ہم کتنے بے خبر ہیں!
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں، دنیا بھر میں ماحولیاتی
تبدیلیوں اور موسمیاتی تغیرات پر ایک شور برپا ہے۔تمام عالمی لیڈر اس حوالے سے عوام
میں شعور و آگہی بڑھا رہے ہیں اور تمام حکومتیں ہروہ ممکنہ اقدام اٹھا رہی ہیں جس سے
کرہ ارض کومزید تباہی سےبچانے کی کوئی صورت نکل سکے لیکن ہمارے ملک میں راوی چین ہی
چین لکھ رہا ہے گویا ہم کسی اور کرے کے باسی ہیں اور یہ سارے مسائل ہمارے نہیں ہیں۔اور
صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ سکون اور اطمینان کی یہ فضا وائٹ ہاؤس میں بھی ہے۔وائٹ
ہاؤس سے باہر کیا ہورہا ہے ، لوگ کیا سوچ رہے ہیں اس سے وائٹ ہاؤس کے مکینوں کو کوئی
دلچسپی نہیں ۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہماری حکومت اور رہنماؤں کو کسی بات کی پروا نہیں۔نہ
ملک کی اور نہ عوام کی۔ کتنی خوش آئند بات ہے کہ دنیا کی ’سپر پاور‘ اور ’ہمارے‘ بیچ
کتنی ہم آہنگی ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی اس بے حسی میں بھی اس کا اپنا مفاد
پوشیدہ ہے۔امریکا جانتا ہے کہ اگر وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا اعتراف کر لے تو اسے یہ
بھی ماننا پڑے گا کہ عالمی حدت میں اضافہ ہورہا ہے اور جب یہ مانے گا تو پھر اسے کیوٹو
پروٹوکول جیسے معاہدے پر بھی دستخط کرنے پڑیں گے جو اس کی صنعتوں اور معیشت کے لیے
کمر توڑ جھٹکا ثابت ہوگا۔ کیونکہ مضر گیسوں کی جس آلودگی سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ
رہا ہے ان گیسوں کا 42% امریکا کی صنعتوں کی چمنیوں سے ہی خارج ہوتا ہے جو اس معاہدے
کے بعد پابندیوں سے گھر جائیں گی ۔گویا وائٹ ہاؤس کی بے نیازی میں بھی اس کی ملک اور
قوم کا فائدہ پوشیدہ ہے ، یہ اور بات ہے کہ اس کے اس فائدے کے لیے دنیا یا غریب ممالک
کیا قیمت چکا رہے ہیں۔
لیکن ہماری حکومت ،
ہمارے سیاسی رہنما کس فصل کی آس میں غلطیاں بو رہے ہیں؟
آج کل آپ ان لیڈرز کی تقریریں سن رہے ہوں گے ۔ کیا ان میں
سے کسی نے پاکستان کے وسائل بچانے کی بات کی؟ کسی کے ایجنڈے میں پانی کے ذخیرے کے لیے
چھوٹے ڈیم بنا نے کا ذکر ہے سوائے ایک کالا باغ ڈیم کا مسئلہ جسے لوگ صرف اور صرف سیاست
چمکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔کیا سندھ سے تعلق رکھنے والے کسی لیڈر نے ہزاروں ایکڑ
پر پھیلے زرخیز انڈس ڈیلٹا کی تباہ حالی پر روشنی ڈالی اور بے گھر ہوجانے والے لاکھوں
غریبوں سے ہمدردی کی۔عالمی سطح پرپہچانے جانے والا یہ مسئلہ اپنے ملک میں کتنا اجنبی
ہے۔بلٹ پروف گاڑیوں میں گھومنے والے یہ لیڈر بے چارے اس سر سبز شاداب انڈس ڈیلٹا کو
کیا جانیں؟ جسے پانی کی کمی نے تباہ کردیا۔ لاکھوں لوگ ہجرت کر گئے اور مچھلیوں کی
کئی نسلیں نایاب ہوگئیں۔
پاکستان میں پانچ بڑے اور
پندرہ چھوٹے دریا ہیں مگر 70%آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، تو کیا کسی لیڈر
نے اس بارے میں بات کی۔لاکھوں لوگوں کو ڈاکٹر اور اسپتال کی سہولت میسر نہیں اور جنہیں
خدا نے یہ توفیق دی تو وہ جعلی دواؤں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ سب مسائل انسان کی بنیادی ضروریات میں شمار ہوتے ہیں
لیکن پاکستان میں یہ سہولیات آسائشات میں شمار ہوتی ہیں، ابھی ہم ان ہی میں الجھ رہے
ہیں اور زمانہ قیامت کی چال چل چکا ہے۔
پڑھیے اور سر دھنیے کہ سائنس
دانوں کی نئی تحقیق کے مطابق اگر درجہ حرارت میں اضافہ اندازوں کی نسبت آدھا بھی ہوا
تو کرہ ارض ایک ایسا حیاتی تغیر اور خاتمہ دیکھے گا جو اس نے 65ملین سال قبل اس وقت
دیکھا تھا جب اس دھرتی سے ڈائنو سارز کا خاتمہ ہوا تھا۔
ماحولیاتی تبدیلیاں اور موسمی تغیرات بنی نوع انسان کے لیے
ایک نیا عذاب لوگوں کی بے گھری کی صورت
لا رہی ہیں۔ نظام قدرت میں دخل اندازی کے نتیجے میں پچھلے دس سالوں کے دوران دنیا میں
قدرتی آفات کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ برطانیہ میں مقیم بنگلہ دیشی ماحولیاتی
سائنس داں سلیم الحق کہتے ہیں کہ ان واقعات کی سائنسی وضاحت ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں
کی صورت میں ہی کی جاسکتی ہے۔
سلیم الحق انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج ((IPCCکے
ان سائنس دانوں میں شامل ہیں جن کی تیار کردہ رپورٹ کو اس سال نوبل انعام کا حق دار
قرار دیا گیا۔ان کا کہنا ہے کہ آئندہ بیس سال کے لیے دنیا وقت کے ایک ایسے دورانیے
میں قید ہوگئی ہے جہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی قدرتی آفات
کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔چاہے مضر گیسوں کا اخراج فی الفور صفر کر لیا جائے۔سلیم الحق
کی تحقیق کے سائنسی اعدادو شمار کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ پچھلے ایک سو سال کے
دوران جتنی بھی قدرت آفات آئی ہیں ان کی شدت میں حالیہ دس سالوں کے دوران تیزی آئی
ہے۔ جو سیلاب پہلے بیس سالوں میں ایک دفعہ آتے تھے اب ہر پانچ سال بعد آنے لگے ہیں۔درجہ
حرارت میں اضافے سے گلیشیرز پگھل رہے ہیں۔سطح سمندر میں اضافہ ہورہا ہے اور خدشہ ہے
کہ ہمالیہ کے وہ گلیشیرز آئندہ بیس سالوں میں اپنا وجود کھو بیٹھیں گے۔
حال اور ماضی کی ماحولیاتی تبدیلیوں میں فرق کے بارے میں
ان کا کہنا تھا کہ پہلے یہ صدیوں پر محیط غیر محسوس قدرتی جغرافیائی عمل کے نتیجے میں
رونما ہوتی تھیں جبکہ اب تیزی سے صورت حال بدل رہی ہے۔اس صورت حال کی ذمے داری دنیا
کے ہر فرد پر عائد ہوتی ہے یہ اور بات ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے اس کے
زیادہ ذمے دار ہیں۔سلیم الحق کے مطابق کسی ایک بین الابراعظمی پرواز کے نتیجے میں خارج
ہونے والی کاربن کی فی کس مقدار کسی غیر ترقی یافتہ ملک کے ایک کنبے کے سالانہ کیروسین
آئل ( مٹی کا تیل) کے استعمال سے خارج ہونے والی کاربن کی مقدار سے زیادہ ہوتی ہے۔ان
کا کہنا تھا کہ امیر ممالک میں رہنے والوں کو احساس ہونا چاہیے کہ ان کے لائف اسٹائل
کی وجہ سے غریب ممالک کے لوگوں پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت کا ماہرین کے مطابق پہلا شکار
بنگلہ دیش ہی ہوگا۔درجہ حرارت میں اضافے اور اس کے نتیجے میں سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح
کے سبب خیال کیا جاتا ہے کہ سال2030 تک بنگلہ دیش کے ایک کروڑ ستر لاکھ لوگ بے گھر
ہو جائیں گے۔اور اگر عالمی ماحولیاتی آلودگی پر قابو نہیں پایا گیا تو رواں صدی کے
آخر تک موجودہ بنگلہ دیش کا ایک چو تھائی حصہ سمندر کی نذر ہو جائے گا۔
لیکن یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اس صورت حال کے ذمے دار صدیوں
سے دریاﺅں
اور سیلابوں کی سختیاں جھیلنے والے نہیں اس خطے کے باسی نہیں بلکہ وہ ممالک ہیں جو
ترقی کی دوڑ میں کاربن اور دوسری مضر گیسوں کے اخراج کا سبب ہیں۔اس حوالے سے بی بی
سی کی ایک مہم کاتذکرہ بے جا نہ ہوگا ۔یہ مہم ماحولیاتی تبدیلیوں کو اجاگر کرنے کی
غرض سے بی بی سی کی عالمی سروس نے بی بی سی بنگالی سروس کی مدد سے شروع کی ہے جس کا
نام بنگالی میں ’ نودی پوتھے بنگلہ دیش ‘ہے جس کا مطلب ہے کہ بنگلہ دیش کا سفر دریاؤں
کے ذریعے۔
بنگلہ دیش کے دریاؤںکا یہ سفر ایک ماہ تک کشتی پر جاری رہے
گا ۔ کشتی پر بی بی سی کے لیے مختلف زبانوں میں کام کرنے والے صحافی سوار ہیں۔اور وہ
اپنے شب و روز اسی پر گذاریں گے تاکہ دریاؤں کے کناروں پر بسنے والوں کے مسائل کا آنکھوں
دیکھا حال بیان کرسکیں۔
کشتی میں وقتا فوقتا ماحولیات کے ماہرین بھی سوار ہوتے رہےں
گے۔ انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج یعنی آئی پی سی سی(نوبل پرائز یافتہ 2007
) کے سربراہ نے بھی اس حوالے سے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
بنگلہ دیش کو دریاؤں کی سرزمین کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔تقریبا
پندرہ کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں چھوٹے بڑے کم و بیش سات سو دریابہتے ہیں۔اور ان
سب کے اپنے اپنے نام بھی ہیں تاہم بڑے اور مشہور دریا میگھنا، پدما، برہم پترا اور
گنگا ہیں۔بنگلہ دیش کے بڑے دریا مل کر سترہ کروڑ پچاس لاکھ ہیکٹر رقبے پر بہتے ہیں
۔ دریاؤں کے پانی ہی سے زمین سیراب ہوتی ہےاور اسی سے ماہی گیروں کا روز گار وابستہ
ہے لیکن ہر سال سیلابوں کی شکل میں یہ دریا انسانی جانوں کااور معاشی وسائل کا خراج
بھی لیتے رہتے ہیں۔
آئی پی سی سی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر درجہ حرارت میں
اضافہ ہوتا رہا تو بنگلہ دیش کے دریاؤں میں آنے والے سالانہ سیلابوں کی شدت میں بیس
سے چالیس فیصد اضافہ ہوجائے گا۔ سیلابوں اور سطح سمندر میں اضافے سے ماہرین کے مطابق
جن بحرانوں کا سامنا ہوگا ان میں پینے کے پانی کی کمی ، جنگلات اور جنگلی حیات کو خطرہ،
بڑے پیمانے پر انسانی ہجرت اور صحت کے مسائل شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ
کے مطابق ماحولیاتی حدت سے عالمح سطح پر کشیدگی بڑھ سکتی ہے جس کے نتیجے میں افریقہ
اور ایشیا کے بعض علاقوں میں جنگیں چھڑ سکتی ہیں اور علاقائی شورش پیدا ہوسکتی ہے۔جنوبی
ایشیا کے ان ممالک میں پاکستان ، بنگلہ دیش اور ہندوستان کا خصوصی ذکر ہے جہاں درجہ
حرارت سے گلیشیر پگھل رہے ہیں اور لوگوں کو پینے کے پانی کی قلت کا سامنا ہے۔سوئس اور
جرمن ماہرین کی ایک اور رپورٹ کے مطابق دنیا میں بڑھتی ہوئی گرمی سے جنوبی ایشیا اور
افریقہ میں خطرناک جنگیں چھڑ سکتی ہیں۔ان علاقوں کے غیر مستحکم ممالک نہ صرف انتشار
کا شکار ہوسکتے ہیں۔ آبی اور ارضی وسائل پر کھینچ تان جنگوں کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔اوراس
سے بڑے پیمانے پر لوگ اپنے گھر چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جا بسنے پر مجبور ہوں گے۔اگر
گرمی میں صرف پانچ ڈگری سلیسیس کا اضافہ ہوگیا تو عالمی خانہ جنگی کی سی کیفیات پیدا
ہوسکتی ہیں۔
ہمارے ایک اور پڑوسی افغانستان بھی خشک سالی کی بدترین صورت
حال سے دوچار ہے۔موسم سرما کی برف باری کے باوجود دریاؤں کے کنارے خشک پڑے ہیں اور
فصلوں کی تعداد کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ کنوؤں میں پانی ضرورت سے بہت کم ہے اور اس کا سبب بھی بارشوں
کی کمی ہے ، بارشوں کا پانی زمین میں رسنے سے کنوئیں سیراب ہوتے ہیں۔مویشی بھی پیاسے
مر رہے ہیں۔افغانستان سات سال سے جاری قحط سے ابھی نکل ہی پایا تھا کہ نئی خشک سالی
نے صورت حال کو بدتر بنادیا۔اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اس سال کی خشک سالی کی
وجہ سے 2.5ملین افغان شہریوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔ اس سے قبل ورلڈ فوڈ پروگرام کے
مطابق اندازہ 6.5افراد پہلے ہی موت کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ خشک سالی کا شکار علاقے زیادہ
تر ملک کے جنوبی حصے میں ہیں۔ ان علاقوں سے ہزاروں لوگ گھر بار چھوڑ کر جا چکے ہیں۔واضح
رہے کہ جنوبی علاقے پر تشدد کرروائیوں کا گڑھ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ لوگ سانسوں کی ڈور
برقرار رکھنے کے لیے زیادہ تر پوست کی کاشت کر رہے ہیں۔کیونکہ خشک سالی میں پوست بہترین
کاشت ہوتی ہے۔غریب بے چارے اورکربھی کیا سکتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر
ہونے والے علاقوں میں بسنے والوں کے نزدیک اپنا علاقہ چھوڑنا ہی سب سے بہتر حکمت عملی
ہے۔دریائی اور ساحلی علاقوں سے نقل مکانی کے باعث ڈھاکہ اس وقت آبادی میں اضافے کی
شرح کی اعتبار سے دنیا کے بڑے شہروں میں سر فہرست ہے۔
عالمی سطح پر پناہ گزینوں کی تعداد میں پانچ سال بعد پہلی
مرتبہ اضافہ ہوا ہے۔اور اقوام متحدہ کے نزدیک اس کی وجہ عراق پر تشدد صوری حال ہے۔اقوام
متحدہ کی ایجنسی برائے پناہ گزین کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس چودہ فیصد اضافے کے ساتھ
پناہ گزینوں کی تعداد ایک کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اندرون ملک
بے گھر ہونے والوں کی تعداد بھی ایک کروڑ تیس لاکھ تک پہنچ گئی ہے جو خود ایک ریکارڈ
ہے۔ پناہ گزینوں میں اضافہ عراق کے علاوہ لبنان ، مشرقی تیمور،سوڈان اور سری لنکا میں
جاری شورش ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے اعدادو شمار میں وہ چالیس
لاکھ فلسطینی شامل نہیں ہیں جو اسرائیل کی وجہ سے بے گھر ہوچکے ہیں۔تقریبا پندرہ لاکھ
عراقی پناہ گزینوں کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔اور ان میں زیادہ تر اردن اور شام
میں مقیم ہیں۔قومیت کے حساب سے پناہ گزینوں کی یہ دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔سر فہرست
افغان ہیں جو اکیس لاکھ کی تعداد میں ہیں۔
غذائی بحران وارننگ
اقوام متحدہ کی خوراک و زراعت کی تنظیم ایف اے او نے خبردار
کیا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کی مہنگائی ترقی پذیر ملکوں میں لاکھوں انسانوں کے لیے
بہت بڑا خطرہ بن رہی ہیں۔ ایف اے او نے کہا ہے کہ گذشتہ ایک سال میں خوراک کی قیمتوں
میں چالیس فیصد اضافہ ہوا ہے جو بہت سے ملکوں کی برداشت سے با ہر ہوگا۔
ایف اے او کا کہنا ہے کہ ایسی مہنگائی کی پہلے نظیر نہیں
ملتی اور اگر کسانوں کو فوری طور پر مدد نہیں ملے گی تو بہت سے ملک غذائی بحران کا
سامنا نہ کرسکیں گے۔ ادارے نے کہا کہ37ممالک میں لڑائی اور قدرتی آفات کی وجہ سے غذائی
بحران پیدا ہوا ہے۔
آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک پر خشک سالی
اور سیلابوں نے حملے کیے ہیں ۔اس کے علاوہ تیل کا بھاؤ اونچا چلا گیا اور ساتھ میں
اناج سے بننے والے بناسپتی ایندھن کی مانگ بڑھی ہے جس کی وجہ سے اور بھی شدید ہوگیا
ہے کہ دنیا میں خوراک کے ذخیرے بہت گھٹ گئے ہیں اور امداد کے لیے بھی کھانے پینے کی
اشیا کم ہوگئی ہے۔
اس سال اناج کی مہنگائی نئے ریکارڈ پر پہنچ گئی ہے جس نے
ہر طرح کی غذائی اشیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
اقوام متحدہ ہی کے عالمی ادارہ صحت نے فیصلہ کیا ہے کہ سری
لنکا میں خوراک میں کمی کے شکار دسیوں ہزار بچوں کو مفت خوراک فراہم کرنے کا پروگرام
شروع کیا ہے۔ یہ بچے سری لنکا میں جنگ سے متاثرہ علاقے میں بستے ہیں۔سری لنکا میں یہ
اپنی نوعیت کا واحد پروگرام ہے۔اسی ادارے کے ایک سروے میں علم ہوا ہے کہ ملک کے شمالی
اور مشرقی حصوں میں اسکول جانے والے ایک چوتھائی بچے خوراک کی شدید کمی کا شکار ہیں۔یہ
صورت حال علاقے میں جاری رہنے والی طویل خانہ جنگی کا نتیجہ ہے۔جرمنی کی ایک تنظیم
کے سروے کے مطابق ایک تہائی بچے خوراک کی عدم دستیابی کے باعث ناشتہ کیے بغیر اسکول
جاتے ہیں۔خصوصی طور پر چار سے پانچ سالہ بچے خطرناک حد تک خوراک کی کما کا شکار ہیں۔خوراک
پروگرام کے تحت سو سے زائد اسکول جانے والے تینتیس ہزار بچوں کو خوراک فراہم کی جائے
گی۔ جبکہ اگلے برس تک ایک لاکھ ستر ہزار بچے مناسب خوراک حاصل کر سکیں گے۔ان بچوں کو
دوپہرکے کھانے میں دال اور چاول مفت فراہم کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں اس وقت 25لاکھ سے
زائد افغان مہاجرین آباد ہیں۔اور تا حال اٹھائیس لاکھ چالیس ہزار سے زائد افغان باشندے
وطن جاچکے ہیں۔ اور اقوام متحدے کی چھپن سالہ تاریخ میں افغان پناہ گزینوں کی واپسی
کا یہ سب سے بڑا پروگرام ہے جو 2000 میں شروع ہوا۔
پاکستان اور ایران دنیا میں
سب سے زیادہ افغان پناہ گزینوں کو پناہ دینے والے ملک ہیں ۔
خشک سالی ، بھوک اور افلاس کا تذکرہ ہو تو افریقہ کا ذکر
کیسے نہ ہو۔ایڈز کے ہر ایک سو میں سے ستر مریض افریقہ میں ہیں ۔ روزانہ چھ ہزار مریض
مر رہے ہیں اور گیارہ ہزارنئے بن رہے ہیں۔بوٹسوانا اورزیمبیا جیسے ممالک کی چالیس فیصد
آبادی اس مرض کی لپیٹ میں ہے جسے ملیریا کہتے ہیں جس کا علاج باقی دنیا میں دس سے بیس
روپے میں ہوجاتا ہے اور اس ملیریا سے ارققہ میں ماہانہ ڈیڑھ لکھ بچے مر رہے ہیں۔کسے
فرصت کہ یہ معلوم کرتا پھرےے کہ پچھلے چالیس برسوں میں نائیجیریا ، سیرالیون اور انگولا
کے معدنی ذخائر خانہ جنگی کا منحوس طوق کیسے بن گئے،کانگو میں گذشتہ چھ برس میں کیسے
خانہ جنگی اور امداد کی عدم فراہمی نے اڑتیس لاکھ افراد کو مار ڈالا۔اور اس وقت بھی
روزانہ ایک ہزار افراد کیوں مر رہے ہیں۔ جبکہ اسی کانگو میں اقوام متحدہ کی امن فوج
کے سولہ ہزار سپاہی گھوم رہے ہیں اور دنیا کے کسی ایک علاقے میں یہ اقوام متحدہ کی
سب سے بڑی فوج ہے۔سوڈان کا علاقہ دار فور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور میڈیا کی
توجہ کا مسلسل مرکز ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ پچھلے چالیس برسوں کے دوران بیس
افریقی ملک کس لیے خانہ جنگی کے خونی تجربے سے گذرے اور اس آگ سے کن کن ممالک کی ترقی
یافتہ ممالک اور کمپنیوں نے اپنے اقتصادی ہاتھ تاپے۔ یہ بھی ایک رونے کا مقام ہے کہ
جس براعظم کا عالمی تجارت میں حصہ محض دو فیصد ہے اور امداد کے لیے ملنے والے ہر دو
ڈالر میں سے ایک ڈالر سود کی مد میں چلا جاتا ہے۔اس بر اعظم پر تین سو بلین کا ڈالر
کا قرضہ کس نے لادا۔ حالانکہ اس براعظم میں سالانہ ڈیڑھ سو بلین ڈالر کرپشن اور بد
انتظامی میں ضائع ہوجاتے ہیں۔یقین نہیں آتا کہ یہ وہی افریقہ ہے جہاں سب سے پہلے انسان
نے اوزار بنائے اور آگ کا استعمال سیکھا۔ اور یہیں سے نسل انسانی باقی دنیا میں پھیلی۔
جنگوں اور دیگر سیاسی تنازعات کے سبب نقل مکانی کرنے والے
فورًا عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں لیکن چونکہ ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے
لوگوں کی ہجرت بہت زیادہ تعداد میں نہیں ہوتی ہے اس لیے لوگوں کی توجہ ان کی طرف بہت
کم مبذول ہوتی ہے لہذا ان کے مسائل پر بھی بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔تا وقتیکہ سونامی
یا زلزلے جیسی کوئی بڑی قدرتی آفت نہ آئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں لاکھوں
کی تعداد میں ماحولیاتی مہاجرین موجود ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ نے خبردار کیا
ہے کہ 2010 تک ایسے افراد کی تعداد 50ملین تک پہنچ سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے 1951کے چارٹر میں ”مہاجرین” کی طے شدہ تعریف
اور ا ن کی بحالی کا طریقہ کار موجود ہے لیکن ماحولیاتی مہاجرین اس تعریف پر پورا نہیں
اترتے لہذا اب وقت آگیا ہے کہ اس مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے فورا یہ طے کرنا ہوگا
کہ کس طرح انہیں امداد فراہم کی جاسکتی ہے اور کس طرح انہیں بسایا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحفظ ماحول کے بین الاقوامی معاہدے’ کیوٹو
پروٹوکول‘ اور آئی پی سی سی کی تجاویز پر عمل درآمد میں امریکا کی موجودہ بش انتظامیہ
ایک بڑی رکاوٹ رہی ہے۔لیکن ان پر عمل درآمد کے حتمی سال دوہزار نو تک وائٹ ہاؤس میں
تبدیلی آچکی ہوگی۔امریکی طرز عمل کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سبب دوسرے
بڑے ممالک چین اور بھارت بھی کیوٹو پروٹوکول کے ےوالے سے تعاون نہیں کر رہے لیکن سلیم
کا کہنا ہے کہ جب امریکا تعاون پر آمادہ ہوجاوئے گا تو چین اور بھارت بھی پیچھے نہیں
ہٹیں گے۔
جس دنیا میں ہر سال پینتیس ارب ڈالر کا بوتل بند پانی پیا
جاتا ہے ،اس دنیا میں ایک ارب سے زائد افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں جبکہ انہیں
صرف دس ارب ڈالر خرچ کرکے یہ سہولت مہیا کی جاسکتی ہے، یورپ سالانہ گیارہ ارب ڈالر
کی آئس کریم کھا جاتا ہے لیکن دنیا کا ہر بچہ صرف ڈیڑھ بلین ڈالر کے ٹیکوں سے پانچ
خطرناک بیماریوں سے محفوظ ہوسکتا ہے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیتا،پالتو جانوروں کی
خوراک پر شمالی امریکا اور یورپ میں سالانہ سترہ ارب ڈالر خرچ ہوجاتے ہیں،اور اس دنیا
میں ناکافی غذائیت اور بھوک مری ختم کرنے کے لیے سالانہ انیس ارب ڈالر خرچ کرنے پر
آمادہ نہیں،میک اپ اور پرفیومز پر ہم جولوگ ہر برس تینتیس ارب ڈالر صرف کردیتے ہیں
جبکہ افریقہ کو ایڈز ، قحط اور خانہ جنگوں کے شکار بے گھروں کی آباد کاری کے لیے ہر
برس صرف پچیس ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن افریقہ کو بہت ہی ایڑیاں رگڑنے کے بعد سالانہ
اوسطا وارہ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہی میر آتے ہیں۔
آپ اس موازنے سے بیزار ہوکر یہ کہہ سکتے ہیں کہ آخر ان اعدادو
شمار کا مطلب کیا ہے ؟ کیا ہم بوتل بند منرل واٹر نہ پیئیں، اپنے بچوں کو آئس کریم
نہ کھلائیں، پرفیوم نہ لگائیں، پالتو جانوروں کو کھانا نہ کھلائیں، ان کا علاج نہ کروائیں،اور
یہ سب اگر ہم افورڈ کر سکتے ہیں تو آپ کو کیا تکلیف ہے، آپ حکومتوں کو یہ وعظ کیوں
نہیں دیتے کہ وہ اس دنیا کے غریب ملکوں کا خیال کریں،تو جناب حکومتوں کا یہ حال ہے
کہ 1970میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد میں امیر ملکوں سے یہ درخواست
کی تھی کہ وہ زیادہ نہیں صرف اپنی سالانہ قومی آمدنی کا اعشاریہ سات فیصد یعنی نصف
فیصد سے کچھ زائد غریب ملکوں کے لیے وقف کردیں تو دنیا پر سکون ہو جائے گی ،آج اڑتیس
برس گذر چلے ہیںاور صرف چار ممالک یعنی سوئیڈن،ناروے ، ہالینڈ اور لکسمبرگ کو ہی یہ
توفیق ہو سکی کہ وہ اقوام متحدہ کے اس امدادی ہدف پر پورا اتر سکیں۔
دنیا کا سب سے طاقتور ملک امریکا جو اس دنیا کے 25 سے
30فیصد تک وسائل سالانہ استعمال کرتا ہے، اپنی کل قومی آمدنی کے ایک فیصد کا بھی محض
دسواں حصہ ترقی پذیر ملکوں کو بطور امداد دیتا ہے،اور وہ بھی اپنی شرائط پر یوں
سمجھ لیں کہ اگر امریکا دفاع پر اگر اڑتیس ڈالر خرچ کرتا ہے تو اس کے مقابلے میں غریب
ملکوں کو صرف ایک ڈالر دیتا ہے ، جنوبی کوریا کو جب پندرہ اگست 1945میں جاپانی چنگل سے نجات
ملی تو اس وقت تک عالمی جنگ نے ملک کو ایک بڑے کھنڈرمیں تبدیل کردیا تھا، پھر پچاس
سے تریپن تک کی جنگ کوریا نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی، اس ملک کے پاس کوئی خاص معدنی
دولت بھی نہیں تھی،بس ایک بہتر سا تعلیمی نظام تھا جس نے سیاسی اور فوجی آمریت کے لمبے
سائے تلے بھی نہایت تربیت یافتہ افرادی قوت تیار کرلی، نتیجہ یہ ہے کہ جب کوریا دو
برس پہلے ساٹھ سال کا ہوا تو وہ دنیا کی دس بڑی صنعتی قوتوں میں شامل تھا، اور فی کس
آمدنی اٹھارہ ہزار سالانہ سے زائد تھی،
اگرچہ اس عرصے میں انڈونیشیا تیل سے مالا مال ہونے کے باوجود
اتنی ترقی نہ کرسکا جتنی اس کے ہمسایوں نے کی لیکن پھر بھی جب اس نے دو برس پہلے آزادی
کی آٹھویں سالگرہ منائی تو ملک کم از کم آئینی جمہوریت کی راہ پر پوری طرح گامزن ہوچکا
تھا، سری لنکا ساٹھ برس کا ہوا تو تامل سنہالہ تنازعے نے ملک
کی چولیں ہلادیں لیکن ان حالات میں بھی اس کی فی کس آمدنی بھارت اور پاکستان کے مقابلے
میں ستر فیصد سے زائد رہی، اور جمہوریت بھی پٹڑی سے نہیں اتری، اور نوے فیصد تعلیمی
خواندگی کے نتیجے میں سری لنکا جنوبی ایشیا کا سب سے پڑھا لکھا ملک بھی ہے۔
چین دو برس بعد ساٹھ سال کا ہوگا ، کمیونسٹ انقلاب کے وقت
وہ بھارت سے بھی زیادہ پسماندہ تھا لیکن آج ساٹھ سال کی عمر میں چین دنیا کی سب سے
بڑی فیکٹری اور تیسری بڑی اقتصادی قوت ہے، جو ڈیڑھ ارب آبادی والے اس ملک کے لیے کسی
معجزے سے کم
ملائشیا ابھی صرف پچاس برس کا ہے، آزادی کے وقت ملائیشا
کی شناخت صرف ٹن کی معدنیات اور پام آئل تھی اور اس کا شمار پاکستان سے بھی زیادہ غریب
ملک میں ہوتا ہے لیکن پچاس برس بعد ملائیشا جنوب مشرقی ایشیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک
کہلاتا ہے، پاکستان
اور بھارت دونوں ایٹمی طاقت ہیں۔