٹوکول “ تشکیل دیا گیا۔

No comments:

Post a Comment