Friday, August 3, 2007

ماحول کے تحفظ کے ساٹھ سال


ایک احساس جو دھیرے دھیرے عالمی تحریک بنتا جارہا ہے

 روز و شب کی تسبیح کے دانے شمار ہوتے چلے جارہے ہیں،گنتی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ۔ساٹھ سال ! عمر کی نقدی سمجھو کہ ختم ہونے کو ہے اور وقت کی ریت ہے کہ بند مٹھی سے دھیرے دھیرے بے آواز پھسلتی جارہی ہے۔۔۔ لیکن یہ ساٹھ سال اگر کسی ملک کی عمر کے ہوں تو شاید اتنے زیادہ نہ مانے جاتے ہوں بہرحال یہ ایک طویل عرصہ ضرور ہے ۔ وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے ساٹھ سال ہوچلے ہیں۔کھونے اور پانے کی ایک طویل کہانی ہے جو قوم کو ازبر ہوگی ۔2007 کا سال ایک سیاسی انتشار اور بے چینی کے ساتھ خاتمے کی طرف رواں دواں ہے لیکن کچھ اچھے واقعات بھی اس سال کے دامن پر نقش ہیں ان میں سر فہرست عدلیہ کی سربلندی ہے ۔پاکستان اور خصوصاکراچی کے وہ شہری جو آئے دن ماحولیاتی حادثات کا شکار ہوتے رہتے ہیں اب اپنی فریاد لےکر عدالت میں جاسکتے ہیں اوریہ امید بھی بندھ چلی ہے کہ شاید اب انہیں انصاف مل سکے۔

 پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ماحول کے تحفظ کا احساس 70کی دہائی میں جاگا اور دنیا اس جانب سنجیدگی سے متوجہ ہوئی۔

 قیام پاکستان کے بعد اولین دنوں میں ماحول کے بارے میں معلومات کے حصول کا واحد ذریعہ صرف برطانوی گزیٹیر تھے۔ ان کے علاوہ شعبہ جنگلی حیات اور جنگلات کے کتب خانے سے بھی مدد مل سکتی تھی ۔ دیکھا جائے تواس وقت بھی بہت سے لوگ اس حوالے سے مصروف عمل تھے ان میں کچھ غیر ملکی اور کچھ پاکستانیوں کا کام بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ جارج شیلر کی کتاب ” اسٹونز آف سائلنس“کو آپ کسی صورت نظر انداز نہیں کرسکتے ۔ یہ کتاب جنگلات اور جنگلی حیات کو ہماری بے پروائی سے پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں بتاتی ہے۔گائے ماؤنٹ فورٹ کی تحریریں پاکستان کے مختلف ماحولیاتی نظاموں کے بارے میں معلومات کاخزانہ ہیں ۔ فورٹ اور شیلردونوں کے کام نے پاکستان میں نیشنل پارکس کے قیام کی راہ ہموار کی۔ اس کے بعد ٹام رابرٹ ہیں جنہوں نے پاکستان کے ممالیہ اور پرندوں کے بارے میں درجہ بندی کرکے ان سے متعلق تمام معلومات کو یکجا کیا۔سمجھ لیجیے کہ یہ پاکستان میں ماحول کے حوالے سے پہلا تحقیقی کام تھا۔پاکستان میں موجود دنیا کی نایاب تتلیوں کے بارے میں بھی رابرٹ کاکام سند کی حیثیت رکھتا ہے ۔

اس حوالے سے کچھ پاکستانیوں کے نام بھی نمایاں ہیں۔ پاکستان میں جنگلی حیات سے متعلق پہلی قانون سازی صوبہ سندھ نے 1972 میں کی۔ اس عمل میں جناب ڈبلیو اے کرمانی پیش پیش تھے۔ کرمانی صاحب کی دور اندیشی نے جنگلی حیات کے لیے محفوظ علاقوں کا ایک سلسلہ قائم کرنے کے لیے بنیاد فراہم کی ۔ اس میں سمندری کچھووں کے تحفط کا منصوبہ بھی شامل ہے ۔ فہمیدہ اسرار کا نام بھی کچھووں کے تحفظ کے حوالے سے ملک بھر میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ فہمیدہ صاحبہ نے اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ کچھووں کے تحفط کے لیے ساحلوں پر گزارا ہے ۔ماحولیاتی تاریخ میں ان سب کا نام سنہری حرفوں سے لکھا جائے گا ۔

 ماحول سے متعلق ہماری معلومات شاید صرف چرند پرند اور جنگلات کے تحفظ تک ہی محدود رہتیں اگر 1972 میں سوئیڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں کانفرنس برائے انسانی ترقی اور ماحول نہ منعقد ہوتی۔ اس کانفرنس نے ماحول کو سائنس دانوں کے خشک اور پیچیدہ زبان مقالوں سے نکال کر انسانی زندگی کے اہم ترین عنصر کے طور پر پیش کیا۔ اس کانفرنس ہی کا اثر تھا کہ 1980میں اقوام متحدہ کے عالمی ادارے ، ڈبلیو ڈبلیو ایف اورآئی یو سی این کی مشترکہ کاوشوں سے تحفظ ماحول کی عالمی حکمت عملیWorld Conservation Strategy دنیا کے سامنے آئی اور یوں ماحول کا شعبہ پہلی بار چند سائنس دانوں کی اجارہ داری سے نکل کر نوع انسانی کی بھلائی سے منسلک ہوگیا۔اس عالمی حکمت عملی کے بعد دنیا کے تمام ممالک کو کہا گیا کہ وہ اپنے ملک کے لیے قومی حکمت عملی تیار کریں ، پاکستان بھی ان ممالک میں شامل تھا۔ لہذا اگر ہم پاکستان میں ماحولیاتی تحریک کا جائزہ لیں تو پہلا سنگ میل یہی قومی حکمت عملی نظر آتی ہے۔پاکستان کی قومی حکمت عملی NCSکی تیاری میں چند ایسے اصولوں کو اپنایا گیا جو پاکستان کے لیے انوکھے تھے مثلا ترقی کے عمل کو بجائے شعبہ جاتی تقسیم کے ایک مربوط عمل کے طور پر سامنے لایا گیامثلا زراعت کو صرف محکمہ زراعت یا کسانوں کی ذمے داری نہیں بلکہ متعلقہ تمام شعبوں مثلا آبی وسائل ، زمین، صارفین وغیرہ کی ذمے داری کے طور پر پیش کیا گیا۔عوامی مشاورت کو پہلی بار ایک بھر پور انداز سے ترقی کے عمل کا اہم ترین جزو مانا گیا۔وفاقی کابینہ نے اس حکمت عملی کو 1992میں منظور کیا۔قومی حکمت عملی کے بعد اگلے قدم کے طور پر صوبائی اور ضلعی حکمت عملیوں کی تیاری کا کام جاری ہے ، سرحد اور بلوچستان کی حکمت عملیاں تیار ہوچکی ہیں جبکہ سندھ میں اس حوالے سے کام جاری ہے ۔

 اسی ماحولیاتی تحریک کا دوسرا اہم موڑ1997 میں آیا جب پاکستان میں ماحولیاتی قانون سازی اور اس کا نفاذ ہوا۔اس کے بعد1999میں پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایکٹ مجریہ1997کی دفعہ20 کے تحت ملک میں ماحولیاتی مقدمات اور مسائل کو نمٹانے کے لیے ابتدائی طور پر تین ماحولیاتی ٹریبونل قائم کیے گئے ، ان میں سے دو کراچی میں اور ایک لاہور میں قائم کیا گیا۔

 وفاقی کابینہ نے ملک کی پہلی قومی ماحولیاتی پالیسی کی2005 میں منظوری دی۔حکومتی بیان کے مطابق اس پالیسی کے نفاذ کے لیے 171رہنما خطوط وضع کیے گئے جن میں سے تقریبا چالیس فیصد رہنما خطوط پر پہلے ہی عمل درآمد ہوچکا ہے ۔

 پاکستان بہت سے عالمی معاہدوں میں بھی شامل ہے جن میں آب گاہوں کے تحفظ کا معاہدہ ”رامسر کنونشن“ ،جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کی روک تھام کا معاہدہ ”سائٹیز“،حیاتیاتی تنوع کا میثاق، سمندروں اور صحراؤں سے متعلق معاہدہ اور بدلتے موسموں اور مضر گیسوں کی روک تھام کا معاہدہ قابل ذکر ہیں ۔ اس کے علاوہ مختلف شعبوں کے حوالے سے ڈھیروں دستاویزات بھی منظر عام پر آچکی ہیں جن میں بائیوڈائیورسٹی ایکشن پلان اور ویٹ لینڈ ایکشن پلان وغیرہ اہم ہیں ۔

 یہ تمام اقدامات ، دستاویزاور قوانین ہمارے ملک کے لیے اہم پیش رفت ثابت ہوسکتے تھے اگر ان پر سنجیدگی اور ایمان داری سے عمل درآمد کیا جاتا ۔لیکن گھٹتے ہوئے وسائل اور آلودگی کی بڑھتی ہوئی صورت حال آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ اکنامک سروے آف پاکستان 2005-06کی سالانہ جائزہ رپورٹ کے مطابق ماحول کی تباہی سے معیشت کوسالانہ 2.2 ارب ڈالر سالانہ نقصان پہنچ رہا ہے۔فضائی آلودگی سے ہر سال بائیس ہزار افراد موت کو گلے لگا لیتے ہیں اور ہزاروں سیاہ پھیپھڑوں کے ساتھ زندگی کے نام پر ایک سزا کاٹتے ہیں ۔پینے کا صاف پانی جو انسانی کی بنیادی ضرورت اور اس کا آئینی حق ہے، کے نام پر لوگ خصوصا غریب افرادآلودہ اور گٹروں کا پانی پی کرجان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ PCSIR ہمارے ملک کا ایک معتبر سائنسی ادارہ ہے کی ایک رپورٹ پانی کی شدید آلودگی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔اس کے مطابق کراچی ، لاہور ،اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ میں جو پانی پینے کے لیے استعمال ہورہا ہے اس کا 75 فیصد حصہ پینے کے لیے مضر بلکہ ناقابل استعمال ہے۔مذکورہ ادارے نے پانی کے یہ نمونے ان شہروں کے مختلف اسکولوں سے حاصل کیے تھے۔

  مہنگائی کا وہ طوفان ہے کہ الامان الحفیظ !مہنگائی کے اس بڑھتے ہوئے طوفان میں اگر کوئی چیز سستی ہے تو وہ ہے انسانی جان بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ غریب کی جان۔ ٹریفک حادثات ہوں یا اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی غفلت، ملاوٹ شدہ غذا ہو یا آلودہ پانی۔ وجہ کچھ بھی ہو اس سے نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑتا یعنی یہ وہ تیر ہیں جن کا ہدف صرف اور صرف غریب انسان ہی بنتے ہیں۔ ان جانوں کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ کوئی قدرو قیمت، اس کے لیے نہ کوئی ذمے دار ٹھہرتا ہے اور نہ ہی کوئی خوں بہا دینا پڑتا ہے، گویا۔۔۔۔۔

          یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا

 آگہی شاید ایک عذاب ہی ہے ،اس ساری صورت حال میں انسان کتنا مایوس اور دل شکستہ ہوسکتا ہے اس کا تذکرہ غیر ضروری ہے لیکن چونکہ مایوسی گناہ ہے اس لیے کچھ امیدیں دل کے کسی کونے میں آج بھی سر اٹھاتی ہیں کہ شاید ہماری آج کی آزاد عدلیہ کا اگلا سوموٹو ایکشن ماحول کی تباہی کے خلاف ہو!
قوم کوساٹھ واں جشن آزادی مبارک ہو!


  

No comments:

Post a Comment