Saturday, October 27, 2007

قدرتی آفات اور ماحولیاتی مہاجرین


ہم کتنے بے  خبر ہیں!

سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں، دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسمیاتی تغیرات پر ایک شور برپا ہے۔تمام عالمی لیڈر اس حوالے سے عوام میں شعور و آگہی بڑھا رہے ہیں اور تمام حکومتیں ہروہ ممکنہ اقدام اٹھا رہی ہیں جس سے کرہ ارض کومزید تباہی سےبچانے کی کوئی صورت نکل سکے لیکن ہمارے ملک میں راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے گویا ہم کسی اور کرے کے باسی ہیں اور یہ سارے مسائل ہمارے نہیں ہیں۔اور صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ سکون اور اطمینان کی یہ فضا وائٹ ہاؤس میں بھی ہے۔وائٹ ہاؤس سے باہر کیا ہورہا ہے ، لوگ کیا سوچ رہے ہیں اس سے وائٹ ہاؤس کے مکینوں کو کوئی دلچسپی نہیں ۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہماری حکومت اور رہنماؤں کو کسی بات کی پروا نہیں۔نہ ملک کی اور نہ عوام کی۔ کتنی خوش آئند بات ہے کہ دنیا کی ’سپر پاور‘ اور ’ہمارے‘ بیچ کتنی ہم آہنگی ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی اس بے حسی میں بھی اس کا اپنا مفاد پوشیدہ ہے۔امریکا جانتا ہے کہ اگر وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا اعتراف کر لے تو اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ عالمی حدت میں اضافہ ہورہا ہے اور جب یہ مانے گا تو پھر اسے کیوٹو پروٹوکول جیسے معاہدے پر بھی دستخط کرنے پڑیں گے جو اس کی صنعتوں اور معیشت کے لیے کمر توڑ جھٹکا ثابت ہوگا۔ کیونکہ مضر گیسوں کی جس آلودگی سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے ان گیسوں کا 42% امریکا کی صنعتوں کی چمنیوں سے ہی خارج ہوتا ہے جو اس معاہدے کے بعد پابندیوں سے گھر جائیں گی ۔گویا وائٹ ہاؤس کی بے نیازی میں بھی اس کی ملک اور قوم کا فائدہ پوشیدہ ہے ، یہ اور بات ہے کہ اس کے اس فائدے کے لیے دنیا یا غریب ممالک کیا قیمت چکا رہے ہیں۔


  لیکن ہماری حکومت ، ہمارے سیاسی رہنما کس فصل کی آس میں غلطیاں بو رہے ہیں؟

آج کل آپ ان لیڈرز کی تقریریں سن رہے ہوں گے ۔ کیا ان میں سے کسی نے پاکستان کے وسائل بچانے کی بات کی؟ کسی کے ایجنڈے میں پانی کے ذخیرے کے لیے چھوٹے ڈیم بنا نے کا ذکر ہے سوائے ایک کالا باغ ڈیم کا مسئلہ جسے لوگ صرف اور صرف سیاست چمکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔کیا سندھ سے تعلق رکھنے والے کسی لیڈر نے ہزاروں ایکڑ پر پھیلے زرخیز انڈس ڈیلٹا کی تباہ حالی پر روشنی ڈالی اور بے گھر ہوجانے والے لاکھوں غریبوں سے ہمدردی کی۔عالمی سطح پرپہچانے جانے والا یہ مسئلہ اپنے ملک میں کتنا اجنبی ہے۔بلٹ پروف گاڑیوں میں گھومنے والے یہ لیڈر بے چارے اس سر سبز شاداب انڈس ڈیلٹا کو کیا جانیں؟ جسے پانی کی کمی نے تباہ کردیا۔ لاکھوں لوگ ہجرت کر گئے اور مچھلیوں کی کئی نسلیں نایاب ہوگئیں۔

 پاکستان میں پانچ بڑے اور پندرہ چھوٹے دریا ہیں مگر 70%آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، تو کیا کسی لیڈر نے اس بارے میں بات کی۔لاکھوں لوگوں کو ڈاکٹر اور اسپتال کی سہولت میسر نہیں اور جنہیں خدا نے یہ توفیق دی تو وہ جعلی دواؤں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ سب مسائل انسان کی بنیادی ضروریات میں شمار ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں یہ سہولیات آسائشات میں شمار ہوتی ہیں، ابھی ہم ان ہی میں الجھ رہے ہیں اور زمانہ قیامت کی چال چل چکا ہے۔

 پڑھیے اور سر دھنیے کہ سائنس دانوں کی نئی تحقیق کے مطابق اگر درجہ حرارت میں اضافہ اندازوں کی نسبت آدھا بھی ہوا تو کرہ ارض ایک ایسا حیاتی تغیر اور خاتمہ دیکھے گا جو اس نے 65ملین سال قبل اس وقت دیکھا تھا جب اس دھرتی سے ڈائنو سارز کا خاتمہ ہوا تھا۔
ماحولیاتی تبدیلیاں اور موسمی تغیرات بنی نوع انسان کے لیے ایک نیا عذاب  لوگوں کی بے گھری کی صورت لا رہی ہیں۔ نظام قدرت میں دخل اندازی کے نتیجے میں پچھلے دس سالوں کے دوران دنیا میں قدرتی آفات کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ برطانیہ میں مقیم بنگلہ دیشی ماحولیاتی سائنس داں سلیم الحق کہتے ہیں کہ ان واقعات کی سائنسی وضاحت ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کی صورت میں ہی کی جاسکتی ہے۔

سلیم الحق انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج ((IPCCکے ان سائنس دانوں میں شامل ہیں جن کی تیار کردہ رپورٹ کو اس سال نوبل انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔ان کا کہنا ہے کہ آئندہ بیس سال کے لیے دنیا وقت کے ایک ایسے دورانیے میں قید ہوگئی ہے جہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی قدرتی آفات کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔چاہے مضر گیسوں کا اخراج فی الفور صفر کر لیا جائے۔سلیم الحق کی تحقیق کے سائنسی اعدادو شمار کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ پچھلے ایک سو سال کے دوران جتنی بھی قدرت آفات آئی ہیں ان کی شدت میں حالیہ دس سالوں کے دوران تیزی آئی ہے۔ جو سیلاب پہلے بیس سالوں میں ایک دفعہ آتے تھے اب ہر پانچ سال بعد آنے لگے ہیں۔درجہ حرارت میں اضافے سے گلیشیرز پگھل رہے ہیں۔سطح سمندر میں اضافہ ہورہا ہے اور خدشہ ہے کہ ہمالیہ کے وہ گلیشیرز آئندہ بیس سالوں میں اپنا وجود کھو بیٹھیں گے۔

حال اور ماضی کی ماحولیاتی تبدیلیوں میں فرق کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے یہ صدیوں پر محیط غیر محسوس قدرتی جغرافیائی عمل کے نتیجے میں رونما ہوتی تھیں جبکہ اب تیزی سے صورت حال بدل رہی ہے۔اس صورت حال کی ذمے داری دنیا کے ہر فرد پر عائد ہوتی ہے یہ اور بات ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے اس کے زیادہ ذمے دار ہیں۔سلیم الحق کے مطابق کسی ایک بین الابراعظمی پرواز کے نتیجے میں خارج ہونے والی کاربن کی فی کس مقدار کسی غیر ترقی یافتہ ملک کے ایک کنبے کے سالانہ کیروسین آئل ( مٹی کا تیل) کے استعمال سے خارج ہونے والی کاربن کی مقدار سے زیادہ ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امیر ممالک میں رہنے والوں کو احساس ہونا چاہیے کہ ان کے لائف اسٹائل کی وجہ سے غریب ممالک کے لوگوں پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت کا ماہرین کے مطابق پہلا شکار بنگلہ دیش ہی ہوگا۔درجہ حرارت میں اضافے اور اس کے نتیجے میں سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح کے سبب خیال کیا جاتا ہے کہ سال2030 تک بنگلہ دیش کے ایک کروڑ ستر لاکھ لوگ بے گھر ہو جائیں گے۔اور اگر عالمی ماحولیاتی آلودگی پر قابو نہیں پایا گیا تو رواں صدی کے آخر تک موجودہ بنگلہ دیش کا ایک چو تھائی حصہ سمندر کی نذر ہو جائے گا۔

لیکن یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اس صورت حال کے ذمے دار صدیوں سے دریاں اور سیلابوں کی سختیاں جھیلنے والے نہیں اس خطے کے باسی نہیں بلکہ وہ ممالک ہیں جو ترقی کی دوڑ میں کاربن اور دوسری مضر گیسوں کے اخراج کا سبب ہیں۔اس حوالے سے بی بی سی کی ایک مہم کاتذکرہ بے جا نہ ہوگا ۔یہ مہم ماحولیاتی تبدیلیوں کو اجاگر کرنے کی غرض سے بی بی سی کی عالمی سروس نے بی بی سی بنگالی سروس کی مدد سے شروع کی ہے جس کا نام بنگالی میں ’ نودی پوتھے بنگلہ دیش ‘ہے جس کا مطلب ہے کہ بنگلہ دیش کا سفر دریاؤں کے ذریعے۔

بنگلہ دیش کے دریاؤںکا یہ سفر ایک ماہ تک کشتی پر جاری رہے گا ۔ کشتی پر بی بی سی کے لیے مختلف زبانوں میں کام کرنے والے صحافی سوار ہیں۔اور وہ اپنے شب و روز اسی پر گذاریں گے تاکہ دریاؤں کے کناروں پر بسنے والوں کے مسائل کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرسکیں۔
کشتی میں وقتا فوقتا ماحولیات کے ماہرین بھی سوار ہوتے رہےں گے۔ انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج یعنی آئی پی سی سی(نوبل پرائز یافتہ 2007 ) کے سربراہ نے بھی اس حوالے سے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

بنگلہ دیش کو دریاؤں کی سرزمین کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔تقریبا پندرہ کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں چھوٹے بڑے کم و بیش سات سو دریابہتے ہیں۔اور ان سب کے اپنے اپنے نام بھی ہیں تاہم بڑے اور مشہور دریا میگھنا، پدما، برہم پترا اور گنگا ہیں۔بنگلہ دیش کے بڑے دریا مل کر سترہ کروڑ پچاس لاکھ ہیکٹر رقبے پر بہتے ہیں ۔ دریاؤں کے پانی ہی سے زمین سیراب ہوتی ہےاور اسی سے ماہی گیروں کا روز گار وابستہ ہے لیکن ہر سال سیلابوں کی شکل میں یہ دریا انسانی جانوں کااور معاشی وسائل کا خراج بھی لیتے رہتے ہیں۔

آئی پی سی سی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا رہا تو بنگلہ دیش کے دریاؤں میں آنے والے سالانہ سیلابوں کی شدت میں بیس سے چالیس فیصد اضافہ ہوجائے گا۔ سیلابوں اور سطح سمندر میں اضافے سے ماہرین کے مطابق جن بحرانوں کا سامنا ہوگا ان میں پینے کے پانی کی کمی ، جنگلات اور جنگلی حیات کو خطرہ، بڑے پیمانے پر انسانی ہجرت اور صحت کے مسائل شامل ہیں۔

 اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی حدت سے عالمح سطح پر کشیدگی بڑھ سکتی ہے جس کے نتیجے میں افریقہ اور ایشیا کے بعض علاقوں میں جنگیں چھڑ سکتی ہیں اور علاقائی شورش پیدا ہوسکتی ہے۔جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں پاکستان ، بنگلہ دیش اور ہندوستان کا خصوصی ذکر ہے جہاں درجہ حرارت سے گلیشیر پگھل رہے ہیں اور لوگوں کو پینے کے پانی کی قلت کا سامنا ہے۔سوئس اور جرمن ماہرین کی ایک اور رپورٹ کے مطابق دنیا میں بڑھتی ہوئی گرمی سے جنوبی ایشیا اور افریقہ میں خطرناک جنگیں چھڑ سکتی ہیں۔ان علاقوں کے غیر مستحکم ممالک نہ صرف انتشار کا شکار ہوسکتے ہیں۔ آبی اور ارضی وسائل پر کھینچ تان جنگوں کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔اوراس سے بڑے پیمانے پر لوگ اپنے گھر چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جا بسنے پر مجبور ہوں گے۔اگر گرمی میں صرف پانچ ڈگری سلیسیس کا اضافہ ہوگیا تو عالمی خانہ جنگی کی سی کیفیات پیدا ہوسکتی ہیں۔

ہمارے ایک اور پڑوسی افغانستان بھی خشک سالی کی بدترین صورت حال سے دوچار ہے۔موسم سرما کی برف باری کے باوجود دریاؤں کے کنارے خشک پڑے ہیں اور فصلوں کی تعداد کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ کنوؤں میں پانی ضرورت سے بہت کم ہے اور اس کا سبب بھی بارشوں کی کمی ہے ، بارشوں کا پانی زمین میں رسنے سے کنوئیں سیراب ہوتے ہیں۔مویشی بھی پیاسے مر رہے ہیں۔افغانستان سات سال سے جاری قحط سے ابھی نکل ہی پایا تھا کہ نئی خشک سالی نے صورت حال کو بدتر بنادیا۔اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اس سال کی خشک سالی کی وجہ سے 2.5ملین افغان شہریوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔ اس سے قبل ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اندازہ 6.5افراد پہلے ہی موت کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ خشک سالی کا شکار علاقے زیادہ تر ملک کے جنوبی حصے میں ہیں۔ ان علاقوں سے ہزاروں لوگ گھر بار چھوڑ کر جا چکے ہیں۔واضح رہے کہ جنوبی علاقے پر تشدد کرروائیوں کا گڑھ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ لوگ سانسوں کی ڈور برقرار رکھنے کے لیے زیادہ تر پوست کی کاشت کر رہے ہیں۔کیونکہ خشک سالی میں پوست بہترین کاشت ہوتی ہے۔غریب بے چارے اورکربھی کیا سکتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے علاقوں میں بسنے والوں کے نزدیک اپنا علاقہ چھوڑنا ہی سب سے بہتر حکمت عملی ہے۔دریائی اور ساحلی علاقوں سے نقل مکانی کے باعث ڈھاکہ اس وقت آبادی میں اضافے کی شرح کی اعتبار سے دنیا کے بڑے شہروں میں سر فہرست ہے۔

عالمی سطح پر پناہ گزینوں کی تعداد میں پانچ سال بعد پہلی مرتبہ اضافہ ہوا ہے۔اور اقوام متحدہ کے نزدیک اس کی وجہ عراق پر تشدد صوری حال ہے۔اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے پناہ گزین کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس چودہ فیصد اضافے کے ساتھ پناہ گزینوں کی تعداد ایک کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اندرون ملک بے گھر ہونے والوں کی تعداد بھی ایک کروڑ تیس لاکھ تک پہنچ گئی ہے جو خود ایک ریکارڈ ہے۔ پناہ گزینوں میں اضافہ عراق کے علاوہ لبنان ، مشرقی تیمور،سوڈان اور سری لنکا میں جاری شورش ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے اعدادو شمار میں وہ چالیس لاکھ فلسطینی شامل نہیں ہیں جو اسرائیل کی وجہ سے بے گھر ہوچکے ہیں۔تقریبا پندرہ لاکھ عراقی پناہ گزینوں کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔اور ان میں زیادہ تر اردن اور شام میں مقیم ہیں۔قومیت کے حساب سے پناہ گزینوں کی یہ دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔سر فہرست افغان ہیں جو اکیس لاکھ کی تعداد میں ہیں۔

غذائی بحران وارننگ

اقوام متحدہ کی خوراک و زراعت کی تنظیم ایف اے او نے خبردار کیا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کی مہنگائی ترقی پذیر ملکوں میں لاکھوں انسانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ بن رہی ہیں۔ ایف اے او نے کہا ہے کہ گذشتہ ایک سال میں خوراک کی قیمتوں میں چالیس فیصد اضافہ ہوا ہے جو بہت سے ملکوں کی برداشت سے با ہر ہوگا۔

ایف اے او کا کہنا ہے کہ ایسی مہنگائی کی پہلے نظیر نہیں ملتی اور اگر کسانوں کو فوری طور پر مدد نہیں ملے گی تو بہت سے ملک غذائی بحران کا سامنا نہ کرسکیں گے۔ ادارے نے کہا کہ37ممالک میں لڑائی اور قدرتی آفات کی وجہ سے غذائی بحران پیدا ہوا ہے۔

آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک پر خشک سالی اور سیلابوں نے حملے کیے ہیں ۔اس کے علاوہ تیل کا بھاؤ اونچا چلا گیا اور ساتھ میں اناج سے بننے والے بناسپتی ایندھن کی مانگ بڑھی ہے جس کی وجہ سے اور بھی شدید ہوگیا ہے کہ دنیا میں خوراک کے ذخیرے بہت گھٹ گئے ہیں اور امداد کے لیے بھی کھانے پینے کی اشیا کم ہوگئی ہے۔

اس سال اناج کی مہنگائی نئے ریکارڈ پر پہنچ گئی ہے جس نے ہر طرح کی غذائی اشیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

اقوام متحدہ ہی کے عالمی ادارہ صحت نے فیصلہ کیا ہے کہ سری لنکا میں خوراک میں کمی کے شکار دسیوں ہزار بچوں کو مفت خوراک فراہم کرنے کا پروگرام شروع کیا ہے۔ یہ بچے سری لنکا میں جنگ سے متاثرہ علاقے میں بستے ہیں۔سری لنکا میں یہ اپنی نوعیت کا واحد پروگرام ہے۔اسی ادارے کے ایک سروے میں علم ہوا ہے کہ ملک کے شمالی اور مشرقی حصوں میں اسکول جانے والے ایک چوتھائی بچے خوراک کی شدید کمی کا شکار ہیں۔یہ صورت حال علاقے میں جاری رہنے والی طویل خانہ جنگی کا نتیجہ ہے۔جرمنی کی ایک تنظیم کے سروے کے مطابق ایک تہائی بچے خوراک کی عدم دستیابی کے باعث ناشتہ کیے بغیر اسکول جاتے ہیں۔خصوصی طور پر چار سے پانچ سالہ بچے خطرناک حد تک خوراک کی کما کا شکار ہیں۔خوراک پروگرام کے تحت سو سے زائد اسکول جانے والے تینتیس ہزار بچوں کو خوراک فراہم کی جائے گی۔ جبکہ اگلے برس تک ایک لاکھ ستر ہزار بچے مناسب خوراک حاصل کر سکیں گے۔ان بچوں کو دوپہرکے کھانے میں دال اور چاول مفت فراہم کیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں اس وقت 25لاکھ سے زائد افغان مہاجرین آباد ہیں۔اور تا حال اٹھائیس لاکھ چالیس ہزار سے زائد افغان باشندے وطن جاچکے ہیں۔ اور اقوام متحدے کی چھپن سالہ تاریخ میں افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا یہ سب سے بڑا پروگرام ہے جو 2000 میں شروع ہوا۔ 

پاکستان اور ایران دنیا میں سب سے زیادہ افغان پناہ گزینوں کو پناہ دینے والے ملک ہیں ۔

خشک سالی ، بھوک اور افلاس کا تذکرہ ہو تو افریقہ کا ذکر کیسے نہ ہو۔ایڈز کے ہر ایک سو میں سے ستر مریض افریقہ میں ہیں ۔ روزانہ چھ ہزار مریض مر رہے ہیں اور گیارہ ہزارنئے بن رہے ہیں۔بوٹسوانا اورزیمبیا جیسے ممالک کی چالیس فیصد آبادی اس مرض کی لپیٹ میں ہے جسے ملیریا کہتے ہیں جس کا علاج باقی دنیا میں دس سے بیس روپے میں ہوجاتا ہے اور اس ملیریا سے ارققہ میں ماہانہ ڈیڑھ لکھ بچے مر رہے ہیں۔کسے فرصت کہ یہ معلوم کرتا پھرےے کہ پچھلے چالیس برسوں میں نائیجیریا ، سیرالیون اور انگولا کے معدنی ذخائر خانہ جنگی کا منحوس طوق کیسے بن گئے،کانگو میں گذشتہ چھ برس میں کیسے خانہ جنگی اور امداد کی عدم فراہمی نے اڑتیس لاکھ افراد کو مار ڈالا۔اور اس وقت بھی روزانہ ایک ہزار افراد کیوں مر رہے ہیں۔ جبکہ اسی کانگو میں اقوام متحدہ کی امن فوج کے سولہ ہزار سپاہی گھوم رہے ہیں اور دنیا کے کسی ایک علاقے میں یہ اقوام متحدہ کی سب سے بڑی فوج ہے۔سوڈان کا علاقہ دار فور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور میڈیا کی توجہ کا مسلسل مرکز ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ پچھلے چالیس برسوں کے دوران بیس افریقی ملک کس لیے خانہ جنگی کے خونی تجربے سے گذرے اور اس آگ سے کن کن ممالک کی ترقی یافتہ ممالک اور کمپنیوں نے اپنے اقتصادی ہاتھ تاپے۔ یہ بھی ایک رونے کا مقام ہے کہ جس براعظم کا عالمی تجارت میں حصہ محض دو فیصد ہے اور امداد کے لیے ملنے والے ہر دو ڈالر میں سے ایک ڈالر سود کی مد میں چلا جاتا ہے۔اس بر اعظم پر تین سو بلین کا ڈالر کا قرضہ کس نے لادا۔ حالانکہ اس براعظم میں سالانہ ڈیڑھ سو بلین ڈالر کرپشن اور بد انتظامی میں ضائع ہوجاتے ہیں۔یقین نہیں آتا کہ یہ وہی افریقہ ہے جہاں سب سے پہلے انسان نے اوزار بنائے اور آگ کا استعمال سیکھا۔ اور یہیں سے نسل انسانی باقی دنیا میں پھیلی۔

جنگوں اور دیگر سیاسی تنازعات کے سبب نقل مکانی کرنے والے فورًا عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں لیکن چونکہ ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے لوگوں کی ہجرت بہت زیادہ تعداد میں نہیں ہوتی ہے اس لیے لوگوں کی توجہ ان کی طرف بہت کم مبذول ہوتی ہے لہذا ان کے مسائل پر بھی بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔تا وقتیکہ سونامی یا زلزلے جیسی کوئی بڑی قدرتی آفت نہ آئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں ماحولیاتی مہاجرین موجود ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ نے خبردار کیا ہے کہ 2010 تک ایسے افراد کی تعداد 50ملین تک پہنچ سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کے 1951کے چارٹر میں ”مہاجرین” کی طے شدہ تعریف اور ا ن کی بحالی کا طریقہ کار موجود ہے لیکن ماحولیاتی مہاجرین اس تعریف پر پورا نہیں اترتے لہذا اب وقت آگیا ہے کہ اس مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے فورا یہ طے کرنا ہوگا کہ کس طرح انہیں امداد فراہم کی جاسکتی ہے اور کس طرح انہیں بسایا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحفظ ماحول کے بین الاقوامی معاہدے’ کیوٹو پروٹوکول‘ اور آئی پی سی سی کی تجاویز پر عمل درآمد میں امریکا کی موجودہ بش انتظامیہ ایک بڑی رکاوٹ رہی ہے۔لیکن ان پر عمل درآمد کے حتمی سال دوہزار نو تک وائٹ ہاؤس میں تبدیلی آچکی ہوگی۔امریکی طرز عمل کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سبب دوسرے بڑے ممالک چین اور بھارت بھی کیوٹو پروٹوکول کے ےوالے سے تعاون نہیں کر رہے لیکن سلیم کا کہنا ہے کہ جب امریکا تعاون پر آمادہ ہوجاوئے گا تو چین اور بھارت بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

جس دنیا میں ہر سال پینتیس ارب ڈالر کا بوتل بند پانی پیا جاتا ہے ،اس دنیا میں ایک ارب سے زائد افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں جبکہ انہیں صرف دس ارب ڈالر خرچ کرکے یہ سہولت مہیا کی جاسکتی ہے، یورپ سالانہ گیارہ ارب ڈالر کی آئس کریم کھا جاتا ہے لیکن دنیا کا ہر بچہ صرف ڈیڑھ بلین ڈالر کے ٹیکوں سے پانچ خطرناک بیماریوں سے محفوظ ہوسکتا ہے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیتا،پالتو جانوروں کی خوراک پر شمالی امریکا اور یورپ میں سالانہ سترہ ارب ڈالر خرچ ہوجاتے ہیں،اور اس دنیا میں ناکافی غذائیت اور بھوک مری ختم کرنے کے لیے سالانہ انیس ارب ڈالر خرچ کرنے پر آمادہ نہیں،میک اپ اور پرفیومز پر ہم جولوگ ہر برس تینتیس ارب ڈالر صرف کردیتے ہیں جبکہ افریقہ کو ایڈز ، قحط اور خانہ جنگوں کے شکار بے گھروں کی آباد کاری کے لیے ہر برس صرف پچیس ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن افریقہ کو بہت ہی ایڑیاں رگڑنے کے بعد سالانہ اوسطا وارہ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہی میر آتے ہیں۔

آپ اس موازنے سے بیزار ہوکر یہ کہہ سکتے ہیں کہ آخر ان اعدادو شمار کا مطلب کیا ہے ؟ کیا ہم بوتل بند منرل واٹر نہ پیئیں، اپنے بچوں کو آئس کریم نہ کھلائیں، پرفیوم نہ لگائیں، پالتو جانوروں کو کھانا نہ کھلائیں، ان کا علاج نہ کروائیں،اور یہ سب اگر ہم افورڈ کر سکتے ہیں تو آپ کو کیا تکلیف ہے، آپ حکومتوں کو یہ وعظ کیوں نہیں دیتے کہ وہ اس دنیا کے غریب ملکوں کا خیال کریں،تو جناب حکومتوں کا یہ حال ہے کہ 1970میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد میں امیر ملکوں سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ زیادہ نہیں صرف اپنی سالانہ قومی آمدنی کا اعشاریہ سات فیصد یعنی نصف فیصد سے کچھ زائد غریب ملکوں کے لیے وقف کردیں تو دنیا پر سکون ہو جائے گی ،آج اڑتیس برس گذر چلے ہیںاور صرف چار ممالک یعنی سوئیڈن،ناروے ، ہالینڈ اور لکسمبرگ کو ہی یہ توفیق ہو سکی کہ وہ اقوام متحدہ کے اس امدادی ہدف پر پورا اتر سکیں۔

دنیا کا سب سے طاقتور ملک امریکا جو اس دنیا کے 25 سے 30فیصد تک وسائل سالانہ استعمال کرتا ہے، اپنی کل قومی آمدنی کے ایک فیصد کا بھی محض دسواں حصہ ترقی پذیر ملکوں کو بطور امداد دیتا ہے،اور وہ بھی اپنی شرائط پر یوں سمجھ لیں کہ اگر امریکا دفاع پر اگر اڑتیس ڈالر خرچ کرتا ہے تو اس کے مقابلے میں غریب ملکوں کو صرف ایک ڈالر دیتا ہے ، جنوبی کوریا کو جب پندرہ اگست 1945میں جاپانی چنگل سے نجات ملی تو اس وقت تک عالمی جنگ نے ملک کو ایک بڑے کھنڈرمیں تبدیل کردیا تھا، پھر پچاس سے تریپن تک کی جنگ کوریا نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی، اس ملک کے پاس کوئی خاص معدنی دولت بھی نہیں تھی،بس ایک بہتر سا تعلیمی نظام تھا جس نے سیاسی اور فوجی آمریت کے لمبے سائے تلے بھی نہایت تربیت یافتہ افرادی قوت تیار کرلی، نتیجہ یہ ہے کہ جب کوریا دو برس پہلے ساٹھ سال کا ہوا تو وہ دنیا کی دس بڑی صنعتی قوتوں میں شامل تھا، اور فی کس آمدنی اٹھارہ ہزار سالانہ سے زائد تھی،

اگرچہ اس عرصے میں انڈونیشیا تیل سے مالا مال ہونے کے باوجود اتنی ترقی نہ کرسکا جتنی اس کے ہمسایوں نے کی لیکن پھر بھی جب اس نے دو برس پہلے آزادی کی آٹھویں سالگرہ منائی تو ملک کم از کم آئینی جمہوریت کی راہ پر پوری طرح گامزن ہوچکا تھا، سری لنکا ساٹھ برس کا ہوا تو تامل سنہالہ تنازعے نے ملک کی چولیں ہلادیں لیکن ان حالات میں بھی اس کی فی کس آمدنی بھارت اور پاکستان کے مقابلے میں ستر فیصد سے زائد رہی، اور جمہوریت بھی پٹڑی سے نہیں اتری، اور نوے فیصد تعلیمی خواندگی کے نتیجے میں سری لنکا جنوبی ایشیا کا سب سے پڑھا لکھا ملک بھی ہے۔

چین دو برس بعد ساٹھ سال کا ہوگا ، کمیونسٹ انقلاب کے وقت وہ بھارت سے بھی زیادہ پسماندہ تھا لیکن آج ساٹھ سال کی عمر میں چین دنیا کی سب سے بڑی فیکٹری اور تیسری بڑی اقتصادی قوت ہے، جو ڈیڑھ ارب آبادی والے اس ملک کے لیے کسی معجزے سے کم

ملائشیا ابھی صرف پچاس برس کا ہے، آزادی کے وقت ملائیشا کی شناخت صرف ٹن کی معدنیات اور پام آئل تھی اور اس کا شمار پاکستان سے بھی زیادہ غریب ملک میں ہوتا ہے لیکن پچاس برس بعد ملائیشا جنوب مشرقی ایشیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک کہلاتا ہے، پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقت ہیں۔

Wednesday, October 24, 2007

الگور صدر ہوتے تو دنیا کا نقشہ یہ نہ ہوتا !

آسکر ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم کے خالق کے لیے اب نوبل انعام بھی

صدر بش کی جنگجو فطرت نے دنیا کو جس طرح جنگی میدان میں بدل دیا ہے اس کانظارہ ہم عراق اور افغانستان میں تباہی اور تشدد کے بھڑکتے شعلوں ، اور پاکستان میں چنگاریوں کو ہوا دیتے ہوئے دیکھ کرکر سکتے ہیں اور اسے دیکھتے ہوئے یہ بات حسرت سے کہی جاسکتی ہے کہ کاش صدر بش کے بجائے الگور امریکا کے صدر ہوتے تو صورت حال شایدکچھ مختلف ہوتی۔امریکا کی پالیسیاں اپنی جگہ لیکن انسان کی فطرت و عادت اور اس کے گرد موجو د لوگ اس سے بہت کچھ کروا لیتے ہیں ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ اپنے ہی جیسے لوگ اپنے گرد جمع رکھتا ہے۔

امریکا کے سابقہ نائب صدر البرٹ آرنلڈ گور جنہیں عرف عام میں الگور کہا جاتاہے کو امریکا کے صدارتی انتخابات میں بش جونیئر کے مقابلے میں 537 ووٹوں سے شکست ہوئی تھی اور انہیں کس طرح شکست دی گئی تھی یہ کوئی اتنا ڈھکا چھپا راز نہیں ہے ۔الگور بل کلنٹن کے دور میں امریکا کے نائب صدر تھے۔

اپنے ملک میں جمہوریت ،آزاد عدلیہ اور انسانی حقوق کے محافظ اپنے دہرے معیارات کے تحت دنیا کے ان تمام ممالک میں منظر نامے کو یکسر مختلف رکھنا چاہتے ہیں جہاں جہاں ان کے مفادات وابستہ ہیں۔بد قسمتی سے پاکستان اپنی جغرافیائی محل وقوع کے باعث ہمیشہ عالمی طاقتوں کی محاذ آرائی کا کبھی براہ راست اور کبھی بالواسطہ شکار رہا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں کی دلچسپی ، ضرورت اوردوستی و دشمنی بدلتی رہتی ہے اور اگرکبھی پاکستان کے ساتھ بھی ایسا ہوا کہ اس کی جغرافیائی لحاظ سے اتنی اہمیت نہ رہے تب بھی ہماری جاں بخشی نہ ہوسکے گی کیونکہ آنے والے وقتوں میں پاکستان اپنے آبی وسائل کے باعث مرکز نگاہ ہوگا۔پاکستان کے شمال میں اونچے پہاڑوں کے دامن میں موجود وسیع و عریض گلیشیئرپاکستان کی معیشت اور زراعت کو رواں دواں رکھنے کا باعث ہیں۔قطبین میں موجود گلیشیئر کے علاوہ سب سے زیادہ گلیشیئر یہیں پائے جاتے ہیں۔ان گلیشیئر سے دنیا کے کئی بڑے دریا نکلتے ہیں۔آنے والے دنوں میں ان آبی وسائل پر تسلط کی سیاست کی جائے گی۔موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں کم ہوتا میٹھا پانی آنے والے وقتوں میں نایاب بھی ہوسکتا اور تب یہ گلیشیئر کس قدر قیمتی ہوں گے اس کا اندازہ ہم کرسکتے ہیں، اور صرف گلیشیئر ہی کیا سمندر، ساحل، دریا، زرخیز مٹی، صحرا، نایاب پھول پودے اور جانور کون سی نعمت ہے جو اس خالق کائنات نے اس ملک اور قوم کو نہیں بخشی۔سورہ رحمن میں بتائی گئی تمام نعمتیں اس ملک و قوم کے دامن میں ڈال دی گئی ہیں۔۔۔لیکن کاش ہمارے ارباب اختیار و اقتدار ان نعمتوں کا ادراک کرسکتے۔



بش اور الگور میں فرق کے لیے ہم ان دونوں کے کام کا تجزیہ کرسکتے ہیں۔

صدر بش کے پسندیدہ کا م کون سے ہیں یہ سب جانتے ہیں جبکہ سابق امریکی نائب صدر الگور کے تحفظ ماحول کے حوالے سے کیے جانے والے کام کا عالمی سطح پر اعتراف کرتے ہوئے انہیں امن کا نوبل انعام  2007کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے۔اس سے قبل اسی سال الگور ہی کی تیار کردہ ایک دستاویزی فلم ” تکلیف دہ سچ “ (An    Inconvenient Truth)  پر انہیں آسکر ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
1901 سے دیا جانے والا نوبل انعام کا حصول کسی بھی مرد و عورت کے لیے انتہائی اعزاز کی بات ہے ، اسے دنیا کا سب سے بڑے انعام تصور کیا جاتا ہے۔یہ ایوارڈ فزکس ، کیمسٹری، طب ، ادب اور امن کے لیے منفرد کام کرنے والوں کو دیا جاتا ہے۔1895 میں الفریڈ نوبل نے اپنی آخری وصیت میں اس انعام کو جاری کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی تمام دولت اس کام کے لیے وقف کردی تھی۔

سائنس داں ، موجد،مصنف، ادیب اور شاعر الفریڈ نوبل کی یقینا تمام دنیا احسان مند رہے گی۔

 12 اکتوبر2007 کے روز ناروے کی نوبل کمیٹی نے جو اعلامیہ جاری کیا اس کے مطابق الگور اورموسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انٹر گورنمنٹل پینل آف کلائمیٹ چینج(IPCC)  کو مشترکہ طور پر نوبل انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا۔اعلامیے میں بتایا گیا کہ ان دونوں کی کوششوں سے انسانی سرگرمیوں کے باعث پیدا ہونے والی منفی ماحولیاتی تبدیلیوں کے درست ڈیٹا کا حصول اور اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے دنیا بھر کی توجہ کا حصول اور شعور و آگہی میں اضافہ ممکن ہوسکا ۔
ماحول کی تباہی اب کوئی نئی بات نہیں رہی ہے ۔اس صدی کی آخری تین دہائیاں اس حوالے سے اہمیت کی حامل ہیں جب دنیا نے ان خطرات پر سنجیدگی سے کان دھرنا شروع کیا۔ابتدا میں دنیا کے لیے یہ باتیں انوکھی اور انہونی تھیں اور شاید وہ اسے سمجھنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ لیکن آج صورت حال مختلف ہے، اس سال کے اوائل میں جب IPCC نے موسمیاتی تغیر پر اپنی تحقیقاتی رپورٹ جاری کی تو گویا دنیا میں ہلچل مچ گئی۔1500صفحات کی یہ ضخیم رپورٹ     100ممالک کے 2000 سائنس دانوں کی شب و روز کاوش کا نتیجہ ہے۔رپورٹ کے مطابق غیر متوازن صنعتی ترقی سے فضا میں خطرناک گیسوں خصوصا کاربن ٹائی آکسائیڈ کا تنا سب بڑھ رہا ہے۔اس کے نتیجے میں زمین کے درجہ حرارت میں بھی مسلسل اضافہ جاری ہے۔الگور کی دستاویزی فلم بھی اسی سنگین مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔اس فلم میں بتایا گیا ہے کہ اگر ترقی کے نام پر ماحولیاتی تباہی کو نہیں روکا گیا تو آئندہ برسوں میں درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھ جائے گا اور قطبین کی برف پگھلنے سے سمندروں کی سطح کئی میٹر بلند ہوسکتی ہے جس سے بہت سے جزیرے اور ساحلی شہر غرق ہوسکتے ہیں۔اس فلم میں الگور نے صدر بش پر کیوٹو پروٹوکول (مضر گیسوں میں کمی کا عالمی معاہدہ) کو تسلیم نہ کرنے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ” اگر کسی شخص کو بات نہ سمجھنے کی تنخواہ مل رہی ہو تو اسے بات سمجھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔

 الگور کی وجہ شہرت اب سے پہلے اگرچہ ان کی سیاست ہی رہی ہے ۔وہ بل کلنٹن کے نائب صدر اور 2000 کے صدارتی انتخا بات میں بش جونیئر کے مقابل صدارتی امید وار تھے۔ لیکن یہ بات بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ انہیں ماحولیات سے بھی خصوصی دلچسپی ہے۔ انہوں نے زمین کو پیش آنے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کو ابتدائی مرحلے پر ہی محسوس کر لیا تھااور نائب صدر کی حیثیت سے اپنے سیاسی کردار کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ماحول کے حوالے سے بہت کام کیا۔انہوں نے ان مسائل کو اپنے لیکچروں ، کتابوں، اور دستاویزی فلموں کے ذریعے اجاگر کیا ۔ان کے اس پر خلوص کام کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور دو بڑے اعزازات (نوبل اور آسکر) سے ان کے کام کا اعتراف کیا گیا۔

اپنی دستاویزی فلم ”تکلیف دہ سچ” An Inconvenient Truth کے نام سے انہوں نے ایک کتاب بھی شائع کی ہے۔59 سالہ الگور نے ایک ذاتی تنظیم اتحاد برائے تحفظ ماحول (الائنس فار کلائمیٹ پروٹیکشن) بھی قائم کر رکھی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ نوبل انعام برائے امن کی رقم بھی وہ اسی تنظیم پر خرچ کریں گے۔آئی پی سی سی پانچ سالہ بنیادوں پر جامع ماحولیاتی رپورٹ تیار کرتی ہے ۔ آج کل ہندوستانی نژاد ماہر ماحولیات،راجندرا پیچوری اس کے چیئر مین ہیں۔الگور کے لیے نوبل انعام کے اعلان پر انہوں نے نہایت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے اور ان کی تنظیم کے لیے بہت فخر کی بات ہے۔”مجھے امید ہے کہ نوبل کمیٹی کے اس اعلان کے بعد عوام میں ماحولیاتی تحفظ کا احساس اجاگر ہوگا اور عوام عالمی تپش میں اضافے کو روکنے کے لیے ماحولیاتی تنظیموں کا ساتھ دیں گے۔

 افریقہ کی ونگاری ماتھائی کو2005 کا نوبل انعام تحفظ ماحول ہی کے لیے دیا گیا تھا۔اس کے بعد2006 میں بنگلہ دیش کے محمد یونس کو غربت کے خاتمے اور اب 2007 میں الگور کو دیا جانے والا نوبل انعام یہ بتا رہا ہے کہ اب تحفظ ماحول کا مسئلہ دنیا بھر میں سر فہرست آچکا ہے۔ ماحول کی بقا ہی میں دراصل ہم سب کی بقا ہے۔ امن کے لیے جانے والا یہ انعام جنگ سے محبت کرنے والوں کے لیے یقینا لمحہ فکریہ ہے ۔

Tuesday, October 23, 2007

خطرات میں گھرے جنگلات

کیا کسی سیاسی منشور میں جنگلات کا تحفظ شامل ہے؟                 
  
کسی بھی ملک و قوم کی خوش بختی اور خوش حالی کا اندازہ اس کے زر مبادلہ کے ذخائر سے نہیں بلکہ اس کے قدرتی وسائل سے کیا جاتا ہے۔قدرتی وسائل ہی وہ اصل خزانہ ہیں جس سے اس ملک کے کھیت کھلیان سر سبز ، دریاؤں میں رواں دواں پانی اور لوگوں کے چہروں پر خوشی اور مسرت کے رنگ جھلملاتے ہیں۔زمین پر زندگی کے تمام رنگ ان ہی قدرتی وسائل کے مرہون منت ہیں۔ مالا مال سمندر دریا، دنیا کے بلند پہاڑ ان کے دامن میں جھومتے بارشوں کو کھینچتے سیکڑوں سالہ قدیم درخت ، زرخیز مٹی کے میدان ،سر سبز کھیت کھلیان اور رنگ برنگا حیاتی تنوع ہی ہماری اصل دولت ہے۔انسان دراصل دو گھروں کا مکین ہے ، ایک اس کا گھر اور دوسرا کرہ ارض ۔ ہمیں دونوں گھروں کا یکساں تحفظ کرنا ہے لیکن ہم نے اپنی عاقبت نا اندیشی سے اپنے ان دونوں گھروں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

 فطرت کی زبان سمجھنے والے بے آب و گیاہ دھول اڑاتے میدانوں اور خشک جھاڑیوں پر لکھی یہ تحریر پڑھ لیتے ہیں کہ کوئی تو ہے جس نے قدرت کے مکمل اور متوازن ماحول کو اس مقام تک پہنچایاہے۔ زمینی وسائل کے استعمال اور قدرتی ماحول کے درمیان ایک نہایت مضبوط تعلق موجود ہے اور انسانی سرگرمیاں جب قدرتی ماحول میں خلل ڈالتی ہیں تو ہرے بھرے مناظر کو صحراں میں تبدیل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔



درخت یا جنگلات بظاہر ہمارے لیے ایک عام سے وسائل ہیں لیکن زمین کا تمام تر فطری ماحولیاتی نظام ان ہی کے گرد گھومتا ہے۔یہی موسموں کے جن کو قابو میں رکھتے ہیں۔ جنگلات کو اگر ماحول کا نگہبان کہیں تو زیادہ غلط نہ ہوگا۔ یہ بڑے پیمانے پر فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں ،درجہ حرارت اور بارش کو قابو میں رکھتے ہیں۔ان کی جڑیں زمین کو مضبوطی سے تھامے رکھتی ہےں۔ بے شمار جانور اور پرندوں کے لیے فطری مساکن اور لاکھوں افراد کے لیے وطن کا کام کرتے ہیں۔نباتات اور حیوانات کی یہ رنگا رنگی خوراک کی زبردست دولت اور انسانی صحت کے لیے بیش بہا دوائیں فراہم کرتی ہے۔جنگلات سے ایندھن اور تعمیرات کے لیے لکڑی، حیوانات کے لیے چارہ، پھل،شہد، ،حیوانی پروٹین ،دواؤں کے عروق اور دوسری بہت سی خام اشیا مثلا گوند ، موم اور سریش وغیرہ حاصل ہوتے ہیں۔ یہ جنگلات کروڑوں مویشیوں ، بکریوں، بھیڑوں اور اونٹوں کے لیے چارے کی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں۔

 ملک کے بڑے بڑے آب گیر علاقوں( واٹر شیڈز) میں اگنے والا یہ حفاظتی پردہ نہ صرف ماحولیاتی نظاموں کو برقرار رکھتا ہے بلکہ مٹی کو اپنی جگہ قائم رکھ کر سیلابوں کے مقابلے میں رکاوٹ کاکام بھی دیتا ہے۔

شجر کاری کے حوالے سے حضور اکرم ﷺ کی صاف اور صریح ہدایات موجود ہیں ۔ ان کے مطابق مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر شجر کاری کی ترغیب دی گئی ہے۔اسلام نے درخت لگانے اور نباتات کی حفاظت کرنے کو کار ثواب( صدقہ) قرار دے کر نہ صرف دنیاوی فوائد بلکہ آخرت کے لیے سعادت کا حصول قرار دیا ہے۔

لیکن ان جنگلات سے کیا سلوک کیا جاتا ہے ذرا دیکھیے تو :

 کہا جاتا ہے کہ 30 فٹ بال گراؤنڈ کے مساوی جنگل کا رقبہ ہر منٹ کاٹا جاتا ہے۔گذشتہ کئی سالوں سے جنگلات کا خاتمہ یعنی دیسی جنگلوں اور لکڑی کے ذخائر کی مستقل تباہی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔پہلے ہی قدیم اور خالص جنگلات کا ایک تہائی حصہ صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے اور اب دنیا کے قدیم جنگلوں کا صرف40%حصہ ہی باقی بچا ہے۔جنگلوں کادو تہائی حصہ بنیادی طور پر بدل چکا ہے۔اس ضمن میں زیادہ تر نقصان پچھلے 45 سال میں ہوا ہے۔ایشیا میں منطقہ کے 42% اصلی جنگل ختم ہوگئے ہیں۔ یورپ میں ابتدائی جنگلات کا صرف 1%حصہ باقی رہ گیا ہے۔ہمالیہ کے دامن میں جو کبھی صنوبر، شاہ بلوط اور کنیر کے درختوں سے بھرا ہوتا تھا، اب اصلی جنگلوں کا 4% حصہ رہ گیا ہے۔افریقہ کے براعظم میں سب سے بڑھ کر جنگلات کا خاتمہ عمل میں آیا ہے۔مرکزی افریقہ کے بارش والے جنگل کا آدھا حصہ صاف ہوچکا ہے۔ مغربی افریقہ جو کبھی منطقہ حارہ کی عمارتی لکڑی سے مالا مال ہوا کرتا تھا اور تقریبا خالی ہوچکا ہے۔امیزون کے بارانی جنگل بھی تیزی سے گھٹتے جارہے ہیں۔سائنس دانوں کے مطابق ان بارانی جنگلات کے رقبے میں کمی سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھے گی اور جنگل میں لگنے والی آگ کی شرح بھی بڑھے گی۔برازیل کے علاقے میں واقع امیزون جنگل کی خلائی سیارے کی مدد سے لی گئی تصاویر اور جائزوں سے پتا چلا ہے کہ یہاں تقریبا ساڑھے پندرہ سو مربع کلو میٹر پر واقع درختوں کوسالانہ کاٹ دیا جاتا ہے۔یوں دنیا کے گھنے ترین بارانی جنگل کا مستقبل خطرے سے دوچار ہے۔

 پاکستان میں اس قیمتی قدرتی وسیلے سے مزید بد تر سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

پاکستان کا شماران ممالک میں ہوتا جہاں دنیا میں سب سے کم جنگل پائے جاتے ہیں۔یعنی اس کی خشکی کے مجموعی رقبے کا صرف 4.8 فیصد ہے جو بہت کم ہے اور حکومت اسے 2011ءمیں بڑھا کر 5.7 فیصد تک پہنچانا چاہ رہی ہے۔یہ محدود وسیلہ بھی کئی سالوں سے دباؤ کا شکار ہو رہا ہے۔

ہر سال حکومت سرکاری سطح پر شجر کاری مہم دھو دھام سے شروع تو کرتی ہے لیکن جتنا کثیر سرمایہ اس پر خرچ ہوتا ہے اس کے مقابلے میں نتائج چند فیصد بھی برآمد نہیں ہوتے ۔اور آئندہ سال جب یہ مہم ایک بار پھر شروع ہوتی ہے تو پچھلے سال کے نتائج قصہ پارینہ سمجھ کر بھلا دیے جاتے ہیں۔

   پاکستانی جنگلات کو تعریف کے لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔پیداواری جنگلات (Productive Forest)اور محفوظ جنگل (Protected Forests)  پاکستان کے اہم جنگلات میں سندھ میں موجود ساحلی جنگلات، دریائی جنگلات، بلوچستان کے چلغوزے اور صنوبر کے جنگلات،شمالی علاقوں کے جنگلات اور آزاد کشمیر کے جنگلات شامل ہیں۔

پاکستان کے ہر شعبے کی طرح جنگلات کے شعبے کو بھی کرپشن کی دیمک چاٹ گئی ہے۔یہ قیمتی وسیلہ سیاسی اثر رسوخ اور مجرموں کی سر عام سرپرستی کے باعث ہمیشہ غیر محفوظ رہا ہے۔اس قیمتی دولت سے فائدہ نہ اٹھانے والے کو عرف عام میں بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔سندھ کے دریائی جنگلات جنہیں کچے کے جنگلات بھی کہا جاتا ہے شدید خطرات سے دوچار ہیں۔یہ جنگلات دریائے سندھ کی گذر گاہ کے کنارے اور نواحی علاقوں میں واقع ہیں اور دریائے سندھ کے سیلابی پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔یہ جنگلات ٹمبر مافیا کے لیے خزانہ ہیں۔فرنیچر اور ایندھن کے لیے یہاں سے بے دریغ درخت کاٹے جاتے ہیں۔ کچے کی لکڑی فرنیچر سازی کے لیے بہترین سمجھی جاتی ہے۔ان علاقوں میں ٹمبر مافیا کا بہت اثر رسوخ ہے اور بغیر کسی نئی شجر کاری کے درختوں کی کٹائی زور شور سے جاری ہے۔اس کا نتیجہ ہم سب بارشوں کی کمی اور خشک سالی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔حالیہ بارشوں سے قطع نظر سندھ کئی سالوں سے خشک سالی کا بد ترین عذاب بھگت رہا تھا خصوصا تھر اور بلوچستان کے علاقے۔دریائے سندھ میں پانی کی کمی سے زراعت کے لیے بھی پانی نا کافی تھا۔ٹیوب ویلوں سے پانی کا حصول نا ممکن ہوچلا تھا کیونکہ بارشوں کی کمی سے زیر زمین پانی بھی کم ہوگیا تھا۔آج کل سندھ کے یہ جنگلات ڈاکوؤں کی پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں۔گھنے جنگلات کے باعث ا ن ڈاکوؤں تک پہنچنا اور ان پر قابو پانا قانون کے محافظوں کے لیے مشکل تھا لہذا حکومت نے یہ ”بہترین“ حل ڈھونڈا کہ ان جنگلات کا ہی صفایا کردیا جائے تاکہ نہ جنگل ہوگا اور نہ ڈاکو ان میں چھپیں گے۔ایسے ”بہترین“ فیصلے ملک و قوم کے مفاد میں آئے دن کیے جاتے ہیں۔

سیاسی اثر رسوخ بھی ٹمبر مافیا کی حوصلہ افزائی کا ایک سبب ہے۔

بلوچستان کا صرف% 1.7رقبہ جنگلات کے زیر سایہ ہے تاہم یہاں کے صنوبر کے جنگلات اسے اہم مقام بخشتے ہیں۔دنیا بھر میں پائی جانی والی صنوبرکی 25 اقسام میں سے 4اقسام پاکستان اور بھارت میں ہمالیہ کے پہاڑوں پر پائی جاتی ہیں ۔ صنوبر کی کچھ اقسام دنیا بھر میں صرف بلوچستان میں پائی جاتی ہیں۔ان جنگلات کا شمار دنیا کے قدیم ترین جنگلات میں پوتا ہے اور ماہرین بلا مبالغہ ان درختوں کی عمروں کا تخمینہ ہڑاروں سال لگاتے ہیں۔لیکن شعور اور آگہی کی کمی اور اور متابادل سہولت نہ ہونے کے باعث یہ نایاب درخت بھی ایندھن کے لیے کاٹ لیے جاتے ہیں۔اگرچہ قانونا ان درختوںکی کٹائی منع ہے لیکن ان پر چلتے تیز دھار کلہاڑے ان درختوں کے ساتھ ساتھ قانون کی بھی دھجیاں اڑاتے ہیں۔شمال میں پہاڑوں کے دامن میں موجود جنگلات ہمارے آبگیر علاقوں کے تحفظ کا سبب ہیں ۔ان جنگلات کے باعث بارش اور تیز رفتار سیلاب کی رفتار کم ہوجاتی ہے اور مٹی بھی مضبوطی سے جمی رہتی ہے۔اگر یہ درخت نہ ہوں تو بارش کا پانی تیز رفتاری سے انسانی آبادیوں کو بہا لے جائے گا اور مٹی کے بہنے سے ہمارے ڈیم مٹی سے بھر کر اپنی کارکردگی کھو بیٹھیں گے۔منگلا اور تربیلا ڈیم اس کی مثال ہیں۔ 2005 کے زلزلے کے نتیجے میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ چٹانی اور مٹی کے تودوں کے گرنے سے ہونے والی اموات کی شرح سب سے زیادہ ان علاقوں میں رہی جہاں جنگلات کا صفایا ہوچکا تھا۔

 فاریسٹری سیکٹر ماسٹر پلان کے مطابق شمالی پاکستان اور صوبہ سرحد میں ہر سال جنگلات کی کٹائی کے نتیجے میں ہونے والے ہوائی اور آبی کٹاؤ کے سبب کم از کم40 ملین ٹن مٹی سندھ طاس کے بہاؤ میں شامل ہوجاتی ہے اور 11ملین ہیکٹر زمین متاثر ہوتی ہے۔‘خشک اور نیم بنجر ارضیاتی کیفیت اور دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتی ہوئی صحرا زدگی کے باعث جنگلات میں ہونے والی یہ کمی نہایت تشویش ناک امر ہے۔

اگرچہ جنگلات کا شمار قابل تجدید وسائل میں کیا جاتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم انہیں کاٹے جائیں اوریہ ختم نہ ہوں۔اگر وہ اس رفتارسے کاٹے جائیں جو ان کی دوبارہ نشو و نما کی رفتار سے زیادہ ہو تو ہمارے جنگلات کے وسائل جلد ہی مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔جنگلات کے خاتمے کے اثرات مختصر المعیاد اور طویل المعیاد دونوں ہی ہوتے ہیں ۔جنگلات تمام ماحولیاتی نظاموں کو سہارا دیتے ہیں اورزمین پر زیادہ تر نباتاتی اور حیواناتی حیات کا فطری مسکن ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر ہم نہ صرف ان بیش بہا وسیلے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے بلکہ اس خدمت سے بھی محروم ہوجائیں گے جو یہ جنگل ہم انسانوں کو فراہم کرتے ہیں۔یہ بات شو رکی آلودگی میں بھی اضافہ کردے گی کیونکہ درخت مصروف شاہراہوں اور انسانی آبادیوں سے آوازیں جذب کرکے صوتی اور صوری پردوں کا کام انجام دیتے ہیں۔مختصرا یہ کہ جنگلات کی بربادی پانی اور کاربن کی گردش کودرہم برہم کردے گی اور اس طرح عالمی آب و ہوا بدل جائے گی اور کرہ حیات پر حیات کے لالے پڑ جائیں گے۔یاد رہے کہ 2050 تک دنیا بھر کے تقریبا ایک ارب افراد موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بے گھر ہو سکتے ہیں جس سے عالمی نوعیت کے سنگین مسائل جنم لیں گے۔

  ہمارے قدرتی وسائل اہم قومی سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔مثلا آزاد کشمیر اور دیر کوہستان کے جنگلات کو قابل استعمال ہونے میں سیکڑوں سال لگتے ہیں۔بلوچستان میں پائے جانے والے صنوبر کے جنگلات کی عمریں ہزاروں سالوں پر محیط ہیں۔یہ اگر ایک دفعہ ہم سے رخصت ہوگئے تو یقین جانیے کہ ہماری کئی نسلیں انہیں دیکھ نہیں سکیں گی۔یہ جنگلات ہماری مٹی کی زرخیزی اور پیداواری صلاحیت کے بھی نگہبان ہیں۔زرخیز مٹی کا پانی یا ہوا سے ضائع ہوجانا بھی کسی بڑے نقصان سے کم نہیں ہے کیونکہ مٹی قدرتی طور پر مختلف ماحولیاتی اثرات کے تحت ایک طویل جغرافیائی عمل سے گذر کر صدیوں میں تشکیل پاتی ہے۔

  جنگلات میں ہی نشوو نما پانے والے ایک اور اہم قدرت وسیلے یعنی ادویاتی پودوں کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ پاکستان میں دو ہزار سے زائد ادویاتی پودے پائےجاتے ہیں لیکن فرسودہ طریقوں اور قدرتی ماحول میں انسان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اس وسیلے سے خاطر خواہ استفادے سے محروم کر دیتی ہیں۔

 ہمارے ملک میں الیکشن کا موسم ہے۔ آئے دن کسی نہ کسی پارٹی کا منشور منظر عام پر آرہا ہے لیکن ہمیں حیرت ہے کہ کسی کی بھی ترجیحات میں ماحول کا تحفظ یا کسی قدرتی وسیلے کی بحالی شامل نہیں ہے۔ شاید ان معزز لوگوں کے نزدیک یہ گھٹیا مسائل صرف غریبوں تک محدود ہیں۔لیکن شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ ایک کرہ ارض کے باسی ہونے کے سبب ہر مسئلہ ان تک ضرور پہنچے گا اور متاثر کرے گا ، یہ الگ بات ہے کہ یہ ’بڑے لوگ‘ اپنی رہائش کے لیے کسی اور سیارے کا انتخاب کرلیں۔اگر واقعی کوئی لیڈر ہوتااور اس کے دل میں ملک و قوم کا درد ہوتا تووہ ضرور اس طرف توجہ دیتا۔ 2004 کا نوبل انعام حاصل کرنے والی افریقی ماہرماحولیات ونگاری ماتھائی ان سب کے لیے روشن مثال بن سکتی ہے۔1977 سے کام کا آغاز کرنے والی ماتھائی افریقہ کی پہلی پی ایچ ڈی خاتون بھی ہیں۔انہوں نے بے دریغ کٹائی کے خلاف اور تیزی سے کم ہوتے جنگلات کے تحفظ کے لیے ایک ’سبز تحریک‘(Green Movement)کا آغاز کیا۔ونگاری نے تیس سال کے عرصے میں کینیا میں تیس کروڑ درخت لگائے۔شاید پاکستان کو بھی ایک ونگاری ماتھائی کی ضرورت ہے۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ کے حوالے سے کام کرنے والی ایک ویب سائٹ نے اپنا تجزیہ(CO2 foot print) پیش کیا ہے کہ ایک فرد جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے اسے 5 درخت لگا کر جذب کیا جسکتا ہے ، گویا ہر فرد پانچ درخت لگا کر فضا سے اپنے حصے کی کاربن ڈائی آکسائیڈ صاف کرسکتا ہے۔چلیے پانچ نہ سہی لیکن 16 کروڑ عوام ایک ایک درخت تو لگا ہی سکتے ہیں ۔۔۔


توآئیے کسی لیڈر کسی حکومت کا انتظار کیے بغیر ہم اپنے حصے کا کام کرجائیں۔

موسموں کی بے ترتیبی، کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟

کیوٹوپروٹوکول کے بعد نیا معاہدہ ، امریکا کا شمولیت سے انکار

آنے والے موسموں کے تغیرات ہمارے لیے مسائل کا ایک نیا در وا کررہے ہیں اور مسائل بھی ایسے کہ جن سے نمٹنا آسان نہیں ہے ۔گلوبل وارمنگ، گرین ہاؤس گیسی اثرات اورکلائمیٹ چینج جیسی اصطلاحات ماحول کے حوالے سے عام سنائی دے رہی ہیں ۔ابتدا میں ا ن مسائل کو عالمی مسائل سمجھا جاتا تھا لیکن تیزی سے بے ترتیب ہوتے موسموں نے ہمارے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجادی ہے ۔یہ طے ہے کہ کرہ ارض کے باسی ہونے کے باعث تمام مسائل ہم تک ضرور پہنچتے ہیں یا یہ کہنا زیادہ بہتر رہے گا کہ قصور ہمارا ہو یا نہ ہو ترقی پذیر ملک ہونے کے ناطے سزا ہمیں ضرور بھگتنی ہوتی ہے خصوصا ایسی صورت میں جہاں ملک کے کرتا دھرتا لوگ صرف چین کی بانسری ہی بجانا جانتے ہیں ۔ ایک حکومت پانچ سال تک دودھ اور شہد کی نہریں( صرف زبانی دعووں کی حد تک) بہا کر رخصت ہوئی اور آئندہ حکومت بنانے کے لیے جبرکے اس موسم میں بھی سیاست داں الیکشن کی ریوڑیوں پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ان میں سے اکثر معزز لوگ شاید صرف نام کی حد تک موسموں کی بے ترتیبی(Climate change) اور بڑھتی ہوئی حدت (Global Warming) جیسے گمبھیر مسائل سے واقف ہوں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مسائل اس وقت پوری دنیا میں ترجیہات کی فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔تمام ترقیاتی ممالک اس وقت Climate Change کے مسئلے پر انتہائی سنجیدگی سے سر جوڑے کام کررہے ہیں۔اور یہ بھی طے ہے کہ تمام شعبہ ہائے فکرکے ساتھ ساتھ جب تک سیاست داں اسے سنجیدگی سے نہیں لیں گے اس مسئلے کے حل میں کوئی پیش رفت نہیں ہوگی اور اس حوالے سے ہمیں اپنی کم مائیگی میں کوئی شبہ نہیں ہے۔

 دسمبر کا پہلا عشرہ اس حوالے سے انتہائی اہم ہے کہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام Climate Change پرانڈونیشیا کے جزیرے بالی میں عالمی سطح کی ایک کانفرنس منعقد ہورہی ہے جہاں تقریبا190ممالک کے 10,000سے زائد وفود سر جوڑے بیٹھے ہیں۔اس کانفرنس کا اہم ترین ایجنڈاگلوبل وارمنگ ، اس کی وجوہات اور اس کے اثرات سے رونما ہونے والی موسموں کی بے ترتیبی کے ساتھ ساتھ کیوٹو پروٹوکول جیسے کسی نئے معاہدے کی تشکیل ہے۔ 1997 میں تشکیل دیا جانے والا معاہدہ کیوٹو پروٹوکول 2012 تک ختم ہوجائے گا۔

صنعتی ممالک کی چمنیوں سے خارج ہوتی خطرناک گیسوں کی روک تھام کے لئے جاپان کے شہر کیوٹو میں 1997 میں ایک معاہدہ کیوٹو پروٹوکول کا قیام عمل میں لایا گیاتھا۔ اس معاہدے کے تحت 2012 تک صنعتی ممالک کو ان گیسوں کے اخراج میں 5.2 فیصد تک کمی کرنا تھی۔ اس معاہدے پر سوائے امریکا کے سبھی ترقی یافتہ ملکوں نے دستخط کئے ہیں لیکن امریکا نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ امریکا کے اس اقدام سے یورپی ممالک اور ماہرین سخت نالاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا سب سے زیادہ ان گیسوں کی پیداوار کا ذمہ دار ہے لہٰذا تحفظ ماحول کے ا قدامات میں بھی اسے ہی سب سے زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔یوں بھی امریکا جیسے صنعتی ترقی یافتہ ملک کے تعاون کے بغیر ماحولیاتی مسائل پر قابو پانا ناممکن ہے۔حالیہ بالی کانفرنس کا ایک اہم ایجنڈا کیوٹو پروٹوکول کے بعد تشکیل دیے جانے والے معاہدے میں امریکا کو بھی شامل کرنا ہے۔

انڈونیشیا اس عالمی کانفرنس کا میزبان ہے جہاں لاکھوں افراد موجود ہوں گے اوراندازہ ہے کہ ان کی آمد و رفت سے 50,000 ہزار ٹن گرین ہاؤس گیسیس پیدا ہوں گی لہذا ان گیسوں کے انجذاب کے لیے لاکھوں پودے اور درخت لگائے گئے ہیں۔شاید وقت سے سبق سیکھنا اسی کو کہتے ہیں، یاد رہے کہ انڈونیشیا میں 2004دسمبرمیں سونامی نے تباہی مچائی تھی اور اس کا ایک سبب ماہرین ساحلی جنگلات کی کٹائی اور ہ فطری ماحولیاتی نظام میں حد سے زیادہ انسانی مداخلت قرار دے رہے تھے۔

ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق دنیا کی کل آمدنی کا 65% حصہ ان صنعتی ممالک کے پاس ہے ، جب کہ پوری دنیا میں خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا کل 45% حصہ ان ہی صنعتی ممالک کی چمنیوں سے خارج ہوتا ہے۔

 زمینی درجہ حرارت میں بتدریج اضافے کے عمل کو Global Warming کہا جاتا ہے جو عموما گرین ہاؤس گیس اثرات کے باعث رونما ہوتا ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے اثرات سے ہمارے موسم بے ترتیب ہورہے ہیں جس کے سبب پہاڑوں اور گلیشیر کی صورت میں صدیوں سے جمی برف پگھلنے لگے گی۔ سمندروں کی سطح بڑھ جائے گی۔ سیلاب اور سمندری طوفان رونما ہوں گے اور نشیبی سطح پر واقع ممالک اور جزیرے غرق آب ہوجائیں گے۔ موسموں کی ترتیب بگڑنے سے زراعت کی تباہی اور خوراک میں کمی واقع ہوگی۔ درجہ حرارت میں ہر ایک ڈگری کے اضافے کے ساتھ حیاتی انواع کو اپنی بقا کے لیے قطبین کی طرف 90 کلو میٹر قریب ہونا پڑے گا۔ تیزی سے بدلتی ہوئی آب و ہوا اور حالات سے مطابقت نہ کرپانے کے سبب پودے اور بالآخر ان پر انحصار کرنے والی تمام انواع معدوم ہونا شروع ہو جائیں گی ، ماحولیاتی نظام اور فطری مساکن تباہی کے قریب ہوں گے۔

  اس سال کے آغاز پر ماہرین ماحولیات کی یہ رپورٹ یقینا دنیا بھر کے لیے غور طلب تھی کہ رواں سال گرم ترین سال ثابت ہوگا۔برطانیہ کے محکمہ مو سمیات اور ایسٹ اینجلیا یونیوسٹی کے تعاون سے کی گئی اس تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہورہا تھا کہ اس سال درجہ حرارت میں اور اضافہ ہوگا اور امکان ہے کہ یہ سال پچھلے کئی سالوں سے زیادہ گرم رہے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بحر الکاہل میں بعض خاص تبدیلیوں(El- Nino)  کے سبب اس سال کرہ ارض پر درجہ حرارت بڑھے گا اور اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ اس برس 1998 سے بھی زیادہ گرمی پڑے گی۔ اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ 2006 میں اوسطا برطانیہ میں پہلے سے کہیں زیادہ گرمی تھی اور 1914ء، جب سے درجہ حرارت کے ریکارڈ کا سلسلہ شروع ہوا ہے کبھی اتنی گرمی نہیں ہوئی تھی۔

 یہ موسم یک بیک اتنے بے ترتیب کیسے ہو چلے ؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حالات کو اس نہج تک پہنچنے میں ایک عرصہ لگا ہے۔ یہ طے ہے کہ وقت کرتا ہے پرورش برسوں ، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ سو یہ حادثہ بھی کئی دہائیوں کی بے پروائیوں اور غفلت سے رقم ہوا ہے ۔ حضرت انسان نے خود کو عقل کل سمجھ کرایک طرف تو فطرت کے قوانین میں دخل اندازی شروع کردی اور دوسری جانب نام نہاد ترقی سے اپنے موت کے پروانے پر خود دستخط کرنا شروع کردیا۔


 پچھلی صدی کی آخری تین دہائیوں سے ماہرین نے لوگوںکو خبردار کرنا شروع کر دیا تھا لیکن اس وقت شاید دنیا والوں کے لئے یہ نئی اور انہونی باتیں تھیں جنہیں وہ سمجھنے کے لئے تیار نہ تھے لیکن جب الگور کے ساتھ نوبل انعام یافتہ اقوام متحدہ کے انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (IPCC) نے موسمیاتی تغیر (Climate Change) پر اپنی تازہ ترین رپورٹ جاری کی تو جیسے دنیا کے ہر حصے میں ہلچل سی مچ گئی۔ اپریل 2007 میں جاری کردہ 1500 صفحات کی یہ ضخیم رپورٹ 100 ممالک کے 2000 سائنس دانوں کی شب و روز محنت کا نتیجہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق غیر مناسب صنعتی سرگرمیوں سے فضا میں خطرناک گیسوں خصوصاً کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تناسب بڑھ رہا ہے اور ا س کے نتیجے میں زمین کے درجہ ءحرارت میں بھی مسلسل اضافہ جاری ہے۔ 1990 سے جاری یہ اضافہ اگر 1.5 سے 2.5 سیلسیس تک جا پہنچا تو دنیا تباہی کے خوفناک منظر دیکھے گی۔ سیلاب، سمندری طوفان، خشک سالی اور قحط جیسے عذاب انسان کا مقدر بن جائیں گے اور زمین پر موجود 30 فیصد انواع صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گی۔ ”30 فیصد انواع کا معدوم ہونا“ کیا معنی رکھتا ہے کاش اس کی سنگینی کو ہم سمجھ سکتے۔ کسی ایک نوع کے بھی مٹنے سے فطرت کی اربوں سالہ محنت تو برباد ہوتی ہی ہے لیکن اس سے کہیں بڑا نقصان زندگی کی زنجیر میں سے ایک کڑی کا ٹوٹ جانا ٹھہرتا ہے۔ اب ذرا غور کیجئے کہ اس زنجیر کی 30فیصد کڑیوں کو باہر نکال کر پھینک دیا جائے تو اس زنجیر کا کیا حال ہو گا؟

 یہ رپورٹ دو ٹوک انداز میں اس کی بھی وضاحت کرتی ہے کہ فضا کو آلودہ کرنے میں سب سے زیادہ امریکا کا ہاتھ ہے۔ ان خطرناک گیسوں کا 38 فیصد حصہ امریکا ہی کی چمنیوں سے نکلتا ہے لیکن ایک طاقتور اور وسائل سے مالا مال ملک ہونے کے ناتے وہ ان خطرات کا با آسانی مقابلہ کر سکتا ہے۔اصل مسئلہ تو غریب ممالک کا ہے۔جن کے پاس نہ وسائل ہیں اور نہ تیکنیکی مہارت۔

آج آلودگی کو دنیا کا ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ تصور کیا جاتا ہے اور اس کے خاتمے کی بات کی جاتی ہے ۔دنیا سے آلودگی کے خاتمے کے لیے ”پیسے “ کی ضرورت ہے جبکہ ہمارا یہ خیال ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ ”پیسہ“حاصل کرنے کی ہوس ہی ہے جس نے تمام آلودگی کو جنم دیا۔ایک ایسافطری طرز زندگی اپنانا جو کرہ ارض کے لیے نقصان دہ نہ ہو اتنا آسان نہیں ہے لیکن اب اس کے بنا چارہ بھی نہیں ہے۔

غیر محتاط صنعتی سرگرمیوں سے فضا گرین ہاؤس گیسوں سے کس قدر آلودہ ہے اس کے لیے امریکا ہی کی ایک ریسرچ کے نتائج دیکھیئے ۔ہوائی کے جزائر میں قائم ایک امریکی اسٹیشن نے جس کی پیمائش سب سے مستند سمجھی جاتی ہے، بتایا کہ گذشتہ50 برس میں کاربن ڈائی آکسائیڈکی مقدار میں 25 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور یہ متواتر بڑھ رہا ہے۔ تازہ رپورٹ کے مطابق اس گیس کی سطح کاحجم 378 حصہ فی ملین ہوچکا ہے، جو1750ءکی سطح کے مقابلے میں100حصہ زیادہ ہے۔کیوٹو پروٹوکول کی اکثر شقوں کو دیگر صنعتی ممالک ماننے کے لیے تیار تھے مگرامریکی صدر نے نہایت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ماننے سے انکار کردیا ۔امریکا اور چین جیسی بڑی طاقتوں کے تعاون کے بغیر ماحولیاتی مسائل پر قابو پانا نا ممکن ہے۔

فضا میں مضر گیسوں کے کم کرنے کے معاہدے کیوٹو پروٹوکول کا مقصد دراصل ایسے طریقہ ءکار کی تلاش ہے جس کی مدد سے گرین ہاؤس گیسوں کو قابو میں رکھا جائے۔ ان خطرناک گیسوں میں سرفہرست کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے۔

کیوٹو پروٹوکول کے تحت کاربن ڈائی آکسائیڈ گھٹانے کے لئے ایک طریقہ کار Clean Development Mechanism (CDM) وضع کیا گیا ہے۔ اس کے تحت ایسے ترقی یافتہ ممالک جو خطرناک گیسوں میں کمی کے حوالے سے اپنے ملک میں کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھاسکے اور اپنے متعین کردہ اہداف تک نہیں پہنچ سکے وہ کسی بھی ترقی پذیر ملک میں ماحول دوست سرگرمیاں انجام دے کر نتائج کو اپنے اہداف میں شامل کر سکتے ہیں۔ گویا وہ تحفظ ماحول کے حوالے سے غریب ملکوں میں سرمایہ کاری بھی کر سکتے ہیں۔

یہ بات تو اب طے شدہ ہے کہ ماحولیاتی بگاڑ کے ذمے دار صرف اور صرف ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ فضائی آلودگی، گرین ہاؤس گیس اثرات، موسموں کے بے ترتیبی اور اوزون کی تہہ میں شگاف جیسے سنگین جرائم میں پاکستان جیسے غریب ملک کا کوئی ہاتھ نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ عالمی موسموں کی ہر تبدیلی ہم تک ضرور پہنچے گی بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر رہے گا کہ ہم ان آفات سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوں گے کیوں کہ ان سے نمٹنے کے لئے ہمارے پاس وسائل ہیں اور نہ تکنیکی مہارت۔

درجہ ءحرارت کے بڑھنے سے پاکستان کے لے پہلا خطرہ ہمالیائی گلیشیئرز ثابت ہوں گے۔ ان گلیشیئرز سے دنیا کے کئی بڑے دریا مثلاً دریائے سندھ، گنگا، برہم پترا، سلوین، میکا ونگ، یانگ ژی اور زرد دریا نکلتے ہیں جن کا پانی پاکستان، بھارت، چین اور نیپال میں زندگی کو رواں دواں رکھنے کا باعث ہے۔ گرمی کے بڑھنے سے یہ گلیشیئرز تیزی سے پگھلیں گے (اوسطاً 10 تا 15میٹر سالانہ) اور ان دریاؤں میں طغیانی کی کیفیت پیدا ہو گی جس سے کناروں پر آباد لاکھوں افراد کو سیلاب کا سامنا ہو گا۔ کچھ عرصے بعد جب پانی کم ہو جائے گا تو یہی ممالک خشک سالی کا عذاب سہیں گے۔ زراعت تباہی سے دوچار ہو گی، قحط پھیلے گا اور ان غریب ممالک پر افلاس کے سائے اور گہرے ہو جائیں گے۔ یہ وہ کم از کم خطرات ہیں جو کسی ناکردہ جرم کی سزا کے طور پر پاکستان کو بھی بھگتنا ہوں گے۔کسی بھی ملک کا ماحول تباہ ہونے کا مطلب اس کی معیشت اور سماجیات کی بھی تباہی ہے۔ماہرین کے مطابق ایشیا اور افریقہ خصوصا اس کا شکار ہیں ۔خوراک کی کمی بالآخر قحط کی صورت اختیار کر لے گی۔زرعی ملک ہونے کے ناطے گرم موسم پاکستان کی زراعت کو متاثر کر رہے ہیں۔سمندروں کی سطح بلند ہونے سے ہمارے ساحل متاثر ہوں گے جس سے ساحلوں پر آباد لاکھوں افراد بے گھر ہوں گے۔سمندری خوراک کی ایکسپورٹ متاثر ہوگی جس سے ہماری معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔بنگلہ دیش کا حالیہ طوفان اس کی مثال ہے ۔سینٹر فار ایڈوانس اسٹڈیز کے مظہرالاسلام کا کہنا ہے کہ حالیہ طوفان گلوبل وارمنگ ہی کا نتیجہ ہے جس کے نتیجے میں 3,400 لوگ ہلاک ، سیکڑوں لاپتا اور 350,000 بے گھر ہوئے۔اس وقت تمام ممالک کی ضرورت ہے کہ وہ تمام ضروری اقدامات کرتے ہوئے ان بدلتے موسموں سے خود کو ہم آہنگ کرلیں اور محفوظ کرلیں۔لیکن غریب ممالک کا اصل مسئلہ وسائل کی کمی ہے اور نہ ہی وہ تکنیکی طور پر اتنے مضبوط ہوتے ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے بڑی بڑی کانفرنسوں میں رقوم مختص کی جاتی ہیں لیکن یہ مدد ایسی ہی ہوتی جیسے کے اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ بین الاقوامی امدادی ایجنسی آکسفیم کا کہنا ہے کہ یہ امداد غریب ممالک کی توہین کے برابر ہے لہذا حالیہ بالی کانفرنس میں اس پر نظر ثانی کی جائے۔اس حوالے سے ایک مثبت قدم کے طور پرریاض میں منعقد  OPEC سمٹ میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے گلوبل وارمنگ کے مسائل سے نمٹنے اور تکنیکی مہارت کے حصول کے لیے 300 ملین ڈالرز کا فنڈ مختص کیا ہے۔ امید ہے کہ دیگر اسلامی ممالک جہاں قدرت نے تیل کے چشمے بہادیے ہیں اپنی کچھ دولت اس اہم مسئلے کے حل کے لیے بھی استعمال کریں گے۔

دنیا میں غربت اور عالمی سطح پر موجود عدم مساوات کو حل کیے بغیر ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کی تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ کیونکہ صنعتی ممالک کے اپنائے گئے ترقیاتی اہداف بہت سے ماحولیاتی وسائل پر بے پناہ بوجھ کا سبب بنتے ہیں۔آزاد تجارت میں تیزی کے باعث 10سال کے عرصے میں دنیا 10فیصد جنگلات سے محروم ہوئی اور امیر ممالک کی چمنیوں سے نکلتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ نے فضا کو مزید33 فیصد آلودہ کیا۔22 امیر ممالک اپنی صنعتوں کو ہزار ملین ڈالرز سالانہ چھوٹ فراہم کرتے ہیں جس میں ماحول میں خطرناک گیسوں کا اضافہ کرنے والی صنعتوں کو57 بلین ڈالرز دیے جاتے ہیں۔یہ رقم حیرت انگیز طور پر اس رقم کے مساوی ہے جو عالمی سطح پر ان گیسوں کی مقدار پر قابو پانے کے لیے درکار ہے۔آزاد معاشی تجارتی پالیسیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر غربت اور ماحولیاتی تباہ کاری کاعمل تیز تر ہوگیا ہے۔عام طور پر تجارت کی آزادی کو ماحول کے لیے نقصان دہ تصور کیا جاتا ہے۔اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ زیادہ بین الاقوامی تجارت کے معنی زیادہ ہوائی ، سمندری اور زمینی مواصلاتی ذرائع کا استعمال ہے۔

آزاد تجارت کے نظریات کے پیچھے بین الاقوامی تجارتی کمپنیوں، عالمی اداروںاور معاشی و فوجی طور پر طاقتور سرمایہ دار ممالک کا ہاتھ ہے۔خاص طور پر امریکا ، اسی لیے گلوبلائزیشن کا دوسرا نام سامراجیت ہے۔بڑے مالیاتی ادارے اپنے قرضہ جات کا50 فیصد نجی کمپنیوں کو دیتہ ہیں جن کا تعلق G-8 کے ممالک سے ہے۔امریکا اوزون کو نقصان پہنچانے والی مجموعی گیسوں کا تیسرا حصہ پیدا کرتا ہے ۔وہ نہ صرف ان گیسوں میں مسلسل اضافہ کررہا ہے بلکہ کیوٹو پروٹوکول سے انکار کرکے پوری انسانیت کی بقا کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

چند اصلاحات کی عام فہم تشریح:

عالمی درجہ حرارت میں اضافہ  ( Global Warming)

زمینی درجہ حرارت میں بتدریج اضافے کے عمل کو Global Warming کہا جاتا ہے جو عموما گرین ہاؤس گیس اثرات کے باعث رونما ہوتا ہے۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت دنیا کو مشکل میں ڈا ل رہا ہے۔اس سے پہاڑوں اور گلیشیر کی صورت جمی برف پگھلنے لگی گی۔ سمندروں کی سطح بڑھ جائے گی۔ سیلاب اور سمندری طوفان رونما ہوں گے اور نشیبی سطح پر واقع ممالک اور جزیرے غرق آب ہوجائیں گے۔ موسموں کی ترتیب سب گڑ بڑ ہوجائے گی۔ زراعت کی تباہی سے خوراک میں کمی ہوگی۔ درجہ حرارت میں ہر ایک ڈگری کے اضافے کے ساتھ حیاتی انواع کو اپنی بقا کے لیے قطبین کی طرف 90 کلو میٹر قریب ہونا پڑے گا۔ تیزی سے بدلتی ہوئی آب و ہوا اور حالات سے مطابقت نہ کرپانے کے سبب پودے اور بالآخر ان پر انحصار کرنے والی تمام انواع معدوم ہونا شروع ہو جائیں گی ، ماحولیاتی نظام اور فطری مساکن تباہی کے قریب ہوں گے۔

 گرین ہاؤس اثرات اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ

 زمین دن میں سورج سے حرارت جذب کرتی ہے اور رات میں اس حرارت کا کچھ حصہ خلا میں واپس چھوڑ کر ٹھنڈی ہوجاتی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے یہ حرارت آزاد نہ ہوسکے تو زمینی درجہ حرارت بتدریج بڑھ جائے گا۔ 1972 میں تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسری گیسیں مثلا میتھین ، کلوروفلورو کاربنز ،  نائٹرس آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ حرارت کو روک لیتی ہیں اور اسے خلا میں واپس نہیں جانے دیتیں۔ یہ گیسیں اس طرح کام کرتی ہیں جیسے کسی گرین ہاؤس میں شیشہ کام کرتا ہے کہ وہ حرارت کو داخل تو ہونے دیتا ہے لیکن تھوڑی حرارت کو روک لیتا ہے اور گرین ہاؤس سے باہر نکلنے نہیں دیتا۔ یہ گیسیں زمین پر زندگی کے لیے مطلوبہ حرارت کو باقی رکھنے میں ایک حیات بخش کردار انجام دیتی ہیں۔لیکن اب کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار کوئلے اور کنجوری ایندھن کے بے تحاشہ جلانے کی وجہ سے فضامیں داخل ہورہی ہے۔جنگلوں کا تیزی سے گھٹتا ہوا حفاظتی پردہ کرہ ارض میں اس صورت حال کو مزیدخراب کر رہا ہے۔ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور آکسیجن کو ریلیز کرتے ہیں۔ درختوں کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی خاصی مقدار جذب نہیں ہوسکے گی اور فضا میں موجود رہے گی ۔ یہ گرین ہاؤس گیسیں جو ایک دبیز کمبل کی طرح فضا کو ڈھانپے ہوئے ہیں اس عمل کی ذمے دار ہیں جو گلوبل وارمنگ کہلاتا ہے۔

تیزابی بارش

 تیزابی بارش اس وقت ہوتی ہے جب جلتے ہوئے کنجوری ایندھن سے (Fossil Fuel)  سے خارج شدہ سلفر اور نائٹروجن ، سورج کی روشنی  ماحول میں موجود آکسیجن اور پانی کے بخارات کے ساتھ مل کر بارش بناتی ہے ۔ ماہیت کے اعتبارے یہ بارش تیزابی ہوتی ہے۔یوں سمجھ لیجیے کہ سلفیورک اور نائٹرک ایسڈ کا پتلا شوربہ ہوتا ہے۔کچھ گنجان صنعتی یافتہ علاقوں میں ، فضا کے اندر ہائیڈروجن گیسیں ہائیڈروکلورک ایسڈ پیدا کرتی ہیں جو تیزابی بارش کاجزو ترکیبی بھی بن سکتی ہیں۔فضا کے ذریعے یہ آمیزہ بارش ، برف یا خشک ذرات کی شکل میں میٹھے پانی اور زراعتی زمین کی تیزابیت میں اضافہ کردیتا ہے۔

تیزابی بارش جھیلوں ، چشموں اور آبی ذخائر کی تیزابیت میں اضافہ کرتی ہے اور آبی حیات کے لیے شدید خطرے کا باعث ہے۔
تیزابی بارش بنیادوں میں دراڑیں ڈال کر عمارت کو کم زور اور غیر محفوظ بنا دیتی ہے۔ قدیم تاریخی یادگاریں اور عمارات جو تیزابی بارش کی زد میں آجاتے ہیں شکستہ ہوجاتے ہیں انڈیا میں تاج محل اس کی مثال ہے۔جس کا خوبصورت سنگ مر مر اب پیلا پڑ چکا ہے۔
تیزابی بارش بچوں اور بوڑھے افراد کے لیے تنفس کے مسائل اور فضا میں گندھک کی بہت زیادہ مقدار آنکھوں ، دانتوں اور جلد کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔

اوزون کی تہہ

ہمارا فضائی ماحول مختلف اور متعدد سطحوں پر منقسم ہے ۔ زمین کی بالائی فضا میں ان ہی مختلف تہوں کے مابین 10سے 50 کلو میٹر کے درمیانی فاصلے پر اوزون گیس پر مشتمل تہہ واقع ہے۔ درحقیقت اوزون مالیکیول آکسیجن کے تین ایٹموں کے باہم ملنے سے بنتے ہیں جبکہ ہماری سانس لینے والی آکسیجن مخصوص دو ایٹموں کا مرکب ہے۔

آکسیجن کے مخصوص فارمولے سے تخلیق پانے والی یہ فضائی چھتری اپنے اہم کردار کے باعث کرہ ارض پر آباد ہر ذی حیات کے لیے ایک حفاظتی ڈھال کا کام انجام دیتی ہے۔ اس کے منفرد اجزائے ترکیبی میں یہ صفت پائی جاتی ہے کہ وہ سورج سے خارج ہونے والی مضر صحت شعاعوں خصوصا الٹرا وائلٹ شعاعوں کو زمین پر پہنچنے سے پہلے ہی جذب کرکے غیر موثر بنادیں۔ سورج جہاں ہمارے لیے روشنی اور حرارت کا ایک بے پناہ وسیلہ ہے وہیں اس کی ضرر رساں شعاعیں جان دار مخلوق کے لیے انتہائی خطرناک تصور کی جاتی ہےں۔ ان شعاعوں سے بہت سی بیماریاں ، جلدی سرطان ، بینائی کا زیاں وغیرہ ہوتا ہے۔ یہ شعاعیں DNA کو تہہ و بالا کرتی ہیں۔


صنعتی ترقی نے جہاں آسانیاں پیدا کیں وہیں بے شمار ماحولیاتی مسائل نے جنم لیا۔ صنعتوں میں استعمال ہونے والی کلورو فلورو کاربنزیعنی  CFCs جن سے کلورین مونو آکسائیڈ پر مشتمل گیس خارج ہوتی ہے جو اوزون کے لیے انتہائی مہلک ہے۔ کلورین کے سالمے بہت زیادہ متعامل ہوتے ہیں اور بہت جلد تین ایٹموں پر مشتمل اوزون کو علیحدہ کرکے دوایٹمی آکسیجن کی شکل دے دیتے ہیں۔لہذا اب ایسی اشیا کو فروغ دیا جارہا ہے جس میں CFCs کا استعمال نہ ہو۔ اوون کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر ایک معاہدہ ”مانٹریال پروٹوکول “ تشکیل دیا گیا۔