Sunday, June 1, 2014

عالمی یوم ماحول ۔۔۔ آواز بلند کیجیے۔۔۔ سطح سمندر نہیں

براعظم ایشیا میں بدلتے موسم زندگی کو مشکل تر بنا رہے ہیں  ؛ ماہرین

دنیا بھر میں 5 جون کو عالمی یوم ماحول منایا جاتا ہے تاکہ تحفظ ماحول کے لیے کی جانے والی انفرادی کاوشیں عالمی سطح پر ایک مضبوط زنجیر کی شکل میں مربوط ہوجائیں ۔ اس سال عالمی یوم ماحول کا عنوان” آواز بلند کیجیے ، سطح سمندر نہیں۔“ (Raise your voice....Not the sea level) ہے ، غور کیا جائے تو یہ عنوان ایک پیغام بھی ہے ، بہت سیدھا اور دلوں کو چھو نے والا ، گویا کوزے میں سمندر بند کردیا گیا ہے ۔دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی تپش سے کرۂ  ارض کے بدلتے موسم اور سمندروں کی سطح میں اضافہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔  کچھ عرصہ پہلے تک صرف چند ساحلی شہروں کے ڈوبنے کا خطرہ لاحق تھا لیکن پچھلی دہائی میں آنے والی قدرتی آفات نے واضح کردیا کہ اب بدلتے موسموں کی کارستانی سے کوئی ملک محفوظ نہیں، جہاں سمندر کی سطح کے بڑھنے سے براہ راست خطرات لاحق نہیں ہیں ، وہیں ان ممالک کو طوفانی بارشوں اور سیلاب سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ اگرچہ پاکستان کو گرین ہاؤس گیسیں پیدا کرنے یا زمینی حدت بڑھانے میں کوئی خاص قصوروار نہیں سمجھا جاسکتا یعنی ایسے ممالک میں اس کا نمبر135 ہے لیکن عالمی حدت سے پیدا ہونے والی خطرات کا شکار ہونے والے ممالک میں اس کا نمبر خاصا اوپر ہے ۔پچھلے سالوں میں ہونے والی طوفانی بارشیں اور شدید سیلاب اس کا واضح ثبوت ہیں۔




اس وقت موسمی تغیرات کے حوالے سے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے Intergovernmental panel on climate change (IPCC) کی جاری کردہ پانچویں رپورٹ کا ہر طرف تذکرہ ہے ، آئیے دیکھتے ہیں کہ براعظم ایشیا کے حوالے سے اس رپورٹ میں کیا ہے؟

یہ رپورٹ واضح الفاظ میں خطرے کی گھنٹی بجارہی ہے کہ عالمی حدت یا گلوبل وارمنگ سے براعظم ایشیا میں پانی، غذا، صحت، صنعت اور ماحولیاتی نظام کوشدید خطرات لاحق ہےں اور خصوصا ایشیا میں پانی کا بحران خطرناک صورت اختیار کررہا ہے کیونکہ بڑ ھتی ہوئی آبادی کی آبی ضروریات،معیار زندگی میں اضافے، اس حوالے سے خراب انتظامی صورت حال اور اس کے ساتھ ساتھ رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں ایشیا کے ایک بڑے حصے کو میٹھے پانی کی کمی سے دوچار کرسکتی ہیں۔

 انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمٹ چینج (IPCC)ہزاروں سائنس دانوں کی ایک انجمن ہے جنہوں نے کلائمٹ چینج کے اثرات کی تحقیق کے حوالے سے ایک مرکزی بین الاقوامی باڈی تشکیل دی ہے ۔ بدلتے موسموں کے حوالے سے IPCC کی چوتھی رپورٹ 2007 میں ریلیز کی گئی تھی۔

پانی کی دستیابی پر بدلتے موسموں کے اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے سائنس داں کہتے ہیں کہ بارشوں کی مقدار اوردریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں کمی بلاشبہ لاکھوں لوگوں پر اثر انداز ہوگی اور پانی کی کمی کی وجہ سے ہی ایشیا کے کچھ ایسے حصوں جو خاص طور پر کم پانی والے یا خشک علاقے ہیں، وہاںکشیدگی پیدا ہونے کے قوی امکانات موجودہیں۔سائنس دانوں کا مزید کہنا ہے کہ آبی وسائل کی بد انتظامی یقینا خشک سالی اور موجودہ کشیدگی میں اضافہ کرے گی۔ بدلتے موسموں کے اثرات یا کلائمیٹ چینج کچھ علاقوں جیسے بھارتی پنجاب، راجھستان اور ہریانہ ریاست میں آب پاشی اور دیگر ضروریات کے لیے زیر زمین پانی کے ناپائدار یا غیر دانش مندانہ استعمال کو مزید پیچیدہ کرسکتا ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلیاں جنوبی ایشیا میں پانی کے فراہمی کے نظام کے لیے بھی ایک چیلنج ثابت ہوں گی اور زراعت اور لائیو اسٹاک پر اس کے بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔

زراعت اور غذائی تحفظ

 موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بہت سے علاقے اشیائے خورنوش یا غذائی قلت کا سامنا کرسکتے ہیں، جبکہ جنوبی ایشیا میں پہلے ہی غذائی قلت کا شکار لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ بڑھتا ہوا درجۂ حرارت چاول کی پیداوار میں کمی کرسکتا ہے کیونکہ گرم موسم میں چاول کی فصل کو پکنے کے لیے کم وقت ملے گا۔

سطح سمندر میں اضافہ بھی کئی ایشیائی ساحلی علاقوں کے لیے خطرہ ہے اور نشیبی علاقوں کے زیر آب آنے کی صور ت میں چاولوں کے پیداواری علاقوں میں بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ کئی ممالک کا ایک بڑا ذریعۂ  روزگار اورغذا میں پروٹین کے حصول کا بڑا ذریعہ ماہی گیری بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے منفی طور پر متاثر ہوسکتی ہے خاص طور پر جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں اس کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔

بھارت کے دریائے گنگا سے سیراب ہونے والے زرخیز میدان(Indo-Gangetic Plains) بھی جو گندم کی عالمی فصل کا 14-15% حصہ پیدا کرتے ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مذکورہ فصل میں کمی کا سامنا کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ گرمی کی اس بڑھتی ہوئی لہر سے تقریباً 200 ملین لوگ متاثر ہوں گے۔  یہ بڑھتا ہوادرجۂحرارت چاول اوردیگرفصلوں والے ایسے علاقوں پر شدید طور پر اثر انداز ہوگا جو گرمی کو ایک حد تک ہی برداشت کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان اور شمالی بھارت (اکتوبر )، جنوبی بھارت (اپریل ۔اگست)، مشرقی بھارت اور بنگلہ دیش (مارچ۔جون) اور چین (جولائی۔اگست) کے دوران ۔

چاول کی پیداوار کے لحاظ سے موسمی تبدیلیوں کے ممکنہ خطرات کا شکارعلاقے جیسے مغربی جاپان، مشرقی چین، انڈو چائنا پیننسولا، اور جنوبی ایشیا کا شمالی حصہ ہوسکتا ہے جہاں چاول کی مزید کمی کا سامنا کیا جاسکتا ہے ۔

سطح سمندر میں اضافے سے ایشیا میں چاول کے پیداواری ساحلی اور ڈیلٹائی علاقوں کو بھی بدلتے موسموں سے خطرات کا سامنا ہے جیسے بنگلہ دیش، میانمار، اور دریائے میکونگ کے ڈیلٹا۔ اس کے علاوہ ویتنام کی تقریباً 7% زراعی اراضی سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے زیر آب آ سکتی ہے۔

موسموں کی تبدیلی ماہی گیری کے شعبے کے لیے بھی خطرات پیدا کرسکتی ہے، جیسے حد سے زیادہ ماہی گیری، سمندری آلودگی، ڈیموں کی تعمیر، بڑھتا ہوا درجہ حرارت، بارشوں کی کمی اور خشک سالی میں اضافہ وہ عوامل ہیں جو ایشیا کے کچھ حصوں میں دریاؤں کے بہاؤ میں کمی لائیں گے ، جس کی وجہ سے مچھیلوں کی افزائش پر شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ بارشوں اور سیلابوں میں اضافے کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی مقدار میں بھی اضافہ ہوگا اور یہ بھی مچھلیوں کی افزائش پر برے اثرات مرتب کرے گا۔

میٹھے پانی کی مچھلیوں کو بھی خطرہ لاحق ہوگا کیونکہ پانی کا بڑھتا ہوادرجہءحرارت ان کے مساکن کو ان کی نشونما اور افزائش کے لیے ناموزوں بنادے گا۔ ایسے علاقے جو موسمی سیلابوں پر انحصار کرتے ہیں جیسے سیلابی چراہ گاہیں، اور میٹھے پانی کے دلدلی جنگلات بھی بارشوں کی کمی اورخشک سالی سے بری طرح متاثر ہوں گے۔ خشک موسم میں کمی، اور سطح سمندر میں اضافہ کئی ایشیائی ڈیلٹاؤ ں میں نمکین پانی کی آمیزش میں اضافہ کرے گا جس سے نہ صرف موسمیاتی خطرات بڑھیں گے بلکہ ماہی گیری کی صنعت اور دوسری آبی افزائش پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے۔ سمندر کے درجۂ  حر ارت میں اضافہ سمندری تیزابیت اور ساحلی مونگوںمیں کمی مچھلیوں کی افزائش پر گہرے منفی اثرات مرتب کرے گی۔ اس سب سے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک متاثر ہوں گے۔

فیکٹریوں اور گھروں پر اثرات

اس صدی کے نصف تک ایشیا کی شہری آبادی میں 1.4 ارب تک اضافہ ہوجائے گا اور یہ دنیا کی آبادی کا 50% ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی کئی ایسے مسائل کو مزید پیچیدہ بنادیں گی ، جو شہروں کی جانب تیز رفتار منتقلی، صنعتوں میں اضافہ اور معاشی ترقی کی وجہ سے پیدا ہوں گے۔ براعظم ایشیا موسم اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث2000 سے2008 تک دنیا میں سب سے زیادہ آفات کا سامنا کرچکا ہے جس سے بھاری اقتصادی نقصانات اٹھانے پڑے۔ یہ عالمی اقتصادی نقصانات میں تناسب کے لحاظ سے دوسرا بڑا اقتصادی نقصان (27.5%) ہے۔

ایشیا کی آبادی کا بڑا حصہ غیر ترقی یافتہ اور نشیبی ساحلی علاقوں میں رہتا ہے جو کہ موسمیاتی تبدیلی کے شدید خطرات کی زد میں ہے، جن میں سطح سمندر اور سمندری طوفانوں میں اضافہ شامل ہیں۔  ایشیا کے نصف سے لے کر دو تہائی شہروں میں جن کی آبادی، ملین یا اس سے زائد ہے، کے رہائشی مختلف قسم کے خطرات کا شکار ہیں جن میں سیلا ب اور طوفان سب سے زیادہ اہم سمجھے جاسکتے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیاں صنعتوں پر بھی دو طرح سے اثر انداز ہوں گی۔ ایک براہ راست یعنی صنعتی پیداوار پر، اور دوسرا بلاواسطہ طریقے سے یعنی انفرا اسٹرکچر اور ممکنہ نقصانات کی صورت میں۔

دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ پانچ شہروں میں سے تین ٹوکیو، دہلی اور شنگھائی ان علاقوں میں واقع ہیں جہاں سیلابوں کا شدید خطرہ موجود ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے درپیش ان خطرات کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ 2070 تک آبادی کے لحاظ سے ایشیا کے اہم شہر مثلا کلکتہ، ممبئی، ڈھاکا، گنگزوو، ہو چی می سٹی، شنگھائی، بنکاک، رنگون اور ہائی پانگ ساحلی سیلابوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ جبکہ اثاثوں کے لحاظ سے اہم ایشیائی شہر گوانگ ژونگ، کلکتہ، شنگھائی، ممبئی، تیاجن، ٹوکیو، ہانگ کانگ اور بنکاک بھی قدرتی آفات کا شکار ہوسکتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیاں بھارت، بنگلہ دیش اور چین کے کمزور علاقوں (لوگوں کی بڑی تعداد اور انفرا اسٹرکچر کے ساتھ) میں سیلاب کے خطرات میں اضافہ کریں گی۔ موسمیاتی تبدیلیاں زیر زمین پانی کی عدم دستیابی میں اضافہ، کئی ایشیائی شہروں بنکاک، ملائیشیا اور تائی جن میں ان دونوں عوامل کے مشترکہ اثرات سے زمینی دستیابی میں کمی کے امکانا ت ہیں ۔ ساحلی سیلابوں اور سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے ان خطرات میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کئی بنیادی سہولیات میں خلل کا خطرہ ہے جیسے پانی کی فراہمی، صفائی (sanitation)، توانائی کی فراہمی، ذرائع آمدورفت ۔ ان مسائل سے مقامی معیشت کو سنجیدہ مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے اور یہ مقامی سطح پر بہت بڑی ہجرت کا بھی سبب بن سکتا ہے۔

صحت پر اثرات

براعظم ایشیا میں مستقل اور شدید گرم لہریں کمزور گروہوں کی شرح اموات اور صحت کی خرابی میں اضافہ کریں گی۔ شدید بارشوں اور گرمی میں اضافے سے ڈائریا کے مرض، ڈینگی بخار اور ملیریا میں اضافہ ہوگا۔

سائنس دانوں کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے اثرات جیسے سیلابوں میں اضافہ، گرم موسم وغیرہ کئی مسائل کو جنم دیں گے جیسے پانی کا خراب معیار، مچھروں کی افزائش اور پھیلاؤ اور مختلف وبائی بیماریوں میں اضافہ۔

سیلاب کی وجہ سے شہروں میں پانی کے فراہمی کے نظام میں آلودگی امراض کی افزائش اور زہریلے مرکبات تشکیل دے گی۔ رپورٹ کے مطابق بہت زیادہ سیلاب ذہنی بیماریوں اور  post traumatic stress syndrome ذہنی حالت جو کسی مصیبت، حادثے یا آفت کے بعد ہوجائے  کا سبب بھی بن سکتے ہیں ، یہ رحجان اس سے پہلے انڈیا کے آفت زدہ علاقوں میں دیکھا گیا۔

رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ گرم درجۂ حرارت اور گرمی کی لہروں سے شرح اموات اور امراض میں اضافے کا خدشہ ہے خاص طور پر کمزور آبادی جیسے بوڑھے، بچے، غریب لوگ اور وہ لوگ جو سانس اور دل کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، ان کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے۔ان عوامل کی پہلے بھی انڈیا، تھائی لینڈاور مشرقی ایشیا کے کچھ حصوں کی آبادی میں تصدیق ہوچکی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گرمی کی شدت میں اضافہ مزدوروں میں مختلف بیماریاں پیدا کرے گا جس سے پیداواری عمل متاثر ہوگا۔

موسمیاتی تبدیلیاں موسمی بیماریوں پر بھی مقامی طور پر اثر انداز ہوں گی۔ زیادہ بارشوں کی کثرت اور گرمی میں اضافے سے کچھ علاقوں مثلا چین میں ڈائریا کے مرض میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے ڈینگی بخار اوردیگر وبائی امراض کے پھیلاؤکا خطرہ ہے ، جیسے کہ بتایا گیا ہے کہ ان بیماریوں کا دائرہ کار ماحولیاتی تبدیلیوں کی و جہ سے شمالی چین میں پھیل سکتا ہے۔

ماحولیاتی نظام  ecosysytem   پر اثرات

ایشیا کے کچھ حصوں کے نباتاتی نظام میں موجودہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ پودوں کی افزائش ، پھولوں کے کھلنے اور پودوں کی اقسام میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔برفانی سطح (Permafrost) اور مستقبل کی موسمیاتی تبدیلیاں ان اثرات میں مزید اضافہ کرسکتی ہےں۔

وسیع ماحولیاتی نظام میں موسمیاتی تبدیلیاں خصوصاخشک اور نیم خشک علاقوں میں شدید اثرات مرتب کریں گی، لیکن سائنس دانوں کے مطابق بارشوں کی غیر یقینی صور ت حال اس حوالے سے کسی پیش گوئی کو مشکل بنادیتی ہے۔

ایشیا میں ساحلی اور سمندری نظام موسمیاتی اور غیر موسمیاتی دونوں طرح کے بڑھتے خطرات کے دباؤ میں ہیں۔ سطح سمندر میں اضافہ ساحلی کٹاؤکا سبب بھی بن سکتا ہے، خاص طور ایشیائی آرکٹک میں جہاں سطح سمندر میں اضافہ اور برف کی زیریں تہہ(Permafrost)  کا ملاپ متوقع ہے ، اور یہ غیر برفانی موسم (یعنی جس موسم میں برف نہیں پڑتی) میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں تیمر، نمک کی دلدل اور سمندری گھاس کے خطے سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے سکڑ سکتے ہیں، جبکہ ساحلی میٹھے پانی کے دلدلی خطے نمکین پانی کی آمیزش کی وجہ سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ یہ علاقے جان داروں کی کئی نوع بشمول معاشی لحاظ سے اہم مچھلیوں کی افزائش کی جگہیں ہیں۔ سمندروں کا بڑھتا ہوا درجہءحرارت اور سمندروں میں تیزابیت مونگے کی چٹانوں کی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں جس سے معیشت اور روزگار پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

شمالی جنگلاتی حصوں میں قبل از وقت موسم بہار اورہریالی کے باعث مرطوب موسم کے دورانیے میں اضافہ متوقع ہے اور اس کے سبب کیڑوں اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ممکن ہے۔ شمالی جنگلات مزید شمال اور مشرق کی طرف پھیل سکتے ہیں اور ٹنڈرا میدانوں کی جگہ لے سکتے ہیں۔

شمالی ایشیا اور شنگ شی تبت پلیٹو میں2100 ءتک برفانی تہہ میں بھی 20-90% کمی متوقع ہے، جو زمینی اور برفانی کٹاؤ انفرا اسڑکچر اور روزگار پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔ تبت پلیٹیو (سطح مرتفع) میں الپائن پودوںکی بڑی تعدادکی جگہ جنگل اور جھاڑیاں لے سکتے ہیں۔ برفانی تیندوے کا مسکن یعنی ہمالیہ میں بھی 30% کمی ممکن ہے کیونکہ جنگلات کھلی جگہوں پر غالب آجائیں گے۔

قنلنگ پہاڑوں میں بمبو یعنی بانس میں بھی کمی متوقع ہے جس سے بڑے پانڈا کی نسل پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جو غذا کے لیے بمبو پر انحصار کرتے ہیں۔

سمندری اور ساحلی ماحولیاتی نظام میں مچھلیوں کی انواع کی، سمندری سطح کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے شمال کی طرف منتقلی کا امکان ہے ۔ سمندری حیات کی تقسیم، کثرت اور طبعی تبدیلیوں کے مشترکہ اثرات کے باعث سمندری پانی کی مچھلی کے جسمانی سائز میں کمی
ہوسکتی ہے خاص طور پر گرم اور درمیانی عرض بلد کے علاقوں میں یہ ممکن نظر آتا ہے۔

اس رپورٹ کے حوالے سے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سب سے بہترین نکتہ یہ ہے کہ اگرچہ اس وقت موسمی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کم ازکم یا صفر کاربن معیشت کی طرف بڑھنے کے لیے دنیاکے سالانہ ترقیاتی اخراجات میں 0.06% کا اضافہ ہوگا، لیکن اگران اخراجات کا موازنہ نتیجے کے طور پربدلتے موسموں کے خطرات سے بچاؤ اور آلودگی سے خاصی حد تک پاک فضاسے کیا جائے (جس کی وجہ سے سانس کی بیماریوں میں کمی آ جائے گی) تویہ اضافہ نہ ہونے کے برابر سمجھا جاسکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment