Sunday, February 16, 2014

کراچی جوہری بجلی گھر۔۔۔ ماہرین کے خدشات ۔۔۔ توجہ ضروری ہے

کراچی کے ساحل پرتعمیر ہونے والے جوہری بجلی گھرکے حوالے سے ملک بھر میں ماہر ماحولیات اور طبیعات داں حفاظتی نقطہءنظر سے بہت سے سوالات اٹھا رہے ہیں جن پر غورو فکر انتہائی ضروری ہے۔

حال ہی میں وفاقی حکومت نے چین کے ساتھ جوہری بجلی گھر کے حوالے سے دو معاہدے کیے ہیںجس کے تحت دو جوہری بجلی گھر K-11 اور K-111 تعمیر کیے جائیں گے جن سے 2,200 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔ معاہدے کے تحت ان بجلی گھروں کی تعمیر کے لیے 5.6 بلین ڈالرز کا قرضہ بھی چین کی حکومت فراہم کرے گی۔اس بجلی گھر کی تعمیر چینی انجینئرز کے زیر نگرانی جاری ہے اور اس نیوکلیئر پلانٹ کو چلانے کے لیے افزودہ ایندھن بھی چین ہی فراہم کرے گا۔

پاکستانی سائنس داں اس حوالے سے شدید خطرات کا اظہار کررہے ہیں ۔آئیے دیکھتے ہیں کہ ماہرین کے خدشات کی نوعیت کیا ہے ؟
کراچی تقریبا دو کروڑ آبادی پر مشتمل پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔۔۔اور یہ جوہری بجلی گھراس گنجان آبادشہر سے صرف 40کلو میٹر کے فاصلے پریعنی آبادی کے انتہائی قریب تعمیر کیا جارہے ہیں۔ماہرین کے نزدیک آبادی کے اتنے قریب ایٹمی بجلی گھر کی تعمیر ایک انتہائی خطرناک عمل ہے۔کسی بھی حادثے کی صورت میں تابکار ی اثرات کے ماحول اور انسانی صحت پر بدترین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس حوالے سے چرنوبل اور جاپان کے حادثات سے سبق سیکھنا چاہیے۔کراچی کی ساحلی پٹی کوماہرین ارضیات زلزلے سے مکمل طور پر محفوظ قرار نہیں دیتے۔یہاں سمندری طوفانوں کا بھی خطرہ موجود ہے ۔ کراچی اور بلوچستان کی ساحلی پٹی کئی بار سمندری طوفانوں کی بلاخیزی دیکھ چکی ہے اگرچہ یہ طوفان جاپان کی سونامی جیسے نہیں تھے لیکن اس خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔جغرافیہ دانوں کے مطابق پچھلے 56 سالوں میں مختلف شدت کے 25 زلزلے کراچی کے ساحلوں سے ٹکرا چکے ہیں لہذاکسی بڑے حادثے کی صورت میں ہنگامی بنیادوں پرنمٹنے کا کسی کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہوگا۔




ماہرین کو لاحق دیگر خدشات میں سے ایک اس بجلی گھر کا ڈیزائن بھی ہے۔ اس نیو کلیئر پاور پلانٹ کے لیے چینی کمپنی کے ڈیزائن کردہ جو دو ACP-1000 نیوکلئیر ریکٹر حاصل کیے جارہے ہیں وہ اپنی نوعیت کے نئے اوران کی کارکردگی کا اس سے پہلے دنیا بھر میں کہیں تجربہ نہیں کیا گیا۔  

یہ دونوں ریکٹرچین کی ایک کمپنی چائنا نیشنل نیو کلیئر کارپوریشن  (China National Nuclear Corporation) میں بدستور تیاری کے مراحل میں ہیں اور غور طلب بات یہ ہے کہ اس ڈیزائن پرکوئی پاور پلانٹ اس سے پہلے دنیا بھر میں کہیں تعمیریا تجربہ نہیں کیاگیاہے حتی کہ چین میں بھی نہیں!

نامور ماہر طبیعات پرویزہود بھائی کے مطابق ہمیں صرف وہی ریکٹر خریدے چاہئیں جنہیں ٹیسٹ کیا جا چکا ہو اور جوقابل بھروسہ ہوں اور اس میں کئی متبادل نظام موجود ہونا چاہئیں جو کسی بھی حادثے کی صورت میں مناسب متبادل فراہم کرسکیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ چینی ریکٹر اس معیار پر پورے نہیں اترتے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ” کسی بھی حادثے کے نتیجے میں کراچی میں 40 کلومیٹر اندر تک کی فضا آلودہ ہوجائے گی اور لوگوں کے متاثر ہونے کا خطرہ موجودہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ  یہ بہت بڑے پلانٹ ہیں اور اتنے بڑے پلانٹ خود چین نے بھی اس سے قبل نہیں بنائے ہیں اور یہ پہلا ماڈل ہوگا جو پاکستان میں لگایا جائے گا۔  یہ تو ایک تجرباتی ماڈل ہے اور اس میں حفاظتی تدابیر کا ہمیں علم نہیں ہے۔  ان بجلی گھروں میں ٹنوں کے حساب سے جوہری مادہ ہوتا ہے اور کسی حادثے کے نتیجے میں اگر اس مادے کا صرف پانچ فیصد بھی خارج ہوتو کراچی کے لوگوں کے لیے بہت خطرناک ہوگا۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے چین کی اس نیوکلیئر ایٹمی صلاحیت کا پوری دنیا میں صرف پاکستان ہی خریدار ہے اور ایک ایسا ریکٹر جس کا تجربہ چین میں بھی نہیں کیا گیا ہے اسے کراچی شہر کے نزدیک نصب کرنا گویا دوکروڑ کی آبادی کو تجربے کی بھینٹ چڑھانا ہے۔

 آج سے اٹھائیں سال پہلے اپریل 1986میں دنیا ایسے ہی ایک سانحے سے گزرچکی ہے جب یوکرائن میں چرنوبل کے ایٹمی پلانٹ کا ری ایکٹر نمبر چار ایک دھماکے سے پھٹ گیا تھا جس کے بعد نصف شمالی کرے کے تقریبا تمام ممالک میں تابکاری کے اثرات پھیل گئے تھے۔
یوکرائن میں چرنوبل کے سانحے میں تابکاری کا علم ہونے کے بعد علاقے بھر کے ایک لاکھ پینتیں ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا تھا۔ بعد میں مزید دو لاکھ تیس ہزار افرادکو محفوظ مقامات پر پہنچادیا گیا۔ ماحول کے لیے کام کرنے والی تنظیم گرین پیس کے مطابق اس حادثے میں تابکاری سے ابتدائی طور پرمتاثر ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہوسکتی ہے اور متاثرہ علاقوں میں اب تک بیماریوں کی بڑھتی ہوئی شرح اس تعداد کو اور بڑھارہی ہے ۔

اس سانحے کی بیس ویں سالگرہ (2006)کے موقع پر گرین پیس کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 1986 سے2056 یعنی ستر برس میں یوکرائن، بیلارس اور روس کے اندر تابکاری کا شکار ہونے والے مزید 93 ہزار افراد ہلاک ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ بیلارس میں خون کے کینسر سے لگ بھگ تین ہزار افراد اور تھائرائڈ گلینڈ کینسر سے 14ہزار افراد مزید ہلاک ہوجائیں گے۔ ایٹمی ری ایکٹر سے نکلنے والی تابکاری کس حد تک مہلک ہوسکتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی جسمانی اور ذہنی طور پر معذور بچے پیداہورہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اثرات ابھی کئی دہائیوں تک موجود رہیں گے اور اس سانحے سے متاثر ہونے والے بچے کسی نہ کسی بیماری کا شکار رہیں گے۔

دوسرا بڑا حادثہ 2011 کے اپریل میں جاپان میں پیش آیا۔ چار دہائیوں سے کام کرنے والے فوکوشیما کے ایٹمی بجلی گھر کے بارے میں کسی نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ یہ کسی وقت انسانی زندگی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن جائے گا۔ وہ ایٹمی بجلی گھر جو چالیس سال تک جاپان کی توانائی کی ضروریات پوری کرتا رہا 2011 میں جاپان اور دنیا بھر کے لیے ایک خطرہ بن گیا۔ سونامی سے جو تباہی پھیلی اس میں فوکوشیما ایٹمی بجلی گھر کی تباہی انتہائی ہولناک تھی ۔ ایٹمی بجلی گھر میں لگنے والی آگ نے اس نے پوری دنیا کو خوف زدہ کردیا ۔ جاپانیوں نے اس بجلی گھر کو تعمیر کرتے ہوئے سخت حفاظتی انتظامات کیے تھے۔اسے زلزلے سے محفوظ رکھنے کا بھی انتظام کیا تھالیکن 9 درجے کی شدت کے زلزلے نے سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا۔ اس بجلی گھر کو سونامی سے محفوظ رکھنے کے لیے بہت اونچی دیوار بھی تعمیر کی گئی تھی لیکن سمندر کی لہریں اس دیوار سے بھی بلند تھیں جو باآسانی اسے پھلانگ کر پلانٹ کے اندر گھس گئیں اور وہ تباہی پھیلی کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس کی بھی تحقیقات ہورہی ہیں کہ زلزلے اور سونامی کے علاوہ اندازے کی کون سی ایسی غلطیاں تھیں جن کی وجہ سے ایٹمی پلانٹ پھٹا اور تابکاری کا عذاب نازل ہوا۔

جاپان میں فوکوشیما جوہری تباہی کے ڈھائی سال گزرجانے کے بعد بھی اب تک تابکاری اثرات کا حامل سیکڑوں ٹن پانی ہر روز سمندر میں شامل ہورہا ہے ۔ تابکاری کے اثرات کو ختم کرنے میں ممکنہ طور پر تیس سال لگیں گے اورآس پاس کی کچھ جگہیں ایسی بھی ہیں جو کبھی بھی تابکاری سے پاک قرار نہیں دی جاسکیں گی یوں اس جگہ سے بے دخل کیے جانے والے مقامی لوگ کبھی بھی اپنے گھر واپس جانے کی اجازت نہیں حاصل کرسکیں گے۔

فوکوشیما حادثے کے بعد جرمنی، جاپان اور سوئٹزرلینڈ نے توانائی کے حصول کے لیے ایٹمی ذرائع سے دستبرداری کا فیصلہ کیا ، جرمنی اس حوالے سے آئندہ پانچ سالوں میں مکمل طور پر ایٹمی پیداوار بند کردے گا جبکہ امریکا میں بھی کوئی نیا منصوبہ روبہ عمل نہیں ہے۔جبکہ دوسری طرف سعودی عرب، ایران ، انڈیا اور پاکستان اس حوالے سے نئے منصوبے بنا رہے ہیں۔ جاپان جیسا ترقی یافتہ اور مضبوط معیشت کا حامل ملک بھی اپنے ایٹمی بجلی گھر کی حفاظت نہیں کرسکا کجا کہ پاکستان جیسا کمزور معیشت کا حامل ملک جس کی گلی کوچوں میں دن رات دہشت گردی کی آگ پھیل رہی ہو وہ کسی حادثے کی صورت میں بچاؤکیسے کرسکتا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب تک دنیا بھر میں سیکڑوں ایٹمی حادثات رونما ہوچکے ہیں اور بیشتر رازوں کو قومی راز بنا کر قومی مفاد میں دفن کردیا گیا ہے۔

تحفظ ماحول پر کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم آئی یو سی این کے محمد طاہر قریشی اس سلسلے میں 1971میں تعمیر کیے گئے کراچی نیوکلئیر پاور پلانٹ (KANUPP) کی مثال دیتے ہیں جسے تابکاری خطرات سے محفوظ سرکاری دعوؤں کے باوجود غیر فعال کردیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں کراچی نیوکلئیر پاور پلانٹ (KANUPP) میں ہونے والے حادثات کا اگرچہ کوئی باقاعدہ اعداد و شمار اور ریکارڈ موجودنہیں ہے، مگرطاہر قریشی کا کہنا ہے کہ ان کا مشاہدہ ہے کہ پلانٹ سے نکلنے والے پانی کو ٹھنڈاکرنے کے لیے سمندر میں اخراج کیا جاتا تھاجس سے سمندری حیات خصوصاماہی گیری اور مقامی آبادی کی صحت پر خطرناک اثرات رونما ہورہے تھے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پلانٹ کا حفاظتی نظام ناقابل بھروسا تھا اور ایک بڑی تباہی کا سبب بن سکتا تھا۔ یہ تباہی 1984 ءمیں بھوپال، انڈیا میں کیمیائی پلانٹ کی تباہی سے بھی بڑی ہوسکتی تھی جس میں ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔ جبکہ پلانٹ میں کسی خرابی کی صورت میں ہنگامی بنیادوں پر اس کا کوئی متبادل نظام بھی موجود نہیں تھا۔

طاہرقریشی کے مطابق، حکام اس کے خطرات کے بارے میں بالکل غیر متعلق اور بے پروا نظر آتے ہیں اور کسی بھی انسانی غلطی کے نتیجے میں پھیلنے والی تباہی کو کم کرنے یا آبادی کو نقصانات سے بچانے کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ حالانکہ کسی بھی منصوبے کے آغاز سے قبل یہ تمام احتیاطی تدابیر، قومی اور علاقائی منصوبہ سازوں میں اس حوالے سے آگہی، منصوبے کے ڈیزائن میں زمین کے استعمال کی منصوبہ بندی اور خطرات کا شکار علاقوں کی نشان دہی منصوبہ بندی میں واضح طور پرشامل ہونا چاہیے ۔

ماہرین کے نزدیک خدشے کی بات یہ بھی ہے کہ اس منصوبے کے حوالے سے نہ ہی تو کوئی مباحثہ یا عوامی شنوائی (پبلک ہئیرنگ) کی گئی اور نہ ہی اس منصوبے کے ماحولیاتی تجزیے (Environment Impact Assessment)  کی رپورٹ عوامی سطح پر فراہم کی گئی۔ پاکستان کے کثیر الاشاعت انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق  پاکستان اٹامک انرجی کمیشن یا پاکستان نیوکلئیر ریگولیٹری اتھارٹی نے اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں دی کہ اس ریکٹر کی وجہ سے اگرکوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تواس کا سدباب کیسے ہوگا اور بچاؤ کی کیا صورت ہوگی!

اس حوالے سے صرف منصوبے کی مجوزہ جگہ کی جائزہ رپورٹ یعنی Site Evaluation Report موجود ہے اور ماہرین کے مطابق اس میں بھی بہت سی خامیاں موجود ہیں مثلا اس میں کراچی کی آبادی کو تقریبا نصف یعنی 10ملین بتایا گیا ہے، اس کے علاوہ ماحولیاتی تجزیےEnvironment Impact Assessment Report (EIA) اور ریکٹر سیفٹی رپورٹس بھی موجود نہیں ہیں اور اگر موجود ہیں تو یقینا صیغہ ءراز میں رکھی گئی ہیں۔کیونکہ ماحولیاتی تجزیے کی رپورٹ پر کوئی عوامی شنوائی یا پبلک ہیئرنگ نہیں ہوئی جو کہ خلاف قانون ہے۔

ماہر آب اور زراعت ڈاکٹرپرویز امیرکا کہنا ہے کہ ہم نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس سلسلے میں تمام حفاظتی انتظامات بہت ضروری ہیں۔کراچی جیسے گنجان آبادی کے اتنے قریب یہ پلانٹ نہیں لگانا چاہیے۔ ہمارے پاس بہت طویل ساحلی پٹی موجود ہے، آپ اسے آبادی سے دور لے جائیں۔یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ ٹرانسمیشن لائن طویل ہوگی تو خرچ بڑھے گا، انسانی جانوں کے بچاؤاور حفاظت کے پیش نظر خرچ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

ڈاکٹر صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ” ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس قسم کے تکنیکی فیصلوں کو کرتے ہوئے سیاست داں ماہرین کی آرا کو بھی ضرور پیش نظر رکھیں۔پاکستان خدا کے فضل سے ایک ایٹمی طاقت ہے اور دہشت گردی کے بدترین خطرے کے باوجود ہم نے دنیا کو دکھادیا ہے کہ ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں۔ہمارے پاس ماہرین بھی ہیں اورصلاحیت بھی تو ہم ایک ایسی ٹیکنالوجی چین سے کیوں لے رہے ہیں جو کبھی چین نے خود اپنے ملک میں بھی استعمال نہیں کی۔ہمارا ملک ٹیسٹنگ گراؤنڈ نہیں ہے۔“ڈاکٹر پرویز امیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ” ہم چشمہ ایٹمی گھرکے حوالے سے بالکل فکرمند نہیں ہیں کیونکہ وہ آبادی سے دور ہے۔کسی حادثے کے نتیجے میں ماحول پر تو اثرات مرتب ہوسکتے ہیں لیکن انسانوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

کراچی پاور پلانٹ کے حوالے سے ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے تمام حفاظتی تدابیر اختیار کرنا چاہیے اور تربیت کے لیے جاپانی ماہرین سے بھی مدد لی جاسکتی ہے جو فوکوشیما کی تباہی کے بعدان مراحل سے گزررہے ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان میں جوہری بجلی گھر لگانے کا یہ پہلاتجربہ نہیں ہے۔ کراچی میں اس سے قبل کینپ نامی پلانٹ لگایا گیا تھا، اس کے علاوہ چشمہ کے مقام پر لگائے جانے والے جوہری بجلی گھرسی ون اور سی ٹو قومی گرڈ کو 650 میگا واٹ کے قریب بجلی فراہم کررہے ہیں جبکہ چشمہ کے ہی مقام پر مزید دو جوہری گھر سی تھری اور سی فور پر بھی کام جاری ہے جو 2016 تک مکمل ہوجائیں گے۔


اخباری اطلاعات کے مطابق جوہری توانائی کیمشن کے ایک اعلی عہدیدار نے کراچی میں دو جوہری بجلی گھروں کی تعمیر پر مقامی ماہرین کے خدشات کو مسترد کردیا ہے۔پاکستان اٹامک کمیشن کا موقف ہے کہ ان ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر کی منصوبہ بندی میں تمام ضروری قواعد و ضوابط کا خیال رکھا گیا ہے۔

Sunday, February 2, 2014

پرندوں سے خالی آب گاہوں کی آلودگی کا نوحہ !!!

اچالی کے کنارے سفید سر مرغابی کے منتظر۔۔۔اور کینجھرکا آلودہ پانی ۔۔۔ کیا ہم کسی سانحے کے منتظر ہیں !!!
آب گاہوں کے عالمی دن کے حوالے سے دو اہم آب گاہوں کا جائزہ !

یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا ۔۔۔کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کرجانا!

جنگل، پیڑ، پودے، رنگارنگ پھول، ہلکورے لیتی اور رنگ بکھیرتی آب گاہیں اور ان کے کناروں پر اترتے ،چہچہاتے پرندے اور ان میں ہنستا بستا انسان ، کوئی بھی ماحول فطرت کے تمام رنگوں سے مل کر ہی تشکیل پاتا ہے۔ مصور فطرت کی بے عیب تصویر میں سے اگر ایک رنگ مٹ جائے تو ساری تصویر عیب دار ہوجاتی ہے۔ پرندے اور دیگر جان دار کسی بھی ماحول کی صحت کی علامت ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر کسی خاص پرندے کی نوع وہاں آنا چھوڑ دے تو جان لیجیے کہ یہ وہاں بسنے والوں کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہماری زندگی کی فطری زنجیر کی کڑیوں میں سے ایک کڑی پرندے بھی ہیں اور اگرزنجیر کے درمیان سے کوئی کڑی ٹوٹ جائے تو پھر زنجیر کی مضبوطی کیسی !

دوفروری کو دنیا بھر میں آب گاہوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔اس سال یہ دن آب گاہیں اورزراعت ؛ ترقی کے شراکت دار(Wetlands and Agriculture: Partners for Growth) کے عنوان کے تحت منایا جارہا ہے۔




آب گاہوں کے حوالے سے پاکستان عالمی سطح پر اس وقت پہچانا گیا جب 1976 میں پاکستان نے رامسر کنونشن پر دستخط کیے۔یہ کنونشن ایران کے شہر رامسر میں1971میں تشکیل پایا۔یہ ایک عالمی سطح کا معاہدہ ہے جس کے تحت آب گاہوں کے تحفظ کے لیے کوششیں اور وسائل مہیا کیے جاتے ہیں۔

رامسر کنونش کے تحت عالمی سطح پر ایسی آب گاہوں کی فہرست تیار کی گئی ہے جو متعینہ معیار کے مطابق عالمی اہمیت کی حامل ہیں تاکہ ان آب گاہوں کی حفاظت کے لیے ترجیحی بنیادوں پر منصوبے بنائے جائیں۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک کو تین عہد ایفا کرنے ہوتے ہیں۔
 (1)  عالمی اہمیت کی آب گاہوں کو رامسر فہرست میں شامل کروانا
 (2)  تمام آب گاہوں کے دانش مندانہ استعمال کے لیے منصوبہ بندی کرنا
(3)   انواع اور پانی کے مشترکہ نظاموں کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعاون کرنا۔

اس کنونشن میں ابتدائی طور پر138 ممالک شریک تھے ۔جب پاکستان نے اس پر دستخط کیے تو ہمارے ملک کی مجموعی آب گاہوں کا مجموعی رقبہ تقریبا 7,800کلو میٹر تھا۔ اور یہاں عالمی معیار کی آٹھ آب گاہیں تھیں۔2003ءتک ان آبی ٹھکانوں کی تعداد 16 ہوگئی تھی۔اقوام متحدہ نے جب 2003ءکے سال کو ”میٹھے پانی کا سال“کے طور پر منایا تو اس سال کی نسبت سے 3نئی آب گاہیں رامسر سائٹ میں شامل کی گئیں ۔یہ تینوں آب گاہیں یعنی، انڈس ڈیلٹا، رن آف کچھ اور دیہہ اکڑوسندھ میں واقع ہیں۔  ان تین نئی آب گاہوں کے اضافے سے پاکستان میں بین الاقوامی اہمیت کی حامل آب گاہوں یعنی رامسر سائٹ کی تعداد 19ہوگئی۔  ان آب گاہوں کے نام درج ذیل ہیں۔

سندھ میں موجود9 آب گاہوں کے نام کینجھر جھیل، دیہہ اکڑو ، ڈرگ جھیل، ہالیجی جھیل ،انڈس ڈیلٹا ،انڈس ڈولفن ریزرو ، جبھو لگون ، نرڑی لگون اوررن آف کچھ ، جبکہ صوبہ پنجاب میں تونسہ بیراج ، اچالی کمپلیکس (کھبیکی، اچالی اور جھلر جھیل) ،چشمہ بیراج ، بلوچستان کی آب گاہوں میں استولا آئی لینڈ،جیوانی کوسٹل آب گاہ ، حب ڈیم ، میانی ھور، اومارہ ٹرٹل بیچ ، جبکہ سرحد میں دو آب گاہیں ٹانڈا ڈیم اورتھانے دار والاپائی جاتی ہیں۔

پاکستان مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے اس لیے بہت سے پرندے جو وسطی اور شمالی ایشیا میں پیدا ہوتے اور پرورش پاتے ہیں وہ افغانستان کے راستے وادی سندھ کا رخ کرتے ہیں اور خصوصا سندھ کی آب گاہوں پر قیام کرتے ہیں۔یہ آب گاہیں ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی سرمائی رہائش گاہ کا درجہ رکھتی ہیں۔

ساحلی علاقوں اور دریاؤں کے دہانوں پر واقع یہ آبی ٹھکانے طری طرح کی آبی حیات یعنی مچھلیوں، جھینگوں اور کیکڑوں وغیرہ کے انڈے بچے دینے اور ان کی پرورش کے لیے بہترین جگہ تصور کی جاتی ہیں۔موسم سرما میں نقل مکانی کرکے آنے والے ہزاروں اقسام کے آبی پرندے لاکھوں کی تعداد میں ان آب گاہوں پر قیام کرتے ہیں۔

آج ہم پنجاب میں موجود تین جھیلوں ( رامسر سائٹ) کے ایک کمپلیکس اچالی کا ذکر کریں گے جو تین مختلف قدرتی آب گاہوں پر مشتمل ہے۔کچھ عرصہ پہلے ہمیں نہایت قریب سے اس آب گاہ کو دیکھنے کا موقع ملا۔

سطح مرتفع پوٹھوہار کے جنوبی کنارے کی حد بندی پاکستان کا معروف سلسلہ کوہ نمک کرتا ہے جو مغرب میں میانوالی سے لے کر مشرق میں جہلم تک پھیلا ہوا ہے۔ اسے کوہ نمک اس لیے کہا جاتا ہے کہ کیونکہ دنیا کے دوسرے سب سے بڑے نمک کے ذخائر یہاں دریافت ہوئے تھے۔ نمک کے یہ ذخائر 50 ملین سال قبل انڈین پلیٹ کے ایشین پلیٹ کے ساتھ ٹکرانے کے نتیجے میں بحیرہ ءٹیتھس کی تبخیر اور دریائے سندھ کے میدانوں کے قیام کا نتیجہ تھے۔

کوہ نمک کا مغربی کنارہ ایک نیم دائرہ تشکیل دیتا ہے جو وادی سون کو تخلیق کررہا ہے۔  وادی کے وسط میں بلندی سطح سمندر سے 2,000 فٹ ہے۔ یہاں واقع پانی کی نمکین جھیلیں بین الاقوامی اہمیت کی حامل ہیں اور سائبیریا سے آنے والے مہمان پرندوں کا گھر ہیں جن میں بقا کے خطرے سے دوچار مرغابیوں کی چند انواع سر فہرست ہیں۔

کوہ نمک کی آب گاہوں کا کمپلیکس کلر کہار جھیل ، کھبیکی، اچھالی، جھلر اور نمل جھیلوں پر مشتمل ہے۔ یہ علاقہ مقامی بھیڑوں کی ایک قسم پنجاب اڑیال کا مسکن بھی ہے۔

کھبیکی کا علاقہ نمکین اور کیچڑ زدہ ہے اور سردیوں میں پرندوں کے کئی اقسام کے لیے انتہائی پرکشش ہے جن میں خطرے سے دوچار سفید سر والی بطخیں بھی شامل ہےں۔ گذشتہ چند سالوں سے جھیل پر آنے والی مرغابیوں کی تعدادمیں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ کیونکہ اس آبی علاقے کے کمزور حیاتیاتی تنوع کو پرندوں اور مچھلیوں کے بے جا شکار اور جھیلوں میں پانی کی کمی سے زبردست نقصان پہنچا ہے۔ اچھالی جھیل بھی نمکین پانی رکھتی ہے اور ہجرت کرنے والے لم ڈھینگوں کے لیے مثالی علاقہ ہے۔ ہر سال یہ پرندے 3 سے 4 مہینوں کے لیے یہاں قیام کرتے ہیں اور اپنے طویل سفر کو جاری رکھنے کے لیے یہاں توانائی اکھٹا کرتے ہیں۔ کھبیکی ، اچھالی اور جھلر کو اچھالی کمپلیکس کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور 1996 میں اسے رامسر سائٹ تسلیم کیا گیا۔

اچھالی کمپلیکس کو 1966میں جنگلی حیات کے لیے محفوظ قرار دیا گیا تھا۔ دس سال بعد جب پاکستان نے 1976میں رامسر کنونشن میں شمولیت اختیار کی تو نایاب پرندوں کی آمد کے باعث ان جھیلوں کو رامسر سائٹ یعنی بین الاقوامی اہمیت کی حامل آب گاہ کا درجہ دیا گیا ۔ رامسر سائٹس میں ان جھیلوں کا نمبر 818 ہے۔ رامسر کنونشن میں ان آب گاہوں کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے جہاں معدومی کے خطرے سے دوچار جانور، پرندے اور پودے پائے جاتے ہیں۔

سائیبیریا کے سرد علاقوں سے آنے والے مہمان پرندوں میں سب سے اہم سفید سر والی بظحیں ہیں جن کی نسل کو اب بقا کا خطرہ لاحق ہے۔ اس کے علاوہ لم ڈھینگ، سارس ، چتکبرا سارس، قاز ، سفید آنکھوں والی مرغابی، خاکستری رنگ کے گدھ اور شاہی عقاب بھی اس علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ ان جھیلوں میں مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں۔  بدلتے موسموں کی تبدیلی سے جھیلوں میں پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ علاقے سے بڑے پیمانے پر جنگلات کا صفایا بھی پرندوں کے لیے بہت بڑے خطرے کی صورت سامنے آیا ہے۔

کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب وادی سون کے پہاڑ گھنے جنگلات سے ڈھکے ہوئے تھے۔ اس بات کی سچائی کا یقین کوہ نمک کی بلند ترین چوٹی سکیسر (1524میٹر) کو دیکھ کر ہوتا ہے جہاں آج بھی گھنے جنگلات موجود ہیں ۔ یہ جنگلات پاک فضائیہ کی ملکیت ہیں اورصد شکر کہ کسی بھی قسم کی مداخلت سے محفوظ ہیں۔

اس دوردراز علاقے میں چونکہ گیس کی فراہمی نہیں اس لیے مقامی لوگ سالہا سال سے اپنی ضرورت کے لیے لکڑی جنگلات کاٹ کر حاصل کرتے ہیں۔ علاقے میں کان کنی کی سرگرمیوں کے باعث جنگلاتی آگ نے بھی بے شمار درخت راکھ کا ڈھیر کردیے۔ وادی سون کے جنگلات بچانے کے لیے بہت سی تنظیمیں یہاں کام کررہی ہیں جن میں سب سے اہم اقدام جنگلات بچانے اور لکڑی کے متبادل کے طور پر علاقے میں 2008 سے اب تک درجن بھر بائیو گیس یونٹ کی کامیابی سے تنصیب ہے۔ بائیو گیس کے یہ پلانٹ بہت موثر اور چلانے میں بہت آسان ہیں۔ ابتدائی اخراجات کے بعد اسے چلانے کے لیے صرف جانوروں کے فضلے کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر کسی بھی فرد کے پاس چار بڑے جانور یعنی گائے، بھینس اور بیل وغیرہ ہوں تو ان کا فضلہ اس پلانٹ کو چلانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر علاقے کے تمام فارموں میں یہ بائیو گیس پلانٹ نصب کردیے جائیں تو صرف دو تین سالوں میں ارد گرد کے جنگلات پھر سے ہرے بھرے ہوجائیں گے۔

 جنگلات کا پھر سے ان زمینوں پر موجود ہونا علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح کو بھی بڑھا دے گا۔ آبی ذخائر اور جھیلیں پھر سے آباد ہوجائیں گی۔ پرندے پھر سے ان علاقوں کا رخ کریں گے اور ہماری زندگی کی ٹوٹی ہوئی زنجیر پھر سے مکمل ہوجائے گی۔

کینجھر جھیل۔۔۔کراچی کے پانی کاذخیرہ آلودہ تر ہوتا جارہاہے !

میلوں دور تک نیلگوں پانی کا ذخیرہ ، کینجھرجھیل لاکھوںماہی گیروں کا ذریعہءمعاش ، پرندوں کی پناہ گاہ اور کراچی اورٹھٹھہ کے باسیوں کے لیے پینے کے پانی کا وسیلہ بھی ہے۔۔۔ لیکن اب اس پانی پر آلودگی کے مہیب سائے ڈول رہے تھے۔

کلری یا کینجھر جھیل کراچی سے 122 کلومیٹر دور ضلع ٹھٹھہ میں واقع ہے، جس کی لمبائی تقریبا 32 کلومیٹر اور چوڑائی ساڑھے چھ کلو میٹر سے زائد ہے ۔اسے بین الاقوامی اہمیت کی آب گاہ یعنی ” رامسرسائٹ“ کا درجہ بھی حاصل ہے ۔ دریائے سندھ سے نکلنے والی نہر کلری بگھار فیڈر یا کے بی فیڈرکے ذریعے اس جھیل کومسلسل میٹھا پانی فراہم کیا جاتا ہے تاکہ یہاں پرندوں کی آمدورفت اور لاکھوں افراد کا ذریعہء معاش یعنی ماہی گیری کی سرگرمیاں جاری رہیں اور یہی پانی بعد ازاں کراچی اور ٹھٹھہ کے باسیوں تک پینے کے لیے پہنچادیاجاتا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی کی 70% آبادی کو پینے کے لیے یہی پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ کینجھر جھیل کے پانی کی آلودگی سے صرف نظر کرنا لاکھوں زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔گذشتہ سال سے کینجھرجھیل کے پانی کی بڑھتی ہوئی آلودگی کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی جا رہی ہےں۔ جھیل کے پانی کی آلودگی کا ذریعہ دریائے سندھ سے نکلنے والی نہر کے بی فیڈر ہے جو دریائے سندھ کا پانی کینجھر جھیل تک پہنچاتی ہے ۔ اس نہرکے ذریعے کوٹری اور نوری آباد کی صنعتوں سے نکلنے والا کیمیائی آلودہ فضلہ چلیا بند اور کوٹری کے قریب اس پانی میں شامل ہورہا ہے ۔ کروڑوں کی آبادی والے شہر کراچی کے ذخیرہ آب کا آلودہ ہونا کسی بڑے انسانی المیے کو جنم دے سکتا ہے۔ دس سال پہلے منچھر جھیل کے آلودہ پانی سے ایسی ہی صورت حال نے جنم لیا تھا اور مئی 2004 میں حیدرآباد کے 60 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ۔ پاکستان کے ماحولیاتی قوانین برائے 1997 کے تحت تمام صنعتی ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اپنے کیمیائی فضلے کو اخراج سے پہلے صاف کریں گے۔ لیکن ہم اپنے آبی ذخائر کو بطور گٹر سمجھتے ہوئے ایک محتاط اندازے کے مطابق تیس لاکھ ایکڑ فٹ استعمال شدہ پانی آبی ذخائر میں انڈیل دیتے ہیں۔ ہمارا یہ رویہ اپنے آبی وسائل کے حوالے سے عام ہے۔

کے بی فیڈر نہر میں متعلقہ صنعتیں اپنا فضلہ براہ راست نہر میں انڈیل دیتی ہیں اور اس آلودہ پانی کو صاف کرنے کا کوئی روایتی یا جدید طریقہ استعمال نہیں کیا جاتا ۔اس حوالے سے متعلقہ تمام ادارے انتہائی غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

آبی وسائل کے تحفظ کے حوالے سے ہمیں اپنا رویہ بدلنا ہوگا، ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ پاکستان دنیا کے کم آبی وسائل کے حامل ممالک میں شامل ہے اور اگر ہم نے آبی انتظامات کی صلاحیت کو بہتر نہیں کیا تو بہت جلد ہم انتہا ئی آبی قلت والے ملکوں میں شامل ہوجائیں گے ۔ ہمارے وسائل دن بدن کم اور بے دریغ ضائع ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ 1947 میں پاکستان میں دستیاب پانی کی فراہمی فی فرد 5000 کیوبک میٹر تھی جبکہ اب یہ مقدار گھٹ کر 1000کیوبک  میٹر فی فرد رہ گئی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آبی وسائل کے تحفظ کے لیے زمین کا جنگلات سے زیادہ سے زیادہ ڈھکا ہونا بہت ضروری ہے لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے یہ وسیلہ 5% سے زیادہ نہیں ہے ( یہ اعدادو شمار بھی بہت متنازعہ ہیں)  جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں یہ 23% تک ہے،دیگر پڑوسی ممالک بھی جنگلات میں اضافے کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کررہے ہیں جوکہ آبی وسائل کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ آبی وسائل کے تمام ذرائع کے تحفظ کے لیے زمین پر سبزے کی چادر کا موجود ہونابہت ضروری ہے۔ یہ درخت ، پودے اور سبزہ ہی ہوتاہے جو پانی کو ضائع ہونے سے بچاتا ہے اور اسے کسی قیمتی امانت کی طرح زمین کی گود میں ڈال دیتا ہے۔ پانی کا ہر قطرہ کتنا اہم ہے اس کا اندازہ اس جملے سے لگائیے جو اب کسی کہاوت کے طور پر ہی رائج ہوچکا ہے   Catch water where it fallsکہ” پانی کے ہر قطرے کو وہیں محفوظ کرلیا جائے جہاں یہ گرتا ہے“۔ 

دنیا پانی کے ہر قطرے کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات کررہی ہے جبکہ ہم کینجھر جھیل جیسے پانی کے وسیع اور قدیم ذخیرے کو آلودہ تر کیے جارہے ہیں۔ ایک بار پھر یاد دلاتے چلیں کہ اس حوالے سے غفلت اور بے پرواہی کسی بڑے انسانی المیے کو جنم دے سکتی ہے۔ ہمیں اس سے پہلے اقدامات کرنے ہوں گے۔