بدلتے موسموں کے حوالے سے عالمی کانفرنس اختتام کو پہنچی
ہی تھی کہ امریکا اور یورپ میں معمول سے ہٹ کرشدید برف باری نے اس حقیقت کو روز روشن
کی طرح عیاں کردیا کہ اب بدلتے موسم کوئی خیالی نظریہ نہیں بلکہ حقیقت ہیں اور یہ کہ
اب یہ مسئلہ کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ پورے کرہ ارض کا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ گزشتہ کئی
دہائیوں میں امریکا میں آنے والایہ پہلا بدترین برفانی طوفان ہے جو بعد ازاں شمالی
علاقوں کی طرف سے ہوتا ہوا سمندر کی طرف نکل گیا ۔ امریکا کے مشرقی علاقوں نے برف کی چادر اوڑھ لی،
اس طوفان میں برف گرنے کی مقدار دو فٹ بیان کی جارہی ہے اور اس طوفان سے امریکا کی
کم از کم بارہ ریاستیں متاثر ہوئی ہیں۔ امریکی قومی موسمیاتی ادارے نیشنل ویدر سروس
کے مطابق گذشتہ دس برسوں کی یہ پہلی شدید برف باری تھی۔ برفانی طوفان کے بعد ورجینیا، میری لینڈ ویسٹ ورجینیا
اور ڈیلاویز کے گورنروں اور واشنگٹن کے میئر نے اپنے اپنے علاقوں میں ہنگامی حالت کا
اعلان کردیا تھا۔ جبکہ امریکی دارالحکومت کے
تینوں ہوائی اڈے ہفتے کی دوپہر سے برف باری کی وجہ سے بند کردیے گئے تھے۔
دوسری جانب یورپ بھی شدید موسم کی زد میں ہے اور پورے یورپ
میں انیس افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ 15 افراد
پولینڈ میں ٹھٹھر کر ہلاک ہوئے اور جرمنی میں درجۂ حرارت 33 سینٹی گریڈ سے بھی نیچے
گرگیا۔
برطانیہ اور یورپ کے درمیان یورو ٹنل کے ذریعے چلنے والی
یورو اسٹار ٹرین سروس دو دن تک معطل رہی۔ جرمنی
، فرانس ، برطانیہ اور بیلجیئم کے بڑے بڑے ہوائی اڈوں سے سیکڑوں کی تعداد میں پروازیں
اور یورو اسٹار کی سروس معطل ہونے سے ہزارہا افراد مختلف شہروں میں پھنس کر رہ گئے۔
ماہرین ماحولیات اور سائنس دانوں نے اس بدترین
طوفان اور شدید موسم کو بے ترتیب موسموں کا ہی شاخسانہ قرار دیا ہے۔
بے ترتیب ہوتے موسموں کے ان ہی رویوں اور ان کی روک تھام
کے لیے نئے معاہدے کی تلاش میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 6 تا 18 دسمبر کوڈنمارک کے
دارالحکومت کوپن ہیگن میں موسمیاتی تبدیلیوں پر عالمی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس میں پاکستان سمیت 192 سے زائد ممالک کے
صدور، وزرائے اعظم اور وزرا نے حصہ لیا۔ یہ
عالمی سطح کی پہلی کانفرنس تھی جس کے اختتامی مرحلے میں امریکا ،برطانیہ ،چین،برازیل
اور بھارت سمیت 60 سے زائد ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم نے شرکت کی۔ اس سے پہلے ہونے والے اجلاسوں میں عام طور پر ماحولیات
کے وزیر ہی شرکت کیا کرتے تھے۔ امید تھی کہ
پاکستان کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی اس کے اختتامی اجلاس میں شرکت کریں گے
لیکن شاید سیاسی منظر نامے میں ہر پل بدلتے حالات نے انہیں فرصت نہ دی اور ان کی نمائندگی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی۔ پاکستان
کی واحد صحافی جنہیں اس کانفرنس میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا وہ ایک انگریزی روزنامے
سے وابستہ رعنا سعید تھیں ۔ واضح رہے کہ رعنا
ایک بین الاقوامی مقابلہ جیت کراس کانفرنس کی شرکت کے مراحل تک پہنچی تھیں ۔ کوپن ہیگن میں جب انہوں نے پاکستانی سرکاری وفد سے
پوچھا کہ آپ لوگ کسی پاکستانی صحافی کو ساتھ نہیں لائے تو انہوں نے وجہ وسائل کی کمی
بیان کی !
6
تا18 دسمبر ۔ ۔ ۔ ان تیرہ دنوں میں عالمی ذرائع ابلاغ نے اس کانفرنس
پر بھرپور توجہ منعقد کی اور اسے ہر ہر پہلو سے موضوع خبر بنایا۔ تمام خیر ملکی اخبارات اور اہم ٹی وی چینل پر روزانہ
کی پیش رفت کے حوالے سے خبریں سارا دن موجود ہوتیں،اہم ممالک کے تمام سربراہان کے بیانات
کو شہ سرخی میں جگہ ملتی رہی لیکن افسوس کہ ہمارے ذرائع ابلاغ نے اسے وہ اہمیت نہ دی
جو دینی چاہیے تھی۔ شاید اب ہمارے ذرائع ابلاغ
اور خصوصا الیکٹرانک میڈیا پرسیاست کی سنسنی خیزی کے سوا اب کسی اور شے کو اہمیت حاصل
نہیں ہے۔ یہ میرے نزدیک صرف دکھ کی بات نہیں
ہے بلکہ یہ رحجان انتہائی خطرناک ہے کہ وہ مسائل جو ہمارے ملک ، ہماری قوم کی بقا کے
لیے خطرہ بنتے جارہے ہیں، ہمیں ان کا ادراک ہی نہیں ہے یا ہم انہیں اہمیت دینے کے لیے
تیار نہیں ہیں۔
کرۂ ارض کی فضا کو گرم کرنے میں سب سے اہم گرین ہاؤ س گیسوں
، خاص طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ہے۔ یہ گیس سب سے زیادہ رکازی ایندھن (فوسل فیول)
کے جلنے سے پیدا ہوتی ہے۔ رکازی ایندھن مثلاً
پٹرولیم ، قدرتی گیس اور کوئلہ توانائی کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
یہ ایندھن دنیا بھر کی پیداواری، تجارتی اور صنعتی
سرگرمیوں کا جزو لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام
متحدہ اور عالمی ماحولیاتی اداروں کی کوشش کے باوجود مضر گیسوں کے اخراج میں کمی نہ
ہوسکی۔
گلوبل وارمنگ کے ذمے دار ترقی یافتہ ممالک ہی ہیں اور یہ
بھی ایک حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک گلوبل وارمنگ پر کنٹرول کرنے کے لیے کسی بھی
قسم کے ٹھوس اقدامات پر تیار ہی نہیں ہیں۔ امریکا کی صنعتیں سالانہ سب سے زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ
سے فضا کو آلودہ کرتی ہیں۔ اس کے بعد چین ،بھارت
اور دیگر بڑے ممالک کا نمبر آتا ہے۔ یہ تمام ممالک اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر کاربن
کے اخراج میں کمی کے لیے اقدامات کیے گئے تواس سے ان کی صنعتی ترقی متاثر ہوگی۔
صنعتی ممالک کی چمنیوں سے خارج ہوتی خطرناک گیسوں کی روک
تھام کے لیے جاپان کے شہر کیوٹو میں 1997 میں ایک معاہدہ کیوٹو پروٹوکول کا قیام عمل
میں لایا گیاتھا۔ اس معاہدے کے تحت 2012 تک صنعتی ممالک کو ان گیسوں کے اخراج میں
5.2 فیصد تک کمی کرنا تھی۔ اس معاہدے پر سوائے
امریکا کے سبھی ترقی یافتہ ملکوں نے دستخط کیے تھے لیکن امریکا نے اسے تسلیم کرنے سے
انکار کردیا تھا۔ امریکا کے اس اقدام سے یورپی
ممالک اور ماہرین سخت نالاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا سب سے زیادہ ان گیسوں کی
پیداوار کا ذمے دار ہے لہٰذا تحفظ ماحول کے ا قدامات میں بھی اسے ہی سب سے زیادہ ذمے
داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یوں بھی امریکا جیسے صنعتی ترقی یافتہ ملک کے تعاون کے
بغیر ماحولیاتی مسائل پر قابو پانا ناممکن ہے۔ پچھلے برسوں میں یکے بعد دیگرے منعقد ہونے والی کانفرنسوں
کا اہم ایجنڈا 2012 میں کیوٹو پروٹوکول کے خاتمے کے بعد بدلتے موسموں کی روک تھام کے
حوالے سے ایک جامع اور متفقہ معاہدے کی تشکیل ہے ، جس میں امریکا بھی شامل ہو۔
یہ موسم اچانک اتنے بے ترتیب
کیسے ہو چلے ؟ یہ طے ہے کہ وقت کرتا ہے پرورش برسوں ، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ سو یہ حادثہ بھی کئی دہائیوں کی بے پروائیوں اور
غفلت سے رقم ہوا ہے ۔ حضرت انسان نے خود کو
عقل کل سمجھ کرایک طرف تو فطرت کے قوانین میں دخل اندازی شروع کردی اور دوسری جانب
نام نہاد ترقی سے اپنے موت کے پروانے پر خود دستخط کرنا شروع کردیا۔
پچھلی صدی کی آخری تین دہائیوں
سے ماہرین نے لوگوں کو خبردار کرنا شروع کر دیا تھا لیکن اس وقت شاید دنیا والوں کے
لیے یہ نئی اور انہونی باتیں تھیں جنہیں وہ سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے لیکن جب نوبل
انعام یافتہ اقوام متحدہ کے انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (IPCC) نے
موسمیاتی تغیر
(Climate Change) پر اپنی تازہ ترین رپورٹ جاری کی تو جیسے
دنیا کے ہر حصے میں ہلچل سی مچ گئی۔ اپریل
2007 میں جاری کردہ 1500 صفحات کی اس ضخیم رپورٹ کی تیاری میں 100 ممالک کے 2000 سائنس
دانوں نے دن و رات کو ایک کردیا تھا۔ رپورٹ
کے مطابق غیر مناسب صنعتی سرگرمیوں سے فضا میں خطرناک گیسوں خصوصاً کاربن ڈائی آکسائیڈ
کا تناسب بڑھ رہا ہے اور ا س کے نتیجے میں زمین کے درجہ ءحرارت میں بھی مسلسل اضافہ
جاری ہے۔ 1990 سے جاری یہ اضافہ اگر 1.5 سے 2.5 سیلسیس تک جا پہنچا
تو دنیا تباہی کے خوفناک منظر دیکھے گی۔ سیلاب، سمندری طوفان، خشک سالی اور قحط جیسے
عذاب انسان کا مقدر بن جائیں گے اور زمین پر موجود 30 فیصد انواع صفحہ ہستی سے مٹ جائیں
گی۔ ”30 فیصد انواع کا معدوم ہونا“ کیا معنی رکھتا ہے کاش اس کی سنگینی کو ہم سمجھ
سکتے۔ کسی ایک نوع کے بھی مٹنے سے فطرت کی اربوں سالہ محنت تو برباد ہوتی ہی ہے لیکن
اس سے کہیں بڑا نقصان زندگی کی زنجیر میں سے ایک کڑی کا ٹوٹ جانا ٹھہرتا ہے۔ اب ذرا غور کیجئے کہ اس زنجیر کی 30فیصد کڑیوں کو
باہر نکال کر پھینک دیا جائے تو اس زنجیر کا کیا حال ہو گا؟
اس رپورٹ کے مطابق فضا کو
آلودہ کرنے میں سب سے زیادہ امریکا کا ہاتھ ہے۔ ان خطرناک گیسوں کا 38 فیصد حصہ امریکا ہی کی چمنیوں
سے نکلتا ہے لیکن ایک طاقتور اور وسائل سے مالا مال ملک ہونے کے ناتے وہ ان خطرات کا
با آسانی مقابلہ کر سکتا ہے۔اصل مسئلہ تو غریب ممالک کا ہے جن کے پاس نہ وسائل ہیں
اور نہ تیکنیکی مہارت۔
اگر کوپن ہیگن کانفرنس کے تیرہ دنوں کا جائزہ لیا جائے تو
اس کانفرنس کی اہمیت کے حساب سے اقوام عالم کی توقعات بھی بہت زیادہ تھیں ۔ خصوصا ترقی
پزیر اور غریب ممالک کی امیدیں اور آس اسی کے نتائج سے وابستہ تھیں ۔ یہ غریب ممالک
اگرچہ موسموں کے بگاڑ میں ان کا کوئی قابل ذکر کردار نہیں ہے لیکن نتائج کے اعتبار
سے ان کی بقا کو سنگین خطرات لاحق ہیں ۔ چھوٹے
جزائر پر مشتمل ممالک یا اقوام اور خطرات سے دوچار ساحلی ممالک نے مشترکہ طور پر اقوام
عالم اور امیر ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ کسی ایسے معاہدے پر ضرورمتفق ہوجائیں جس
پر عمل درآمد سے خطرات کم ہوجائیں ۔ فجی سے
تعلق رکھنے والی ایک نوعمر خاتون خاتو ولی کوہام نے اس موقع پر کہا کہ اگر اس کانفرنس
میں ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو پھر ان کا ملک صفحہءہستی
سے مٹ جائے گا اور پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔
امیر ممالک کے رویے سے نالاں لاکھوں افراد نے کانفرنس
ہال سے باہر مظاہرے بھی کیے۔ کانفرنس کے اختتام پر پانچ اہم ممالک کے گروپ جس کی قیادت
امریکا کررہا تھا، نے ایک معاہدہ پیش کیا۔ اس مسودے کے بارے میں امریکی صدر بارک اوباما
کا کہنا تھا کہ یہ ایک ”بامعنی“ معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کو چند ترقی پزیر ممالک نے یہ
کہہ کر مسترد کردیا کہ یہ معاہدہ ایسے اقدامات وضع نہیں کرتا جن سے خطرناک موسمیاتی
تبدیلیوں کو روکا جاسکے۔ معاہدے کی مخالف اقوام
میں نکارا گوا ، وینزویلا اور کیوبا جیسے لاطینی امریکی ممالک شامل ہیں۔ بعد ازاں اس معاہدے کی منظوری دے دی گئی لیکن یہ
منظوری مکمل اتفاق رائے سے نہیں دی گئی۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ معاہدے میں ایسا
کچھ نہیں جس پر عمل درآمد سے بڑھتے ہوئے درجہ ءحرارت کو روکا جاسکے۔
اس کانفرنس کے انعقاد سے پہلے ہی یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا
تھا کہ اس اجلاس کا بھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ لیکن چونکہ اس کانفرنس میں کئی
ممالک کے سربراہان خصوصا بڑی طاقتوں کے نمائندگی موجود تھی اس لیے یہ گمان بھی تھا
کہ شاید عالمی حدت پر قابو پانے کے لیے کوئی معاہدہ طے پاجائے گا۔
امریکی صدر نے کانفرنس کے اختتام پر پانچوں ممالک (امریکا
،چین ، بھارت، جنوبی افریقہ اور برازیل) کے درمیان اتفاق رائے کو اہم قرار دیا لیکن
ساتھ ہی یہ کہا کہ اتنا کافی نہیں ہے، ہم سب کو اختلاف بھلا کر اس بڑے خطرے سے نمٹنا
ہوگا۔ امریکی معاہدے کے مطابق امریکا اگلے
تین برسوں میں ترقی پزیر ممالک کو 30 ارب ڈالر دے گا۔ اس معاہدے کے تحت اگرچہ کاربن
کے اخراج میں کمی کے لیے کوئی ہدف مقرر نہیں کیا گیا البتہ تمام ممالک سے کہا گیا کہ
وہ عالمی درجہ و حرارت کو دو ڈگری سلیسیس تک کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔
کانفرنس میں شامل کئی ممالک ، ماحولیاتی اداروں کے سربراہ
اور امریکی عوام تک نے اس معاہدے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ یورپی کمیشن کے صدر جوزمینوئیل بروسو نے کہا کہ”
میں اس معاہدے پر اپنی مایوسی نہیں چھپاؤں گا۔“ فرانس کے صدر نکولس سرکوزی کا کہنا
تھا کہ” اس معاہدے کا متن جامع نہیں ہے"۔ گرین پیس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جان سوان نے بھی
اس معاہدے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ اب دنیا میں بہت کم ایسے سیاست داں
رہ گئے ہیں جو اپنے محدود ذاتی مفاد سے آگے دیکھنے کے قابل ہیں۔
چین اور انڈونیشیا نے کانفرنس کے نتائج کا خیر مقدم کیا۔
انڈونیشیا کے صدر نے کہا کہ انڈونیشیا خوش ہے کہ ہم نے اپنی زمین اور بچوں کے تحفظ
کے لیے فیصلہ کیا ہے اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ عالمی
ماحولیاتی اجلاس میں بات چیت کا نتیجہ مکمل طور پر ویسا نہیں نکلا جیسا کہ امید تھی
البتہ یہ معاہدہ ایک ”ضروری ابتدا“ ہے۔
چینی وزیر خارجہ یئنگ چی چی کا کہنا تھا کہ ترقت یافتہ ملکوں
اور ترقی پزیر ملکوں پر کاربن کے اخراج کے حوالے سے اہم ذمے داریاں ہیں اس لیے انہیں
ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے الگ الگ ذمے داریاں اور فرائض بھی سونپے جانے چاہیے۔
عالمی ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں آواز ڈاٹ آرگ نامی ایک
بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم کی تازہ ترین فلمCli.Matrix
بھی کوپن ہیگن کانفرنس کے دوران ریلیز ہوکر موضوع بحث بنی۔
اس فلم کے اہم ترین کردار امریکا کے صدر بارک اوباما ، جاپانی وزیر اعظم یوکیوہاتویاما
اور جرمن خاتون چانسلر انجیلا مرکل ہیں۔ ان
تینوں کرداروں نے سیاہ چشمے،چمڑے کی جیکٹیں زیب تن کرنے کے ساتھ ساتھ ہاتھوں میں آٹومیٹک
گن اٹھائی ہوئی ہیں۔ اس فلم کے پروڈیوسر لیری(Larry) اور
اینڈی واچوسکی (Andy Wachowski) ہیں۔
برطانیہ کے مشہوراخبار فنانشل ٹائمز نے اس حوالے سے ایک اشتہار بھی شائع کیا اور کانفرنس
کے شرکا میں تقسیم کیا۔ آواز ڈاٹ آرگ نامی
تنظیم نے ان تینوں عالمی رہنماؤں پر زوردیا ہے کہ وہ ذہنی طور پر اس بات کو تسلیم کرنے
کے لیے تیار رہیں کہ صرف غریب ممالک میں ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی
200,000 ملین افراد متاثر ہوں گے۔ اس تنظیم
کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ دنیا بھر کی آبادی کو ماحولیاتی آلودگی سے محفوظ رکھنے
کے ایک مثبت اور بھرپور کردار ادا کرے۔ اس تنظیم کے اراکین کی تعداد36 لاکھ ہے۔ اور
ترقی یافتہ ملکوں میں ان کے اراکین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ تنظیم کے ڈائریکٹر
کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکی صدر اوباما، جاپانی وزیر اعظم ہاتویاما اور
جرمن چانسلر انجیلا مرکل اپنی ذمے داریاں پوری کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان عالمی رہنماؤں
کے پاس اتنے اختیارات ہیں کہ وہ عالمی ماحولیاتی آلودگی میں ممکنہ حد تک کمی کرنے کے
لیے طویل مدت سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔
اتنی اہم کانفرنس جس پر اقوام
عالم کا کثیر سرمایہ اور بہت سا وقت خرچ ہوا نتائج کے اعتبار سے مایوس کن رہی، اگرچہ
اسے آنے والے کل کے لیے ایک خوش گوارآغاز قرار دیا جارہا ہے اور اگر ایسا ہے تو یہ
بہت مہنگا آغاز ہے۔