Thursday, May 15, 2008

حلقہ فکر سے میدان عمل تک ۔۔۔ راہ دشوار سہی مگر نا ممکن نہیں

اپنے لیے ہم بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔

 گرمیوں کی ڈھلتی سہہ پہر تھی ،دھوپ کی تمازت ختم ہوچکی تھی اورہوا میں ٹھنڈک گھل رہی تھی، میں ایک صاف ستھری گلی میں کھڑی چاروں جانب دیکھ رہی تھی۔میرے ساتھ جنگ میگزین کے ایڈیٹر اور انگریزی روزنامے سے وابستہ ایک خاتون بھی تھیں۔ہم اس تبدیلی کا خاموشی سے جائزہ لے رہے تھے جس نے بجا طور پر اس علاقے میں ایک خاموش انقلاب برپا کردیا تھا ۔یہ ایشیا کی سب سے بڑی ” کچی آبادی “ اورنگی ٹاؤن تھا۔اس صاف ستھرے علاقے کو اب کچی آبادی کہنا یقینا زیادتی تھا۔کیونکہ ہمارے لیے کچی آبادی کا تصور کچھ اور تھا۔اورنگی ٹاؤن کی تقریبا14لاکھ آبادی اپنے گھروں میں آسودگی سے زندگی گذار رہی ہے۔اسے جینے کا قرینہ آگیا ہے ۔ صاف ستھرے محلے ، پختہ گلیاں، ڈھکے ہوئے گٹر ایک صاف ستھری آبادی نکھر کر سامنے تھی جو ”پوش علاقوں“ سے بھی زیادہ چمک دمک رہی تھی۔بلاشبہ اس خاموش انقلاب کے بانی معروف سماجی سائنس داں مرحوم ڈاکٹر اختر حمید خاں تھے،اورنگی کا جائزہ لیتے ہوئے انہی کا ایک شعر مجھے یاد آگیا ۔شاید اسی علاقے کے لیے انہوں نے کہا ہوگا

ہزار شہر بسائے ہیں بادشاہوں نے
اب ایک شہر فقیروں کو بھی بسانے دو

  وقت کے ساتھ ساتھ یقینا تہذیبی ،تمدنی ، معاشرتی ،سماجی اور علمی قدروں میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ۔فکر ونظر کو نئے زاویے اور ارتقائی رویے اختیار کرنے پڑتے ہیں ۔زندگی اور اس کے مسائل کو سمجھنے ، پرکھنے اور بیان کرنے کی نئی راہیں کھلتی ہیں ۔دنیا بھر میں سماجی بہبود اب ایک باقاعدہ سائنس کے طور پر ابھر کر سامنے آرہی ہے ۔ اقوام متحدہ نے 1959 میں دانشوروں کی ایک جماعت کو قومی معاشرتی بہبود کے پروگراموں کی ترقی کے موضوع پر ایک رپورٹ مرتب کرنے کے لیے کہا تھا،اس جماعت نے یہ سفارش کی تھی کہ ہر حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ اقتصادی ترقی کے مضر اثرات سے نمٹنے کے لیے انسانی فلاح و بہبود کے منصوبے بنائے ۔خود قران کریم نے بھی بار بار اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ حاکم کو رعایا کی فلاح کے لیے کوشاں رہنا چاہیے ۔خلافت راشدہ میں اس کی عملی مثالیں موجود ہیں۔
  آج دنیا بھر میں حکومت کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر فرد اور ادارے بھی تبدیلیوں کے نقیب بن رہے ہیں۔ سماجی خدمات کے حوالے سے اگرچہ ہمارے ہاں بھی بہت کام ہورہا ہے ۔حکومت کا ہاتھ بٹاتے بے شمار ادارے ہیں جو ہر شعبے میں فعال ہیں ، تبدیلی کا عمل اگرچہ بہت نمایاں نہیں ہے لیکن جاری و ساری ہے۔لیکن شاید ہم روایت پرستوں کو تبدیلیوں کو ماننے اور اسے کھلے دل سے تسلیم کرنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔یہی وجہ ہے کہ ابھی تک سماجی خدمات کوہمارے معاشرے میں وہ مقام نہیں مل سکا ہے جس کی وہ حق دار ہے ۔حکومت کو تمام کاموں کا ذمے دارسمجھنے کا تصور ہمارے ہاں عام ہے ۔



  کراچی ہی کی مثال دیکھ لیجیے ،یہ پاکستان کا سب سے بڑا شہرہے جس کی حالیہ آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے بڑھ چکی ہے اورشرح آبادی یہی رہی تو امید ہے کہ 2020 تک تین کروڑ ڈھائی لاکھ تک پہنچ جائے گی ۔ ۔بے پناہ آبادی کا بوجھ برداشت کرتا یہ شہر بنیادی سہولیات سے محروم اور مسائل کا گڑھ بن چکا ہے۔صاف پانی کی کمی اورصفائی کا ناقص نظام شہریوں کی صحت کے لیے بگاڑ اور پھر علاج کی مد میں ہونے والے اخراجات شہریوں کے لیے ایک اضافی بوجھ بن گئے ہیں۔سیوریج کا ناقص نظام شہریوں کے لیے ایک ناقابل برداشت مسئلہ بنتا جارہا ہے۔

  شہر کے بیشتر حصوں میں نکاس کا نظام تیس سے چالیس سال پرانا ہوچکا ہے اور اپنی متعینہ مدت پوری کرچکا ہے۔یہ نظام نہایت خستہ حال ، زنگ آلود اور پرانا ہوچکا ہے۔اس لیے پائپ اور مین ہول جگہ جگہ سے تڑخ جاتے ہیں اور ان کے بیٹھ جانے سے گندا پانی رسنے لگتا ہے۔شہر کے16 ڈویژنوں میں سے14میں یہ مسائل آئے دن پیش آتے ہیں۔5 یا 8 ڈویژنوں میں یہ مسئلہ ہر مہینے پیش آتا ہے جس کے باعث اخراج کا رخ قدرتی نالوں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔

  مین لائنیں بہت گہرائی میں یعنی 15سے25 فٹ نیچے واقع ہیں چنانچہ ان کی صفائی بحرانی حالات میں کی جانے والی مرمت کے سوا کبھی ممکن نہیں ہوتی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پائپوں کی خستگی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے لائنوں کا سائز ضرورت سے بہت کم ہے ۔مین لائنوں اور سیکنڈری لائنوں کی سطحوں میں فرق ہے کیونکہ مناسب لیول کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔اس لیے یہ نظام گلیوں کی نالیوں سے مکمل طور پر جوڑا نہیں جاسکتا۔اور جہاں کہیں انہیں جوڑا گیا ہے اوور فلو کا طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔نتیجتاً ٹرنک لائن کچرے سے اٹ جاتی ہے۔کے ڈبلیو ایس بی کی ایک رپورٹ کے مطابق عملے کے بیشتر انجینئر لیولنگ مشین استعمال کرنے سے نابلد ہیں۔یہ صلاحیت نکاس کے پائپ زمین میں بچھانے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ لہذا مین لائنیں اور سیکنڈری لائنیں پہلے سے موجود باقی نظام سے منسلک نہیں ہوپاتی ہیں ۔بعض جگہوں پرلائنوں کے اوپر تجاوزات قائم ہوگئی ہیں جس کے باعث ان کی دیکھ بھال اور مرمت کرنا ممکن نہیں رہا۔

  مندرجہ بالا صورت حال کے نتیجے میں گندے پانی کے اخراج کے لیے زیادہ تر قدرتی نالوں کو ہی استعمال کیا جاتا ہے۔لیکن ان نالوں کو اخراج کے ذریعے کے طور پر تسلیم نہ کرنے سے یہ سارا نظام بہتری سے بہت دور ہوجاتا ہے۔

  اس ساری صورت حال پر او پی پی کی روح رواں اور اپنے شعبے کی ماہر پر وین رحمان تفصیل سے روشنی ڈالتی ہیں ” اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ قدرتی نالے ہی سیوریج کی نکاسی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ ان قدرتی نالوں کو مین ڈسپوزل کے طور پر تعمیر کیا جائے، یعنی صفائی کرکے باکس سیور بنائے جائیں۔جس جگہ نالے سمندر میں گرتے ہیں وہاں ٹریٹمنٹ پلانٹ تعمیر کیے جائیں۔ یہاں یہ غلط فہمی دور کرنا بھی ضروری ہے کہ ڈرینیج اور سیوریج دو علیحدہ علیحدہ سسٹم ہیں۔ ڈرینیج لائن یا اسٹورم واٹر ڈرین کھلے ہوئے نالوں کو کہا جاتا ہے جو صرف برساتی پانی کی نکاسی کے لیے سڑکوں کے کنارے یا بیچ میں بنائے جاتے ہیں اور سیوریج لائن گندے پانی کی نکاسی کے لیے زمین کے نیچے بچھائی جاتی ہے۔ یہ دونوں الگ الگ سسٹم ہیں لیکن کراچی کے نظام میں یہ دونوں جس طرح خلط ملط ہو چکے ہیں اس پر کسی کو حیرانی نہیں ہو گی۔ہمارے اداروں کی شاندار کارکردگی کے باعث کہیں برساتی پانی کی نکاسی کا کام سیوریج لائن سے لیا جا رہا ہے اور کہیں گندے پانی کی نکاسی کھلے نالوں کے ذریعے ہو رہی ہے۔

  پروین کا کہنا ہے کہ”جب تک ان برساتی ندی نالوں کو اہمیت نہیں دی جائے گی مسئلے کی نشان دہی نہیں ہو سکے گی۔ اس مسئلے کا گہرائی اور انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔ ان تمام ندی نالوں کو نقشے میں اجاگر کیا جائے اور پھر باقاعدہ ایک پروگرام کے تحت ان کو ترقی دی جائے۔

  ناجائز تجاوزات کے حوالے سے پروین کا کہنا ہے کہ ”اس ضمن میں کوئی رو رعایت نہ برتی جائے۔ کوئی بھی بلڈنگ، بنگلہ یا عمارت کسی بھی نالے پر قائم ہو اور وہ پانی کی نکاسی میں رکاوٹ بن رہی تو اسے ڈھا دیا جائے۔ اس کے علاوہ لیاری اور ملیر ندی جو کراچی کے برساتی پانی کی قدرتی نکاسی کا ذریعہ ہیں یہاں سے بھی ناجائز تجاوزات کا خاتمہ کر کے دونوں اطراف COVER DRAIN بنا دیے جائیں جو شہر کا سیوریج لے جائیں جبکہ درمیان میں برسات کے پانی کے لیے جگہ چھوڑ دی جائے۔ مثلاً ملیر ندی کی اصل چوڑائی 200 سے 300 فٹ ہے۔ اگر سیوریج کے لیے باکس ٹرنک 50 فٹ چوڑے بنائے جاتے ہیں تب بھی 250 فٹ زمین موجود ہو گی۔ لیکن خیال رہے کہ یہ سیوریج کے باکس ٹرنک ڈھکے ہوئے ہونا چاہئیں تاکہ صحت اور صفائی کے مسائل بھی ساتھ ہی حل ہوتے جائیں۔

کیا اپنی مدد آپ کے تحت نکاسی آب کے نظام میں بہتری آسکتی ہے اور کیا او رنگی کی طرح دیگر علاقوں میں بھی لوگ کوئی تبدیلی لا سکتے ہیں؟ "کیوں نہیں" پروین کا جواب تھا ہم پچھلی تین دہائیوں سے اورنگی میں ترقیاتی کاموں میں مصروف ہیں۔ اورنگی کی حالیہ آبادی تقریبا 16لاکھ ہے۔ ہمارے ادارے او پی پی کے کام کا بنیادی تصور کمیونٹی کی تنظیم اور افراد کی انتظامی صلاحیتوں اور اجتماعی کوششوں کے فروغ کے لیے ہر قسم کی سوشل اور تکنیکی امداد پیش کرنا ہے۔

  اورنگی پائلیٹ پروجیکٹ (اوپی پی) کے خالق ڈاکٹر اختر حمید خان تھے۔ ڈاکٹر صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے جو انسانی تاریخ کی سب سے ہنگامہ خیز اور ہر لحظہ ایک نئی صورت حال سے لبریز بیسویں صدی کے منظر نامے پر ابھری اور ”عوامی ترقی ، عوام کے لیے ، عوام کے ذریعے“ کے فلسفے کا عملی نمونہ پیش کرکے دنیا کے اسٹیج پر ایک دیرپا تاثر چھوڑ کر آسودہ خاک ہوگئی۔جنوبی ایشیا میں عوامی ترقی کے کارکنوں، حامیوں اور علمبرداروں کے لیے ان کا نظریاتی اور عملی کام آج اور آنے والے وقتوں میں مشعل راہ ثابت ہوگا۔ان کی نظریاتی اساس کی بنیاد اگرچہ مسلمان فاتحین کے کارناموں کی داستانوں اور صوفیانہ اقدار کے باہمی تعامل سے تشکیل پائی تھی مگر اپنی ماہیت میں ایک کیمیائی مرکب کی طرح بالکل نئے خواص رکھتی تھی۔۔وہ نہ تو حصول طاقت کو تریاق کل سمجھتے تھے اور نہ ہی خانقاہی بے عملی کے پرچارک تھے بلکہ وہ عام لوگوں میں رہ کر ان کے مسائل کی جڑ تک پہنچنے اور پھر اس کی بیخ کنی کرنے کے قائل تھے۔ان کا ادارہ ان کے نظریات کا عملی ثبوت ہے۔

  اوپی پی نے کم لاگت کے سیوریج پروگرام کے ذریعے اورنگی جیسی کچی آبادی میں انقلاب برپا کردیا۔ اس پروگرام کے تحت کم آمدنی والے افراد کے لیے بھی اپنے گھروں میں جدید سینی ٹیشن کا نظام تعمیر کرنا ممکن ہوگیا۔ (جدید سینی ٹیشن سے مراد فلش لیٹرین اور گلی میں زیر زمین پائپ لائن ہے)  مسائل ہر مرحلے پر موجود ہوتے ہیں۔نہ ہی حکومت تن تنہا تمام مسائل حل کرسکتی ہے اور نہ ہی لوگ تمام مسائل کے حل کی استطاعت رکھتے ہیں ۔مثال کے طور پر سینی ٹیشن کے کام کے دو مراحل ہیں۔پہلا مرحلہ گلی کے اندر کا کام ہے جسے اندرونی ترقی کا نام دیا گیا ہے۔اس مرحلے پر کام کا انتظام اور مالی انتظام گلی کے افراد خود کرتے ہیں۔ دوسرا مرحلہ وہ ہے جسے بیرونی ترقی کا نام دیا گیا ہے یعنی گلی کے باہر سیوریج کا نظام اور یہ بہرحال لوگوں کے اختیار میں نہیں ہوتا ہے یہ حکومت کی ذمے داری بن جاتا ہے۔اسی اصول کو اپناتے ہوئے او پی پی نے اپنا طریقہ کار وضع کیا ہے۔

 دلچسپ بات یہ ہے کہ اندرونی ترقی یعنی گھروں میں فلش لیٹرین کی تعمیر سے گلی میں پائپ لائن بچھانے تک ان کاموں کے لیے نہ تو حکومت کو زحمت دی گئی اور نہ ہی کہیں سے فنڈز اکھٹے کیے گئے ، لوگوں نے تمام لاگت خود برداشت کی اور کام بھی خود انجام دیا۔ اوپی پی کے مطابق اورنگی کی 6,775 گلیوں میں 1,00244 گھروں نے گھر کے اندر پختہ لیٹرین اور گلیاں تعمیر کی ہیں۔اس سارے کام پر مقامی افراد نے اپنے وسائل سے 1.68ملین ڈالر خرچ کیے ہیں جبکہ اندازہ ہے کہ اگر یہ سارا کام حکومت کرتی تو کم از کم تخمینہ 10 ملین ڈالر تک پہنچ جاتا۔

 اوپی پی کے کام کو وہاں کے لوگ کس طرح دیکھتے ہیں ،محمد سعید صاحب آفریدی کالونی اورنگی کے رہائشی ہیں ان کا کہنا تھا کہ گٹر لائن کے مسئلے پر ہم نے او پی پی سے رجوع کیا ،اوپی پی نے ہم سے تعاون کیا جس سے ہمارا مسئلہ حل ہوگیا، فی گھر گٹر لائن ڈالنے پر 400 روپیہ خرچ آیا (یہ ذکر1996کا ہے) ۔لوگ کس طرح راضی ہوئے؟ سعید صاحب کا جواب تھا ” لوگ تو آسانی سے راضی ہوگئے کیونکہ وہ خود اس گندگی اور آئے دن کی بیماریوں سے پریشان تھے لہذا انہوں نے فوری طور پر پیسے ادا کیے۔اس طرح ایک گلی میں ہونے والے کام کو دیکھ کر دوسری گلی کے لوگوں کو بھی یقین آتا گیا اور پھر ۔۔۔۔ لوگ ساتھ آتے گئے اور کاررواں بنتا گیا۔

 اوپی پی کے ساتھ لوگوں کے کام اور اپنی مدد آپ کے جذبے نے یقینا حکومت کو بھی متاثر کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس وقت اورنگی کے 80%ندی نالے شہری حکومت کے تحت تعمیر کیے جاچکے ہیں اور وہ بھی صرف 5سالوں میں۔اس کے ساتھ ساتھ بلدیہ ٹاؤن، کورنگی میں چکرا گوٹھ کے علاقوں میں بھی اوپی پی اور شہری حکومت مل جل کر کام کررہی ہیں۔اپنی مدد آپ کے تحت کیے جانے والے کاموں میں ایک اور بہت اچھی بات یہ نظر آئی کہ تمام تر منصوبوں یعنی کاغذ پر منصوبہ بندی سے عمل درآمد تک تمام مراحل میں ان غریب افراد ہی کا فائدہ نظر آتا ہے مثلا عام طور پر حکومتوں کے زیر نگرانی جب کوئی منصوبہ تیار ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس جگہ سے غریبوں کی بے دخلی ہی عمل میں آتی ہے یعنی وہ بے چارے سر چھپانے کے آسرے ہی محروم ہوجاتے ہیں۔ لیکن اوپی پی کے طریقہ کار میں ایسا کچھ نہیں ہوتا اور منصوبہ بندی کے عمل میں سب سے پہلے مقامی آبادی کا تحفط پیش نظر ہوتا ہے۔کراچی میں سیوریج اور سینی ٹیشن کے ذمے دار ادارے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بھی پچھلے چند سالوں سے او پی پی کے مجوزہ نقشے پر ہی کا م کر رہا ہے اور اس منصوبے پر کام کرنے والے ماہرین بھی اپنے ہیں اور کسی غیر ملکی ادارے سے قرض لینے کے بجائے پیسہ بھی وفاقی حکومت نے فراہم کیا ہے۔ یہ مقامی افراد ، اداروں اور حکومت کے اشتراک کی بہترین مثال ہے۔

اوپی پی کے کام کو بیرون ملک بھی سراہا گیا ہے اور بے شمار انعامات اور اعزازات دیے گئے ۔اوپی پی کے کام کے نمونے کو سامنے رکھتے ہوئے نہ صرف اندرون ملک بلکہ کئی دیگر ممالک بھی رو بہ عمل ہیں۔کیا یہ نتائج ہمیں یہ قائل کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں کہ ایک فرد بھی اپنی سطح پر بہت کچھ کرسکتا ہے اور16کروڑ افراد تو یقینا انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اب وقت کا تقاضا بھی یہی ہے۔

یہ بھی آرائش ہستی کا تقاضا تھا کہ ہم

          حلقہ فکر سے میدان عمل میں آئے

Thursday, May 1, 2008

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

غذائی بحران دنیا کے لیے ایک نیا خطرہ

 سنگین غذائی بحران دنیا کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔اس کا ثبوت عالمی بینک کا تازہ بیان ہے کہ اشیائے خورو نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں دس کروڑ غریب افراد کو مزید غربت کی گہرائیوں میں دھکیل سکتی ہیں۔ یہ بیان بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی اس تنبیہہ کے بعد سامنے آیا ہے جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ جاری رہا تو لاکھوں لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہوں گے۔ اور یہی نہیں بلکہ معاشرتی بے چینی بڑے تنازعات  (غالبا کوئی انقلاب وغیرہ) کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

 اقوام متحدہ کی خوراک و زراعت کی تنظیم ایف اے او نے بھی خبردار کیا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کی مہنگائی ترقی پذیر ملکوں میں لاکھوں انسانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ بن رہی ہیں۔ تنظیم کاکہنا ہے کہ گذشتہ ایک سال میں خوراک کی قیمتوں میں چالیس فیصد اضافہ ہوا ہے جو بہت سے ملکوں کی برداشت سے با ہر ہے اور اگر کسانوں کو فوری طور پر مدد نہیں ملے گی تو بہت سے ملک غذائی بحران کا سامنا نہ کرسکیں گے۔ ادارے نے یہ بھی کہا کہ غذائی بحران کی اہم وجہ37ممالک میں لڑائی ، بدلتی آب و ہوا اوروسیع پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔جس کے تحت پچھلے چند سالوں میں ترقی پذیر ممالک پر خشک سالی اور سیلابوں نے حملے کیے ہیں ۔ تیل کا بڑھتا ہوا بھاؤ اور ساتھ میں اناج سے بننے والے بناسپتی ایندھن کی مانگ بڑھی ہے جس کی وجہ سے یہ بحران اور بھی شدید ہوگیا ہے ۔

 مقام فکر ہے کہ عالمی بینک سے متعلقہ کئی ایجنسیوں کی حالیہ جاری کردہ ایک رپورٹ میں پاکستان بھی ان چھتیس ممالک میں شامل ہے جہاں خوراک کے شدید بحران کا خطرہ موجود ہے۔

 پاکستان میں اس حوالے سے اناج کی قلت ، بڑھتی ہوئی قیمتیں اور غریبوں کی خود کشیاں یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ ہمارے ہاں یہ بحران کس درجے کا ہے اور ہوسکتا ہے ۔ پچھلی حکومت کے پہلے یہ اعلانات کہ گندم بہت زیادہ ہے برآمد کی جاسکتی ہے اور پھر اس قدر کمی کہ لوگوں کو واقعی روٹیوں کے لالے پڑ گئے ، پھر گندم کی مہنگے داموں درآمد  یقینا یہ جادوئی کرتب ہماری حکومتیں ہی کرسکتی ہیں ۔زرعی ملک کی یہ زبوں حالی کہ لوگ دانے دانے کو محتاج ہوچلے ہیں۔عام طور پر قحط کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ کھانے کو کچھ نہ ملے لیکن آج کا بحران انوکھی نوعیت کا ہے کہ لوگوں کو کھانے کو روٹی تو ملے لیکن اس کی قیمت ان کی قوت خرید سے زیادہ ہو۔




 اس سال اناج کی مہنگائی نئے ریکارڈ پر پہنچ گئی ہے جس نے ہر طرح کی غذائی اشیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آج متوسط طبقے کے لوگوں نے خوراک کے لیے اپنے علاج معالجے کو پس پشت ڈالنا شروع کردیا ہے ۔  پاکستان میں یہ نظارے عام ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 2 ڈالر یومیہ کی آمدنی والے افراد نے اپنے بچوں کو اسکول سے اٹھانا شروع کر دیا ہے۔سبزیاں کھانا کم کردی ہیں اور خوراک میں چاول کا استعمال بڑھادیا ہے۔1ڈالر یومیہ آمدنی والے افراد نے سبزیاں اور گوشت کھانا چھوڑ دیا ہے اور دن میں ایک وقت کا کھانا کم کردیا ہے۔لیکن جن لوگوں کی یومیہ آمدنی نصف ڈالر سے کم ہے ان کے لیے حالات انتہائی سنگین ہوگئے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں ایک ارب افراد ایسے ہیں جن کی یومیہ آمدنی ایک ڈالر یومیہ سے کم ہے۔اس حوالے سے ہمارے ملک کے کروڑوں شہری اس فہرست میں شامل ہوں گے۔

 حالیہ مہینوں میں خوراک کی قیمتوں میں کم از کم 40% اضافہ ہوا ہے۔جبکہ کئی ممالک میں قیمتوں میں اس سے کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔تاہم خوراک کی قلت میں آئندہ دنوں میں اس سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آسکتا ہے جب ایشیا میں مون سون کا موسم شروع ہو گا ۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث گذشتہ کئی برسوں سے مون سون کے چکر میں تبدیلی آگئی ہے جس کی وجہ سے خطے کے کئی ممالک کی زراعت متاثر ہوئی ہے۔خصوصا ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اناج کی پیداوار میں بیس فیصد کمی واقع ہوئی اور جس کی وجہ سے بھارتی ذخیروں میں 30 ملین میٹرک ٹن کی کمی واقع ہوئی۔اس سے پہلے 2002 میں جب بھارت کی فصل خراب ہوئی تھی تو اس وقت ملک میں اناج کے وافر ذخائر موجود تھے لیکن اب صورت حال بدل چکی ہے۔

 اناج کی قلت کے اس طوفان میں صرف پاکستان اور بھارت ہی نہیں بلکہ فلپائن اور بنگلہ دیش بھی موجود ہیں۔ویتنام میں فصلوںمیں بیماری پھیل سکتی ہے ۔چین کے دریائے یانگڑ میں 1990کی دہائی جیسا طوفان آگیا تو دنیا کے اناج کے ذخائر پر دباؤ اور بڑھ جائے گا۔
 عالمی بینک ، اقوام متحدہ کے بیشتر اداروں اور 60 ممالک نے علاقائی سطح پر خوراک کی قلت ، قیمتوں میں اضافے اور ماحولیاتی مشکلات پر قابو پانے کے لیے کھیتی باڑی کے طریقوں میں تبدیلی کی حمایت کی ہے لیکن امریکا ،برطانیہ ،آسٹریلیا اور کنیڈا نے ابھی تک اس ضمن میں پیش کی جانے والی رپورٹ انٹر نیشنل اسسمنٹ اف ایگری کلچرل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈیولپمنٹ کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی ہے۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے امیر ممالک سے کہا ہے کہ وہ دنیا میں خوراک کی بڑھتی قلت اور قیمتوں میں اضافے پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر500ملین ڈالر کی امداد دیں واضح رہے کہ چند ممالک میں اشیا خور و نوش کی قیمتوں میں 80% تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ 33ممالک میں اس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کا خطرہ موجود ہے۔ 2500 صفحات کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں پیداوار زیادہ ہونے کے باوجود لوگ بھوکے رہ جاتے ہیں ، بڑھتی ہوئی آبادی اور آمدنیوں میں اضافے کے باعث خوراک کی طلب میں بھی اضافہ ہوا ہے خاص طور پر گوشت اور دودھ کی ڈیمانڈ بہت بڑھ گئی ہے ۔ بائیو فیول ٹیکنالوجی کے فروغ، خوراک کی غیر مساوی تقسیم، اور قدرتی وسائل پر قابو پانے کے لیے مستقبل میں ملکوں کے مابین تنازعات بھی ہو سکتے ہیں،جبکہ2050 تک دنیا کی آبادی 9.2 ارب ہو جانے کی توقع ہے جو اس وقت 6.7 ارب ہے۔

 یہ اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے جس کی تیاری کے لیے حکومتوں ، غیر سرکاری تنظیموں اور امیر و غریب ممالک کی صنعتوں نے 400سائنس دانوں کے ساتھ مل کر مسلسل 4 سال تک کام کیا، اس رپورٹ میں خوراک کی پیداواراور ماحولیاتی تبدیلیوں سے لے کر دنیا بھر میں اس کی تجارت تک پر بحث کی گئی ہے۔

 ہماری نئی حکومت جو ابھی بہت نئی ہے با آسانی یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا سکتی ہے کہ اسے یہ بد حالی ورثے میں ملی ہے اور یہ پچھلے آٹھ سالوں کی بد اعمالیاں ہیں جو پھل پھول رہی ہیں۔ اس کا یہ کہنا درست بھی ہوگا یقینا جمعہ جمعہ آٹھ دن کی حکومت سے آپ یہ توقع نہیں لگا سکتے کہ وہ چراغ کے الہ دین کی طرح پلک جھپکتے میں سب ٹھیک کردے۔لیکن اگر یہ جواز کسی سیاست داں کا ہے تو بالکل ٹھیک ہے لیکن اگر آپ سیاست داں کے بجائے خود کو قوم کا رہنما سمجھتے ہیں تو پھر یقینا یہ عذر لنگ ہے ۔ رہنما وہ ہوتا ہے جو اپنے عزم و حوصلے سے سب کچھ بدل سکتا ہے اور اسے اللہ تعالی کی مدد اور عوام کی سچی دعائیں حاصل ہوتی ہیں ۔16کروڑ افرادی قوت اورایٹمی طاقت کا حامل یہ ملک وسائل سے بھی مالا مال ہے ۔کمی صرف عزم ، حوصلے اور اس نظر کی ہے جو بہت آگے تک دیکھتی ہے۔کیا ہم جنوبی کوریا سے بھی گئے گذرے ہیں کہ جب اسے پندرہ اگست 1945میں جاپانی چنگل سے نجات ملی تو اس وقت تک عالمی جنگ نے ملک کو ایک بڑے کھنڈرمیں تبدیل کردیا تھا، پھر پچاس سے تریپن تک کی جنگ کوریا نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی، اس ملک کے پاس کوئی خاص معدنی دولت بھی نہیں تھی،بس ایک بہتر سا تعلیمی نظام تھا جس نے سیاسی اور فوجی آمریت کے لمبے سائے تلے بھی نہایت تربیت یافتہ افرادی قوت تیار کرلی ۔نتیجہ یہ ہے کہ جب کوریا ساٹھ سال کا ہوا تو وہ دنیا کی دس بڑی صنعتی قوتوں میں شامل تھا اوراس کی فی کس آمدنی اٹھارہ ہزار سالانہ سے زائد تھی۔

 انڈونیشیا کی مثال دیکھ لیجیے ،اگرچہ اس عرصے میں انڈونیشیا تیل سے مالا مال ہونے کے باوجود اتنی ترقی نہ کرسکا جتنی اس کے ہمسایوں نے کی لیکن پھر بھی جب اس نے آزادی کی ساٹھویں سالگرہ منائی تو ملک کم از کم جمہوریت کی راہ پر پوری طرح گامزن ہوچکا تھا۔
 سری لنکا ساٹھ برس کا ہوا تو تامل سنہالہ تنازعے نے ملک کی چولیں ہلادیں تھیں لیکن ان حالات میں بھی اس کی فی کس آمدنی بھارت اور پاکستان کے مقابلے میں ستر فیصد سے زائد رہی اور جمہوریت بھی پٹڑی سے نہیں اتری، اور نوے فیصد تعلیمی خواندگی کے نتیجے میں سری لنکا کو جنوبی ایشیا کا سب سے پڑھا لکھا ملک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

 چین کمیونسٹ انقلاب کے وقت بھارت سے بھی زیادہ پسماندہ تھا لیکن آج ساٹھ سال کی عمر میں چین دنیا کی سب سے بڑی صنعتی اور تیسری بڑی اقتصادی قوت ہے، جو ڈیڑھ ارب آبادی والے اس ملک کے لیے کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔

 ملائشیا ابھی صرف پچاس برس کا ہے، آزادی کے وقت ملائیشا کی شناخت صرف ٹن کی معدنیات اور پام آئل تھی اور اس کا شمار پاکستان سے بھی زیادہ غریب ملک میں ہوتا تھا لیکن پچاس برس بعد ملائیشا جنوب مشرقی ایشیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک کہلاتا ہے۔
 جاپانی جسے ایٹم بم نے راکھ کا ڈھیر بنا دیا تھا اور جہاں اب بھی اس کیمائی آلودگی کے باعث معذور بچے پیدا ہوتے ہیں آج ترقی اور خوشحالی کے عروج پر کھڑا ہے۔ بین الاقوامی اداروں سے قرض لینے کے بجائے ہمیں اپنے وسائل کو بروئے کار لانا ہوگا۔ یہ بڑے بڑے قرضے ذلت اور غلامی کا وہ طوق ہیں جو کسی بھی قوم کو دنیا میں سر اٹھا کر جینے کے لائق نہیں چھوڑتے۔ قرض کا ہر ڈالر سوددر سود ہماری آئندہ نسلوں سے بھی وصول کی جائے گا۔ یہ قرضے وہ مکڑی کے جالے ہیں جس میں غریب ممالک مکھی کی طرح پھنس جاتے ہیں۔ افریقہ کا حال ہمارے سامنے ہے۔

 ایڈز کے ہر ایک سو میں سے ستر مریض افریقہ میں ہیں ۔ روزانہ چھ ہزار مریض مر رہے ہیں اور گیارہ ہزارنئے بن رہے ہیں۔بوٹسوانا اورزیمبیا جیسے ممالک کی چالیس فیصد آبادی اس مرض کی لپیٹ میں ہے جسے ملیریا کہتے ہیں جس کا علاج باقی دنیا میں دس سے بیس روپے میں ہوجاتا ہے اور اس ملیریا سے افریقہ میں ماہانہ ڈیڑھ لاکھ بچے مر رہے ہیں۔کسے فرصت کہ یہ معلوم کرتا پھرے کہ پچھلے چالیس برسوں میں نائیجیریا ، سیرالیون اور انگولا کے معدنی ذخائر خانہ جنگی کا منحوس طوق کیسے بن گئے،کانگو میں گذشتہ چھ برس میں کیسے خانہ جنگی اور امداد کی عدم فراہمی نے اڑتیس لاکھ افراد کو مار ڈالا۔اور اس وقت بھی روزانہ ایک ہزار افراد کیوں مر رہے ہیں۔ جبکہ اسی کانگو میں اقوام متحدہ کی امن فوج کے سولہ ہزار سپاہی گھوم رہے ہیں اور دنیا کے کسی ایک علاقے میں یہ اقوام متحدہ کی سب سے بڑی فوج ہے۔سوڈان کا علاقہ دار فور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور میڈیا کی توجہ کا مسلسل مرکز ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ پچھلے چالیس برسوں کے دوران بیس افریقی ملک کس لیے خانہ جنگی کے خونی تجربے سے گذرے اور اس آگ سے کن کن ترقی یافتہ ممالک اور ان کی کمپنیوں نے اپنے اقتصادی ہاتھ تاپے۔  یہ بھی ایک رونے کا مقام ہے کہ جس برآعظم کا عالمی تجارت میں حصہ محض دو فیصد ہے اور امداد کے لیے ملنے والے ہر دو ڈالر میں سے ایک ڈالر سود کی مد میں چلا جاتا ہے۔اس بر اعظم پر تین سو بلین کا ڈالر کا قرضہ کس نے لادا۔ حالانکہ اس براعظم میں سالانہ ڈیڑھ سو بلین ڈالر کرپشن اور بد انتظامی میں ضائع ہوجاتے ہیں۔یقین نہیں آتا کہ یہ وہی افریقہ ہے جہاں سب سے پہلے انسان نے اوزار بنائے اور آگ کا استعمال سیکھا۔ اور یہیں سے نسل انسانی باقی دنیا میں پھیلی۔

 اب وہ وقت آ گیا ہے کہ جب اس نئے پاکستان کی باشعور عوام سیاست داں اور رہنما میں فرق جان جائے۔

 قافلے دلدلوں میں جاٹھہرے                  -------رہنما پھر بھی رہنما ٹھہرے-----