چناب کا پانی روکا جانا بہت خطرناک ہے
انڈیا مقبوضہ کشمیرسے پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں پر
پانی کی غیر قانونی ڈیموں کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہے۔اور وہ وقت قریب ہے جب پاکستانی
ایک ایک بوند کے محتاج ہوں گے۔جس سے آئندہ سال خوراک میں 40 فیصد کی کمی ہوجائے گی۔قوم
آٹے کے سخت ترین بحران سے گذر رہی ہے، غربت کے باعث لوگ بچے بیچنے پر مجبور ہو رہے
ہیں۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ واٹر مینیجمنٹ اور آبی وسائل کے تحفظ کے بغیر غربت کے
خاتمے کے لیے یہاں کوئی اندرونی یا بیرونی اسکیم کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ انٹرنیشنل ڈونرز
ایجنسیاں جو غربت کے خاتمے کے لیے جو امداد فراہم کررہی ہیں وہ چاہے کھربوں روپے بھی
دے دیں تو غربت ختم نہیں ہوگی۔ یہ زرعی ملک ہے اور آج تک زراعت کے سہارے ہی چلتا رہا
ہے لہذا اسے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی زراعت پر توجہ
دی جائے۔لوگوں کو یاد ہوگا کہ چند سال پہلے محکمہ انہار کے اعلی افسروں نے شور مچایا
تھا کہ ہماری نہروں میں پانی کم آرہا ہے اس کی کیا وجہ ہے کہیں بھارت دریائے چناب اور
جہلم کا پانی ڈیموں اور سائفن کے ذریعے تو نہیں کھینچ رہا ہے۔لیکن پھر اچانک خاموشی
چھا گئی تھی ۔ گویا کسی طاقت نے ان کی زبان بندی کردی تھی۔پانی کی یہ کمی ہمیں شدید
بحران کی طرف لے جارہی ہے۔اور یہ صورت حال جاری رہی تو یہاں ایتھوپیا اور صومالیہ جیسے
حالات پیدا ہوجائیں گے۔شمالی کوریا اور روانڈا کی طرح اجاڑ ویران اوربے آباد زرعی زمینوں
کا ہم کیا کریں گے۔بگلیہار ڈیم کے حوالے سے اس وقت کے پانی کے وزیر نے بغلیں بجاتے
ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ غیر جانب دار ماہرین کا فیصلہ ہمارے حق میں آیا ہے اس وقت
بھی ہم نے یہ خدشات ظاہر کیے تھے کہ بھارت ہر گز اپنے اربوں کی لاگت کے پروجیکٹ میں
کوئی تبدیلی نہیں کرے گا اور اگر حسن ظن سے کام لیتے ہوئے یہ سوچ لیا جائے کہ وہ ایسا
کردے گا تب بھی اس ڈیم سے گذر کر پاکستان آنے والے پانی کی مقدار پہلے سے 8000 کیوسک
یومیہ کم رہے گی۔یعنی ایک سیزن میں ڈھائی لاکھ کیوسک پانی میں کمی اور پر حکو مت کا
اطمینان بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ قومے فروختن و چہ ارزاں فروختن۔ اگر بھارت ڈیم کے
گیٹ بند کردے تو دریائے چناب کا ایک گھونٹ پانی نہیں مل سکتا ۔جس کے باعث ہماری 14مین
برانچز متاثر ہوں گی اور ان سے نکلنے والی 405 نہریں 124 ڈسٹری بیوٹرز مکمل طور پر
خشک ہوجائیں گی اور لاہور سے اوکاڑہ، ملتان اور بہاولپور تک ۳۰ لاکھ ایکڑ اراضی بنجر
ہوجائے گی۔
ان کے ساتھ ساتھ بھارت دریائے نیلم پر کشن گنگا پروجیکٹ
اور دریائے پونچھ پر اوڑی تو ڈیم مکمل کرنے کے قریب ہے۔یہ منصوبہ دراصل منگلا ڈیم کو
خشک کرنے کی ایک بھارتی چال ہے۔اگر یہ پانی نہیں آئے گا تو ظاہر ہے کہ منگلا ڈیم کو
خشک ہی ہوناہے ۔ دریائے جہلم ، دریائے نیلم
اور دریائے پونچھ کا پانی ہی منگلا ڈیم میں آتا ہے۔سندھ طاس معاہدے کے تحت دریائے ستلج
، بیاں اور راوی پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ یوں تو یہ معاہدہ یونیورسل ڈیکلریشن
1948 کے آرٹیکل 8 کے بالکل برعکس ہے اور اسے آج بھی انٹرنیشنل ٹریبونل
میں چیلینج کیا جاسکتا ہے۔
انگریزوں کی ملی بھگت سے ان تمام دریاؤں کے ماخذ بھارت کی
حدود میں چلے گئے ہیں۔ بھارت نے اپنی جغرافیائی اہمیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انڈس واٹر
ٹریٹی میں یہ مطالبہ کر دیا کہ اسے بہتے پانی پر پاور پروجیکٹ لگانے کی اجازت دی جائے
اور یہ شق اس نے بضد ہوکر معاہدے میں ڈلوادی۔ یہ معاہدہ یوں لگتا ہے کہ بلا سوچے سمجھے
جلد بازی میں کیا گیا لہذا ہر طرح سے بھارت کا پلہ بھاری رہا۔ چونکہ اس معاہدے میں
یہ شق موجود ہے کہ بھارت بہتے پانی پر پروجیکٹ لگا سکتا ہے لہذا اس نے پن بجلی کی آڑ
لے کر دریائے چناب ، جہلم اور سندھ پر 623 ڈیموں کی تعمیر شروع کی ہوئی ہے۔یہ تمام
ڈیم صریحاً اس معاہدے کے آرٹیکل 3,4,7 اور8 کی خلاف ورزی ہے۔معاہدے کے کسی آرٹیکل کے
تحت بھارت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ جہلم، چناب اور سندھ پر کچھ تعمیر کرے اور اگر
تعمیر کرنا ہی ہو تو وہ اس تعمیر کا ڈیزائن پاکستان کو دکھانے کا پابند ہے۔