کراچی کے ساحل پرتعمیر ہونے والے جوہری بجلی گھرکے حوالے
سے ملک بھر میں ماہر ماحولیات اور طبیعات داں حفاظتی نقطہءنظر سے بہت سے سوالات اٹھا
رہے ہیں جن پر غورو فکر انتہائی ضروری ہے۔
حال ہی میں وفاقی حکومت نے چین کے ساتھ جوہری بجلی گھر کے
حوالے سے دو معاہدے کیے ہیںجس کے تحت دو جوہری بجلی گھر K-11
اور K-111 تعمیر کیے جائیں گے جن سے 2,200 میگا واٹ
بجلی پیدا کی جاسکے گی۔ معاہدے کے تحت ان بجلی گھروں کی تعمیر کے لیے 5.6 بلین ڈالرز
کا قرضہ بھی چین کی حکومت فراہم کرے گی۔اس بجلی گھر کی تعمیر چینی انجینئرز کے زیر
نگرانی جاری ہے اور اس نیوکلیئر پلانٹ کو چلانے کے لیے افزودہ ایندھن بھی چین ہی فراہم
کرے گا۔
پاکستانی سائنس داں اس حوالے سے شدید خطرات کا اظہار کررہے
ہیں ۔آئیے دیکھتے ہیں کہ ماہرین کے خدشات کی نوعیت کیا ہے ؟
کراچی تقریبا دو کروڑ آبادی پر مشتمل پاکستان کا سب سے بڑا
شہر ہے۔۔۔اور یہ جوہری بجلی گھراس گنجان آبادشہر سے صرف 40کلو میٹر کے فاصلے پریعنی
آبادی کے انتہائی قریب تعمیر کیا جارہے ہیں۔ماہرین کے نزدیک آبادی کے اتنے قریب ایٹمی
بجلی گھر کی تعمیر ایک انتہائی خطرناک عمل ہے۔کسی بھی حادثے کی صورت میں تابکار ی اثرات
کے ماحول اور انسانی صحت پر بدترین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس حوالے سے چرنوبل اور
جاپان کے حادثات سے سبق سیکھنا چاہیے۔کراچی کی ساحلی پٹی کوماہرین ارضیات زلزلے سے
مکمل طور پر محفوظ قرار نہیں دیتے۔یہاں سمندری طوفانوں کا بھی خطرہ موجود ہے ۔ کراچی
اور بلوچستان کی ساحلی پٹی کئی بار سمندری طوفانوں کی بلاخیزی دیکھ چکی ہے اگرچہ یہ
طوفان جاپان کی سونامی جیسے نہیں تھے لیکن اس خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔جغرافیہ
دانوں کے مطابق پچھلے 56 سالوں میں مختلف شدت کے 25 زلزلے کراچی کے ساحلوں سے ٹکرا
چکے ہیں لہذاکسی بڑے حادثے کی صورت میں ہنگامی بنیادوں پرنمٹنے کا کسی کے پاس کوئی
منصوبہ نہیں ہوگا۔
ماہرین کو لاحق دیگر خدشات میں سے ایک اس بجلی گھر کا ڈیزائن
بھی ہے۔ اس نیو کلیئر پاور پلانٹ کے لیے چینی کمپنی کے ڈیزائن کردہ جو دو ACP-1000 نیوکلئیر
ریکٹر حاصل کیے جارہے ہیں وہ اپنی نوعیت کے نئے اوران کی کارکردگی کا اس سے پہلے دنیا
بھر میں کہیں تجربہ نہیں کیا گیا۔
یہ دونوں
ریکٹرچین کی ایک کمپنی چائنا نیشنل نیو کلیئر کارپوریشن (China National Nuclear Corporation) میں
بدستور تیاری کے مراحل میں ہیں اور غور طلب بات یہ ہے کہ اس ڈیزائن پرکوئی پاور پلانٹ
اس سے پہلے دنیا بھر میں کہیں تعمیریا تجربہ نہیں کیاگیاہے حتی کہ چین میں بھی نہیں!
نامور ماہر طبیعات پرویزہود بھائی کے مطابق ہمیں صرف وہی
ریکٹر خریدے چاہئیں جنہیں ٹیسٹ کیا جا چکا ہو اور جوقابل بھروسہ ہوں اور اس میں کئی
متبادل نظام موجود ہونا چاہئیں جو کسی بھی حادثے کی صورت میں مناسب متبادل فراہم کرسکیں۔
ان کا خیال ہے کہ یہ چینی ریکٹر اس معیار پر پورے نہیں اترتے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے
کہ” کسی بھی حادثے کے نتیجے میں کراچی میں 40 کلومیٹر اندر تک کی فضا آلودہ ہوجائے
گی اور لوگوں کے متاثر ہونے کا خطرہ موجودہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بہت بڑے پلانٹ ہیں اور اتنے بڑے پلانٹ خود چین
نے بھی اس سے قبل نہیں بنائے ہیں اور یہ پہلا ماڈل ہوگا جو پاکستان میں لگایا جائے
گا۔ یہ تو ایک تجرباتی ماڈل ہے اور اس میں
حفاظتی تدابیر کا ہمیں علم نہیں ہے۔ ان بجلی
گھروں میں ٹنوں کے حساب سے جوہری مادہ ہوتا ہے اور کسی حادثے کے نتیجے میں اگر اس مادے
کا صرف پانچ فیصد بھی خارج ہوتو کراچی کے لوگوں کے لیے بہت خطرناک ہوگا۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے چین کی اس نیوکلیئر ایٹمی صلاحیت
کا پوری دنیا میں صرف پاکستان ہی خریدار ہے اور ایک ایسا ریکٹر جس کا تجربہ چین میں
بھی نہیں کیا گیا ہے اسے کراچی شہر کے نزدیک نصب کرنا گویا دوکروڑ کی آبادی کو تجربے
کی بھینٹ چڑھانا ہے۔
آج سے اٹھائیں سال پہلے اپریل
1986میں دنیا ایسے ہی ایک سانحے سے گزرچکی ہے جب یوکرائن میں چرنوبل کے ایٹمی پلانٹ
کا ری ایکٹر نمبر چار ایک دھماکے سے پھٹ گیا تھا جس کے بعد نصف شمالی کرے کے تقریبا
تمام ممالک میں تابکاری کے اثرات پھیل گئے تھے۔
یوکرائن میں چرنوبل کے سانحے میں تابکاری کا علم ہونے کے
بعد علاقے بھر کے ایک لاکھ پینتیں ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا تھا۔
بعد میں مزید دو لاکھ تیس ہزار افرادکو محفوظ مقامات پر پہنچادیا گیا۔ ماحول کے لیے
کام کرنے والی تنظیم گرین پیس کے مطابق اس حادثے میں تابکاری سے ابتدائی طور پرمتاثر
ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہوسکتی ہے اور متاثرہ علاقوں میں اب تک بیماریوں
کی بڑھتی ہوئی شرح اس تعداد کو اور بڑھارہی ہے ۔
اس سانحے کی بیس ویں سالگرہ (2006)کے موقع پر گرین پیس کی
جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 1986 سے2056 یعنی ستر برس میں یوکرائن، بیلارس اور روس
کے اندر تابکاری کا شکار ہونے والے مزید 93 ہزار افراد ہلاک ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ
بیلارس میں خون کے کینسر سے لگ بھگ تین ہزار افراد اور تھائرائڈ گلینڈ کینسر سے 14ہزار
افراد مزید ہلاک ہوجائیں گے۔ ایٹمی ری ایکٹر سے نکلنے والی تابکاری کس حد تک مہلک ہوسکتی
ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی جسمانی اور ذہنی طور پر معذور
بچے پیداہورہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اثرات ابھی کئی دہائیوں تک موجود رہیں
گے اور اس سانحے سے متاثر ہونے والے بچے کسی نہ کسی بیماری کا شکار رہیں گے۔
دوسرا بڑا حادثہ 2011 کے اپریل میں جاپان میں پیش آیا۔ چار
دہائیوں سے کام کرنے والے فوکوشیما کے ایٹمی بجلی گھر کے بارے میں کسی نے کبھی نہیں
سوچا ہوگا کہ یہ کسی وقت انسانی زندگی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن جائے گا۔ وہ ایٹمی بجلی
گھر جو چالیس سال تک جاپان کی توانائی کی ضروریات پوری کرتا رہا 2011 میں جاپان اور
دنیا بھر کے لیے ایک خطرہ بن گیا۔ سونامی سے جو تباہی پھیلی اس میں فوکوشیما ایٹمی
بجلی گھر کی تباہی انتہائی ہولناک تھی ۔ ایٹمی بجلی گھر میں لگنے والی آگ نے اس نے
پوری دنیا کو خوف زدہ کردیا ۔ جاپانیوں نے اس بجلی گھر کو تعمیر کرتے ہوئے سخت حفاظتی
انتظامات کیے تھے۔اسے زلزلے سے محفوظ رکھنے کا بھی انتظام کیا تھالیکن 9 درجے کی شدت
کے زلزلے نے سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا۔ اس بجلی گھر کو سونامی سے محفوظ رکھنے کے لیے
بہت اونچی دیوار بھی تعمیر کی گئی تھی لیکن سمندر کی لہریں اس دیوار سے بھی بلند تھیں
جو باآسانی اسے پھلانگ کر پلانٹ کے اندر گھس گئیں اور وہ تباہی پھیلی کہ کوئی سوچ بھی
نہیں سکتا تھا۔ اس کی بھی تحقیقات ہورہی ہیں کہ زلزلے اور سونامی کے علاوہ اندازے کی
کون سی ایسی غلطیاں تھیں جن کی وجہ سے ایٹمی پلانٹ پھٹا اور تابکاری کا عذاب نازل ہوا۔
جاپان میں فوکوشیما جوہری تباہی کے ڈھائی سال گزرجانے کے
بعد بھی اب تک تابکاری اثرات کا حامل سیکڑوں ٹن پانی ہر روز سمندر میں شامل ہورہا ہے
۔ تابکاری کے اثرات کو ختم کرنے میں ممکنہ طور پر تیس سال لگیں گے اورآس پاس کی کچھ
جگہیں ایسی بھی ہیں جو کبھی بھی تابکاری سے پاک قرار نہیں دی جاسکیں گی یوں اس جگہ
سے بے دخل کیے جانے والے مقامی لوگ کبھی بھی اپنے گھر واپس جانے کی اجازت نہیں حاصل
کرسکیں گے۔
فوکوشیما حادثے کے بعد جرمنی، جاپان اور سوئٹزرلینڈ نے توانائی
کے حصول کے لیے ایٹمی ذرائع سے دستبرداری کا فیصلہ کیا ، جرمنی اس حوالے سے آئندہ پانچ
سالوں میں مکمل طور پر ایٹمی پیداوار بند کردے گا جبکہ امریکا میں بھی کوئی نیا منصوبہ
روبہ عمل نہیں ہے۔جبکہ دوسری طرف سعودی عرب، ایران ، انڈیا اور پاکستان اس حوالے سے
نئے منصوبے بنا رہے ہیں۔ جاپان جیسا ترقی یافتہ اور مضبوط معیشت کا حامل ملک بھی اپنے
ایٹمی بجلی گھر کی حفاظت نہیں کرسکا کجا کہ پاکستان جیسا کمزور معیشت کا حامل ملک جس
کی گلی کوچوں میں دن رات دہشت گردی کی آگ پھیل رہی ہو وہ کسی حادثے کی صورت میں بچاؤکیسے
کرسکتا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب تک دنیا بھر میں سیکڑوں ایٹمی حادثات رونما ہوچکے ہیں اور بیشتر رازوں کو قومی راز بنا کر قومی مفاد میں دفن کردیا گیا ہے۔
تحفظ ماحول پر کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم آئی یو سی این کے محمد طاہر قریشی اس سلسلے میں 1971میں تعمیر کیے گئے کراچی نیوکلئیر پاور پلانٹ (KANUPP) کی مثال دیتے ہیں جسے تابکاری خطرات سے محفوظ سرکاری دعوؤں کے باوجود غیر فعال کردیا گیا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب تک دنیا بھر میں سیکڑوں ایٹمی حادثات رونما ہوچکے ہیں اور بیشتر رازوں کو قومی راز بنا کر قومی مفاد میں دفن کردیا گیا ہے۔
تحفظ ماحول پر کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم آئی یو سی این کے محمد طاہر قریشی اس سلسلے میں 1971میں تعمیر کیے گئے کراچی نیوکلئیر پاور پلانٹ (KANUPP) کی مثال دیتے ہیں جسے تابکاری خطرات سے محفوظ سرکاری دعوؤں کے باوجود غیر فعال کردیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں کراچی نیوکلئیر پاور پلانٹ (KANUPP) میں
ہونے والے حادثات کا اگرچہ کوئی باقاعدہ اعداد و شمار اور ریکارڈ موجودنہیں ہے، مگرطاہر
قریشی کا کہنا ہے کہ ان کا مشاہدہ ہے کہ پلانٹ سے نکلنے والے پانی کو ٹھنڈاکرنے کے
لیے سمندر میں اخراج کیا جاتا تھاجس سے سمندری حیات خصوصاماہی گیری اور مقامی آبادی
کی صحت پر خطرناک اثرات رونما ہورہے تھے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پلانٹ کا حفاظتی نظام ناقابل بھروسا
تھا اور ایک بڑی تباہی کا سبب بن سکتا تھا۔ یہ تباہی 1984 ءمیں بھوپال، انڈیا میں کیمیائی
پلانٹ کی تباہی سے بھی بڑی ہوسکتی تھی جس میں ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔ جبکہ پلانٹ
میں کسی خرابی کی صورت میں ہنگامی بنیادوں پر اس کا کوئی متبادل نظام بھی موجود نہیں
تھا۔
طاہرقریشی کے مطابق، حکام اس کے خطرات کے بارے میں بالکل
غیر متعلق اور بے پروا نظر آتے ہیں اور کسی بھی انسانی غلطی کے نتیجے میں پھیلنے والی
تباہی کو کم کرنے یا آبادی کو نقصانات سے بچانے کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ بندی
نہیں ہے۔ حالانکہ کسی بھی منصوبے کے آغاز سے قبل یہ تمام احتیاطی تدابیر، قومی اور
علاقائی منصوبہ سازوں میں اس حوالے سے آگہی، منصوبے کے ڈیزائن میں زمین کے استعمال
کی منصوبہ بندی اور خطرات کا شکار علاقوں کی نشان دہی منصوبہ بندی میں واضح طور پرشامل
ہونا چاہیے ۔
ماہرین کے نزدیک خدشے کی بات یہ بھی ہے کہ اس منصوبے کے
حوالے سے نہ ہی تو کوئی مباحثہ یا عوامی شنوائی (پبلک ہئیرنگ) کی گئی اور نہ ہی اس
منصوبے کے ماحولیاتی تجزیے (Environment Impact Assessment) کی رپورٹ
عوامی سطح پر فراہم کی گئی۔ پاکستان کے کثیر الاشاعت انگریزی روزنامے میں شائع ہونے
والے ایک مضمون کے مطابق پاکستان اٹامک انرجی
کمیشن یا پاکستان نیوکلئیر ریگولیٹری اتھارٹی نے اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں دی کہ
اس ریکٹر کی وجہ سے اگرکوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تواس کا سدباب کیسے ہوگا اور بچاؤ
کی کیا صورت ہوگی!
اس حوالے سے صرف منصوبے کی مجوزہ جگہ کی جائزہ رپورٹ یعنی Site Evaluation
Report موجود ہے اور ماہرین کے مطابق اس میں بھی بہت
سی خامیاں موجود ہیں مثلا اس میں کراچی کی آبادی کو تقریبا نصف یعنی 10ملین بتایا گیا
ہے، اس کے علاوہ ماحولیاتی تجزیےEnvironment Impact
Assessment Report (EIA) اور ریکٹر سیفٹی رپورٹس بھی
موجود نہیں ہیں اور اگر موجود ہیں تو یقینا صیغہ ءراز میں رکھی گئی ہیں۔کیونکہ ماحولیاتی
تجزیے کی رپورٹ پر کوئی عوامی شنوائی یا پبلک ہیئرنگ نہیں ہوئی جو کہ خلاف قانون ہے۔
ماہر آب اور زراعت ڈاکٹرپرویز امیرکا کہنا ہے کہ ہم نیو
کلیئر ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس سلسلے میں تمام حفاظتی انتظامات بہت ضروری
ہیں۔کراچی جیسے گنجان آبادی کے اتنے قریب یہ پلانٹ نہیں لگانا چاہیے۔ ہمارے پاس بہت
طویل ساحلی پٹی موجود ہے، آپ اسے آبادی سے دور لے جائیں۔یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ ٹرانسمیشن
لائن طویل ہوگی تو خرچ بڑھے گا، انسانی جانوں کے بچاؤاور حفاظت کے پیش نظر خرچ کی کوئی
اہمیت نہیں ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ” ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس
قسم کے تکنیکی فیصلوں کو کرتے ہوئے سیاست داں ماہرین کی آرا کو بھی ضرور پیش نظر رکھیں۔پاکستان
خدا کے فضل سے ایک ایٹمی طاقت ہے اور دہشت گردی کے بدترین خطرے کے باوجود ہم نے دنیا
کو دکھادیا ہے کہ ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں۔ہمارے پاس ماہرین بھی ہیں اورصلاحیت
بھی تو ہم ایک ایسی ٹیکنالوجی چین سے کیوں لے رہے ہیں جو کبھی چین نے خود اپنے ملک
میں بھی استعمال نہیں کی۔ہمارا ملک ٹیسٹنگ گراؤنڈ نہیں ہے۔“ڈاکٹر پرویز امیر کا یہ
بھی کہنا تھا کہ” ہم چشمہ ایٹمی گھرکے حوالے سے بالکل فکرمند نہیں ہیں کیونکہ وہ آبادی
سے دور ہے۔کسی حادثے کے نتیجے میں ماحول پر تو اثرات مرتب ہوسکتے ہیں لیکن انسانوں
کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
کراچی پاور پلانٹ کے حوالے سے ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا
تھا کہ اس حوالے سے تمام حفاظتی تدابیر اختیار کرنا چاہیے اور تربیت کے لیے جاپانی
ماہرین سے بھی مدد لی جاسکتی ہے جو فوکوشیما کی تباہی کے بعدان مراحل سے گزررہے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان میں جوہری بجلی گھر لگانے کا یہ پہلاتجربہ
نہیں ہے۔ کراچی میں اس سے قبل کینپ نامی پلانٹ لگایا گیا تھا، اس کے علاوہ چشمہ کے
مقام پر لگائے جانے والے جوہری بجلی گھرسی ون اور سی ٹو قومی گرڈ کو 650 میگا واٹ کے
قریب بجلی فراہم کررہے ہیں جبکہ چشمہ کے ہی مقام پر مزید دو جوہری گھر سی تھری اور
سی فور پر بھی کام جاری ہے جو 2016 تک مکمل ہوجائیں گے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق جوہری توانائی کیمشن کے ایک اعلی
عہدیدار نے کراچی میں دو جوہری بجلی گھروں کی تعمیر پر مقامی ماہرین کے خدشات کو مسترد
کردیا ہے۔پاکستان اٹامک کمیشن کا موقف ہے کہ ان ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر کی منصوبہ
بندی میں تمام ضروری قواعد و ضوابط کا خیال رکھا گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment