Wednesday, October 28, 2009

اگر انڈیا کو نہ روکا گیا تو پاکستان بنجر ہوجائے گا

چناب کا پانی روکا جانا بہت خطرناک ہے

انڈیا مقبوضہ کشمیرسے پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں پر پانی کی غیر قانونی ڈیموں کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہے۔اور وہ وقت قریب ہے جب پاکستانی ایک ایک بوند کے محتاج ہوں گے۔جس سے آئندہ سال خوراک میں 40 فیصد کی کمی ہوجائے گی۔قوم آٹے کے سخت ترین بحران سے گذر رہی ہے، غربت کے باعث لوگ بچے بیچنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ واٹر مینیجمنٹ اور آبی وسائل کے تحفظ کے بغیر غربت کے خاتمے کے لیے یہاں کوئی اندرونی یا بیرونی اسکیم کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ انٹرنیشنل ڈونرز ایجنسیاں جو غربت کے خاتمے کے لیے جو امداد فراہم کررہی ہیں وہ چاہے کھربوں روپے بھی دے دیں تو غربت ختم نہیں ہوگی۔ یہ زرعی ملک ہے اور آج تک زراعت کے سہارے ہی چلتا رہا ہے لہذا اسے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی زراعت پر توجہ دی جائے۔لوگوں کو یاد ہوگا کہ چند سال پہلے محکمہ انہار کے اعلی افسروں نے شور مچایا تھا کہ ہماری نہروں میں پانی کم آرہا ہے اس کی کیا وجہ ہے کہیں بھارت دریائے چناب اور جہلم کا پانی ڈیموں اور سائفن کے ذریعے تو نہیں کھینچ رہا ہے۔لیکن پھر اچانک خاموشی چھا گئی تھی ۔ گویا کسی طاقت نے ان کی زبان بندی کردی تھی۔پانی کی یہ کمی ہمیں شدید بحران کی طرف لے جارہی ہے۔اور یہ صورت حال جاری رہی تو یہاں ایتھوپیا اور صومالیہ جیسے حالات پیدا ہوجائیں گے۔شمالی کوریا اور روانڈا کی طرح اجاڑ ویران اوربے آباد زرعی زمینوں کا ہم کیا کریں گے۔بگلیہار ڈیم کے حوالے سے اس وقت کے پانی کے وزیر نے بغلیں بجاتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ غیر جانب دار ماہرین کا فیصلہ ہمارے حق میں آیا ہے اس وقت بھی ہم نے یہ خدشات ظاہر کیے تھے کہ بھارت ہر گز اپنے اربوں کی لاگت کے پروجیکٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کرے گا اور اگر حسن ظن سے کام لیتے ہوئے یہ سوچ لیا جائے کہ وہ ایسا کردے گا تب بھی اس ڈیم سے گذر کر پاکستان آنے والے پانی کی مقدار پہلے سے 8000 کیوسک یومیہ کم رہے گی۔یعنی ایک سیزن میں ڈھائی لاکھ کیوسک پانی میں کمی اور پر حکو مت کا اطمینان بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ قومے فروختن و چہ ارزاں فروختن۔ اگر بھارت ڈیم کے گیٹ بند کردے تو دریائے چناب کا ایک گھونٹ پانی نہیں مل سکتا ۔جس کے باعث ہماری 14مین برانچز متاثر ہوں گی اور ان سے نکلنے والی 405 نہریں 124 ڈسٹری بیوٹرز مکمل طور پر خشک ہوجائیں گی اور لاہور سے اوکاڑہ، ملتان اور بہاولپور تک ۳۰ لاکھ ایکڑ اراضی بنجر ہوجائے گی۔



ان کے ساتھ ساتھ بھارت دریائے نیلم پر کشن گنگا پروجیکٹ اور دریائے پونچھ پر اوڑی تو ڈیم مکمل کرنے کے قریب ہے۔یہ منصوبہ دراصل منگلا ڈیم کو خشک کرنے کی ایک بھارتی چال ہے۔اگر یہ پانی نہیں آئے گا تو ظاہر ہے کہ منگلا ڈیم کو خشک ہی ہوناہے ۔  دریائے جہلم ، دریائے نیلم اور دریائے پونچھ کا پانی ہی منگلا ڈیم میں آتا ہے۔سندھ طاس معاہدے کے تحت دریائے ستلج ، بیاں اور راوی پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ یوں تو یہ معاہدہ یونیورسل ڈیکلریشن 1948 کے آرٹیکل  8  کے بالکل برعکس ہے اور اسے آج بھی انٹرنیشنل ٹریبونل میں چیلینج کیا جاسکتا ہے۔


انگریزوں کی ملی بھگت سے ان تمام دریاؤں کے ماخذ بھارت کی حدود میں چلے گئے ہیں۔ بھارت نے اپنی جغرافیائی اہمیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انڈس واٹر ٹریٹی میں یہ مطالبہ کر دیا کہ اسے بہتے پانی پر پاور پروجیکٹ لگانے کی اجازت دی جائے اور یہ شق اس نے بضد ہوکر معاہدے میں ڈلوادی۔ یہ معاہدہ یوں لگتا ہے کہ بلا سوچے سمجھے جلد بازی میں کیا گیا لہذا ہر طرح سے بھارت کا پلہ بھاری رہا۔ چونکہ اس معاہدے میں یہ شق موجود ہے کہ بھارت بہتے پانی پر پروجیکٹ لگا سکتا ہے لہذا اس نے پن بجلی کی آڑ لے کر دریائے چناب ، جہلم اور سندھ پر 623 ڈیموں کی تعمیر شروع کی ہوئی ہے۔یہ تمام ڈیم صریحاً اس معاہدے کے آرٹیکل 3,4,7 اور8 کی خلاف ورزی ہے۔معاہدے کے کسی آرٹیکل کے تحت بھارت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ جہلم، چناب اور سندھ پر کچھ تعمیر کرے اور اگر تعمیر کرنا ہی ہو تو وہ اس تعمیر کا ڈیزائن پاکستان کو دکھانے کا پابند ہے۔

آبی چکر

آج یہ بات سب جانتے ہیں کہ پانی زندگی کے لیے لازم و ملزوم ہے، پانی کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ دریا، سمندر اور جھیلوں کے کنارے ہی انسانی تہذیب پھلتی پھولتی اور نشوونما پاکر ترقی یافتہ معاشروں میں ڈھلتی رہی ہے۔حیات کی کسی بھی اکائی کا پانی کے بغیر تصور ممکن نہیں۔سائنس داں آج بھی دوسرے سیاروں پر کمند ڈالتے ہوئے سب سے پہلے پانی ہی کا امکان ڈھونڈتے ہیں۔ پانی کی اسی اہمیت کو قرآن ڈیڑھ ہزار سال پہلے ہی واضح کرچکا ہے۔ دیکھیے سورہ الانبیاکی آیت نمبر 30”اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی“ اور سورہ نور میں ارشاد ہے ”اور اللہ نے ہر جان دار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیے۔


 قران کی اس بات سے آج کے سائنس داںسو فیصد متفق ہیں۔

Bernard Palac  نامی سائنس داں نے 1580 میں water cycle یعنی آبی چکر بیان کیا تھا۔ لیکن اس انکشاف سے ایک ہزار سال پہلے قران نے متعدد مقامات پر آبی چکر کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔قران بتاتا ہے کہ پانی سمندروں کی سطح سے بخارات بن کر اٹھتا ہے ۔ بادلوں میں تبدیل ہوتا ہے،  بادل بلآخر کثیف بن جاتے ہیں،  ان میں بجلیاں چمکتی ہیں اور ان سے بارش ہوتی ہے۔
سورہ مومنون میں ارشاد ہوتا ہے:  اورآسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا ، ہم اسے جس طرح چاہے غائب کرسکتے ہیں۔ (المومنون 18)

سورہ روم میں وضاحت ہے:
اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اٹھاتی ہیں ، پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے جس طرح چاہتا ہے انہیں ٹکڑیوں میں تقسیم کرتا ہے ۔پھر تو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں سے ٹپکے چلے آتے ہیں۔یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے برساتا ہے تو وہ یکایک خوش و خرم ہوجاتے ہیں۔“( الروم 78)

اور دیکھیے:
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا پھر اس پانی سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں۔“( سورہ الزمر 21)


اپنی ایک یگانہ روز گار کتاب ”حیاتیاتی چیزوں کی انفرادیت“ میں معروف سائنس داں(بائیو کیمسٹ) پروفیسر نیڈہم نے لکھا ہے کہ زندگی کے وجود کے لیے سیال چیزیں بے حد ضروری ہیں کیونکہ ٹھوس چیزوں میں ایٹمی ذرے بہت قریب ہوتے ہیں۔اوروہ کبھی بھی حرکی قوت ،قوت عمل رکھنے والے سالمیاتی عمل اور رد عمل کی اجازت نہ دیتے جس کی زندہ رہنے والے ہر فرد کو عمل کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ زندگی کی تحریک کے لیے فعال ہونا بے حد ضروری ہے۔آسان لفظوں میں یہ کہ زندگی کی فعالیت کے لیے سیالی ماحول بے حد ضروری ہے اور پانی اللہ تعالی کی تخلیق میں بے حد خوبصورت اور کار آمد چیزہے۔پانی کے خواص کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ ہر دور میں سائنس دانوں کے لیے حیران کن رہی ہیں۔تمام موجودات میں جیسے جیسے ان کا درجہ حرارت نیچے آتا ہے سکڑتی چلی جاتی ہیں (حجم میں کمی کا مطلب ہے کہ چیزوں کی کثافت بڑھ جاتی ہے) ۔


Saturday, October 10, 2009

ماں کے گھر پر واپسی

گذشتہ 30 برسوں میں گیل اسٹراب نے دنیا بھر میں ہزاروں لوگوں کو اپنی زندگیوںکا مطلب اور مقصد سمجھانے کے لیے کام کیا ہے۔ انہوں نے اپنی نئی کتاب ’ ریٹرننگ ٹو مائی مدرز ہاؤس‘ میں خواتین کی بصیرت کو موضوع بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے کچھ اس طرح ہیں کہ خواتین کو اپنی صلاحیتیں منوانے کے لیے اپنی نسوانی ذات سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔  اسٹراب اپنی کتاب میں اپنی ماں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ کس طرح انہوں نے ایک اچھی ماں اور اور ایک اچھی خاتون خانہ بننے کے لیے کس طرح اپنے خواب قربان کردیے۔  ان کا کہنا ہے کہ دنیا کی ہر عورت کی ایک ہی کہانی ہے۔ زیادہ تر خوتین جب اپنی زندگی میں سماجی کامیابیوں کے لیے جدوجہد میں مصروف ہوتی ہیں ان کا اپنی نسوانی بصیرت سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے۔ عورت جب گھر سنبھال رہی ہوتی ہے یا پچوں کی پرورش کررہی ہوتی ہے بلاشبہ یہ تمام کام بہت اہم ہیں لیکن ان میں گم ہوکر وہ اپنی ذات کی تعمیر و تربیت سے محروم ہوجاتی ہے۔ اپنی کتاب میں اسٹراب نے خواتین کو اپنی ذات کی تعمیر اور بقا کے مختلف طریقے بتائے ہیں۔ جن کی مدد سے وہ اپنی نسوانی بصیرت دوبارہ حاصل کرسکتی ہیں۔ ان میں اپنے جذبات اور اندر کی آواز پر دھیان دینا، اپنے گھر اور کمیونٹی کی تعمیر،اور تخلیقی فنون میں مشغول رہنا شامل ہیں۔ اپنے خیالات کو تحریر میں لانا، مجسمہ سازی ، مصوری، رقص، موسیقی، گلوکاری، یہ سب تخلیقی فنون اپنی ذات کے اظہار کے طریقے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دوستوں کا ایک حلقہ جو خواتین پر مشتمل ہو تشکیل دینے کی صرورت ہوتی ہے۔ اس میں ہماری مائیں، خالائیں اور نانیاں دادیاں شامل ہوتی ہیں۔ہم ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔اسٹراب کے شوہر ڈیوڈ گیریشن نیویارک کے ایک ادارے میں ڈائریکٹر ہیں جو قائدانہ صلاحیتیں ابھارنے کے حوالے سے تربیت دیتا ہے۔ اسٹراب بھی اس ادارے سے وابستہ ہوگئیں اور انہیں دنیا بھر کی خواتین سے ملنے کا موقع ملا۔ ان کی ملاقات روانڈا، جنوبی افریقہ، کمبوڈیا اور افغانستان کی خواتین سے ملنے کا موقع ملا اور وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ دنیا بھر کی خواتین کے مسائل تقریبا ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ان کا ادارہ خواتین کو صلاحیتوں کے ادراک اور ان کے بہترین استعمال کا طریقہ سکھاتا ہے۔ اس سے خواتین نہ صرف اپنے لیے بلکہ ملک و قوم کے لیے بھی بہترین ہوتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں دوسری خواتین تک رسائی اور بھی آسان ہوچکی ہے۔  انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے خیالات اور تجربات کا تبادلہ کرکے اپنےی نسوانی بصیرت میں اضافہ کرسکتی ہیں۔

بین الاقوامی امداد کے امریکی ادارے یو ایس ایڈ   اور ایک مقامی تنیظم   مڈوفری ایسوسی ایشن آف پاکستان نے اس ہفتے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک خصوصی کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں ملک بھر سے آئی ہوئی سینکڑوں نرسوں ، دائیوں اور ہیلتھ ورکرز کو بچے کی پیدائش کے دوران زچہ کو مدد فراہم کرنے کے حوالے سے تربیت دی گئی۔ کانفرنس کے دوران ماہرین نے اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں خواتین کی شرح اموات میں 20 فیصد سے زائد تناسب ان اموات کا ہے جو زچگی کے دوران یا بچے کی پیدائش اور اس کے بعد پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ یو ایس ایڈ کے مطابق پیدائش کے وقت ایک ہزار میں سے 78 بچوں کی اموات بھی واقع ہوتی ہیں۔ اور یہ شرح بھارت ، نیپال اور بنگلہ دیش سے بھی زیادہ ہے۔ ادارے کے اندازے کے مطابق 89 میں سے ایک عورت زچگی کی پیچیدگیوں کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھی رہی ہے۔ پاکستان میں65 فیصد خواتین بچوں کو گھر میں جنم دیتی ہیں۔ اور ان میں سے آدھے سے زائد کو بعد از پیدائش طبی امداد نہیں ملتی جبکہ دیہی علاقوں میں رہنے والی غریب خواتین کو زچگی اور پیدائش کے دوران کسی قسم کی طبی امداد نہیں ملتی۔