Tuesday, December 29, 2009

عوام کے بے نظیر گھر

کوٹری سے ٹھٹھہ جاتے ہوئے قدیم تاریخی شہر جھرک سے کچھ فاصلے پر ایک انوکھا منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔  سنگلاخ پہاڑوں اور گھاس پھونس کی جھگیوں کے درمیان تعمیر شدہ نئے نویلے گھر ایک سنہرے خواب کی طرح نظر آتے ہیں جس نے اچانک تعبیر کا جامہ پہن لیا ہو۔  یہ منظر ابراہیم جماری گاؤں کا ہے جہاں کے مکینوں کو کم قیمت  بے نظیر ماڈل گھر تعمیر کرکے دیے جارہے ہیں۔ ہمارا ملک اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے، خوف ، انتشار، سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور دہشت گردی کے عفریت نے اس طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے کہ لب مسکرانا اور آنکھیں خواب دیکھنا بھول گئی ہیں ۔   ایسے میں اگر کوئی اچھی بات نطر آتی ہے تو بے اختیار اسے سب تک پہنچانے کو دل چاہتا ہے۔


دریائے سندھ کے نزدیک پہاڑی علاقے میں آباد گاؤں ابراہیم جماری ان چند خوش نصیب گاؤں میں شامل ہے جہاں سمندری طوفانوں اور قدرتی آفات سے بچاؤ کی غرض سے گاؤں والوں کے لیے کم قیمت بے نظیر ماڈل گھر تعمیر کیے جارہے ہیں۔  پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے غریب و مستحق لوگوں کو یہ گھر مفت دیے جارہے ہیں ، ان گھروں کی تعمیر کی ذمے داری یو این ڈی پی کے سپرد ہے۔  اس اسکیم کے تحت آفت زدہ علاقوں میں ایسے 500 گھر مفت دیے جارہے ہیں۔

گاؤں ابراہیم جماری میں 35 گھروں پر مشتمل 192افراد آباد ہیں اور ان میں سے 25 خاندانوں کو یہ گھر ملیں گے۔  ہر گھر دو کمروں، برآمدہ، باتھ روم اور ٹوائلٹ کے ساتھ ایک چھوٹے سے کچن گارڈن پر مشتمل ہیں ۔  یو این ڈی پی کا کہنا ہے کہ یہ گھر ہر اعتبار سے ماحول دوست ہوں گے کیونکہ ان میں ایسی نئی ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے کہ جس سے توانائی کی خاطر خواہ بچت ہوگی۔  یہ کشادہ اور قدرتی طور پر ہوادارگھر متوقع زلزلوں اور قدرتی آفات سے بھی محفوط ہوں گے۔

دادی جماری جس کی آنکھوں نے 75 برس کے گرم و سرد دیکھے ہیں، کام کاج سے فارغ ہوکر وہ اپنے پسندیدہ مشغلے میں مصروف ہوجاتی ہے ۔ آج کل اس کا ایک ہی کام ہے کہ اپنی جھگی سے پر امید نظروں سے ان نو تعمیر شدہ گھروں کو دیکھتی رہتی ہے۔ اسے شدت سے انتظار ہے کہ وہ کب مکمل ہوں گے اور وہ اپنے خاندان سمیت اس گھر میں منتقل ہو۔  یہ احساس ہی اس کے اندر خوشیاں جگا دیتا ہے کہ اب بارش میں اس کا گھر نہیں گرے گا اور وہ  اس کا خاندان اور اس کے بچے محفوظ ہوں گے۔  35   گھروں پر مشتمل اس گاؤں کے 25 ضرورت مند اور مستحق گھروں کا انتخاب اس گاؤں کی ترقیاتی تنظیم کے عہدیداروں نے خود کیا۔  اس گاؤں کے لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور مویشی بانی پر ہے لیکن اب کچھ لوگ چھوٹی نوکریاں اور مزدوری کے لیے دوسرے گاؤں بھی جاتے ہیں۔

 یہ گھر 20 جولائی 2009 پر مکمل ہوچکے ہیں اور لوگ ان لمحات کا شدت سے انتظار کررہے ہیں جب وہ ان گھروں میں منتقل ہوجائیں گے۔  ایسے ہی ایک منتظر دیہاتی نواز کا کہنا تھا کہ ”انتظار بہت مشکل ہے ، ہمارے لیے تو یہ گھر ایک خواب تھے جن کی تعبیر ہم دیکھ رہے ہیں۔

یو این ڈی پی جیف ٹیکنیکل ایڈوائزر پروفیسر جاوید شاہ کا کہنا ہے کہ بے نظیر ماڈل گھروں کی اس اسکیم میں نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی جارہی ہے، یہ ٹیکنالوجی غریب اور خاص طور پر طوفانوں سے متاثرہ ساحلی علاقوں کے لیے بہترین ہے۔اس ٹیکنالوجی سے صحیح طور پر استفادہ کے لیے یو این ڈی پی نے خاص طور پر”ورک یارڈ“ بنایا ہے جہاں پر یہ مخصوص بلاک بنائے جاتے ہیں۔  پروفیسر شاہ کا کہنا تھا کہ انہیں 9 مہینوں کے مختصر وقت میں 500 گھر تعمیر کرنے تھے لہذا انہوں نے پہلے 4 ماہ تعمیراتی سامان تیار کرنے اور اس نئی ٹیکنالوجی سے متعلق کاری گروں کو ٹریننگ دی۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ان کے پاس مستری ، مزدور ، کارپینٹر اور دیگر کاری گروں کی تعداد 7000ہےجو دور دراز کے علاقوں میں بھی کام کررہے ہیں۔  اکثر کاری گر ان ہی گاؤں میں رہتے ہیں جہاں پر ان کے لیے نئے گھر تیار ہورہے ہیں۔

  یو این ڈی پی(جیف) سمال گرانٹس پروگرام کے نیشنل کوآرڈینیٹر مسعود لوہار نے کہا کہ ہم اس اسکیم میں سیمنٹ اور لکڑی کے سامان کو کم کرکے اینٹوں کا استعمال زیادہ کررہے ہیں تاکہ توانائی کم خرچ ہو۔  ان کا کہنا تھا کہ کم لاگت والے یہ گھر توانائی کے حوالے سے اپنی تعمیر میں انتہائی متوازن ہیں ماحول دوست ہیں۔ ان گھروں میں سمندری طوفان،  زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات سے بچاؤ کی بھی صلاحیت موجود ہے۔  انہوں نے مزید کہا کہ یہ سندھ حکومت کا کمال ہے کہ وہ اس پائلٹ منصوبے کے ذریعے یہ ٹیکنالوجی عوام تک پہنچارہی ہے۔

 ایسا ہی ایک منظر ہم نے ضلع ٹھٹھہ کے کوہستانی گاؤں دریا خان بھنڈ میں بھی دیکھا ، وہاں کے 24 مستحق خاندانوں کو یہ گھر ملنے والے تھے اور خوشی سے چمکتے ان کے چہرے دیدنی تھے۔ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور وسیع اراضی پر پھیلی چراگاہوں میں مال مویشی چرانا ہے۔  گاؤں کے بزرگ لوگ ماضی کے حوش حال دنوں کو یاد کرتے ہیں جب ان کے پاس سیکڑوں کی تعداد میں مال مویشی ہوتے تھے۔  ان کی زرخیز زمینیں فصلیں اگاتی تھیں۔ ڈھیروں اناج اور مکھن ، دودھ ، دہی سبھی کچھ ان کے پاس تھا۔  پانی سے لبالب کنوئیں ہوا کرتے تھے۔  تب کہیں پر پانی کی کمی کی کوئی بات نہیں ہوتی تھی۔  لیکن پھر موسم بے ترتیب ہوتے چلے گئے اور ان کی زندگی دردناک ہوتی چلی گئی۔ کنوئیں پانی سے خالی اور چراگاہیں ویران ہوتی چلی گئیں۔  پانی کی کمی نے لہلہاتی فصلوں کو بھی خواب بنادیا۔ اب یہ لوگ پینے کے پانی کے لیے بھی ٹینکروں کے محتاج ہیں۔  جو گھر ٹینکر کا پانی نہیں خرید سکتے ان گھروں کی خواتین میلوں پیدل چل کر دو مٹکے پانی لے کر آتی ہیں۔  بہرحال اب سندھ حکومت کی اس اسکیم میں نہ صرف ان کے لیے مفت میں نئے گھر بنائے ہیں بلکہ نوجوانوں کو شعور اور آگاہی بھی دی ہے کہ انہیں اپنے مسائل کے حل کے لیے مشترکہ طور پر جدوجہد کرنی ہوگی۔حکومت کے ساتھ ساتھ یہ لوگ یو این ڈی پی کی ٹیم کے بھی پر خلوص تعاون کو سراہتے ہیں۔  صاف ستھرے گھروں، دھوئیں سے محفوظ کچن اور صحن میں بننے والے سر سبزکچن گارڈن سے یقینا ان کی نئی زندگی کی شروعات ہوتی ہیں۔

No comments:

Post a Comment