Sunday, June 15, 2014

موسمی تبدیلیوں سے جنگ دنیا کومہنگی نہیں پڑے گی

قدرتی ایندھن کے استعمال میں فوری کمی ناگزیر ہے

             اپنی حالیہ رپورٹ میں موسمی تغیرات کے حوالے سے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے Intergovernmental panel on climate change  (IPCC)  نے کہا ہے کہ فی الوقت موسمی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کم ازکم یا صفر کاربن معیشت کی طرف بڑھنے کے لیے دنیاکے سالانہ ترقیاتی اخراجات میں صرف٪0.06  کا اضافہ ہوگا، لیکن اگران اخراجات کا موازنہ نتیجے کے طور پربدلتے موسموں کے خطرات سے بچاؤ اور آلودگی سے خاصی حد تک پاک فضاسے کیا جائے (جس کی وجہ سے سانس کی بیماریوں میں کمی آ جائے گی) توفرق انتہائی صاف اور اخراجات اور نتیجے کا توازن واضح ہوجاتا ہے لیکن IPCCنے اس اہم نکتے کو اپنے تخمینے میں مد نظر نہیں رکھا ہے۔



             اتوار کو برلن میں  IPCCکے ورکنگ گروپ3 کی جاری کردہ رپورٹ کے اجرأ کے موقع پر پینل کے چیئرمین راجندرہ پچوری نے کہا کہ اگر انفرادی سطح پراپنے اپنے انفرادی لائحہ عمل پر آزادانہ عمل درآمد ہوتا رہے گا تو بدلتے موسموں کے خطرات کا مؤثر سدباب نہیں ہوسکے گا۔ اس رپورٹ میں بین الاقوامی سطح پہ آ پس میں تعاون کی ضرورت پہ روشنی ڈالی گئی ہے۔“یہ ورکنگ گروپ کاربن گیس کے فضأ میں اخراج کو کنٹرول کر کے موسمی تبدیلیوں میں کمی کے لیے اقدامات کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔آئی پی سی سی اس سال کے آخر میں اپنے تینوں ورکنگ گروپس کی رپورٹ کا خلاصہ منظر عام پہ لائے گا۔

            اس انتہائی تکنیکی رپورٹ کو آسا ن زبان میں اپنے قارئین تک پہنچانے کے لیے ہم نے بہت سے ملکی اور غیر ملکی ماہرین سے بھی بات چیت کی، مزید سہولت کے لیے ہم نے ماہر ماحولیات جوئے دیپ گپتا کی رپورٹ سے بھی استفادہ کیا جو انہوں نے عالمی سطح پر ماحولیات کے لیے کام کرنے والی وب سائٹ "TheThirdpole.net" کے لیے مرتب کی تھی۔  یہ ویب سائٹ ایشیا میں پانی کے مسائل کے حوالے سے خصوصی طور پر کام کرتی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق سائنس دانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اب اس بات پہ متفق ہے کہ موسموں میں تبدیلیاں اور بے ترتیبی پیدا ہو رہی ہے اور اس کی جہ وہ انسانی سرگرمیاں ہیں جن کے نتیجے میں کاربن گیس کا اخراج ہوتا ہے۔یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں زرعی پیداوار میں کمی ، خشک سالی ،سیلابوں اور طوفانوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ ، سمندر کی سطح اور پانی میں تیزابیت کی شرح میں اضافہ ہے ، لیکن اس معلومات کے باوجود 1970 سے لے کر2010 تک ایسی تمام انسانی سرگرمیاں جاری رہیں جس سے کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ پچوری نے مزید نشان دہی کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے زیادہ تیزی سے اضافہ 2000 سے لے کر2010تک کی دہائی میں ہوا ہے۔

            آئی پی سی سی کی اس رپورٹ کے اعدادوشمار کے مطابق اس دوران میں فضا مےں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا %47 توانائی کے پیداوار کے نتیجے میں   % 30صنعتی کارروائیوں کی وجہ سے اور %11 ٹرانسپورٹ کے شعبے میں اضافے کے نتیجے میں ہوا ہے۔پچوری نے مزید بتایا کہ دنیا بھر میں کم کاربن پیدا کرنے والے توانائی کے صاف ذرائع میں کم از کم تین سے چار گنا اضافے کی اشد ضرورت ہے اور اس عمل میں جتنی تاخیر ہوتی جائے گی اتنا ہی یہ دشوار اور مہنگا ہوتا چلاجائے گا۔ بقول ان کے اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ” بدلتے موسموں کے خطرات سے نمٹنے  (mitigation)  والی یہ تیز رفتارریل گاڑی اسٹیشن سے جلد از جلد روانہ ہو اور بین ا لاقوامی معاشرہ ہر صورت میں اس ریل گاڑی میں سوار ہو ۔

            ارباب اختیار کے لیے نسبتاًآسان خلاصہ

            آئی پی سی سی کے اس ورکنگ گروپ 3کی اصل رپورٹ اس خلاصے کے مقابلے میں کافی سخت ہے جو کہ لائحہ عمل بنانے والوں یا پالیسی میکرز کو دیا گیاہے ۔ دنیا بھر کے بیوروکریٹس نے برلن میں پچھلے ہفتے اس رپورٹ کے خلاصے پر غور کرنے کے لیے ایک میٹنگ کا انعقاد کیا اور اس رپورٹ کی شقوں کو نسبتاً آسان کر کے آگے پیش کیا۔

            اس تبدیلی کے باوجود کچھ اہم نکات بالکل واضح تھے۔ Ottmar Edenhoferاس فعال گروپ کے کو چیئر ہیں۔ اس رپورٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی ترقی کی تیز رفتاری نے اخراج کی کمی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اگرخطرات کے سدباب کے عمل (mitigation) میں اضافہ نہ ہوا تو دنیا بھر میں اوسطً درجۂ حرارت میں 2100  تک،3.7 ڈگری سے 4.8 ڈگری سیلسیئس تک کا اضافہ ہو جائے گا۔ Edenhofer کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلیوں کی روک تھام کے اس ان اقدامات (mitigation) کواہم تکنیکی اور ادارتی تبدیلیوں اورصفر کاربن توانائی ذرائع کے ذریعے سے ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔

اس تمام منظرنامے میں قابل تجدید توانائی میں %310 کا خطیر اضافہ اشد ضروری ہے۔اس کے لیے بین ا لاقوامی سطح پر فیصلہ کن اقدامات اور کاربن اخراج پر نسبتاً زیادہ قیمت مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔

             اگرچہ ان دونوں مفروضوں پر بہت سے سوال اٹھتے ہیں ۔پچھلی دو دہائیوں میں United Nations Framework Convention on Climate Change کے تحت ہونے والے حکومتی مذاکرات کئی اہم زیر ِ غور پہلو ؤں کے حوالے سے تعطل کا شکار ہیں۔اگرچہ کاربن کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے مگر پھر بھی سائنس داں اس مقصد یا ہدف کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کئی متبادل تجاویز پیش کر رہے ہیں۔ Edenhofer کہتے ہیں ”یہ رپورٹ ہمیں امید دیتی ہے۔ ایک درمیانے درجے کی امید!“

            اسی ورکنگ گروپ کی 2007 مییں شائع ہونے والی پچھلی رپورٹ کے برعکس موجودہ رپورٹ کے خلاصے میں پالیسی بنانے والوں کے لیے اس بات کی نشان دہی نہیں کی گئی ہے کہ کس ملک کو انفرادی طور پریا ملکوں کے گروپ کو اپنے کاربن اخراج میں کس درجے تک کمی کرنے کی ضرورت ہے۔جب Edenhofer سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ اس طرح کے مخصوص اہداف کے تعین سے آپس میں اختلافات بڑھنے کا خدشہ ہے۔ اس امر کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومتوں نے محسوس کیاکہ پالیسی کے خلاصے میں اس کا ذکر مناسب نہیں ہوگا لیکن پھر بھی باب نمبر6 میں اس مسئلے کے حل اور اسے ایک دوسرے سے بانٹنے کے لیے کچھ منصوبے شامل ہیں ۔

            جویا شری رائے جو Jadavpur University کلکتہ سے وابستہ ہیں اور اس رپورٹ کے صنعتوں سے متعلق ایک اہم باب کی مصنفہ بھی ہیں، نے تھرڈ پول کو بتایاکہ” صنعتی شعبے سے مضر گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی کے لیے اشد ضروری ہے کہ ایک وسیع ترپیمانے پرسدباب (mitigation) کے طریقوں کو بروئے کار لایا جائے جو کہ باکفایت توانائی کے مروجہ طریقوں سے بہت آگے کی چیز ہو۔ مثال کے طورپر چھوٹی اوردرمیانی درجے کی صنعتوں SMEs (small and medium enterprises)میں پائدار اور ہم آہنگ ٹیکنالوجی کا تعارف، صرف زیادہ توانائی استعمال کرنے والی صنعتوں کے بجائے ہر صنعت کی یہ کاوش کہ کاربن اخراج کو کم کیا جائے۔طرزِ زندگی اور اس کے نتیجے میں توقعات کی سطح میں تبدیلی چاہے وہ بلواسطہ( مثلاً کھانے کی اشیا اور لباس ) ہوں یا بلا واسطہ ( مثلاً سیاحت سے متعلق پیداوار اورخدمات کی طلب) ، دیرپا مصنوعات، اشیا کا بہتراستعمال اور کم کاربن خارج کرنے والی بجلی، قدرتی ایندھن اور CCS (carbon capture and storage) (ابھی بہت سارے ممالک میں اس عمل کا تجربہ نہیں کیا گیا ہے) کا استعمال اس حوالے سے موثر ثابت ہوسکتا ہے۔اس حوالے سے سب سے کارآمد طریقۂ  کار کوڑا کرکٹ کا انتظام یعنی اس کے استعمال میں کمی کرنا ہے ، مزید ممکنہ طریقۂ  کار ان اشیا کا دوبارہ استعمال، ان کو ری سائیکل کرنا اور ان سے توانائی حاصل کرنا ہے۔ فی الوقت دنیا بھر میں صرف %20 ہی MSWکو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔صنعتی شعبوں میں مضر گیسوں کا اخراج کم کرنے والے بہت سے طریقے موجود ہیں جو مفید اور منافع بخش ہیں۔

            توانائی سے متعلق ماہرSrinivas Krhishnaswamy  جو وسودھا فاؤنڈیشن تھنک ٹینک کے سربراہ ہیں ۔ انہوں نے تھرڈ پول کو بتایا کہ مذکورہ رپورٹ نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ دنیا کا درجۂ حرارت 2 ڈگری سلیسیس سے نیچے رکھنا اب بھی ممکن ہے۔انہوں نے اس بات کی بھی تروید نہیں کی کہ یہ درجۂ  حرارت بڑھنے کا یہ عمل مزید کم یعنی 1.5 ڈگری سلیسیس تک بھی لایا جا سکتا ہے۔مزید برأں رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عالمی درجۂ  حرارت کو 2 ڈگری سلیسیس سے نیچے رکھتے ہوئے اور موسمی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کے انتہائی خوش امیداور بلند  mitigation اہداف پہ عمل درآمد کرنے سے اخراجات میں سالانہ صرف%0.06   کا اضافہ ہوگا۔سب سے اہم بات جو اس رپورٹ نے واضح کی ہے وہ یہ ہے کہ خطرات سے نمٹنے کے اقدامات پہ ہونے والے اخراجات کا معاشی تخمینہ ان اخراجات کے مقابلے میں انتہائی معمولی ہیں جو مستقبل میں موسمی تغیرات کے اثرات سے بچنے کے لئے کرنا نا گزیر ہوں گے۔

معمول کے ترقیاتی منصوبے ۔۔۔ اب مناسب نہیں 
     
            اسٹاک ہوم انوائرنمنٹل انسٹی ٹیوٹ سے وابستہSivan Kartha  جو اس پورٹ کے غیر جانبدارانہ پائدار ترقی کے متعلق ابواب کے اہم مصنف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ IPCC نے اب موسمیات کو تیز رفتار ترقیاتی منصوبوں کو لاحق ایک چیلینج کے اہم جز کے طور پہ پیش کیا ہے۔ یہ منصوبے اب بھی کئی ترقی پزیر ممالک کی اہم ترجیحات میں سے ہیں۔IPCCنے یہ تجاویز اس وجہ سے پیش کی ہیں کہ اگر موسمیاتی تبدیلیوں کے مسئلے کو حل کرنا ہے تو ترقی پذیر ممالک کو اس میں شامل کرنا ہوگا کیونکہ یہی ممالک کاربن اخراج کی کثرت کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔لیکن یہی ممالک دنیا کے غریب آبادی کا مسکن بھی ہیں۔ چنانچہ اگر ان کو ان اقدامات میں شامل کیا جائے تواس طریقے سے کہ وہ اپنی ترقیاتی ضروریات نہ صرف پوری کر سکیں بلکہ ان کو ان منصوبوں کو مکمل کرنے میں کچھ مدد بھی مل جائے۔ لیکن ایک بات جو IPCC نے بالکل واضح کر دی ہے وہ یہ ہے کہ معمو ل کے مطابق ترقیاتی منصوبے اب ترجیحی عمل نہیں ہوسکیں گے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کام کرنے والی انٹرنیشنل کلائمیٹ کمپین 350  org کے جنوبی ایشیا کے کوآرڈینیٹرChaitanyaKumar نے کہا کہ ہم یہ حقیقت جانتے ہےں کہ کسی بڑی موسمیاتی آفت سے محفوظ رہنے کے لیے یہ امر بہت ضروری ہے کہ قدرتی ایندھن کے %80 ذخائر زیر ِزمین ہی رہیں۔اس حقیقت کو جاننے کے باوجود  انڈیا کی حکومت اور قدرتی ایندھن کی صنعت ہر سال نئے ذخائر تلاش کرنے  ان کی کھدائی اور درآمد میں اربوں روپیہ خرچ کر رہی ہے۔ اس کام میں بڑھتی ہوئی سیاسی بددیانتی بھی ملوث ہے۔ہمارے پاس قدرتی ایندھن کے بدلے میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع کے استعمال کا ترجیحی راستہ موجود ہے۔ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم صوبائی سطح پہ نسبتاً صاف توانائی حاصل کرنے والے طریقوں پہ سرمایہ کاری کریں۔

 بین الاقوامی تنظیم گرین پیس چائنا کے کلائمیٹ اور انرجی پالیسی آفیسر Li Shou کہتے ہیں موسمی تغیرات ہمارے لئے ایک بوجھ کے بجائے ایک نفع بخش موقع ہیں۔کیونکہ قابل تجدیدتوانائی کا استعمال دن بدن ارزاں، بہتر اور زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ کوئلے، تیل اور گیس کے استعمال سے درپیش آلودگی اور خطرات کا دور ختم ہو چکا ہے۔

اس رپورٹ کا واحد منطقی اطلاق یہی ہے کہ قدرتی ایندھن کے استعمال میں فوری طور پہ کمی شروع کی جائے۔بات بہت سادہ ہے، جتنا ہم انتظار میں وقت ضائع کریں گے اتنی ہی موسمیاتی تبدیلیاں انہیں مہنگا پڑیں گی۔

            اقوام متحدہ کہ ماحولیاتی پروگرام (UNEP)کے سربراہ Achim Steiner نے نشان دہی کی کہ دنیا میں اوسطًا 2 ڈگری سلیسئیس تک درجۂ حرارت محدود رکھنے کو ممکن بنانے کے لیے دنیا میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج 2010 کے مقابلے میں اس صدی کے نصف   (2050)  تک %40سے %70 کم کرنا ہوگا اور صدی کے آخر تک اسے صفر کے قریب لانا ہوگا۔


ڈبلیو ڈبلیو ایف انٹرنیشنل کے گلوبل کلائمیٹ اور انرجی انیشیٹو کے لیڈر Samantha Smith نے کہا کہ ٰIPCC کا موقف بالکل واضح ہے کہ موسمی تبدیلیوں پر سرمایہ کاری ممکن اور نفع بخش ہے اوراس کے لیے وسائل بھی موجود ہیں۔اگر ہم فوری طور پہ عمل کریں گے تواس میں ہونے والے اخراجات دنیا کی معیشت کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہوں گے۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ کام بہت مشکل اور مہنگا ہے ان کا خیال غلط ہے۔مگر یہ بات بہت فوری توجہ طلب ہے کیونکہ فوری عمل نہ کرنے کے نتیجے میں اس کے اخراجات اور رد عمل میں اضافہ ہوتا چلا جائےگا۔سب سے پہلا اور فیصلہ کن قدم اس شعبے میں سرمایہ کاری کے بہاؤکے رخ کو تبدیل کرنا ہے۔کوئی بھی سرمایہ کار جو اس رپورٹ کو دیکھے گا اس ظاہری نتیجے پہ پہنچے گاکہ وہ وقت آ چکا ہے جب قدرتی ایندھن کے ذخائر اور ان کے نتیجے میں ہونے والی آلودگی میں سے سرمایہ نکال اسے قابل تجدید اورصاف توانائی اور توانائی کی کمی دور کرنے کے طریقوں پر صرف کرے گا۔

Sunday, June 1, 2014

عالمی یوم ماحول ۔۔۔ آواز بلند کیجیے۔۔۔ سطح سمندر نہیں

براعظم ایشیا میں بدلتے موسم زندگی کو مشکل تر بنا رہے ہیں  ؛ ماہرین

دنیا بھر میں 5 جون کو عالمی یوم ماحول منایا جاتا ہے تاکہ تحفظ ماحول کے لیے کی جانے والی انفرادی کاوشیں عالمی سطح پر ایک مضبوط زنجیر کی شکل میں مربوط ہوجائیں ۔ اس سال عالمی یوم ماحول کا عنوان” آواز بلند کیجیے ، سطح سمندر نہیں۔“ (Raise your voice....Not the sea level) ہے ، غور کیا جائے تو یہ عنوان ایک پیغام بھی ہے ، بہت سیدھا اور دلوں کو چھو نے والا ، گویا کوزے میں سمندر بند کردیا گیا ہے ۔دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی تپش سے کرۂ  ارض کے بدلتے موسم اور سمندروں کی سطح میں اضافہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔  کچھ عرصہ پہلے تک صرف چند ساحلی شہروں کے ڈوبنے کا خطرہ لاحق تھا لیکن پچھلی دہائی میں آنے والی قدرتی آفات نے واضح کردیا کہ اب بدلتے موسموں کی کارستانی سے کوئی ملک محفوظ نہیں، جہاں سمندر کی سطح کے بڑھنے سے براہ راست خطرات لاحق نہیں ہیں ، وہیں ان ممالک کو طوفانی بارشوں اور سیلاب سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ اگرچہ پاکستان کو گرین ہاؤس گیسیں پیدا کرنے یا زمینی حدت بڑھانے میں کوئی خاص قصوروار نہیں سمجھا جاسکتا یعنی ایسے ممالک میں اس کا نمبر135 ہے لیکن عالمی حدت سے پیدا ہونے والی خطرات کا شکار ہونے والے ممالک میں اس کا نمبر خاصا اوپر ہے ۔پچھلے سالوں میں ہونے والی طوفانی بارشیں اور شدید سیلاب اس کا واضح ثبوت ہیں۔




اس وقت موسمی تغیرات کے حوالے سے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے Intergovernmental panel on climate change (IPCC) کی جاری کردہ پانچویں رپورٹ کا ہر طرف تذکرہ ہے ، آئیے دیکھتے ہیں کہ براعظم ایشیا کے حوالے سے اس رپورٹ میں کیا ہے؟

یہ رپورٹ واضح الفاظ میں خطرے کی گھنٹی بجارہی ہے کہ عالمی حدت یا گلوبل وارمنگ سے براعظم ایشیا میں پانی، غذا، صحت، صنعت اور ماحولیاتی نظام کوشدید خطرات لاحق ہےں اور خصوصا ایشیا میں پانی کا بحران خطرناک صورت اختیار کررہا ہے کیونکہ بڑ ھتی ہوئی آبادی کی آبی ضروریات،معیار زندگی میں اضافے، اس حوالے سے خراب انتظامی صورت حال اور اس کے ساتھ ساتھ رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں ایشیا کے ایک بڑے حصے کو میٹھے پانی کی کمی سے دوچار کرسکتی ہیں۔

 انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمٹ چینج (IPCC)ہزاروں سائنس دانوں کی ایک انجمن ہے جنہوں نے کلائمٹ چینج کے اثرات کی تحقیق کے حوالے سے ایک مرکزی بین الاقوامی باڈی تشکیل دی ہے ۔ بدلتے موسموں کے حوالے سے IPCC کی چوتھی رپورٹ 2007 میں ریلیز کی گئی تھی۔

پانی کی دستیابی پر بدلتے موسموں کے اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے سائنس داں کہتے ہیں کہ بارشوں کی مقدار اوردریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں کمی بلاشبہ لاکھوں لوگوں پر اثر انداز ہوگی اور پانی کی کمی کی وجہ سے ہی ایشیا کے کچھ ایسے حصوں جو خاص طور پر کم پانی والے یا خشک علاقے ہیں، وہاںکشیدگی پیدا ہونے کے قوی امکانات موجودہیں۔سائنس دانوں کا مزید کہنا ہے کہ آبی وسائل کی بد انتظامی یقینا خشک سالی اور موجودہ کشیدگی میں اضافہ کرے گی۔ بدلتے موسموں کے اثرات یا کلائمیٹ چینج کچھ علاقوں جیسے بھارتی پنجاب، راجھستان اور ہریانہ ریاست میں آب پاشی اور دیگر ضروریات کے لیے زیر زمین پانی کے ناپائدار یا غیر دانش مندانہ استعمال کو مزید پیچیدہ کرسکتا ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلیاں جنوبی ایشیا میں پانی کے فراہمی کے نظام کے لیے بھی ایک چیلنج ثابت ہوں گی اور زراعت اور لائیو اسٹاک پر اس کے بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔

زراعت اور غذائی تحفظ

 موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بہت سے علاقے اشیائے خورنوش یا غذائی قلت کا سامنا کرسکتے ہیں، جبکہ جنوبی ایشیا میں پہلے ہی غذائی قلت کا شکار لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ بڑھتا ہوا درجۂ حرارت چاول کی پیداوار میں کمی کرسکتا ہے کیونکہ گرم موسم میں چاول کی فصل کو پکنے کے لیے کم وقت ملے گا۔

سطح سمندر میں اضافہ بھی کئی ایشیائی ساحلی علاقوں کے لیے خطرہ ہے اور نشیبی علاقوں کے زیر آب آنے کی صور ت میں چاولوں کے پیداواری علاقوں میں بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ کئی ممالک کا ایک بڑا ذریعۂ  روزگار اورغذا میں پروٹین کے حصول کا بڑا ذریعہ ماہی گیری بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے منفی طور پر متاثر ہوسکتی ہے خاص طور پر جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں اس کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔

بھارت کے دریائے گنگا سے سیراب ہونے والے زرخیز میدان(Indo-Gangetic Plains) بھی جو گندم کی عالمی فصل کا 14-15% حصہ پیدا کرتے ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مذکورہ فصل میں کمی کا سامنا کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ گرمی کی اس بڑھتی ہوئی لہر سے تقریباً 200 ملین لوگ متاثر ہوں گے۔  یہ بڑھتا ہوادرجۂحرارت چاول اوردیگرفصلوں والے ایسے علاقوں پر شدید طور پر اثر انداز ہوگا جو گرمی کو ایک حد تک ہی برداشت کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان اور شمالی بھارت (اکتوبر )، جنوبی بھارت (اپریل ۔اگست)، مشرقی بھارت اور بنگلہ دیش (مارچ۔جون) اور چین (جولائی۔اگست) کے دوران ۔

چاول کی پیداوار کے لحاظ سے موسمی تبدیلیوں کے ممکنہ خطرات کا شکارعلاقے جیسے مغربی جاپان، مشرقی چین، انڈو چائنا پیننسولا، اور جنوبی ایشیا کا شمالی حصہ ہوسکتا ہے جہاں چاول کی مزید کمی کا سامنا کیا جاسکتا ہے ۔

سطح سمندر میں اضافے سے ایشیا میں چاول کے پیداواری ساحلی اور ڈیلٹائی علاقوں کو بھی بدلتے موسموں سے خطرات کا سامنا ہے جیسے بنگلہ دیش، میانمار، اور دریائے میکونگ کے ڈیلٹا۔ اس کے علاوہ ویتنام کی تقریباً 7% زراعی اراضی سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے زیر آب آ سکتی ہے۔

موسموں کی تبدیلی ماہی گیری کے شعبے کے لیے بھی خطرات پیدا کرسکتی ہے، جیسے حد سے زیادہ ماہی گیری، سمندری آلودگی، ڈیموں کی تعمیر، بڑھتا ہوا درجہ حرارت، بارشوں کی کمی اور خشک سالی میں اضافہ وہ عوامل ہیں جو ایشیا کے کچھ حصوں میں دریاؤں کے بہاؤ میں کمی لائیں گے ، جس کی وجہ سے مچھیلوں کی افزائش پر شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ بارشوں اور سیلابوں میں اضافے کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی مقدار میں بھی اضافہ ہوگا اور یہ بھی مچھلیوں کی افزائش پر برے اثرات مرتب کرے گا۔

میٹھے پانی کی مچھلیوں کو بھی خطرہ لاحق ہوگا کیونکہ پانی کا بڑھتا ہوادرجہءحرارت ان کے مساکن کو ان کی نشونما اور افزائش کے لیے ناموزوں بنادے گا۔ ایسے علاقے جو موسمی سیلابوں پر انحصار کرتے ہیں جیسے سیلابی چراہ گاہیں، اور میٹھے پانی کے دلدلی جنگلات بھی بارشوں کی کمی اورخشک سالی سے بری طرح متاثر ہوں گے۔ خشک موسم میں کمی، اور سطح سمندر میں اضافہ کئی ایشیائی ڈیلٹاؤ ں میں نمکین پانی کی آمیزش میں اضافہ کرے گا جس سے نہ صرف موسمیاتی خطرات بڑھیں گے بلکہ ماہی گیری کی صنعت اور دوسری آبی افزائش پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے۔ سمندر کے درجۂ  حر ارت میں اضافہ سمندری تیزابیت اور ساحلی مونگوںمیں کمی مچھلیوں کی افزائش پر گہرے منفی اثرات مرتب کرے گی۔ اس سب سے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک متاثر ہوں گے۔

فیکٹریوں اور گھروں پر اثرات

اس صدی کے نصف تک ایشیا کی شہری آبادی میں 1.4 ارب تک اضافہ ہوجائے گا اور یہ دنیا کی آبادی کا 50% ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی کئی ایسے مسائل کو مزید پیچیدہ بنادیں گی ، جو شہروں کی جانب تیز رفتار منتقلی، صنعتوں میں اضافہ اور معاشی ترقی کی وجہ سے پیدا ہوں گے۔ براعظم ایشیا موسم اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث2000 سے2008 تک دنیا میں سب سے زیادہ آفات کا سامنا کرچکا ہے جس سے بھاری اقتصادی نقصانات اٹھانے پڑے۔ یہ عالمی اقتصادی نقصانات میں تناسب کے لحاظ سے دوسرا بڑا اقتصادی نقصان (27.5%) ہے۔

ایشیا کی آبادی کا بڑا حصہ غیر ترقی یافتہ اور نشیبی ساحلی علاقوں میں رہتا ہے جو کہ موسمیاتی تبدیلی کے شدید خطرات کی زد میں ہے، جن میں سطح سمندر اور سمندری طوفانوں میں اضافہ شامل ہیں۔  ایشیا کے نصف سے لے کر دو تہائی شہروں میں جن کی آبادی، ملین یا اس سے زائد ہے، کے رہائشی مختلف قسم کے خطرات کا شکار ہیں جن میں سیلا ب اور طوفان سب سے زیادہ اہم سمجھے جاسکتے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیاں صنعتوں پر بھی دو طرح سے اثر انداز ہوں گی۔ ایک براہ راست یعنی صنعتی پیداوار پر، اور دوسرا بلاواسطہ طریقے سے یعنی انفرا اسٹرکچر اور ممکنہ نقصانات کی صورت میں۔

دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ پانچ شہروں میں سے تین ٹوکیو، دہلی اور شنگھائی ان علاقوں میں واقع ہیں جہاں سیلابوں کا شدید خطرہ موجود ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے درپیش ان خطرات کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ 2070 تک آبادی کے لحاظ سے ایشیا کے اہم شہر مثلا کلکتہ، ممبئی، ڈھاکا، گنگزوو، ہو چی می سٹی، شنگھائی، بنکاک، رنگون اور ہائی پانگ ساحلی سیلابوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ جبکہ اثاثوں کے لحاظ سے اہم ایشیائی شہر گوانگ ژونگ، کلکتہ، شنگھائی، ممبئی، تیاجن، ٹوکیو، ہانگ کانگ اور بنکاک بھی قدرتی آفات کا شکار ہوسکتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیاں بھارت، بنگلہ دیش اور چین کے کمزور علاقوں (لوگوں کی بڑی تعداد اور انفرا اسٹرکچر کے ساتھ) میں سیلاب کے خطرات میں اضافہ کریں گی۔ موسمیاتی تبدیلیاں زیر زمین پانی کی عدم دستیابی میں اضافہ، کئی ایشیائی شہروں بنکاک، ملائیشیا اور تائی جن میں ان دونوں عوامل کے مشترکہ اثرات سے زمینی دستیابی میں کمی کے امکانا ت ہیں ۔ ساحلی سیلابوں اور سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے ان خطرات میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کئی بنیادی سہولیات میں خلل کا خطرہ ہے جیسے پانی کی فراہمی، صفائی (sanitation)، توانائی کی فراہمی، ذرائع آمدورفت ۔ ان مسائل سے مقامی معیشت کو سنجیدہ مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے اور یہ مقامی سطح پر بہت بڑی ہجرت کا بھی سبب بن سکتا ہے۔

صحت پر اثرات

براعظم ایشیا میں مستقل اور شدید گرم لہریں کمزور گروہوں کی شرح اموات اور صحت کی خرابی میں اضافہ کریں گی۔ شدید بارشوں اور گرمی میں اضافے سے ڈائریا کے مرض، ڈینگی بخار اور ملیریا میں اضافہ ہوگا۔

سائنس دانوں کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے اثرات جیسے سیلابوں میں اضافہ، گرم موسم وغیرہ کئی مسائل کو جنم دیں گے جیسے پانی کا خراب معیار، مچھروں کی افزائش اور پھیلاؤ اور مختلف وبائی بیماریوں میں اضافہ۔

سیلاب کی وجہ سے شہروں میں پانی کے فراہمی کے نظام میں آلودگی امراض کی افزائش اور زہریلے مرکبات تشکیل دے گی۔ رپورٹ کے مطابق بہت زیادہ سیلاب ذہنی بیماریوں اور  post traumatic stress syndrome ذہنی حالت جو کسی مصیبت، حادثے یا آفت کے بعد ہوجائے  کا سبب بھی بن سکتے ہیں ، یہ رحجان اس سے پہلے انڈیا کے آفت زدہ علاقوں میں دیکھا گیا۔

رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ گرم درجۂ حرارت اور گرمی کی لہروں سے شرح اموات اور امراض میں اضافے کا خدشہ ہے خاص طور پر کمزور آبادی جیسے بوڑھے، بچے، غریب لوگ اور وہ لوگ جو سانس اور دل کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، ان کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے۔ان عوامل کی پہلے بھی انڈیا، تھائی لینڈاور مشرقی ایشیا کے کچھ حصوں کی آبادی میں تصدیق ہوچکی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گرمی کی شدت میں اضافہ مزدوروں میں مختلف بیماریاں پیدا کرے گا جس سے پیداواری عمل متاثر ہوگا۔

موسمیاتی تبدیلیاں موسمی بیماریوں پر بھی مقامی طور پر اثر انداز ہوں گی۔ زیادہ بارشوں کی کثرت اور گرمی میں اضافے سے کچھ علاقوں مثلا چین میں ڈائریا کے مرض میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے ڈینگی بخار اوردیگر وبائی امراض کے پھیلاؤکا خطرہ ہے ، جیسے کہ بتایا گیا ہے کہ ان بیماریوں کا دائرہ کار ماحولیاتی تبدیلیوں کی و جہ سے شمالی چین میں پھیل سکتا ہے۔

ماحولیاتی نظام  ecosysytem   پر اثرات

ایشیا کے کچھ حصوں کے نباتاتی نظام میں موجودہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ پودوں کی افزائش ، پھولوں کے کھلنے اور پودوں کی اقسام میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔برفانی سطح (Permafrost) اور مستقبل کی موسمیاتی تبدیلیاں ان اثرات میں مزید اضافہ کرسکتی ہےں۔

وسیع ماحولیاتی نظام میں موسمیاتی تبدیلیاں خصوصاخشک اور نیم خشک علاقوں میں شدید اثرات مرتب کریں گی، لیکن سائنس دانوں کے مطابق بارشوں کی غیر یقینی صور ت حال اس حوالے سے کسی پیش گوئی کو مشکل بنادیتی ہے۔

ایشیا میں ساحلی اور سمندری نظام موسمیاتی اور غیر موسمیاتی دونوں طرح کے بڑھتے خطرات کے دباؤ میں ہیں۔ سطح سمندر میں اضافہ ساحلی کٹاؤکا سبب بھی بن سکتا ہے، خاص طور ایشیائی آرکٹک میں جہاں سطح سمندر میں اضافہ اور برف کی زیریں تہہ(Permafrost)  کا ملاپ متوقع ہے ، اور یہ غیر برفانی موسم (یعنی جس موسم میں برف نہیں پڑتی) میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں تیمر، نمک کی دلدل اور سمندری گھاس کے خطے سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے سکڑ سکتے ہیں، جبکہ ساحلی میٹھے پانی کے دلدلی خطے نمکین پانی کی آمیزش کی وجہ سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ یہ علاقے جان داروں کی کئی نوع بشمول معاشی لحاظ سے اہم مچھلیوں کی افزائش کی جگہیں ہیں۔ سمندروں کا بڑھتا ہوا درجہءحرارت اور سمندروں میں تیزابیت مونگے کی چٹانوں کی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں جس سے معیشت اور روزگار پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

شمالی جنگلاتی حصوں میں قبل از وقت موسم بہار اورہریالی کے باعث مرطوب موسم کے دورانیے میں اضافہ متوقع ہے اور اس کے سبب کیڑوں اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ممکن ہے۔ شمالی جنگلات مزید شمال اور مشرق کی طرف پھیل سکتے ہیں اور ٹنڈرا میدانوں کی جگہ لے سکتے ہیں۔

شمالی ایشیا اور شنگ شی تبت پلیٹو میں2100 ءتک برفانی تہہ میں بھی 20-90% کمی متوقع ہے، جو زمینی اور برفانی کٹاؤ انفرا اسڑکچر اور روزگار پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔ تبت پلیٹیو (سطح مرتفع) میں الپائن پودوںکی بڑی تعدادکی جگہ جنگل اور جھاڑیاں لے سکتے ہیں۔ برفانی تیندوے کا مسکن یعنی ہمالیہ میں بھی 30% کمی ممکن ہے کیونکہ جنگلات کھلی جگہوں پر غالب آجائیں گے۔

قنلنگ پہاڑوں میں بمبو یعنی بانس میں بھی کمی متوقع ہے جس سے بڑے پانڈا کی نسل پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جو غذا کے لیے بمبو پر انحصار کرتے ہیں۔

سمندری اور ساحلی ماحولیاتی نظام میں مچھلیوں کی انواع کی، سمندری سطح کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے شمال کی طرف منتقلی کا امکان ہے ۔ سمندری حیات کی تقسیم، کثرت اور طبعی تبدیلیوں کے مشترکہ اثرات کے باعث سمندری پانی کی مچھلی کے جسمانی سائز میں کمی
ہوسکتی ہے خاص طور پر گرم اور درمیانی عرض بلد کے علاقوں میں یہ ممکن نظر آتا ہے۔

اس رپورٹ کے حوالے سے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سب سے بہترین نکتہ یہ ہے کہ اگرچہ اس وقت موسمی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کم ازکم یا صفر کاربن معیشت کی طرف بڑھنے کے لیے دنیاکے سالانہ ترقیاتی اخراجات میں 0.06% کا اضافہ ہوگا، لیکن اگران اخراجات کا موازنہ نتیجے کے طور پربدلتے موسموں کے خطرات سے بچاؤ اور آلودگی سے خاصی حد تک پاک فضاسے کیا جائے (جس کی وجہ سے سانس کی بیماریوں میں کمی آ جائے گی) تویہ اضافہ نہ ہونے کے برابر سمجھا جاسکتا ہے۔

Friday, March 14, 2014

عالمی یوم آب ۔۔ صرف ریت پر لکھی تحریر نہ ہو

اربوں ڈالر قدر کا نہری نظام ۔۔۔ تھوڑی سی توجہ سے زمینیں سونا اگل سکتی ہیں

عالمی یوم آب 22 مارچ کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے، اس بار اس کا موضوع ”پانی اور تونائی“ ہے۔

آب و حیات کے ربط کا فلسفہ انتہائی سادہ لیکن مضبوط اور مربوط بنیادوں پر استوار ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم اور ملزوم ہیں۔ حیات کے تمام رنگ آب ہی سے نکھرتے ہیں اور سنورتے ہیں۔تاریخ بھی اسی فلسفے کی تائید کرتی ہے کہ دنیا کی تمام بڑی تہذیبوں نے پانی ہی کنارے جنم لیا اور یہیں ارتقا کے مراحل طے کیے۔ ہمیں قدرت نے ایک دو نہیں سات دریا عطا کیے جو اس کی فیاضی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، اسی لیے ہم سات دریاؤں کی سرزمین کہلاتے ہیں، یہ دریا ، دریائے سندھ، راوی ، چناب ، ستلج بیاس ، جہلم اور دریائے سرسوتی یا ہاکڑو(گھگر) ہیں۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کا نظام قدرت کی فراخ دلی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔۔۔ لیکن آبی وسائل کا غیر دانش مندانہ استعمال،ناقص آبی انتظام اوربدلتے موسموں نے ہمارے آبی وسائل کوخطرے میں ڈال دیا ہے۔



دیو مالائی اہمیت کے حامل دریائے سندھ کی لمبائی 2,900کلو میٹر ہے جو تبت میں جھیل مانسرور سے 30 میل دور کیلاش کے برفانی پانیوں سے شروع ہوتا ہے۔یہاں سے بہتا ہوا یہ عظیم دریا ایک چھوٹے سے مقام ”دم چک“ سے لداخ میں داخل ہوجاتا ہے ۔لداخ میں اسے ”سنگھے کھب“ کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ سنگھے کا مطلب ہے شیر اور کھب کامطلب ہے منہ یعنی شیر کا دہانہ ۔پاکستان بھر میں اس شیر کے دہانے والے دریا کے مختلف نام ہیں،یہ جن جن بستیوں کو سیراب کرتا اور ان کے دامن میں خوش حالی انڈیلتا گذرتا ہے وہاں کے رہنے والے اسے محبت اور شکر گذاری کے تحت مختلف نام دیتے ہیں مثلا پشتو میں اسے”ابا سین“ یعنی دریاؤں کا باپ ،سندھ میں اسے ”مہران“ اورسندھو ندی بھی کہا جاتا ہے۔لفظ سندھو سنسکرت کا لفظ ہے جس کی بنیاد ”سیند“ پر ہے جس کے معنی بہنے کے ہیں۔۔۔لیکن سدا بہنے والے اس سندھو کا پانی اب کہیں راستے میں ہی کھو جاتا ہے اور اس کے بعد تو صرف ریت ہی ریت رہ جاتی ہے ، ہر طرف اڑنے والی اور آنکھوں میں بھر جانے والی ریت!

پانی زمین پر زندگی کی ضمانت بھی ہے اورفطرت کے نظام میں توازن کی بنیاد، یہ زندگی کی ہر صورت کے لیے لازم بھی ہے اور ملزوم بھی۔چھ ارب سے زائد آبادی کے لیے پانی کی طلب دن بہ دن بڑھ رہی ہے اور یہ آبادی کرہ ارض پر موجود میٹھے پانی کا %54 استعمال کرجاتی ہے۔یہ میٹھا پانی%70  زراعت، %22 صنعتیں ا ور %8 گھریلو سطح پر استعمال کیا جاتا ہے۔پانی کے استعمال کے حوالے سے یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ یہ استعمال 2025 تک ترقی پزیر ممالک میں %50 اور ترقی یافتہ ممالک میں %18 بڑھے گا۔ 1.4 ارب لوگ دریاؤں کے بیسن میں رہتے ہیں ، جہاں پانی کا استعمال اتنا زیاہ ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح انتہائی کم ہوگئی ہے۔یورپ کے %60 شہروں میں پانی کا استعمال اس شرح سے کہیں زیادہ ہے جس شرح سے یہ زمین میں جذب ہوگا ۔1.8 ارب افراد2025 تک پانی کی کمی کا شکار ہوں گے اور دنیا کی آبادی کا دو تہائی انتہائی کمی کا شکار ہوگا۔ یہ بھی ایک توجہ طلب بات ہے کہ ایک دن میں ایک شخص کی ضروریات پر دو سے چار لٹرز پانی خرچ ہوتا ہے لیکن اسی فرد کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے صرف ایک کلوگرام چاول حاصل کرنے کے لیے دو ہزار سے پانچ ہزار لیٹرز پانی کی ضررت ہوتی ہے۔جبکہ ایک کلوگرام گندم کے حصول کے لیے تیرہ ہزار سے سترہ ہزار لٹرز پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

روزانہ دو ملین ٹن کوڑا اور فضلہ میٹھے پانی کے ذخائر میں بہادیا جاتا ہے۔.ترقی پزیر ممالک میں %70صنعتی فضلہ بغیر ٹریٹ کیے میٹھے پانی میں بہادیا جاتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او اور یونیسکو کی 2012 کی رپورٹ کے مطابق لاکھوں افراد کی سینیٹیشن کی سہولیات تک رسائی نہیں ہے اسی لیے دنیا بھر میں ڈائریا بیماری اور اموات کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے اور %88 اموات کا سبب خراب سینیٹیشن کی سہولت ہے ۔آج بھی 2.5 ارب افراد کو بنیادی سنیٹیشن کی سہولت میسر نہیں ہیں اور اس ناقص سینیٹیشن کے باعث ہر بیس سیکنڈ بعد ایک بچہ اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ ڈائریا کی روک تھام کے لیے پہلی بار 15اکتوبر2008 کو پہلی بار ہینڈ واشنگ ڈے منایا گیا۔

پاکستان میں صورت حال مختلف لیکن زیادہ ابتر ہے۔ اگر گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو پاکستان کا شمار کم آبی وسائل والے ملک سے انتہائی آبی قلت کے ملک کے طور پر کیا جائے گا 2025 تک۔زرعی ملک ہونے کے ناتے پانی کا زراعت میں بے تحاشہ استعمال ہے یعنی %93  زراعت کے لیے، %4  گھریلو استعمال کے لیے اور بقیہ صنعتی شعبے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ سیلابی پانی صرف ڈیلٹا کے استعمال میں آتا ہے جو ماحولیاتی نظام کے لیے بہتر ہے۔ سیلاب اور خشک سالی عام مظاہر ہیں۔ مون سون کی بارشوں اور گرمیوں میں گلیشئرز پگھلنے کے باعث دریا میں پانی کی مقدار خریف کے سیزن میں پانچ گنا زیادہ ہوتی ہے ربیع کے مقابلے میں۔

کرہءارض اور لوگوں پربدلتے موسم یا کلائمیٹ چینج کے اثرات کا بنیادی ذریعہ پانی ہی ہوگا۔ یہ نہ صرف آبی وسائل میں تبدیلی لائے گا بلکہ اس حوالے سے یہ وسیلہ اور کمیاب ہوتا جائے گا۔

پاکستان کا شمار پانی کے کمی والے اور نیم خشک ممالک میں کیا جاتا ہے۔یہاں بارشوں کا سالانہ اوسط 240 ملی میٹر ہے۔آبادی اور دستیاب پانی کے درمیان عدم توازن کے باعث پاکستان کا شمار پانی کی کمی والے ممالک میں کیا جاتا ہے لیکن اس کی تیز رفتار بڑھنے والی آبادی اسے بہت جلد انتہائی کمی والے ممالک میں لے جائے گی۔ آبادی اور زراعت کا دارومدار دریائے سندھ کے پانی پر ہے، اور گلوبل چینج امپیکٹ اسٹڈی سینٹر(GCISC) کی تحقیق کے مطابق آئندہ پچاس سالوں میں مغربی ہمالیائی گلیشئرز میں کمی واقع ہوگی جس سے دریا میں پانی اور بھی کم ہوجائے گی،اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو ہمالیائی خطے پر انحصار کرنے والے ممالک کی معیشت، ماحول اور معاشرے پر برے اثرات مرتب ہوں گے، یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان کے آبی ذخائر قراقرم اور کوہ ہندوکش کے گلیشیئرز پر زیادہ تر انحصار کرتے ہیں،اور ماہرین کے مطابق بدلتے موسموں کے اثرات کے تحت اس میں بہت زیادہ پگھلاؤ دیکھنے میں نہیں آیا ہے،مشاہدہ اور تحقیقی نتائج واضح کررہے ہیں کہ پانی کی کمی بدلتے موسموں کے اثرات سے اور بڑھ جائے گی، اور اس کے اثرات معیشت اور معاشرہ، ذاتی کمی، قدرتی آفات میں اضافہ، بڑے پیمانے پر لوگوں کی نقل مکانی بالائی اور زیریں علاقوں میں رہنے والوں میں تنازعات میں اضافہ آنے والے دنوں میں بڑھ جائے گا۔

آج پانی کے مسائل کے پیش نظر کچھ اقدامات ضروری نظر آتے ہیں جن کے حوالے سے حکومت کو فوری توجہ دینی چاہیے، ان میں چند درج ذیل ہیں۔

آبی وسائل اور خارجہ پالیسی

ہمیں آبی وسائل کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرنو مرتب کرنا ہوگا تاکہ سرحدوں سے باہر ان مشترکہ وسائل کا پائدار انتظام کیا جاسکے ۔ آنے والے وقتوں میں صرف بھارت سے ہی نہیں بلکہ افغانستان سے بھی آبی تنازعات میں اضافہ ہوگا ۔ موسمیاتی تبدیلیاں دریائے کابل کے پانی کی مقدارکو بھی متاثر کررہی ہیں لہذا اس حوالے سے بھی دونوں ممالک کے درمیان حساسیت بڑھے گی ۔ دریائے سندھ کے پانی پر بھارت کا تسلط اس کے بالائی علاقے میں ہونے کے باعث ہے جبکہ افغانستان کے دریائے کابل پر ہم بالائی اور زیریں دونوں علاقوں سے متعلق ہیں، افغانستان اس دریا کے درمیانی حصے سے متعلق ہے ۔ سندھ طاس کے معاہدے کا موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں ازسرنو جائزہ اور افغانستان سے دریائے کابل پر ایک نئے معاہدے کی تشکیل آنے والے دور کے مسائل کا واحد حل ہوگا ۔
پاکستان اور بھارت دونوں ممالک آبی وسائل کے حوالے سے بڑھتی ہوئی بداعتمادی کو غیر اہم نہ جانیں اور فوری طور پر سندھ طاس معاہدے کو بھی اپنی بات چیت کے ایجنڈے میں سر فہرست لے آئیں ۔

بھارت کو یاد دلانا ہوگا کہ سندط طاس معاہدے کی شق نمبر 7 میں Futur Coperation کا ذکر ہے لیکن اگر ہم بھارت کا اس حوالے سے کردار دیکھیں تو حال یا مستقبل کسی حوالے سے کوئی مشترکہ سوچ موجودنہیں ہے ۔ اس کے ڈیموں کی تعمیر اس بات کی غماز ہے کہ وہ صرف اپنے مفاد کے لیے کام کرتا رہے گا اوراس حوالے سے کسی بھی قاعدے اور قانون کے ٹوٹنے کی پروا نہیں کرے گا ۔
پڑوسی ممالک کے درمیان بین السرحدی مسائل پانی کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ آبادی میں اضافہ اور معاشی سرگرمیوں کا بڑھنا ان تنازعات کو اور بڑھاوا دے رہا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے مابین آبی وسائل کے منصفانہ تقسیم کے لیے ایک معاہدہ” سندھ طاس معاہدہ“ موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد کے حوالے سے بہت سے سوال اٹھتے ہیں ۔ دریائے کابل کے پانی پر بھی تنازعات کھڑے ہوسکتے ہیں لہذا ” کابل طاس “ معاہدہ عمل میں لایا جائے۔ آبی سفارت کاری کے ضمن میں ٹریک 3 کے تحت دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا آغاز بھی فوری کیا جائے۔

صوبوں کے مابین اعتماد سازی

دریائے سندھ پر تین ذخیرہ گاہیں منگلا، تربیلااور چشمہ قائم ہیں جہاں خریف کے موسم میں جمع ہونے والا پانی ربیع کی فصلوں تک چلایا جاتاہے۔ ان ذخیرہ گاہوں صرف 35 دن کا پانی جمع کیا جاسکتا ہے جبکہ اب یہ گنجائش کم ہوکر 27 دن رہ گئی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ صوبوں کے مابین کسی بھی بڑے ہائڈروپاور ڈیم کے لیے کس طرح اعتماد بحال کیا جائے؟ اس حوالے سے ضروری ہے کہ بات چیت کا آغاز ہو، اٹھتے ہوئے تمام سوالات کے تسلی بخش جواب دیے جائیں اور پانی کی تقسیم کے حوالے سے منصفانہ اور شفاف طریقہ ءکار طے کیا جائے۔ تمام معلومات کا اکھٹا کرنااور متعلقین تک اس کی رسائی بہت ضروری ہے تبھی لوگ متعلقہ ماحولیاتی مسائل سمجھ سکیں گے جو فیصلہ سازی میں مددگارثابت ہوگا۔

صوبوں کے درمیان دریائے کابل اور دریائے سندھ کے پانی پر تنازعات انتہائی شدید ہیں اور اس کی بنیادی وجہ اعتماد کی انتہائی کمی ہے ۔ اس حوالے سے ایسے اقدام ضروری ہیں جس سے صوبوں کے مابین اعتماد بڑھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے جو تنازعات ہمارے صوبوں کے درمیان ہے اس کی بنیادی وجہ آئین کی دفعہ 161نظر آتی ہے، اس حوالے سے ماہر آبی امور اور ماحولیات ڈاکٹر پرویز امیر بھی زور دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ”پاکستان میں آبی ذخائر اور ڈیموں کی تعمیر میں آئین پاکستان کی دفعہ 161 بھی بہت بڑی رکاوٹ ہے جس کے مطابق ہائڈرو پاور کی رائلٹی اس صوبے کو ملے گی جس کی زمین پر پاور ہاؤس تعمیر ہوگا۔

آئین پاکستان کی یہی دفعہ 161 صوبوں کے مابین فساد کی جڑ بنی ہوئی ہے۔ اگر ہماری پارلیمنٹ متفقہ طور پر اس شق کو تبدیل یا ترمیم کردیتی ہے جس سے پورے پاکستان کو مساوی حقوق ملیں تو شاید صورت حال کچھ بدل جائے، ایک اعتماد کی فضا پیدا ہو اور آبی ذخائر کی تعمیر میں اتنی رکاوٹیں پیش نہ آئیں۔ہندوستان اپنے چھوٹے ڈیمز اور بیراجوں کی تعمیر اور مرمت سے 285 ملین ایکڑ پانی جمع کرنے کے لیے اپنا %40 کام مکمل کرچکا ہے جبکہ پاکستان ابھی تک صرف %10 ہی کرچکا ہے۔یہی صورت حال رہی تو آئندہ سیزن میں گندم کی فصل کو نقصان ہوگا۔ اس کی قیمت لوگوں کی قوت خرید سے اور باہر ہوجائے گی۔

یہ بھی ایک خوش آئند بات ہے کہ اب پاکستان میں زراعت اور توانائی کی ضروریات کو پوراکرنے کے لیے چھوٹے اور درمیانے ڈیموں پر توجہ دی جارہی ہے ۔ ذرائع کے مطابق ایسے کئی ڈیموں پر کام جاری ہے ۔

نہری پانی کی پیداواری صلاحیت اور چھوٹے ڈیموں کی کارکردگی میں اضافہ

پاکستان میں نہری نظام اور چھوٹے ڈیموں کی پیداواری صلاحیت سے دنیا کے دیگر ممالک مثلا مصر،ترکی اور ایران وغیرہ سے کم ہے۔اس صلاحیت میں اضافے کی غرض سے فصلوں کے لیے معیاری بیجوں کا استعمال، کھیتوں میں آب پاشی کے جدید اور کم خرچ طریقے مثلا فوارہ اورقطرہ آب پاشی وغیرہ سے پانی کا ضیاع کم کیا جائے گا۔ روزگار کے نئے مواقع سے بھی زراعت اور خصوصا پانی پر دباؤکم ہوجائے گا۔

 اسی طر ح چھوٹے ڈیموں کی پیداواری صلاحیت کے ساتھ ساتھ ، مقامی افراد کے شراکتی منصوبوں سے پانی کی مقدار میں اضافہ اور ساتھ ہی حیاتیاتی تنوع اور جنگلی حیات کے لیے بھی ماحول بہتر بنایا جاسکے گا۔

اس وقت دنیا بھرکی نظریں ہمالیائی خطے کے ممالک اوران کے آبی وسائل پر مرکوز ہیں۔ یہ خطہ اپنے آبی وسائل کے حوالے سے دنیا بھر میں ایک منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا کے کئی اہم ترین دریا اسی خطے کی پگھلتی برف سے رواں دواں رہتے ہیں۔ اس خطے کے دریائی علاقوں کو مشترکہ طور پر استعمال کرنے والے ممالک میں پاکستان، افغانستان،بنگلہ دیش،بھوٹان،انڈیا،چین اور نیپال شامل ہیں۔دنیا کی %21  آبادی ان ہی ملکوں میں آباد ہے ۔ یہی خطہ دیگر جنوبی ایشیائی دریاؤں کے ساتھ ساتھ دو بڑے دریایعنی عظیم دریائے سندھ اور برہم پترا کا منبع بھی ہے۔ ہمالیہ سے پھوٹتے پانی کے یہ سرچشمے یعنی برہم پترا، گنگا،سند ھ، میگھنا 1.5بلین یعنی ڈیڑھ ارب لوگوں کی زندگیوں کو رواں دواں رکھتے ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ اس خطے کے لوگ اور حکومتیں مشترکہ طور پر ایسے اقدام کریں جس سے اس علاقے کے آبی وسائل مزید منظم ہوں اور زیریں علاقوں میں رہنے والے بھی اس سے مستفید ہوں، شاید یہی بقا کا راستہ ہوگا۔

ےہ امر مسلم ہے کہ پانی نہ صرف حےاتےاتی نمو کے لیے اےک جزو لازم ہے بلکہ ماحول کو متناسب اور متوازن رکھنے کے لیے بھی نہایت ضروری ہے۔ مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ صوبہ بلوچستان میں گذشتہ کئی دہائیوں سے یہاں کے بسنے والوں نے آبی ذخائر کا جس بے دردی سے ضیاع کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ نتیجتاً اس صوبے میں پانی کی کمیابی نہایت سنگین مسئلہ اختیار کر گئی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ پانی کی قلت ماحول پر اس خطرناک طریقے سے اثر انداز ہو رہی کہ خطرہ ہے کہ اگر کوئی سد باب نہ کیا گے تو شاید اس صوبے کے بیشتر علاقے انسانی و حیوانی زندگی کے لیے موزوں نہ رہیں گے۔

 آج سے تقریباً تیس سال قبل سبز انقلاب کا نعرہ لگایا گیا اور اس انقلاب کو بپا کرنے کے لیے جس بے دردی سے ماحولیاتی عناصر بالخصوص پانی کے ذخائر کو استعمال کیا گے  اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بلوچستان کے مختلف اضلاع ماحولیاتی بد حالی کا شکار ہیں اور اپنے پانی کے ذخیروں جس میں ان کی آنے والی نسلوں کا بھی حصہ تھا خرچ کر بیٹھے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں آبی وسائل کے تحفظ کے حوالے سے صورت حال بہت حوصلہ افزا نہیں ہے ۔اس منظرنامے میں صرف پانی کی کمی ہی نہی بلکہ اس کا تحفظ بھی ایک اہم مسئلہ ہے ۔آبی وسائل محدود ہیں لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ان کے بہتر انتظام کے لیے ملک کا انڈس بیسن اریگیشن سسٹم موجود ہے جو ملک کا قابل قدر اثاثہ ہے۔ دنیا کے بڑے نہری نظامو ںمیں سے ایک دریائے سندھ کا نہری نظام وفاق کے ماتحت ہے۔ یہ نہری نظام ملکی معیشت میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے ۔ اس نظام کے ڈھانچے کی مالی قدر 300 ارب ڈالر ٹھہرتی ہے۔ جبکہ معیشت میں اس کا حصہ 18 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کا %21  ہے۔