سینیٹیشن کا بین الاقوامی سال اور ہمارے حالات
نچلی سطح سے پھوٹتی انقلاب کی کرنیں، رضاکار اس تحریک کا
ہراول دستہ ہیں
”اب
ہماری زندگی بدل گئی ہے۔“ اس جملے نے مجھے چونکا دیا ، میں نے غور سے اسے دیکھا۔اس
کی آنکھیں چمک رہی تھیں اور چہرہ شدت جذبات سے تمتمارہا تھا۔عمر کوٹ کے علاقے ساماروکے
ایک چھوٹے سے گاؤں ”ہیمارام“ سے آنے والی راج بائی دیہاتی زندگی کی جھجک اور زبان کی
مجبوری کے باوجود ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں بولتی رہی۔ جذبات اس کی آنکھوں اور چہرے سے
عیاں تھے۔کیا واقعی؟ میرے اس مشکوک رد عمل پر غور کیے بغیر اس نے اپنی بات جاری رکھی
کہ ’کس طرح اس کے گاؤں میں کچھ عرصہ پہلے تک گندگی بکھری ہوئی تھی ۔ جانوروں کی غلاظت
کے ساتھ ساتھ انسانی فضلہ بھی چاروں جانب بکھرا رہتا۔ اس فضلے پر بیٹھنے والی مچھر مکھیاں کھانے پینے کی
چیزوں پر بیٹھ جاتیں اور یوں انتہائی خطرناک جراثیم گاؤں والوں کے پیٹ میں پہنچ جاتے۔راج
بائی کے بچے اکثر بیمار رہتے۔ اس کا گھر والا اگرچہ کام کرتا تھالیکن سارے پیسے بیماریوں
پر لگ جاتے‘ ۔
اور اب کیا ہوتا ہے؟’اب ایسا نہیں ہوتا ہے۔‘ راج بائی نے
فخریہ بتایا’ اب ہم لوگوں نے اپنے گھروں میں لیٹرین بنا لیے ہیں۔ میں نے اپنے گھر کا
لیٹرین خود تعمیر کیا کیونکہ میرا گھر والا تو کام پر جاتا تھا ، اس کے پاس ٹیم نہیں
تھا ۔میں نے گاؤں کی سب عورتوں کو سمجھایا ، ساری گاؤں کی عورتوں نے اپنی مدد آپ کے
تحت گھروں کے لیٹرین خود تعمیر کیے ۔ یہ دیکھیں ہمارے ہاتھوں کے زخم !‘ راج بائی نے
اپنے بازو میرے سامنے کردیے۔’پہلے ہم کھلے میں رفع حاجت کے لیے جاتے تھے مگر اب گھروں
میں لیٹرین کی تعمیر سے صحت و صفائی میں بھی بہتری ہوئی ہے اور پردے کی طرف سے بھی
بے فکری ہوگئی۔اب ہماری زندگی بدل گئی ہے۔ اب ہمارے گاؤں کے 500 لوگ بہت اچھی زندگی
گذار رہے ہیں ۔‘
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 2008 کو”سال برائے سینیٹیشن International Year
of Sanitation“ کے طور پر منایا گیا۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے مختلف سرگرمیاں جاری
ہیں۔ اور دیگر شعبوں کی طرح یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم اس شعبے میں بھی بہت پیچھے ہیں۔پانچ
کروڑ افراد کو سینیٹیشن کی سہولت میسر نہیں ہے یعنی ان کے گھروں میں لیٹرین موجود نہیں
ہیں۔ یہ افراد ابھی تک رفع حاجت کے لیے گاؤں کے کھلے علاقوں مثلا جنگلوں یا کھیتوں
وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ مقام افسوس ہے کہ خواتین اور بچے بھی اسی چلن کے عادی ہیں۔
بچے تو دور جانے کا بھی اہتمام نہیں کرتے بلکہ گھروں کے سامنے اور گلیوں میں ہی رفع
حاجت کرتے ہیں ۔کھلی جگہوں پر رفع حاجت کا سبب لوگوں کی کم علمی اور صحت و صفائی کی
بنیادی باتوں سے عدم آگاہی کے ساتھ ساتھ ان کی غربت اور روایتوں پر سختی سے عمل درآمد
ہے۔پاکستان میں سات کروڑ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں صحت اور صفائی کے حوالے سے بنیادی
سہولتیں میسر نہیں ہیں۔دنیا بھر میں پانچ ہزار اورپاکستان میں ہر روز پانچ سال سے کم
عمرگیارہ سو بچے سینیٹیشن کے ناقص انتظامات ، حفظان صحت کی خرابیوں ، دستوں اور آلودہ
پانی سے ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔پاکستان کو دستوں کی
بیماریوں پر قابو پانے کے لیے ہر سال 55 ارب سے لے کر 84ارب تک سرمایہ خرچ کرنا پڑتا
ہے جو اس غریب ملک کی معیشت پر اضافی بوجھ ہے۔آلودہ ماحول اور آلودہ پانی بچوں میں
پیٹ اور جگر کی بیماریوں کا بڑا سبب ہے۔ انسانی فضلے کے مضر اثرات سے انسانوں کو محفوظ
رکھنے کے لیے ضروری ہے اسے محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے۔
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 2008 کو”سال برائے سینیٹیشن International Year
of Sanitation“ کے طور پر منایا گیا ہے۔اسی سال سینیٹیشن
کے موضوع پر جنوبی ایشیاکی تیسری سب سے بڑی کانفرنسSouth
Asian Conference on Sanitation(SACOSAN) نئی
دہلی انڈیا میں منعقد ہوئی۔اس کانفرنس میں تمام سارک ممالک بشمول افغانستان موجود تھے۔
یہ کانفرنس ہر دو سال بعد منعقد ہوتی ہے۔2006 میں یہ اسلام آباد میں منعقد ہوئی تھی۔
نئی دہلی میں ہونے والی اس کانفرنس کا افتتاح انڈیا کے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کیا
تھا اور پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ماحول حمید اللہ جان آفریدی بھی موجود تھے جنہوں
نے سینیٹیش کے حوالے سے حکومت کے اقدامات اور اس کا نقطہ ءنظر پیش کیا۔
اگرچہ پچھلی کانفرنس سے لے کر اب تک ان دوسالوں میں بہت
کام ہوا ہے اور ہر ملک نے اپنی بساط بھر کوشش کی ہے پھر بھی ان دوسالوں میں جنوبی ایشیا
میں دس لاکھ بچے صحت و صفائی کی ناقص صورت حال کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔
یہ اعداد و شمار ہم سے مزید سنجیدگی اور اخلاص کا تقاضا کرتے ہیں۔
حکومت پاکستان نے پالیسی سازی کے حوالے سے بہت سے اقدامات
کیے ہیں جن کا تذکرہ ہم آگے کریں گے ویسے بھی کسی پالیسی سے ہمیں کوئی زیادہ دلچسپی
نہیں ہوتی ہے ۔ پالیسی بنانا اور اس پر عمل درآمد حکومت کا کام ہے سو حکومت جانے اور
اس کا کام جانے، لیکن ”رویے بدلنا“ چونکادینے والا کام ہے اور اس سے ہمیں سو فیصد دلچسپی
ہے ۔ کسی بھی فرد کا رویہ کیسے بدلا جائے گا؟ کیونکہ رویے بدلنا آسان نہیں ہوتا ہے
۔رویے صدیوں سے جاری رسوم وروایات ، مذہب، معاشی حالات ، جغرافیائی صورت حال اور ارد
گرد کے ماحول کے زیر اہتمام تشکیل پاتے ہیں۔یہ ایک دو دن کا نہیں بلکہ صدیوں کا ارتقائی
عمل ہوتا ہے۔ رویے کسی بھی مخصوص ورثے اور ثقافت سے جڑے ہوتے ہیں انہیں تبدیل کرنے
کا مطلب تو اکثر ایک کھلا فساد ہوتا ہے۔ لیکن کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہوتا ہے سو
یہ کام بھی ممکن ہے اور اس کا ثبوت وہ بہت سے پر عزم چہرے تھے جو اپنی کہانیاں سنارہے
تھے۔ورلڈ بینک کے واٹر اینڈ سینیٹیشن پروگرام کے زیر اہتمام اسلام آباد میںمنعقد ورکشاپ
کے شرکا تفصیلات بتا رہے تھے۔یہ تمام لوگ کسی پیسے کے لالچ کے بغیر ،کسی معاوضے کے
بنا اپنے گاؤں کے لوگوں کی تقدیر بدلنے کا عزم کیے ہوئے تھے اور اس میں کامیاب بھی
تھے۔یہ چھوٹے چھوٹے گاؤں کے ٹیچر تھے، دکان دار تھے،ناظم تھے یا کچھ بھی نہ تھے بس
پر عزم جذبوں اور اخلاص سے پرایک دل کے مالک تھے۔انہیں مختلف تنظیموں کے ذریعے جب لیٹرین
کی تعمیر اور افادیت اور انسانی فضلے کے مضر اثرات کا پتا چلا تو نہ صرف انہوں نے خود
اس پر عمل کیا بلکہ پورے گاؤں والوں کی سوچ بدل کر رکھ دی ۔(یاد رہے کہ تقریبا پاکستان
پانچ کروڑ افرادکو لیٹرین کی باقاعدہ سہولت میسر نہیں ہے) ابتدا میں اگرچہ انہیں بہت
سخت مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر یہ نا ممکن ممکن ہو کر رہا۔گاؤں کے ان سادہ لوگوں
کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لیکن دلوں کو چھو جانے والی کہانیاں سنتے ہوئے ایک اور خوشگوار
احساس ہوا کہ دھیرے دھیرے ہی سہی لیکن بہت نچلی سطح سے ایک انقلاب کی کونپل پھوٹ رہی
ہے اور دوسری خوشی کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر کامیاب تجربات کے پیچھے عورت ہی کھڑی نظر
آرہی ہے۔پردے سے خود کو ڈھانپے ، کسی حساب کتاب اور بہی کھاتوں میں نظر نہ آنے کے باوجود
یہ عورت اتنی طاقت ور ہے کہ سب کچھ بدل کر رکھ دیتی ہے۔زلزلے سے متاثرہ ایک چھوٹے سے
گاؤں کوٹ سریاں کی پرعزم شمیم نے بھی یہی بات دہرائی”زندگی کا مزہ ہمیں اب آرہا ہے“
یہ اب ساری گاؤں کی عورتیں کہتی ہیں۔ پہلی بار جب میں انہیں گھر میں لیٹرین بنانے کے
حوالے سے قائل کر رہی تھی تو سب عورتیں میرے خلاف تھیں اور کوئی بات سننے کے لیے تیار
نہ تھیں۔ پھر ہم نے اپنے اسکول کی بچیوں کو قائل کیا ۔ اسکول میں انہیں لیٹرین کی سہولت
موجود تھی لہذا وہ اس کی افادیت جانتی تھیں ۔ ہم نے انہیں یاد دلایا کہ ” صفائی نصف
ایمان ہے“ اور شرم و حیا عورت کا زیور ہے۔ باقی کام ان بچیوں کا ہے۔ ان بچیوں نے گھر
والوں کو قائل کیا اور چراغ سے چراغ جلتا رہا۔ وہی عورت کی طاقت!
یہی بات ایبٹ آباد کے درئی ایمان دہرا رہے تھے۔ وہ ریٹائرڈ میجر ہیں انہوں نے رضاکارانہ طور پر یہ
کام شروع کیا مگر لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا ، ایک موقع ایسا بھی آیا کہ وہ دل برداشتہ
ہوگئے مگر ایسے میں ان کی بیٹی نے ان کی ہمت بڑھائی، وہ ہیلتھ ورکر تھی اس نے اپنی
ساتھی کارکنوں کی مدد سے کام شروع کیا اورپہلے خواتین قائل ہوئیں پھر انہوں نے خود
اپنے مردوں کو قائل کیا۔ لوگوں کے رویوں میں تبدیلی دراصل ان کی سوچ میں تبدیلی ہے‘۔
ہری پور کے شبیر احمد کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگوں کو قائل کرنے میں ان پر تھوڑا بہت نفسیاتی
اثر بھی ڈالتے ہیں۔ اس کے لیے ایک طریقہ (Shock and Shame) اختیار کرتے ہیں، ہم
ان کے گاؤں میں چہل قدمی کرتے ہیں اور جہاں غلاظت پڑی نظر آتی ہے انہیں اس پر شرمندہ
کرتے ہیں۔ مہمانوں کے سامنے اس گندگی پر وہ بڑے شرم سار ہوتے ہیں۔پھر ہم ایک قدم اور
آگے بڑھ کر انہیں بتاتے ہیں کہ یہ گندگی واپس تمھارے کھانے پینے میں شامل ہورہی ہے۔مکھیاں
اور مچھر ان پر بیٹھ کر پھر کھانے پینے کی اشیا کو بھی آلودہ کر دیتے ہیں۔اسی سے تمہارے
بچے بیمار ہیں۔ ہم انہیں اندازا تخمینہ لگا کر بتاتے ہیں کہ وہ بچوں کی بیماری پر کتنا
خرچ کر رہے ہیں جبکہ اس سے کہیں کم پیسوں سے اور بعض جگہوں پر تومفت میں لیٹرین بنایا
جا سکتا ہے۔ پہلے کچھ لوگ قائل ہوتے ہیں پھر دھیرے دھیرے پورا گاؤں قائل ہوجاتا ہے۔ایسے
گاؤں جو کھلے میں رفع حاجت سے پاک ہوجاتا ہے اسے او ڈی ایف گاؤں کہتے ہیں یعنی
Open
Defecation Free ۔اور
وہ لوگ جو بلا معاوضہ رضاکارانہ طور پر یہ کام کرتے ہیں انہیں نیچرل لیڈر یا رضاکار
(Barefoot ) کہا
جاتا ہے۔اور یہ سارا عمل سی ایل ٹی ایس Community Led Total Sanitation کہلاتا
ہے۔ سندھ میں اب تک مختلف تنظیموں کے زیر اہتمام 203 رضاکاروں کو تربیت دی گئی اور
720 گاؤں کے لوگوں نے کسی مدد کے بغیر اپنے گھروں میں لیٹرین تعمیر کیے اور یوں
504,000 افراد صفائی کے اس عمل میں شامل ہوگئے ۔ پنجاب میں 98 رضاکاروں نے تربیت حاصل
کی اور 70 گاؤں کے 28,000 لوگ مستفید ہوئے۔ بلوچستان میں 39 رضاکاروں نے تربیت پائی
اور 19گاؤں کے 10,640لوگوں نے فیض حاصل کیا۔ سرحد میں 124رضاکاروں نے تربیت حاصل کی
اور 412 گاؤں کے 40,1700 افراد مستفید ہوئے ۔ اب تک تقریبا 1496 گاؤں صاف ہوئے اور
1.12ملین آبادی مستفید ہوئی۔اگرچہ یہ سارا عمل بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور کامیابیوں
کی شرح بھی بہت تیز ہے مگر اسے اور تیز ہونا چاہیے کیونکہ ابھی تک 24 اضلاع میں صرف
500 رضاکار کام کررہے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ہماری تقریباپانچ کروڑافراد کو سینیٹیشن
کی سہولت کی ضرورت ہے گویا کروڑوںافرادکے لیے صرف پانچ سو لوگ؟
پاکستان میں سینیٹیشن کے اقدامات کو اگر سرکاری سطح پر دیکھا
جائے تو صورت حال کافی امید افزا نظر آتی ہے۔2002 میں جوہانسبرگ میں ہونے والی کانفرنس
برائے پائیدار ترقی
(WSSD)میں طے کیے گئے اہداف جنہیں ملینیئم ڈیولپمنٹ
گول
(MDG) کہا جاتا ہے ان کے مطابق 2015 تک ہر ملک کو
اپنی آدھی سے زیادہ آبادی کے لیے صاف پانی اور سیوریج کی بہتر سہولت فراہم کرنا ضروری
ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی 18%آبادی یعنی 1.2بلین
لوگ لیٹرین کے استعمال کے بجائے کھلے علاقوں میں رفع حاجت کرتے ہیں۔
اس حوالے سے حکومت پاکستان
نے وفاقی اور صوبائی سطح پر سینیٹیشن کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے پالیسی سازی کے
بہت سے اقدامات کیے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
حکومت کی یہ تمام پالیسیاں اور اقدامات اپنی جگہ بہترین
ہیں لیکن یہ ہم اور آپ سب جانتے ہیں کہ ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا اگر ان منصوبوں
کے عمل درآمد میں مقامی آبادی شامل نہ ہو۔پاکستان نے اکیس ویں صدی میں جن مسائل کے
ساتھ قدم رکھا ہے ان میں سب سے اہم مسئلہ غربت اور ناخواندگی ہے۔پاکستان کی آدھی آبادی
خوراک کی کمی کا شکار ہے اورغربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ ماحولیاتی بگاڑ
اور غربت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ماحول اور مقامی آبادی کے مسائل کو نظر میں رکھے
بغیر کوئی ترقی پائیدار نہ ہوگی اور نہ ہی قدرتی وسائل کی خاطر خواہ حفاظت ہوسکے گی۔
مقامی افراد کی شراکت بہت جلد کسی بھی منصوبے کا دائرہ کار بڑھا دیتی ہے اور اگر ان
منصوبوں میں خواتین کا کردارمرکزیت کا حامل ہو تو پھر سمجھ لیں کہ یہ ترقی پائیدار
بھی ہوگی۔
CLTS کے رضاکار بھی یہی دہرا رہے تھے۔ہمیں ماننا
ہوگا کہ تبدیلی آرہی ہے اور ذہنوں کے بدلتے ہی سچائی کسی صبح صادق کی طرح چمک اٹھے
گی۔ہمیں ماننا ہوگا کہ ہمارے ماحول ،صحت و صفائی اورقدرتی وسائل کی بہترین منتظم اور
محافظ عورت ہی ہے ۔یہ وسائل ہماری آنے والی نسلوں کی امانت ہیں اوربھلا ایک” ماں“ سے
زیادہ کون جان سکتا ہے کہ آنے والی نسلوں کا خیال کس طرح رکھنا ہے۔سینیٹیشن کی صورت
حال بہتر بنانے کے عمل میں بھی ہمیں عورت کے کردار کو بڑھانا ہوگا۔ شعور اور آگہی بانٹنے
کے اس عمل میں ہر ماں ، ہر بیوی اور ہر بیٹی کو شامل کرنا ہوگا۔ہر طبقہ ءفکر کو آگے
آنا ہوگا۔ اگر مٹھی بھر رضاکار جنہیں Barefoot بھی کہا جاتا ہے ہزار سے زائد
گاؤں کا نقشہ بدل سکتے ہیں تو چند ہزار افراد ملک کا نقشہ بھی بدل سکتے ہیں۔ Barefoot کا
لفظی ترجمہ ” ننگے پاؤں“ ہے اور یہ بہت برمحل ہے کہ یہ پر عزم رضاکار مشکلات کی چلچلاتی
دھوپ میں بہت کم وسائل کے ساتھ ننگے پاؤں ہی تو چل رہے ہیں۔ یہ خوبصورت اصطلاح ہمیں
حبیب جالب کی یاد دلارہی ہے۔
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
اگر ہم نے ان رضاکاروں کا ساتھ نہ دیا اور یہ رضاکار تبدیلی
نہ لاسکے تو یقین جانیے کہ ہر بلاول مقروض اور ہر بے نظیر کے پاؤں ننگے ہی رہ جائیں
گے۔
حبیب جالب کا یہ خوبصورت شعر
ننگے پاؤں چلنے والے ہر رضاکار کے نام!
No comments:
Post a Comment