آسکر ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم کے خالق کے لیے اب نوبل
انعام بھی
صدر بش کی جنگجو فطرت نے دنیا کو جس طرح جنگی میدان میں
بدل دیا ہے اس کانظارہ ہم عراق اور افغانستان میں تباہی اور تشدد کے بھڑکتے شعلوں ،
اور پاکستان میں چنگاریوں کو ہوا دیتے ہوئے دیکھ کرکر سکتے ہیں اور اسے دیکھتے ہوئے
یہ بات حسرت سے کہی جاسکتی ہے کہ کاش صدر بش کے بجائے الگور امریکا کے صدر ہوتے تو
صورت حال شایدکچھ مختلف ہوتی۔امریکا کی پالیسیاں اپنی جگہ لیکن انسان کی فطرت و عادت
اور اس کے گرد موجو د لوگ اس سے بہت کچھ کروا لیتے ہیں ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ
اپنے ہی جیسے لوگ اپنے گرد جمع رکھتا ہے۔
امریکا کے سابقہ نائب صدر البرٹ آرنلڈ گور جنہیں عرف عام
میں الگور کہا جاتاہے کو امریکا کے صدارتی انتخابات میں بش جونیئر کے مقابلے میں
537 ووٹوں سے شکست ہوئی تھی اور انہیں کس طرح شکست دی گئی تھی یہ کوئی اتنا ڈھکا چھپا
راز نہیں ہے ۔الگور بل کلنٹن کے دور میں امریکا کے نائب صدر تھے۔
اپنے ملک میں جمہوریت ،آزاد عدلیہ اور انسانی حقوق کے محافظ
اپنے دہرے معیارات کے تحت دنیا کے ان تمام ممالک میں منظر نامے کو یکسر مختلف رکھنا
چاہتے ہیں جہاں جہاں ان کے مفادات وابستہ ہیں۔بد قسمتی سے پاکستان اپنی جغرافیائی محل
وقوع کے باعث ہمیشہ عالمی طاقتوں کی محاذ آرائی کا کبھی براہ راست اور کبھی بالواسطہ
شکار رہا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں کی دلچسپی ، ضرورت اوردوستی و دشمنی بدلتی
رہتی ہے اور اگرکبھی پاکستان کے ساتھ بھی ایسا ہوا کہ اس کی جغرافیائی لحاظ سے اتنی
اہمیت نہ رہے تب بھی ہماری جاں بخشی نہ ہوسکے گی کیونکہ آنے والے وقتوں میں پاکستان اپنے آبی وسائل
کے باعث مرکز نگاہ ہوگا۔پاکستان کے شمال میں اونچے پہاڑوں کے دامن میں موجود وسیع و
عریض گلیشیئرپاکستان کی معیشت اور زراعت کو رواں دواں رکھنے کا باعث ہیں۔قطبین میں
موجود گلیشیئر کے علاوہ سب سے زیادہ گلیشیئر یہیں پائے جاتے ہیں۔ان گلیشیئر سے دنیا
کے کئی بڑے دریا نکلتے ہیں۔آنے والے دنوں میں ان آبی وسائل پر تسلط کی سیاست کی جائے
گی۔موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں کم ہوتا میٹھا پانی آنے والے وقتوں میں
نایاب بھی ہوسکتا اور تب یہ گلیشیئر کس قدر قیمتی ہوں گے اس کا اندازہ ہم کرسکتے ہیں،
اور صرف گلیشیئر ہی کیا سمندر، ساحل، دریا، زرخیز مٹی، صحرا، نایاب پھول پودے اور جانور
کون سی نعمت ہے جو اس خالق کائنات نے اس ملک اور قوم کو نہیں بخشی۔سورہ رحمن میں بتائی
گئی تمام نعمتیں اس ملک و قوم کے دامن میں ڈال دی گئی ہیں۔۔۔لیکن کاش ہمارے ارباب اختیار
و اقتدار ان نعمتوں کا ادراک کرسکتے۔
بش اور الگور میں فرق کے لیے ہم ان دونوں کے کام کا تجزیہ
کرسکتے ہیں۔
صدر بش کے پسندیدہ کا م کون سے ہیں یہ سب جانتے ہیں جبکہ
سابق امریکی نائب صدر الگور کے تحفظ ماحول کے حوالے سے کیے جانے والے کام کا عالمی
سطح پر اعتراف کرتے ہوئے انہیں امن کا نوبل انعام 2007کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے۔اس سے قبل اسی سال الگور ہی کی تیار کردہ
ایک دستاویزی فلم ” تکلیف دہ سچ “ (An Inconvenient Truth) پر
انہیں آسکر ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
1901
سے دیا جانے والا نوبل انعام کا حصول کسی بھی مرد و عورت
کے لیے انتہائی اعزاز کی بات ہے ، اسے دنیا کا سب سے بڑے انعام تصور کیا جاتا ہے۔یہ
ایوارڈ فزکس ، کیمسٹری، طب ، ادب اور امن کے لیے منفرد کام کرنے والوں کو دیا جاتا
ہے۔1895 میں الفریڈ نوبل نے اپنی آخری وصیت میں اس انعام کو جاری کرنے کا فیصلہ کرتے
ہوئے اپنی تمام دولت اس کام کے لیے وقف کردی تھی۔
سائنس داں ، موجد،مصنف، ادیب اور شاعر الفریڈ نوبل کی یقینا
تمام دنیا احسان مند رہے گی۔
12 اکتوبر2007 کے روز
ناروے کی نوبل کمیٹی نے جو اعلامیہ جاری کیا اس کے مطابق الگور اورموسمیاتی تبدیلیوں
کے حوالے سے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انٹر گورنمنٹل پینل آف کلائمیٹ
چینج(IPCC) کو مشترکہ طور پر نوبل انعام
کا حق دار ٹھہرایا گیا۔اعلامیے میں بتایا گیا کہ ان دونوں کی کوششوں سے انسانی سرگرمیوں
کے باعث پیدا ہونے والی منفی ماحولیاتی تبدیلیوں کے درست ڈیٹا کا حصول اور اس صورت
حال پر قابو پانے کے لیے دنیا بھر کی توجہ کا حصول اور شعور و آگہی میں اضافہ ممکن
ہوسکا ۔
ماحول کی تباہی اب کوئی نئی بات نہیں رہی ہے ۔اس صدی کی
آخری تین دہائیاں اس حوالے سے اہمیت کی حامل ہیں جب دنیا نے ان خطرات پر سنجیدگی سے
کان دھرنا شروع کیا۔ابتدا میں دنیا کے لیے یہ باتیں انوکھی اور انہونی تھیں اور شاید
وہ اسے سمجھنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ لیکن آج صورت حال مختلف ہے، اس سال کے اوائل میں
جب IPCC نے
موسمیاتی تغیر پر اپنی تحقیقاتی رپورٹ جاری کی تو گویا دنیا میں ہلچل مچ گئی۔1500صفحات
کی یہ ضخیم رپورٹ 100ممالک کے 2000 سائنس
دانوں کی شب و روز کاوش کا نتیجہ ہے۔رپورٹ کے مطابق غیر متوازن صنعتی ترقی سے فضا میں
خطرناک گیسوں خصوصا کاربن ٹائی آکسائیڈ کا تنا سب بڑھ رہا ہے۔اس کے نتیجے میں زمین
کے درجہ حرارت میں بھی مسلسل اضافہ جاری ہے۔الگور کی دستاویزی فلم بھی اسی سنگین مسئلے
کی طرف اشارہ کرتی ہے۔اس فلم میں بتایا گیا ہے کہ اگر ترقی کے نام پر ماحولیاتی تباہی
کو نہیں روکا گیا تو آئندہ برسوں میں درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھ جائے گا اور قطبین
کی برف پگھلنے سے سمندروں کی سطح کئی میٹر بلند ہوسکتی ہے جس سے بہت سے جزیرے اور ساحلی
شہر غرق ہوسکتے ہیں۔اس فلم میں الگور نے صدر بش پر کیوٹو پروٹوکول (مضر گیسوں میں کمی
کا عالمی معاہدہ) کو تسلیم نہ کرنے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ” اگر کسی شخص کو
بات نہ سمجھنے کی تنخواہ مل رہی ہو تو اسے بات سمجھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔“
الگور کی وجہ شہرت اب سے پہلے
اگرچہ ان کی سیاست ہی رہی ہے ۔وہ بل کلنٹن کے نائب صدر اور 2000 کے صدارتی انتخا بات
میں بش جونیئر کے مقابل صدارتی امید وار تھے۔ لیکن یہ بات بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں
کہ انہیں ماحولیات سے بھی خصوصی دلچسپی ہے۔ انہوں نے زمین کو پیش آنے والی ماحولیاتی
تبدیلیوں کو ابتدائی مرحلے پر ہی محسوس کر لیا تھااور نائب صدر کی حیثیت سے اپنے سیاسی
کردار کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ماحول کے حوالے سے بہت کام کیا۔انہوں نے ان مسائل
کو اپنے لیکچروں ، کتابوں، اور دستاویزی فلموں کے ذریعے اجاگر کیا ۔ان کے اس پر خلوص
کام کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور دو بڑے اعزازات (نوبل اور آسکر) سے ان کے کام کا
اعتراف کیا گیا۔
اپنی دستاویزی فلم ”تکلیف دہ سچ” An Inconvenient Truth کے
نام سے انہوں نے ایک کتاب بھی شائع کی ہے۔59 سالہ الگور نے ایک ذاتی تنظیم اتحاد برائے
تحفظ ماحول (الائنس فار کلائمیٹ پروٹیکشن) بھی قائم کر رکھی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا
ہے کہ نوبل انعام برائے امن کی رقم بھی وہ اسی تنظیم پر خرچ کریں گے۔آئی پی سی سی پانچ
سالہ بنیادوں پر جامع ماحولیاتی رپورٹ تیار کرتی ہے ۔ آج کل ہندوستانی نژاد ماہر ماحولیات،راجندرا
پیچوری اس کے چیئر مین ہیں۔الگور کے لیے نوبل انعام کے اعلان پر انہوں نے نہایت خوشی
کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے اور ان کی تنظیم کے لیے بہت فخر کی بات ہے۔”مجھے
امید ہے کہ نوبل کمیٹی کے اس اعلان کے بعد عوام میں ماحولیاتی تحفظ کا احساس اجاگر
ہوگا اور عوام عالمی تپش میں اضافے کو روکنے کے لیے ماحولیاتی تنظیموں کا ساتھ دیں
گے۔“
افریقہ کی ونگاری ماتھائی
کو2005 کا نوبل انعام تحفظ ماحول ہی کے لیے دیا گیا تھا۔اس کے بعد2006 میں بنگلہ دیش
کے محمد یونس کو غربت کے خاتمے اور اب 2007 میں الگور کو دیا جانے والا نوبل انعام
یہ بتا رہا ہے کہ اب تحفظ ماحول کا مسئلہ دنیا بھر میں سر فہرست آچکا ہے۔ ماحول کی
بقا ہی میں دراصل ہم سب کی بقا ہے۔ امن کے لیے جانے والا یہ انعام جنگ سے محبت کرنے
والوں کے لیے یقینا لمحہ فکریہ ہے ۔
No comments:
Post a Comment