Saturday, October 10, 2009

ماں کے گھر پر واپسی

گذشتہ 30 برسوں میں گیل اسٹراب نے دنیا بھر میں ہزاروں لوگوں کو اپنی زندگیوںکا مطلب اور مقصد سمجھانے کے لیے کام کیا ہے۔ انہوں نے اپنی نئی کتاب ’ ریٹرننگ ٹو مائی مدرز ہاؤس‘ میں خواتین کی بصیرت کو موضوع بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے کچھ اس طرح ہیں کہ خواتین کو اپنی صلاحیتیں منوانے کے لیے اپنی نسوانی ذات سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔  اسٹراب اپنی کتاب میں اپنی ماں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ کس طرح انہوں نے ایک اچھی ماں اور اور ایک اچھی خاتون خانہ بننے کے لیے کس طرح اپنے خواب قربان کردیے۔  ان کا کہنا ہے کہ دنیا کی ہر عورت کی ایک ہی کہانی ہے۔ زیادہ تر خوتین جب اپنی زندگی میں سماجی کامیابیوں کے لیے جدوجہد میں مصروف ہوتی ہیں ان کا اپنی نسوانی بصیرت سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے۔ عورت جب گھر سنبھال رہی ہوتی ہے یا پچوں کی پرورش کررہی ہوتی ہے بلاشبہ یہ تمام کام بہت اہم ہیں لیکن ان میں گم ہوکر وہ اپنی ذات کی تعمیر و تربیت سے محروم ہوجاتی ہے۔ اپنی کتاب میں اسٹراب نے خواتین کو اپنی ذات کی تعمیر اور بقا کے مختلف طریقے بتائے ہیں۔ جن کی مدد سے وہ اپنی نسوانی بصیرت دوبارہ حاصل کرسکتی ہیں۔ ان میں اپنے جذبات اور اندر کی آواز پر دھیان دینا، اپنے گھر اور کمیونٹی کی تعمیر،اور تخلیقی فنون میں مشغول رہنا شامل ہیں۔ اپنے خیالات کو تحریر میں لانا، مجسمہ سازی ، مصوری، رقص، موسیقی، گلوکاری، یہ سب تخلیقی فنون اپنی ذات کے اظہار کے طریقے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دوستوں کا ایک حلقہ جو خواتین پر مشتمل ہو تشکیل دینے کی صرورت ہوتی ہے۔ اس میں ہماری مائیں، خالائیں اور نانیاں دادیاں شامل ہوتی ہیں۔ہم ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔اسٹراب کے شوہر ڈیوڈ گیریشن نیویارک کے ایک ادارے میں ڈائریکٹر ہیں جو قائدانہ صلاحیتیں ابھارنے کے حوالے سے تربیت دیتا ہے۔ اسٹراب بھی اس ادارے سے وابستہ ہوگئیں اور انہیں دنیا بھر کی خواتین سے ملنے کا موقع ملا۔ ان کی ملاقات روانڈا، جنوبی افریقہ، کمبوڈیا اور افغانستان کی خواتین سے ملنے کا موقع ملا اور وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ دنیا بھر کی خواتین کے مسائل تقریبا ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ان کا ادارہ خواتین کو صلاحیتوں کے ادراک اور ان کے بہترین استعمال کا طریقہ سکھاتا ہے۔ اس سے خواتین نہ صرف اپنے لیے بلکہ ملک و قوم کے لیے بھی بہترین ہوتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں دوسری خواتین تک رسائی اور بھی آسان ہوچکی ہے۔  انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے خیالات اور تجربات کا تبادلہ کرکے اپنےی نسوانی بصیرت میں اضافہ کرسکتی ہیں۔

بین الاقوامی امداد کے امریکی ادارے یو ایس ایڈ   اور ایک مقامی تنیظم   مڈوفری ایسوسی ایشن آف پاکستان نے اس ہفتے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک خصوصی کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں ملک بھر سے آئی ہوئی سینکڑوں نرسوں ، دائیوں اور ہیلتھ ورکرز کو بچے کی پیدائش کے دوران زچہ کو مدد فراہم کرنے کے حوالے سے تربیت دی گئی۔ کانفرنس کے دوران ماہرین نے اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں خواتین کی شرح اموات میں 20 فیصد سے زائد تناسب ان اموات کا ہے جو زچگی کے دوران یا بچے کی پیدائش اور اس کے بعد پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ یو ایس ایڈ کے مطابق پیدائش کے وقت ایک ہزار میں سے 78 بچوں کی اموات بھی واقع ہوتی ہیں۔ اور یہ شرح بھارت ، نیپال اور بنگلہ دیش سے بھی زیادہ ہے۔ ادارے کے اندازے کے مطابق 89 میں سے ایک عورت زچگی کی پیچیدگیوں کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھی رہی ہے۔ پاکستان میں65 فیصد خواتین بچوں کو گھر میں جنم دیتی ہیں۔ اور ان میں سے آدھے سے زائد کو بعد از پیدائش طبی امداد نہیں ملتی جبکہ دیہی علاقوں میں رہنے والی غریب خواتین کو زچگی اور پیدائش کے دوران کسی قسم کی طبی امداد نہیں ملتی۔

No comments:

Post a Comment