Sunday, February 2, 2014

پرندوں سے خالی آب گاہوں کی آلودگی کا نوحہ !!!

اچالی کے کنارے سفید سر مرغابی کے منتظر۔۔۔اور کینجھرکا آلودہ پانی ۔۔۔ کیا ہم کسی سانحے کے منتظر ہیں !!!
آب گاہوں کے عالمی دن کے حوالے سے دو اہم آب گاہوں کا جائزہ !

یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا ۔۔۔کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کرجانا!

جنگل، پیڑ، پودے، رنگارنگ پھول، ہلکورے لیتی اور رنگ بکھیرتی آب گاہیں اور ان کے کناروں پر اترتے ،چہچہاتے پرندے اور ان میں ہنستا بستا انسان ، کوئی بھی ماحول فطرت کے تمام رنگوں سے مل کر ہی تشکیل پاتا ہے۔ مصور فطرت کی بے عیب تصویر میں سے اگر ایک رنگ مٹ جائے تو ساری تصویر عیب دار ہوجاتی ہے۔ پرندے اور دیگر جان دار کسی بھی ماحول کی صحت کی علامت ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر کسی خاص پرندے کی نوع وہاں آنا چھوڑ دے تو جان لیجیے کہ یہ وہاں بسنے والوں کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہماری زندگی کی فطری زنجیر کی کڑیوں میں سے ایک کڑی پرندے بھی ہیں اور اگرزنجیر کے درمیان سے کوئی کڑی ٹوٹ جائے تو پھر زنجیر کی مضبوطی کیسی !

دوفروری کو دنیا بھر میں آب گاہوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔اس سال یہ دن آب گاہیں اورزراعت ؛ ترقی کے شراکت دار(Wetlands and Agriculture: Partners for Growth) کے عنوان کے تحت منایا جارہا ہے۔




آب گاہوں کے حوالے سے پاکستان عالمی سطح پر اس وقت پہچانا گیا جب 1976 میں پاکستان نے رامسر کنونشن پر دستخط کیے۔یہ کنونشن ایران کے شہر رامسر میں1971میں تشکیل پایا۔یہ ایک عالمی سطح کا معاہدہ ہے جس کے تحت آب گاہوں کے تحفظ کے لیے کوششیں اور وسائل مہیا کیے جاتے ہیں۔

رامسر کنونش کے تحت عالمی سطح پر ایسی آب گاہوں کی فہرست تیار کی گئی ہے جو متعینہ معیار کے مطابق عالمی اہمیت کی حامل ہیں تاکہ ان آب گاہوں کی حفاظت کے لیے ترجیحی بنیادوں پر منصوبے بنائے جائیں۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک کو تین عہد ایفا کرنے ہوتے ہیں۔
 (1)  عالمی اہمیت کی آب گاہوں کو رامسر فہرست میں شامل کروانا
 (2)  تمام آب گاہوں کے دانش مندانہ استعمال کے لیے منصوبہ بندی کرنا
(3)   انواع اور پانی کے مشترکہ نظاموں کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعاون کرنا۔

اس کنونشن میں ابتدائی طور پر138 ممالک شریک تھے ۔جب پاکستان نے اس پر دستخط کیے تو ہمارے ملک کی مجموعی آب گاہوں کا مجموعی رقبہ تقریبا 7,800کلو میٹر تھا۔ اور یہاں عالمی معیار کی آٹھ آب گاہیں تھیں۔2003ءتک ان آبی ٹھکانوں کی تعداد 16 ہوگئی تھی۔اقوام متحدہ نے جب 2003ءکے سال کو ”میٹھے پانی کا سال“کے طور پر منایا تو اس سال کی نسبت سے 3نئی آب گاہیں رامسر سائٹ میں شامل کی گئیں ۔یہ تینوں آب گاہیں یعنی، انڈس ڈیلٹا، رن آف کچھ اور دیہہ اکڑوسندھ میں واقع ہیں۔  ان تین نئی آب گاہوں کے اضافے سے پاکستان میں بین الاقوامی اہمیت کی حامل آب گاہوں یعنی رامسر سائٹ کی تعداد 19ہوگئی۔  ان آب گاہوں کے نام درج ذیل ہیں۔

سندھ میں موجود9 آب گاہوں کے نام کینجھر جھیل، دیہہ اکڑو ، ڈرگ جھیل، ہالیجی جھیل ،انڈس ڈیلٹا ،انڈس ڈولفن ریزرو ، جبھو لگون ، نرڑی لگون اوررن آف کچھ ، جبکہ صوبہ پنجاب میں تونسہ بیراج ، اچالی کمپلیکس (کھبیکی، اچالی اور جھلر جھیل) ،چشمہ بیراج ، بلوچستان کی آب گاہوں میں استولا آئی لینڈ،جیوانی کوسٹل آب گاہ ، حب ڈیم ، میانی ھور، اومارہ ٹرٹل بیچ ، جبکہ سرحد میں دو آب گاہیں ٹانڈا ڈیم اورتھانے دار والاپائی جاتی ہیں۔

پاکستان مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے اس لیے بہت سے پرندے جو وسطی اور شمالی ایشیا میں پیدا ہوتے اور پرورش پاتے ہیں وہ افغانستان کے راستے وادی سندھ کا رخ کرتے ہیں اور خصوصا سندھ کی آب گاہوں پر قیام کرتے ہیں۔یہ آب گاہیں ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی سرمائی رہائش گاہ کا درجہ رکھتی ہیں۔

ساحلی علاقوں اور دریاؤں کے دہانوں پر واقع یہ آبی ٹھکانے طری طرح کی آبی حیات یعنی مچھلیوں، جھینگوں اور کیکڑوں وغیرہ کے انڈے بچے دینے اور ان کی پرورش کے لیے بہترین جگہ تصور کی جاتی ہیں۔موسم سرما میں نقل مکانی کرکے آنے والے ہزاروں اقسام کے آبی پرندے لاکھوں کی تعداد میں ان آب گاہوں پر قیام کرتے ہیں۔

آج ہم پنجاب میں موجود تین جھیلوں ( رامسر سائٹ) کے ایک کمپلیکس اچالی کا ذکر کریں گے جو تین مختلف قدرتی آب گاہوں پر مشتمل ہے۔کچھ عرصہ پہلے ہمیں نہایت قریب سے اس آب گاہ کو دیکھنے کا موقع ملا۔

سطح مرتفع پوٹھوہار کے جنوبی کنارے کی حد بندی پاکستان کا معروف سلسلہ کوہ نمک کرتا ہے جو مغرب میں میانوالی سے لے کر مشرق میں جہلم تک پھیلا ہوا ہے۔ اسے کوہ نمک اس لیے کہا جاتا ہے کہ کیونکہ دنیا کے دوسرے سب سے بڑے نمک کے ذخائر یہاں دریافت ہوئے تھے۔ نمک کے یہ ذخائر 50 ملین سال قبل انڈین پلیٹ کے ایشین پلیٹ کے ساتھ ٹکرانے کے نتیجے میں بحیرہ ءٹیتھس کی تبخیر اور دریائے سندھ کے میدانوں کے قیام کا نتیجہ تھے۔

کوہ نمک کا مغربی کنارہ ایک نیم دائرہ تشکیل دیتا ہے جو وادی سون کو تخلیق کررہا ہے۔  وادی کے وسط میں بلندی سطح سمندر سے 2,000 فٹ ہے۔ یہاں واقع پانی کی نمکین جھیلیں بین الاقوامی اہمیت کی حامل ہیں اور سائبیریا سے آنے والے مہمان پرندوں کا گھر ہیں جن میں بقا کے خطرے سے دوچار مرغابیوں کی چند انواع سر فہرست ہیں۔

کوہ نمک کی آب گاہوں کا کمپلیکس کلر کہار جھیل ، کھبیکی، اچھالی، جھلر اور نمل جھیلوں پر مشتمل ہے۔ یہ علاقہ مقامی بھیڑوں کی ایک قسم پنجاب اڑیال کا مسکن بھی ہے۔

کھبیکی کا علاقہ نمکین اور کیچڑ زدہ ہے اور سردیوں میں پرندوں کے کئی اقسام کے لیے انتہائی پرکشش ہے جن میں خطرے سے دوچار سفید سر والی بطخیں بھی شامل ہےں۔ گذشتہ چند سالوں سے جھیل پر آنے والی مرغابیوں کی تعدادمیں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ کیونکہ اس آبی علاقے کے کمزور حیاتیاتی تنوع کو پرندوں اور مچھلیوں کے بے جا شکار اور جھیلوں میں پانی کی کمی سے زبردست نقصان پہنچا ہے۔ اچھالی جھیل بھی نمکین پانی رکھتی ہے اور ہجرت کرنے والے لم ڈھینگوں کے لیے مثالی علاقہ ہے۔ ہر سال یہ پرندے 3 سے 4 مہینوں کے لیے یہاں قیام کرتے ہیں اور اپنے طویل سفر کو جاری رکھنے کے لیے یہاں توانائی اکھٹا کرتے ہیں۔ کھبیکی ، اچھالی اور جھلر کو اچھالی کمپلیکس کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور 1996 میں اسے رامسر سائٹ تسلیم کیا گیا۔

اچھالی کمپلیکس کو 1966میں جنگلی حیات کے لیے محفوظ قرار دیا گیا تھا۔ دس سال بعد جب پاکستان نے 1976میں رامسر کنونشن میں شمولیت اختیار کی تو نایاب پرندوں کی آمد کے باعث ان جھیلوں کو رامسر سائٹ یعنی بین الاقوامی اہمیت کی حامل آب گاہ کا درجہ دیا گیا ۔ رامسر سائٹس میں ان جھیلوں کا نمبر 818 ہے۔ رامسر کنونشن میں ان آب گاہوں کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے جہاں معدومی کے خطرے سے دوچار جانور، پرندے اور پودے پائے جاتے ہیں۔

سائیبیریا کے سرد علاقوں سے آنے والے مہمان پرندوں میں سب سے اہم سفید سر والی بظحیں ہیں جن کی نسل کو اب بقا کا خطرہ لاحق ہے۔ اس کے علاوہ لم ڈھینگ، سارس ، چتکبرا سارس، قاز ، سفید آنکھوں والی مرغابی، خاکستری رنگ کے گدھ اور شاہی عقاب بھی اس علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ ان جھیلوں میں مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں۔  بدلتے موسموں کی تبدیلی سے جھیلوں میں پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ علاقے سے بڑے پیمانے پر جنگلات کا صفایا بھی پرندوں کے لیے بہت بڑے خطرے کی صورت سامنے آیا ہے۔

کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب وادی سون کے پہاڑ گھنے جنگلات سے ڈھکے ہوئے تھے۔ اس بات کی سچائی کا یقین کوہ نمک کی بلند ترین چوٹی سکیسر (1524میٹر) کو دیکھ کر ہوتا ہے جہاں آج بھی گھنے جنگلات موجود ہیں ۔ یہ جنگلات پاک فضائیہ کی ملکیت ہیں اورصد شکر کہ کسی بھی قسم کی مداخلت سے محفوظ ہیں۔

اس دوردراز علاقے میں چونکہ گیس کی فراہمی نہیں اس لیے مقامی لوگ سالہا سال سے اپنی ضرورت کے لیے لکڑی جنگلات کاٹ کر حاصل کرتے ہیں۔ علاقے میں کان کنی کی سرگرمیوں کے باعث جنگلاتی آگ نے بھی بے شمار درخت راکھ کا ڈھیر کردیے۔ وادی سون کے جنگلات بچانے کے لیے بہت سی تنظیمیں یہاں کام کررہی ہیں جن میں سب سے اہم اقدام جنگلات بچانے اور لکڑی کے متبادل کے طور پر علاقے میں 2008 سے اب تک درجن بھر بائیو گیس یونٹ کی کامیابی سے تنصیب ہے۔ بائیو گیس کے یہ پلانٹ بہت موثر اور چلانے میں بہت آسان ہیں۔ ابتدائی اخراجات کے بعد اسے چلانے کے لیے صرف جانوروں کے فضلے کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر کسی بھی فرد کے پاس چار بڑے جانور یعنی گائے، بھینس اور بیل وغیرہ ہوں تو ان کا فضلہ اس پلانٹ کو چلانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر علاقے کے تمام فارموں میں یہ بائیو گیس پلانٹ نصب کردیے جائیں تو صرف دو تین سالوں میں ارد گرد کے جنگلات پھر سے ہرے بھرے ہوجائیں گے۔

 جنگلات کا پھر سے ان زمینوں پر موجود ہونا علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح کو بھی بڑھا دے گا۔ آبی ذخائر اور جھیلیں پھر سے آباد ہوجائیں گی۔ پرندے پھر سے ان علاقوں کا رخ کریں گے اور ہماری زندگی کی ٹوٹی ہوئی زنجیر پھر سے مکمل ہوجائے گی۔

کینجھر جھیل۔۔۔کراچی کے پانی کاذخیرہ آلودہ تر ہوتا جارہاہے !

میلوں دور تک نیلگوں پانی کا ذخیرہ ، کینجھرجھیل لاکھوںماہی گیروں کا ذریعہءمعاش ، پرندوں کی پناہ گاہ اور کراچی اورٹھٹھہ کے باسیوں کے لیے پینے کے پانی کا وسیلہ بھی ہے۔۔۔ لیکن اب اس پانی پر آلودگی کے مہیب سائے ڈول رہے تھے۔

کلری یا کینجھر جھیل کراچی سے 122 کلومیٹر دور ضلع ٹھٹھہ میں واقع ہے، جس کی لمبائی تقریبا 32 کلومیٹر اور چوڑائی ساڑھے چھ کلو میٹر سے زائد ہے ۔اسے بین الاقوامی اہمیت کی آب گاہ یعنی ” رامسرسائٹ“ کا درجہ بھی حاصل ہے ۔ دریائے سندھ سے نکلنے والی نہر کلری بگھار فیڈر یا کے بی فیڈرکے ذریعے اس جھیل کومسلسل میٹھا پانی فراہم کیا جاتا ہے تاکہ یہاں پرندوں کی آمدورفت اور لاکھوں افراد کا ذریعہء معاش یعنی ماہی گیری کی سرگرمیاں جاری رہیں اور یہی پانی بعد ازاں کراچی اور ٹھٹھہ کے باسیوں تک پینے کے لیے پہنچادیاجاتا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی کی 70% آبادی کو پینے کے لیے یہی پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ کینجھر جھیل کے پانی کی آلودگی سے صرف نظر کرنا لاکھوں زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔گذشتہ سال سے کینجھرجھیل کے پانی کی بڑھتی ہوئی آلودگی کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی جا رہی ہےں۔ جھیل کے پانی کی آلودگی کا ذریعہ دریائے سندھ سے نکلنے والی نہر کے بی فیڈر ہے جو دریائے سندھ کا پانی کینجھر جھیل تک پہنچاتی ہے ۔ اس نہرکے ذریعے کوٹری اور نوری آباد کی صنعتوں سے نکلنے والا کیمیائی آلودہ فضلہ چلیا بند اور کوٹری کے قریب اس پانی میں شامل ہورہا ہے ۔ کروڑوں کی آبادی والے شہر کراچی کے ذخیرہ آب کا آلودہ ہونا کسی بڑے انسانی المیے کو جنم دے سکتا ہے۔ دس سال پہلے منچھر جھیل کے آلودہ پانی سے ایسی ہی صورت حال نے جنم لیا تھا اور مئی 2004 میں حیدرآباد کے 60 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ۔ پاکستان کے ماحولیاتی قوانین برائے 1997 کے تحت تمام صنعتی ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اپنے کیمیائی فضلے کو اخراج سے پہلے صاف کریں گے۔ لیکن ہم اپنے آبی ذخائر کو بطور گٹر سمجھتے ہوئے ایک محتاط اندازے کے مطابق تیس لاکھ ایکڑ فٹ استعمال شدہ پانی آبی ذخائر میں انڈیل دیتے ہیں۔ ہمارا یہ رویہ اپنے آبی وسائل کے حوالے سے عام ہے۔

کے بی فیڈر نہر میں متعلقہ صنعتیں اپنا فضلہ براہ راست نہر میں انڈیل دیتی ہیں اور اس آلودہ پانی کو صاف کرنے کا کوئی روایتی یا جدید طریقہ استعمال نہیں کیا جاتا ۔اس حوالے سے متعلقہ تمام ادارے انتہائی غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

آبی وسائل کے تحفظ کے حوالے سے ہمیں اپنا رویہ بدلنا ہوگا، ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ پاکستان دنیا کے کم آبی وسائل کے حامل ممالک میں شامل ہے اور اگر ہم نے آبی انتظامات کی صلاحیت کو بہتر نہیں کیا تو بہت جلد ہم انتہا ئی آبی قلت والے ملکوں میں شامل ہوجائیں گے ۔ ہمارے وسائل دن بدن کم اور بے دریغ ضائع ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ 1947 میں پاکستان میں دستیاب پانی کی فراہمی فی فرد 5000 کیوبک میٹر تھی جبکہ اب یہ مقدار گھٹ کر 1000کیوبک  میٹر فی فرد رہ گئی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آبی وسائل کے تحفظ کے لیے زمین کا جنگلات سے زیادہ سے زیادہ ڈھکا ہونا بہت ضروری ہے لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے یہ وسیلہ 5% سے زیادہ نہیں ہے ( یہ اعدادو شمار بھی بہت متنازعہ ہیں)  جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں یہ 23% تک ہے،دیگر پڑوسی ممالک بھی جنگلات میں اضافے کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کررہے ہیں جوکہ آبی وسائل کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ آبی وسائل کے تمام ذرائع کے تحفظ کے لیے زمین پر سبزے کی چادر کا موجود ہونابہت ضروری ہے۔ یہ درخت ، پودے اور سبزہ ہی ہوتاہے جو پانی کو ضائع ہونے سے بچاتا ہے اور اسے کسی قیمتی امانت کی طرح زمین کی گود میں ڈال دیتا ہے۔ پانی کا ہر قطرہ کتنا اہم ہے اس کا اندازہ اس جملے سے لگائیے جو اب کسی کہاوت کے طور پر ہی رائج ہوچکا ہے   Catch water where it fallsکہ” پانی کے ہر قطرے کو وہیں محفوظ کرلیا جائے جہاں یہ گرتا ہے“۔ 

دنیا پانی کے ہر قطرے کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات کررہی ہے جبکہ ہم کینجھر جھیل جیسے پانی کے وسیع اور قدیم ذخیرے کو آلودہ تر کیے جارہے ہیں۔ ایک بار پھر یاد دلاتے چلیں کہ اس حوالے سے غفلت اور بے پرواہی کسی بڑے انسانی المیے کو جنم دے سکتی ہے۔ ہمیں اس سے پہلے اقدامات کرنے ہوں گے۔

2 comments:

  1. کھبکی۔۔۔۔تحریر ملک خدابخش مسافر اعوان
    موضع کھبکی وادی سون سکیسر کے دیہاتوں میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے یہ موضع سون سکیسر کے مشہور قصبہ نوشہرہ سے سڑک کے راستے سات میل شمال مشرق کو واقع ہے۔ (کھبکی سے نوشہرہ کو پیدل راستہ براستہ اچھالہ (اوچھالہ) چار یا پانچ میل ہے ) کھبکی بذریعہ سڑک مغرب کو نوشہرہ اور خوشاب سے ملا ہوا ہے اور مشرق کی طرف جابہ، پیل، چکوال، کٹھہ، راولپنڈی وغیرہ سے ، یہاں کی جھیل مشہور ہے۔قطب شاہ کی پانچویں پشت میں ایک شخصیت مدھو ہوا ہے جس نے کھبکی گاؤں کی بنیاد رکھی تھی۔ زمانے کے ساتھ ساتھ کھبکی کا محل وقوع بھی تبدیل ہوتا رہا ۔ جس جگہ اب کھبکی آباد ہے یہ اس کی تیسری یا چوتھی منتقلی ہے۔ پرانی کھبکی کے آثار شمال کیطرف ’’ الھوڑہ‘‘ اور جنوب کی طرف سوڈھی والے راستے کے آس پاس موجود ہیں۔ موجودہ کھبکی کی جگہہ کبھی ’’ حرملوں والی چاہڑی‘‘ کے نام سے مشہور تھی کیونکہ یہاں کافی تعداد میں حرمل اگتے تھے۔ کھبکی جس وادی میں واقعہ ہے اس کے شمال اور جنوب کی طرف شرقا غربا پہاڑیاں پھیلی ہوئی ہیں یہ وادی شرقا غربا تقریبا آٹھ میل لمبی اور جنوبا شمال ڈیڑھ میل اوسطا چوڑی ہے۔ کھبکی اس وادی کے عین وسط میں آباد ہے۔ شمال کی طرف بڑی وسیع و عریض سطح مرتفع پھیلی ہوئی ہے جسے ’’ پچون ‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر ڈھوکیں آباد ہیں۔ یہ ڈھوکیں اور پچون کی مزروعہ زمینیں سب کھبکی والوں کی ہیں۔ کھبکی کی حدود مغرب میں مردوال تک اور مشرق میں جابہ تک جاپہنچتی ہیں۔ اسی طرح شمال میں تھوہامحرم خان اور چینچی (ضلع کیمبل پور) اور جنوب میں سوڈھی کی حدود سے جاملتی ہیں۔ پچون کے مشرق اور شمال کی طرف مختلف پہاڑیاں پھیلی ہوئی ہیں جومحکمہ زراعت کی زیر نگرانی ہیں مقامی بولی میں ان جنگلات کو کھدر کہتے ہیں کھدر کے خاتمہ پر شمال کی طرف ضلع کیمبل پور شروع ہو جاتا ہے کھبکی سے پانچ میل شمال کو جائیں تو ضلع کیمبل پور کی حد ملتی ہے۔ کھبکی سے اٹھارہ میل مشرق کو جائیں تو ضلع جہلم کی حد ملتی ہے کھبکی سے دس میل مغر ب کو جائیں توضلع میانوالی کی حد ملتی ہے۔ کھبکی سے جنوب کی طرف بیالیس میل پختہ سڑک اور تیس میل براستہ پیدل راہ خوشاب ہے۔ قطب شاہ کی تیرھویں پشت میں جھام ہواہے جس کے متعلق ایک روایت مشہور ہے کہ جھام بہت چھوٹی عمر میں باتیں کرنے لگا تھا ۔اس کی ماں اس قدر خوفزدہ ہوئی کہ اسے کھدر (جنگل) میں برسر راہ ایک ڈھبی(پہاڑی) پر ڈال دیا۔ کسی راہگیر کی نظر جھام پر پڑی اس نے اسے اٹھا لیا ۔چھ سات ماہ کے بچے نے جب اسے اپنے والدین اور گھر کا پتہ بتایاتو راہگیر نے بھی خوفزدہ ہو کر اسے وہیں رکھ دیا۔ لیکن راہگیر نے اتنا کام کیا کہ جھام کے باپ نڈھا کو اطلاع کر دی ۔نڈھا خود جا کر بچے کو گھر اٹھالایا اور گھر پہنچ کر بچے نے مسکرا کر یہ ضرب المثل کہی ۔ جو آج تک زبان زد و عام ہے۔ ’’آپنیاں کھڑمتیں جھام ڈھبیاں اتے سٹیندا‘‘ یعنی اپنی غلطیوں کے باعث جھام پہاڑیوں پر پھینکا گیا۔ اپنی غلطی یہ تھی کہ جھام شیر خوارگی میں ہی باتیں کرنے لگ گیا تھا۔ اسی دن سے اس پہاڑی کا نام ’’ جھامے والی پہاڑی‘‘ پڑ گیا۔
    جھامے والی ڈھبی سے مشرق کی طرف ایک اور پہاڑی ہے جو موروثی والا کے نام سے مشہور ہے۔ اس پہاڑی پر موروثی کی قبر آج تک موجود ہے۔ موروثی قطب شاہ کی سترھیوں پشت پر ہوا ہے۔ اہالیان کھبکی اس کی قبر کو احتراما لیپ پوت رکھتے ہیں۔ قطب شاہ کی تیئسویں پشت میں خان بلاقی اور دریا خان دو بھائی تھے ۔خان بلاقی صاحب اقتدار سخت مزاج اور زمانہ ساز آدمی تھا ۔ اس کے برعکس دریا خان نرم دل،سادہ لوح اور عبادت گذار انسان تھا۔ خان بلاقی دریا خان کی سادہ لوحی اور بے نیازی سے بہت چڑتاتھا اور اسے تحقیر آمیز نظروں سے دیکھتا تھا۔
    سردیوں کی ایک رات کا پچھلا پہر تھا ۔ خان بلاقی تہجد پڑھنے کے لئے مسجد میں گیا ۔مسجد کے ایک گوشے میں اس نے ایک کمبل پوش کو مصروف عباد ت دیکھا حیران ہوا کہ اس قدر سردی میں اس وقت عبادت کرنے والا کون ہوسکتا ہے۔ کمبل پوش نے سلام پھیرا تو خان بلاقی نے پوچھا۔ کون ہو تم؟ دریا خان منہ سے کچھ نہ بولا۔چہرے سے کمبل ہٹا کر اپنے بھائی کی طرف دیکھا ۔ خدا جانے اس نگاہ میں کون سا راز پوشیدہ تھا کہ بے اختیار بلاقی خان کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے۔’’ تم عظیم ہو دریا خان! میں ہی غلطی پر تھا‘‘ ۔اس دن سے خان بلاقی دریا خان کی عظمت کا معترف ہو گیا اور اسے عزت و توقیر کی نظروں سے دیکھنے لگا۔www.oqasa.or
    Back to Conversion Tool

    Linux VPS | Dedicated Servers | Urdu Home

    ReplyDelete
  2. کھبکی۔۔۔۔تحریر ملک خدابخش مسافر اعوان
    موضع کھبکی وادی سون سکیسر کے دیہاتوں میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے یہ موضع سون سکیسر کے مشہور قصبہ نوشہرہ سے سڑک کے راستے سات میل شمال مشرق کو واقع ہے۔ (کھبکی سے نوشہرہ کو پیدل راستہ براستہ اچھالہ (اوچھالہ) چار یا پانچ میل ہے ) کھبکی بذریعہ سڑک مغرب کو نوشہرہ اور خوشاب سے ملا ہوا ہے اور مشرق کی طرف جابہ، پیل، چکوال، کٹھہ، راولپنڈی وغیرہ سے ، یہاں کی جھیل مشہور ہے۔قطب شاہ کی پانچویں پشت میں ایک شخصیت مدھو ہوا ہے جس نے کھبکی گاؤں کی بنیاد رکھی تھی۔ زمانے کے ساتھ ساتھ کھبکی کا محل وقوع بھی تبدیل ہوتا رہا ۔ جس جگہ اب کھبکی آباد ہے یہ اس کی تیسری یا چوتھی منتقلی ہے۔ پرانی کھبکی کے آثار شمال کیطرف ’’ الھوڑہ‘‘ اور جنوب کی طرف سوڈھی والے راستے کے آس پاس موجود ہیں۔ موجودہ کھبکی کی جگہہ کبھی ’’ حرملوں والی چاہڑی‘‘ کے نام سے مشہور تھی کیونکہ یہاں کافی تعداد میں حرمل اگتے تھے۔ کھبکی جس وادی میں واقعہ ہے اس کے شمال اور جنوب کی طرف شرقا غربا پہاڑیاں پھیلی ہوئی ہیں یہ وادی شرقا غربا تقریبا آٹھ میل لمبی اور جنوبا شمال ڈیڑھ میل اوسطا چوڑی ہے۔ کھبکی اس وادی کے عین وسط میں آباد ہے۔ شمال کی طرف بڑی وسیع و عریض سطح مرتفع پھیلی ہوئی ہے جسے ’’ پچون ‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر ڈھوکیں آباد ہیں۔ یہ ڈھوکیں اور پچون کی مزروعہ زمینیں سب کھبکی والوں کی ہیں۔ کھبکی کی حدود مغرب میں مردوال تک اور مشرق میں جابہ تک جاپہنچتی ہیں۔ اسی طرح شمال میں تھوہامحرم خان اور چینچی (ضلع کیمبل پور) اور جنوب میں سوڈھی کی حدود سے جاملتی ہیں۔ پچون کے مشرق اور شمال کی طرف مختلف پہاڑیاں پھیلی ہوئی ہیں جومحکمہ زراعت کی زیر نگرانی ہیں مقامی بولی میں ان جنگلات کو کھدر کہتے ہیں کھدر کے خاتمہ پر شمال کی طرف ضلع کیمبل پور شروع ہو جاتا ہے کھبکی سے پانچ میل شمال کو جائیں تو ضلع کیمبل پور کی حد ملتی ہے۔ کھبکی سے اٹھارہ میل مشرق کو جائیں تو ضلع جہلم کی حد ملتی ہے کھبکی سے دس میل مغر ب کو جائیں توضلع میانوالی کی حد ملتی ہے۔ کھبکی سے جنوب کی طرف بیالیس میل پختہ سڑک اور تیس میل براستہ پیدل راہ خوشاب ہے۔ قطب شاہ کی تیرھویں پشت میں جھام ہواہے جس کے متعلق ایک روایت مشہور ہے کہ جھام بہت چھوٹی عمر میں باتیں کرنے لگا تھا ۔اس کی ماں اس قدر خوفزدہ ہوئی کہ اسے کھدر (جنگل) میں برسر راہ ایک ڈھبی(پہاڑی) پر ڈال دیا۔ کسی راہگیر کی نظر جھام پر پڑی اس نے اسے اٹھا لیا ۔چھ سات ماہ کے بچے نے جب اسے اپنے والدین اور گھر کا پتہ بتایاتو راہگیر نے بھی خوفزدہ ہو کر اسے وہیں رکھ دیا۔ لیکن راہگیر نے اتنا کام کیا کہ جھام کے باپ نڈھا کو اطلاع کر دی ۔نڈھا خود جا کر بچے کو گھر اٹھالایا اور گھر پہنچ کر بچے نے مسکرا کر یہ ضرب المثل کہی ۔ جو آج تک زبان زد و عام ہے۔ ’’آپنیاں کھڑمتیں جھام ڈھبیاں اتے سٹیندا‘‘ یعنی اپنی غلطیوں کے باعث جھام پہاڑیوں پر پھینکا گیا۔ اپنی غلطی یہ تھی کہ جھام شیر خوارگی میں ہی باتیں کرنے لگ گیا تھا۔ اسی دن سے اس پہاڑی کا نام ’’ جھامے والی پہاڑی‘‘ پڑ گیا۔
    جھامے والی ڈھبی سے مشرق کی طرف ایک اور پہاڑی ہے جو موروثی والا کے نام سے مشہور ہے۔ اس پہاڑی پر موروثی کی قبر آج تک موجود ہے۔ موروثی قطب شاہ کی سترھیوں پشت پر ہوا ہے۔ اہالیان کھبکی اس کی قبر کو احتراما لیپ پوت رکھتے ہیں۔ قطب شاہ کی تیئسویں پشت میں خان بلاقی اور دریا خان دو بھائی تھے ۔خان بلاقی صاحب اقتدار سخت مزاج اور زمانہ ساز آدمی تھا ۔ اس کے برعکس دریا خان نرم دل،سادہ لوح اور عبادت گذار انسان تھا۔ خان بلاقی دریا خان کی سادہ لوحی اور بے نیازی سے بہت چڑتاتھا اور اسے تحقیر آمیز نظروں سے دیکھتا تھا۔
    سردیوں کی ایک رات کا پچھلا پہر تھا ۔ خان بلاقی تہجد پڑھنے کے لئے مسجد میں گیا ۔مسجد کے ایک گوشے میں اس نے ایک کمبل پوش کو مصروف عباد ت دیکھا حیران ہوا کہ اس قدر سردی میں اس وقت عبادت کرنے والا کون ہوسکتا ہے۔ کمبل پوش نے سلام پھیرا تو خان بلاقی نے پوچھا۔ کون ہو تم؟ دریا خان منہ سے کچھ نہ بولا۔چہرے سے کمبل ہٹا کر اپنے بھائی کی طرف دیکھا ۔ خدا جانے اس نگاہ میں کون سا راز پوشیدہ تھا کہ بے اختیار بلاقی خان کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے۔’’ تم عظیم ہو دریا خان! میں ہی غلطی پر تھا‘‘ ۔اس دن سے خان بلاقی دریا خان کی عظمت کا معترف ہو گیا اور اسے عزت و توقیر کی نظروں سے دیکھنے لگا۔www.oqasa.or
    Back to Conversion Tool

    Linux VPS | Dedicated Servers | Urdu Home

    ReplyDelete