Friday, December 19, 2008

پانی کی چوری اور سرکاری خاموشی

سولہ کروڑ عوام کو جاگنا ہوگا

 قوم کو مبارک ہوکہ چناب کے پانی کے روکے جانے کا مسئلہ حل ہو گیا ! من موہن سنگھ جی نے امریکا میں یہ کہہ کر ہم سب کا من موہ لیا کہ سندھ طاس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے گا۔  یقینا عمل کیا جائے گا اور بھارت ایسا کر بھی رہا ہے ۔ کیا ہوا جو اس نے چناب کا پانی روکنے کے لیے غیر قانونی طور پر دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم تعمیر کرلیا ہے  جس کا ابھی حال ہی میں افتتاح کیا گیا ہے اور وہ بھی من موہن جی کے دست مبارک سے  یا وہ دریائے سندھ کا 40% پانی ایک خفیہ ٹنل کے ذریعے چوری کرکے دریائے برہم پترا میں ڈال رہا ہے اور اس سے بھی معاہدے کی روح پر بھلا کیا اثر پڑے گا کہ وہ دریائے سندھ کے اوپر کارگل کے مقام پر ایک بہت بڑا کارگل ڈیم بنا رہا ہے جو دنیا کا تیسرا بڑا ڈیم ہوگا، جس کی تعمیر کے بعد دریائے سندھ کی حیثیت ایک برساتی نالے سے زیادہ کی نہیں رہ جائے گی۔بھارت دریائے سندھ میں آکر گرنے والے ندی نالوں پربھی 14چھوٹے ڈیم بنا رہا ہے اسی طرح جہلم سے ایک اور بگلیہار سے دو نہریں نکال کر راوی میں ڈالی جارہی ہیں اور راوی کا پانی ستلج میں ڈال کر راجھستان لے جایا جارہا ہے۔ جہلم پر 12اور چناب پر مزید 20 چھوٹے ڈیم بنائے جانے کے منصوبوں پر کام جاری ہے اور یہ تمام آبی تجاوزات ان دریاؤں پر ہورہی ہیں جو سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آئے ہیں اور معاہدے کے مطابق ان دریاؤں کے پانی روکنے اور ان پر ڈیم بنانے کا بھارت کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ لیکن ظاہر ہے ان چھوٹی بڑی خلاف ورزیوں سے معاہدے کی روح پر بھلاکیا اثر پڑتا ہے جبھی تو ہماری حکومت بھی اتنی مطمئن نظر آرہی ہے۔بھارت کی تاریخ عہد شکنی سے عبارت ہے ، اس نے کبھی کسی معاہدے اور قانون کی پابندی نہیں کی۔ 

               چاہے وہ مسئلہ کشمیر ہو، سر کریک تنازعہ ہو یا آبی مسائل وہ ہر مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا خواہش مند ضرور نظر آتا ہے لیکن برسوں کے تجربے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کسی بھی مسئلے کے حل میں تعطل پیدا کر دینے کا یہ وہ بہترین ہتھکنڈا ہے جسے بھارت مہارت سے استعمال کرتا ہے۔

کوئی نہیں ہے جو بھارت کو سچ کا آئینہ دکھائے ؟دریائے چناب کے پانی میں سے 7سے 8 ہزار کیوسک پانی بھارت روزانہ چوری کر رہا ہے۔اب صورت حال یہ ہے کہ پنجاب کی اس وقت تمام نہریں بند ہوچکی ہیں ان میں ریت اڑ رہی ہے ۔ساہیوال ،اوکاڑہ ،ملتان ،ایسٹرن بار ،اور ویسٹرن بار کے 35 لاکھ ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہورہی ہیں۔ جون سے اب تک پنجاب اور سندھ کی سوا کروڑ اراضی پانی کی کمی سی دوچار ہے اور قوم کو چاہے کتنے ہی دھوکے میں رکھا جائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ گندم کی فصل کا ہدف اب پورا ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔یہ صورت حال جاری رہی تو خدانخواستہ بہت جلد یہاں ایتھوپیا اور صومالیہ جیسے حالات پیدا ہوجائیں گے اورشمالی کوریا اور روانڈا کی طرح ہماری انتہائی زرخیز زرعی زمینیں اجاڑ ویران اوربے آباد ہو جائیں گی۔اس سنگین صورت حال پر حیرانی یہ ہے کہ کوئی بات ہی نہیں کر رہا ہے ، پچھلی حکومت سے خیر کسی کو کوئی امید نہیں تھی لیکن اس حکومت کو کیا ہوا؟ ایک خاموشی ہے ہر بات کے جواب میں! کیا اس مسئلے کے کرتا دھرتا اس خاموشی کا کوئی تسلی بخش جواز پیش کر سکتے ہیں؟ شاید نہیں ۔۔۔زنجیر بہت مضبوط ہے۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد دونوں ملکوں کے مابین 18 دسمبر 1947 کو ایک معاہدہ کیا گیا جس کی رو سے دونوںممالک کے درمیان پانی کی تقسیم ملکوں کی تقسیم سے پہلے والی پوزیشن پر ہی رکھنی تھی لیکن 8 ماہ سے بھی کم مدت کے اندر بھارت نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے آب پاشی کے لیے مخصوص ہر اس نہر کو بند کر دیا جو فیروز پور اور گورداسپور سے نکل کر دونوں ملکوں کی سرحد عبور کر رہی تھی۔ بھارت کی اس کارروائی کے باعث پاکستانی کی کھڑی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا۔انڈیا کا مطالبہ تھا کہ بھارتی پنجاب سے گزرنے والے تمام دریاؤں پر پاکستان، بھارت کا حق تسلیم کرے اور ان دریاؤں کے پانی پر پاکستان پنجاب کے باشندوں کے حق اور حصے کا مطالبہ نہیں کرے۔ اس کے برعکس پاکستان کا مطالبہ تھا کہ پانی کے استعمال یا کھپت کی موجودہ صورت حال جوں کی توں رہنے دی جائے البتہ زائد پانی کو دونوں ممالک کے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے اس مطالبے کو متعدد معاہدوں اور ملکوں کی حمایت حاصل تھی۔لیکن اپریل 1948 میں بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کو دریاؤں کے پانی کی فراہمی روک کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ کسی معاہدے اور اخلاقیات کو نہیں مانتا ۔اس آبی بحران سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ایک وزارتی وفد کو نئی دہلی کا ہنگامی دورہ کرنا پڑا اور پانی کی بحالی کے لیے بات چیت کرنی پڑی۔ان مذاکرات میں بھارت نے اصرار کیا کہ مشرقی جانب سے آنے والے تمام دریاؤں پر پاکستان، بھارت کا ملکیتی حق تسلیم کرے ۔بھارت کا یہ مطالبہ سراسر غلط تھا کیونکہ 1921 کے بارسلونا کنونشن کے تحت ، جس کا رکن بھارت بھی تھا، کے مطابق کسی بھی ملک کو ایسے دریاؤں کا پانی روکنے یا ان کا رخ تبدیل کر دینے کا قطعی کوئی حق حاصل نہیں ہے جو کسی ملک کی سرحد عبور کر کے پڑوسی ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ مذکورہ کنونشن کے مطاق کسی ملک کو دریاؤں کے پانی کی اس حد تک اور اس طریقے سے استعمال کی اجازت بھی حاصل نہیں کہ اس کے پڑوسی ملک کی زمینیں سیراب نہ ہو سکیں یا وہ پانی کو درست طور سے استعمال نہ کر سکے۔لیکن ہر قاعدے اور قانون سے خود کو ماورا سمجھنے والے بھارت نے اس کنونشن کو بھی اپنی ٹھوکر پر رکھا اور دریاؤں کے بالائی بہاؤ پر واقع اپنی حیثیت اور طاقت کا غیر قانونی مظاہرہ کرتے ہوئے 4 مئی 1948 کو ہونے والے مذاکرات میں پاکستانی وفد کو ایک ایسے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا جس کے تحت اسے ریزرو بینک آف انڈیا میں، بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے مقرر کردہ رقم جمع کروانا ضروری تھا اور اس کے بعد ہی پاکستان کو پانی کی فراہم بحال کی جانی تھی۔ دونوں ممالک کے مابین سرحدوں کا تعین کرتے وقت برصغیر پاک وہند میں قائم نہری نظام پر توجہ نہیں دی گئی تھی البتہ باؤنڈری کمیشن نے یہ تنازع تسلیم کیا تھا۔ متاثرہ علاقوں کے نمائندوں نے ثالثی کمیشن کے سامنے اقرار کیا تھا کہ پانی کی سپلائی پر دونوں ممالک کا حق ہے۔ بہرحال پاکستان کو مجبورا مقررہ رقم بھارتی حکومت کو ادا کرنی پڑی۔مئی 1948 کے اس معاہدے پر دستخط کرنے اور رقم ادا کرنے کے بعد بھی بھارت نے آبی حارحیت برقرار رکھی اور بھارتی رویے سے مجبور ہوکر پاکستان نے بین الاقوامی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس دوران بھارت نے دریائے بیاس اور ستلج کے بالائی حصے میں، فیروز پور سے آگے ہریک کے مقام پر بیراج کی تعمیر شروع کر دی تھی اور بھاگرا کی ڈیم سائٹ پر بھی کام شروع کردیا اور پاکستان کی ہر کوشش اور ہر اعتراض کو اس نے مسترد کر دیا اور یوں حالات ایک خطرناک نہج پر آگئے۔ چونکہ اس مسئلے سے لاکھوں لوگوں کی قسمت وابستہ تھی اور پرامن مذاکرات کے ذریعے اس کا حل بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا لہٰذا امریکا کے ایک مشہور رسالے کولیئر (جو1957 میں بند ہوا) نے ٹینیسی ویلی اتھارٹی کے سابق چیئرمین اور امریکی اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈیوڈ ای کو حقائق معلوم کرنے کی غرض سے بھارت اور پاکستان کے دورے پر بھیجا۔ ان کا کام اس مسئلے پر ایک تفصیلی رپورٹ تیار کرنا تھا جس کی مدد سے یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا۔

وطن واپسی پر ڈیوڈ نے سلسلے وار آرٹیکلز کی صورت میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اس سلسلے کا پہلا آرٹیکل ”کولیئر“ کے 4 اگست 1951 کے شمارے میں شائع ہوا۔اس نے لکھا تھا۔ ”ابتدائی نکتہ، جس سے شروعات کی جائے یہ ہو کہ پاکستان کو پانی سے محرومی اور اسے صحرا بنا دیے جانے کے خدشات ختم کیے جائیں۔ پانی کے حالیہ استعمال کے حجم کی بھارت تصدیق کرے اور دونوں ممالک کو پابند کیا جائے کہ وہ اور بھارت صحیح معنوں میں دریا کے بین الاقوامی طاس میں مل کر کام کریں۔ علیحدہ علیحدہ کام کرنے کی صورت میں مذکورہ دونوں ممالک یہ مقصد حاصل نہیں کر سکیں گے کیوں کہ دریا (سندھ) دونوں ممالک کی سرحد کو خاطر میں نہیں لاتا اور کشمیر، بھارت اور پاکستان سے گزرنے والے اپنے قدرتی راستے پر گامزن رہتا ہے۔ اس پورے نظام کو بطور ایک اکائی ترقی دی جانی چاہیے اور امریکا کے سات ریاستوں کے TVA سسٹم کی طرح بطور ایک اکائی ہی اسے چلایا جانا بھی چاہیے۔

اس وقت کے عالمی بینک کے صدر یوجین آر لیک نے ڈیوڈ کے تحریر کردہ آرٹیکلز پڑھے اور ان سے رابطہ کر کے پوچھا کہ بھارت اور پاکستان کے لیے کیا ان کی تجاویز قابل قبول ہو سکتی ہیں۔ ڈیوڈ سے مشاورت کے بعدصدر عالمی بینک نے دونوں ممالک کے وزرا کے نام خطوط لکھے اور دریائے سندھ کے پانی کے تنازع کے حل کے لیے مذاکرات کی غرض سے اپنے دفتر کی خدمات پیش کر دیں۔ اور یہ مذاکرات مئی 1952 میں عالمی بینک کی نگرانی میں شروع ہوئے۔ یہ مذاکرات وقفے وقفے کے ساتھ طویل نو برسوں تک جاری رہے لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتیں اڑی رہیں کہ ہم اپنے تین دریا کسی قیمت پر بھارت کے حوالے نہیں کریں گے۔1957 میں پاکستان نے مسئلہ سلامتی کونسل میں لے جانے کا فیصلے کیا ،اسے یقین تھا کہ اسے انصاف مل جائے گا لیکن اس کے فورا بعد ایوب خان تشریف لے آئے اور آتے ہی مذاکرات میں مصروف پاکستانی وفد کو حکم دیا کہ وہ بینک کی تجاویز غیر مشروط طور پر مان لیں۔اختلاف رکھنے والے وفد کو مذاکرات سے نکال دیا اور تین دریا یعنی 30 ملین ایکڑ فٹ قدرت کا عظیم تحفہ بالآخربھارت کے حوالے کر دیا گیا۔بھارتی صحافی کلدیپ نائر کی گواہی موجود ہے ”1951میں جب پاکستان سلامتی کونسل میں جا رہا تھا تو امریکی رضامندی سے معاملہ ورلڈ بینک کو منتقل کر دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت تین مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم اور چناب) کے پانی پر پاکستان کو حقدار ٹھہرایا اور دیگر تین مشرقی دریا (راوی ، ستلج اور بیاس) بھارت کے حوالے کر دیے۔یہ معاہدہ جسے انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس معاہدہ) کا نام دیا گیا اس پر 19 ستمبر 1960 کو بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو، اس وقت کے پاکستانی حکومت کے سربراہ صدر ایوب خان اور اس وقت کے صدر عالمی بینک نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کا مقصد 365,000 مربع میل کے علاقے کو سندھ طاس میں واقع دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کرنا اور دونوں ممالک کو اپنی اپنی سرحدوں کے اندر پانی کو قدرتی وسیلے کو محفوظ کرنا اور اس کا انتظام کرنا تھا۔ یہ معاہدہ یکم اپریل 1960 سے موثر ہوا۔ اس معاہدے کے شق میں یہ واضح ہے کہ مشرقی دریاؤں کے تمام تر پانی پربھارت اور مغربی دریاؤں کے پانی پر مکمل طور پر پاکستان کا حق ہوگا۔پاکستان میں داخل ہونے والے تمام دریاؤں کے پانی پر اور ان ذیلی دریاؤں کے پانی پر، جو اپنی قدرتی گزرگاہ سے ہوتے ہوئے مرکزی ستلج اور مرکزی راوی میں ضم ہو جاتے ہیں، پاکستان میں داخل ہونے کے بعد پاکستان کا حق ہو گا اور بھارت کسی بھی طرح ان کا بہاؤں روکنے کا مجاز نہیں ہے۔



لیکن ساٹھ سالہ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے کبھی کسی معاہدے کی پابندی نہیں کی اور اب حالیہ آبی حارحیت دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ اس کے لیے سندھ طاس معاہدہ کاغذ کے کسی بےکار پرزے سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور یہ سمجھنا بھی انتہائی خوش گمانی بلکہ بے وقوفی ہوگا کہ وہ ہماری بات چیت سے قائل ہوکر اپنے کروڑوں ڈالر کے منصوبوں سے دست بردار ہوجائے گا۔بھارت نے ان تین دریاؤں کے پانی کو استعمال کر کے انپے صحرا راجھستان کو گلزار بنا دیا ہے لیکن ہم ایسا نہ کرسکے جب بھی کسی ڈیم کی تعمیر کی بات ہوتی ہے تو سیاسی اور جاگیردارانے نظام کے محافظ وہ ہنگامہ مچادیتے ہیں کہ پورے ملک میں افراتفری پھیل جاتی ہے۔ ہماری اس نالائقی کو دیکھتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم واجپائی نے 2001 میں اپنے ایک انٹرویو میں اس خواہش کا اظار کیا تھا کہ  بھارت پیاس سے مر رہا ہے اور پانی کا ایک ایک قطرہ اس کی ضرورت ہے جبکہ ہمارا پڑوسی ملک پاکستان 35 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع کر رہا ہے تاکہ مچھلیاں بچائی جاسکیں۔ 2003 میں اسلام آباد میں ایک کانفرنس ہوئی تھی جس کا موضوع  واٹر اینڈ سیکیورٹی ان ساؤتھ ایشیا  تھا لیکن اگر آپ ریکارڈ اٹھاکر دیکھیں تو موضوع صرف اور صرف دریائے سندھ ،جہلم اورچناب تک محدود رہا۔ کانفرنس میں بھارتی وفد نے ہماری اسی نالائقی کو زیر بحث لاتے ہوئے ایک تجویز پیش کی تھی کہ پاکستان اب تک اپنے حصے کا پانی استعمال کرنے میں ناکام رہا ہے لہذا اس پانی کو مشترکہ طور پر استعمال کرنے کی غرض سے سندھ طاس معاہدہ نمبر 2 کیا جائے۔پاکستان کی جانب اس تجویز کی جتنی سخت مخالفت ہونی چاہیے تھی وہ بھی نہ ہوئی اور مشرف حکومت نے اگرچہ یہ معاہدہ نہ کیا البتہ جس طرح بھارت کے جارحانہ اقدام کے جواب میں خاموشی اختیار کی یہ خود قومی سطح کا جرم ہے۔ایک آمر نے معاہدے کے تحت تین دریا بیچ ڈالے تو یقینا دوسرے آمر کا اتنا تو حق بنتا تھا کہ وہ بغیر معاہدے کے تین دریا بخش دے۔

پچھلی حکومت بگلیہار ڈیم کی تعمیر کو چیلینج کرنے کے بجائے اس کی تعمیر پر اعتراض کرکے ایک فاش غلطی کرچکی ہے بلکہ اسے غلطی نہیں غداری کہنا زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ اس طرح اس نے بگلیہار ڈیم کی تعمیر کو تسلیم کرلیا تھا اور یہ غلط ہے کیونکہ دریائے چناب پر کسی ڈیم کی تعمیر کا بھارت کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔بلا شبہہ پاکستان اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔شمالی علاقوںمیں رچایا جانے والا آگ اور خون کا کھیل ہمارے چاروں صوبوں کے گلی محلوں اور سڑکوںتک آپہنچا ہے۔ جمہوریت کے ایک سال بعد بڑے دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ قیمتی انسانی جانوں اور املاک کے ساتھ ساتھ قوم کے وہ خواب بھی جل کر راکھ ہوگئے جو سولہ کروڑ آنکھوں نے جمہوریت کی آمد پر امن ،انصاف ،استحکام اورتعمیر نو کے لیے بنے تھے۔ 2001 ءمیں نائن الیون کے بعد جو غلطیوں کے بیج ہم نے بوئے تھے وہ ان سات سالوں میں بارآور ہوئے اور ایسے ہوئے کہ آج یہ فصل خود کش حملوںکی صورت وطن کا بچہ بچہ کاٹ رہا ہے۔ ایسی صورت میں ہم یقینا کسی نئی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے لیکن کیا ہم اپنے حق کے لیے آواز بھی بلند نہیں کر سکتے ؟ دوستی ،مفاہمت اور مصالحت کی پالیسی یقینا بہتر ہے لیکن کس قیمت پر ؟کیا ملک و قوم کی قیمت پر ؟ اپنے مستقبل کی قیمت پر؟ اور کیا یک طرفہ ایسی کسی پالیسی سے ہمارا بھلا ہوسکتا ہے جسے دوسرا فریق اپنی ٹھوکر پر رکھے اور اسے ہماری کمزوری سمجھے۔نہیں، اپنی بقا کے لیے ہمیں اس حوالے سے ایک واضح پالیسی بنانی ہوگی ، اس مسئلے کو ہر بین الاقوامی فورم پر اٹھانا ہوگا، عالمی عدالت انصاف میں بھارت کی اس کھلی آبی حارحیت کو چیلینج کرنا ہوگا۔ عالمی بینک سندھ طاس معاہدے کا ضامن ہے اس کے آگے اس مسئلے کو اٹھانا ہوگا اور اسے اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور کرنا ہوگا ۔اس کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں موجود بھارتی مفادات کے لیے سرگرم ملک دشمن عناصر کو بے نقاب کرنا بھی بہت ضروری ہے ۔سندھ طاس واٹر کونسل کے چیئر مین ظہور الحسن ڈائر کے ایک اخباری انٹرویو کے مطابق پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بھارت کے مفادات کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ محکمہ آب پاشی کے دو اعلی افسران ایسے بھی ہیں جو دن رات اس کوشش میں مصروف ہیں کہ چناب کا معاملہ قومی سطح پر نہ اٹھایا جائے اور وہ اس مقصد کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔حکومت چاہے تو ظہور صاحب کی ان معلومات سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

اور وہ تمام لوگ جنہیں کالا باغ ڈیم پر تحفظات ہیں کیا بھارت کی آبی جارحیت ان کے لیے قابل قبول ہے؟ کالا باغ ڈیم کو نہ قبول کرنے والوں کے لیے کیا کارگل ڈیم قابل قبول ہے؟ خصوصا ہمارے سندھی بھائی ، کیا اس سے سندھ کو نقصان نہیں ہوگا ؟ ہزاروں ایکڑ پر مشتمل انڈس ڈیلٹا جو ویسے ہی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے کیا اس سے وہ یہ جنگ ہار نہیں جائے گا؟ ہزاروں ماہی گیر بے سروساماں بھٹکنے پر مجبور نہیں ہوں گے؟ ساحلی حیات برباد ہوجائے گی اور پاکستان سمندری حیات سے جو کثیر زرمبادلہ حاصل کرتا ہے اس سے محروم ہوجائے گا۔لاکھوں ماہی گیر برباد ہوجائیں گے۔ کیا یہ ماہی گیر تنظیموں کا مسئلہ نہیں ہے ؟ کیا یہ انسان کے بنیادی حقوق کی پامالی نہیں ہے اور اگر ہے تو اس کے لیے آواز بلند کرنے والی ملکی اور غیر ملکی تنظیمیں کہاں ہیں؟ میڈیا کیوں خاموش ہے ؟ ہمارے مقبول ترین ٹاک شوز کے میزبانوں کے لیے اس موضوع میں کوئی کشش نہیں ہے؟ ماحول اور قدرتی وسائل کے تحفظ کی تنظیمیں اور جنگلی حیات کے محافظ کہاں خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں؟ جاگیے۔۔۔ خدا کے لیے جاگ جائیے !

یاد رکھیے کہ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے صرف8 سال ہیں ۔بھارت 2016   میں اپنا  انٹرلنک ریور پروگرام  مکمل کرلے گا جو اس نے گذشتہ حکومت کی خاموش حمایت سے شروع کیا تھا ۔اس منصوبے کے تحت بھارت اپنے 21 دریاؤں کو باہم رابطہ نہروں سے مکمل کرے گا ۔ 33ڈیم بنائے گا اور10ہزار کلو میٹر طویل نہریں کھودے گا اور 33ڈیم بنائے گا۔ اس منصوبے سے اس کی 360ملین ایکڑ زمین آباد ہوگی اور30 ہزار میگا واٹ بجلی دستیاب ہوگی۔  وہ تو سر سبز و گل گلزار ہوجائے گا لیکن ہمارے ملک میں ریت اڑنے لگے گی ۔اس منصوبے کو بنگلہ دیش نے بھی اپنے لیے ڈیتھ ٹریپ فار بنگہ دیش قرار دیا ہے کیونکہ دریائے گنگا اور برہم پترا کے پانی سے بھی بھارت اسی طرح استفادہ کرے گا۔ ہم بنگہ دیش سے مل کر کوئی راہ نکال سکتے ہیں اور بین الاقوامی فورموں پر احتجاج کرسکتے ہیں۔

 اکیس ویں صدی کے اس گلوبل ولیج میں جنگ کے علاوہ بھی بہت سے راستے ہمارے لیے کھلے ہیں۔اور اگر ہم نے اپنی آنکھیں نہ کھولیں تو پھر ہم اپنی آنی والی نسلوں کے لیے قحط اور افلاس کے سوا کچھ نہیں چھوڑیں گے۔پاکستان کی نصف آبادی انتہائی غذائی قلت سے دوچار ہے اورآٹے کا بحران ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے ۔آج یہ مسئلہ جنگ کیے بغیر حل ہو سکتا ہے ، بہت سے دوسرے راستے ہمارے لیے کھلے ہیں لیکن اگر ہم نے دیر کردی تو پھر ہر راستہ بند ہوتا چلا جائے گا سوائے   ۔ ۔ ۔ ۔

Monday, December 15, 2008

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

سینیٹیشن کا بین الاقوامی سال اور ہمارے حالات

نچلی سطح سے پھوٹتی انقلاب کی کرنیں، رضاکار اس تحریک کا ہراول دستہ ہیں

اب ہماری زندگی بدل گئی ہے۔“ اس جملے نے مجھے چونکا دیا ، میں نے غور سے اسے دیکھا۔اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں اور چہرہ شدت جذبات سے تمتمارہا تھا۔عمر کوٹ کے علاقے ساماروکے ایک چھوٹے سے گاؤں ”ہیمارام“ سے آنے والی راج بائی دیہاتی زندگی کی جھجک اور زبان کی مجبوری کے باوجود ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں بولتی رہی۔ جذبات اس کی آنکھوں اور چہرے سے عیاں تھے۔کیا واقعی؟ میرے اس مشکوک رد عمل پر غور کیے بغیر اس نے اپنی بات جاری رکھی کہ ’کس طرح اس کے گاؤں میں کچھ عرصہ پہلے تک گندگی بکھری ہوئی تھی ۔ جانوروں کی غلاظت کے ساتھ ساتھ انسانی فضلہ بھی چاروں جانب بکھرا رہتا۔  اس فضلے پر بیٹھنے والی مچھر مکھیاں کھانے پینے کی چیزوں پر بیٹھ جاتیں اور یوں انتہائی خطرناک جراثیم گاؤں والوں کے پیٹ میں پہنچ جاتے۔راج بائی کے بچے اکثر بیمار رہتے۔ اس کا گھر والا اگرچہ کام کرتا تھالیکن سارے پیسے بیماریوں پر لگ جاتے‘ ۔

اور اب کیا ہوتا ہے؟’اب ایسا نہیں ہوتا ہے۔‘ راج بائی نے فخریہ بتایا’ اب ہم لوگوں نے اپنے گھروں میں لیٹرین بنا لیے ہیں۔ میں نے اپنے گھر کا لیٹرین خود تعمیر کیا کیونکہ میرا گھر والا تو کام پر جاتا تھا ، اس کے پاس ٹیم نہیں تھا ۔میں نے گاؤں کی سب عورتوں کو سمجھایا ، ساری گاؤں کی عورتوں نے اپنی مدد آپ کے تحت گھروں کے لیٹرین خود تعمیر کیے ۔ یہ دیکھیں ہمارے ہاتھوں کے زخم !‘ راج بائی نے اپنے بازو میرے سامنے کردیے۔’پہلے ہم کھلے میں رفع حاجت کے لیے جاتے تھے مگر اب گھروں میں لیٹرین کی تعمیر سے صحت و صفائی میں بھی بہتری ہوئی ہے اور پردے کی طرف سے بھی بے فکری ہوگئی۔اب ہماری زندگی بدل گئی ہے۔ اب ہمارے گاؤں کے 500 لوگ بہت اچھی زندگی گذار رہے ہیں ۔



اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 2008 کو”سال برائے سینیٹیشن International Year of Sanitation“ کے طور پر منایا گیا۔  پاکستان میں بھی اس حوالے سے مختلف سرگرمیاں جاری ہیں۔ اور دیگر شعبوں کی طرح یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم اس شعبے میں بھی بہت پیچھے ہیں۔پانچ کروڑ افراد کو سینیٹیشن کی سہولت میسر نہیں ہے یعنی ان کے گھروں میں لیٹرین موجود نہیں ہیں۔ یہ افراد ابھی تک رفع حاجت کے لیے گاؤں کے کھلے علاقوں مثلا جنگلوں یا کھیتوں وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ مقام افسوس ہے کہ خواتین اور بچے بھی اسی چلن کے عادی ہیں۔ بچے تو دور جانے کا بھی اہتمام نہیں کرتے بلکہ گھروں کے سامنے اور گلیوں میں ہی رفع حاجت کرتے ہیں ۔کھلی جگہوں پر رفع حاجت کا سبب لوگوں کی کم علمی اور صحت و صفائی کی بنیادی باتوں سے عدم آگاہی کے ساتھ ساتھ ان کی غربت اور روایتوں پر سختی سے عمل درآمد ہے۔پاکستان میں سات کروڑ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں صحت اور صفائی کے حوالے سے بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔دنیا بھر میں پانچ ہزار اورپاکستان میں ہر روز پانچ سال سے کم عمرگیارہ سو بچے سینیٹیشن کے ناقص انتظامات ، حفظان صحت کی خرابیوں ، دستوں اور آلودہ پانی سے ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔پاکستان کو دستوں کی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے ہر سال 55 ارب سے لے کر 84ارب تک سرمایہ خرچ کرنا پڑتا ہے جو اس غریب ملک کی معیشت پر اضافی بوجھ ہے۔آلودہ ماحول اور آلودہ پانی بچوں میں پیٹ اور جگر کی بیماریوں کا بڑا سبب ہے۔ انسانی فضلے کے مضر اثرات سے انسانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے اسے محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے۔

اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 2008 کو”سال برائے سینیٹیشن International Year of Sanitation“ کے طور پر منایا گیا ہے۔اسی سال سینیٹیشن کے موضوع پر جنوبی ایشیاکی تیسری سب سے بڑی کانفرنسSouth Asian Conference on Sanitation(SACOSAN) نئی دہلی انڈیا میں منعقد ہوئی۔اس کانفرنس میں تمام سارک ممالک بشمول افغانستان موجود تھے۔ یہ کانفرنس ہر دو سال بعد منعقد ہوتی ہے۔2006 میں یہ اسلام آباد میں منعقد ہوئی تھی۔ نئی دہلی میں ہونے والی اس کانفرنس کا افتتاح انڈیا کے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کیا تھا اور پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ماحول حمید اللہ جان آفریدی بھی موجود تھے جنہوں نے سینیٹیش کے حوالے سے حکومت کے اقدامات اور اس کا نقطہ ءنظر پیش کیا۔

اگرچہ پچھلی کانفرنس سے لے کر اب تک ان دوسالوں میں بہت کام ہوا ہے اور ہر ملک نے اپنی بساط بھر کوشش کی ہے پھر بھی ان دوسالوں میں جنوبی ایشیا میں دس لاکھ بچے صحت و صفائی کی ناقص صورت حال کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہم سے مزید سنجیدگی اور اخلاص کا تقاضا کرتے ہیں۔

حکومت پاکستان نے پالیسی سازی کے حوالے سے بہت سے اقدامات کیے ہیں جن کا تذکرہ ہم آگے کریں گے ویسے بھی کسی پالیسی سے ہمیں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی ہے ۔ پالیسی بنانا اور اس پر عمل درآمد حکومت کا کام ہے سو حکومت جانے اور اس کا کام جانے، لیکن ”رویے بدلنا“ چونکادینے والا کام ہے اور اس سے ہمیں سو فیصد دلچسپی ہے ۔ کسی بھی فرد کا رویہ کیسے بدلا جائے گا؟ کیونکہ رویے بدلنا آسان نہیں ہوتا ہے ۔رویے صدیوں سے جاری رسوم وروایات ، مذہب، معاشی حالات ، جغرافیائی صورت حال اور ارد گرد کے ماحول کے زیر اہتمام تشکیل پاتے ہیں۔یہ ایک دو دن کا نہیں بلکہ صدیوں کا ارتقائی عمل ہوتا ہے۔ رویے کسی بھی مخصوص ورثے اور ثقافت سے جڑے ہوتے ہیں انہیں تبدیل کرنے کا مطلب تو اکثر ایک کھلا فساد ہوتا ہے۔ لیکن کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہوتا ہے سو یہ کام بھی ممکن ہے اور اس کا ثبوت وہ بہت سے پر عزم چہرے تھے جو اپنی کہانیاں سنارہے تھے۔ورلڈ بینک کے واٹر اینڈ سینیٹیشن پروگرام کے زیر اہتمام اسلام آباد میںمنعقد ورکشاپ کے شرکا تفصیلات بتا رہے تھے۔یہ تمام لوگ کسی پیسے کے لالچ کے بغیر ،کسی معاوضے کے بنا اپنے گاؤں کے لوگوں کی تقدیر بدلنے کا عزم کیے ہوئے تھے اور اس میں کامیاب بھی تھے۔یہ چھوٹے چھوٹے گاؤں کے ٹیچر تھے، دکان دار تھے،ناظم تھے یا کچھ بھی نہ تھے بس پر عزم جذبوں اور اخلاص سے پرایک دل کے مالک تھے۔انہیں مختلف تنظیموں کے ذریعے جب لیٹرین کی تعمیر اور افادیت اور انسانی فضلے کے مضر اثرات کا پتا چلا تو نہ صرف انہوں نے خود اس پر عمل کیا بلکہ پورے گاؤں والوں کی سوچ بدل کر رکھ دی ۔(یاد رہے کہ تقریبا پاکستان پانچ کروڑ افرادکو لیٹرین کی باقاعدہ سہولت میسر نہیں ہے) ابتدا میں اگرچہ انہیں بہت سخت مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر یہ نا ممکن ممکن ہو کر رہا۔گاؤں کے ان سادہ لوگوں کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لیکن دلوں کو چھو جانے والی کہانیاں سنتے ہوئے ایک اور خوشگوار احساس ہوا کہ دھیرے دھیرے ہی سہی لیکن بہت نچلی سطح سے ایک انقلاب کی کونپل پھوٹ رہی ہے اور دوسری خوشی کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر کامیاب تجربات کے پیچھے عورت ہی کھڑی نظر آرہی ہے۔پردے سے خود کو ڈھانپے ، کسی حساب کتاب اور بہی کھاتوں میں نظر نہ آنے کے باوجود یہ عورت اتنی طاقت ور ہے کہ سب کچھ بدل کر رکھ دیتی ہے۔زلزلے سے متاثرہ ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹ سریاں کی پرعزم شمیم نے بھی یہی بات دہرائی”زندگی کا مزہ ہمیں اب آرہا ہے“ یہ اب ساری گاؤں کی عورتیں کہتی ہیں۔ پہلی بار جب میں انہیں گھر میں لیٹرین بنانے کے حوالے سے قائل کر رہی تھی تو سب عورتیں میرے خلاف تھیں اور کوئی بات سننے کے لیے تیار نہ تھیں۔ پھر ہم نے اپنے اسکول کی بچیوں کو قائل کیا ۔ اسکول میں انہیں لیٹرین کی سہولت موجود تھی لہذا وہ اس کی افادیت جانتی تھیں ۔ ہم نے انہیں یاد دلایا کہ ” صفائی نصف ایمان ہے“ اور شرم و حیا عورت کا زیور ہے۔ باقی کام ان بچیوں کا ہے۔ ان بچیوں نے گھر والوں کو قائل کیا اور چراغ سے چراغ جلتا رہا۔ وہی عورت کی طاقت!

یہی بات ایبٹ آباد کے درئی ایمان دہرا رہے تھے۔  وہ ریٹائرڈ میجر ہیں انہوں نے رضاکارانہ طور پر یہ کام شروع کیا مگر لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا ، ایک موقع ایسا بھی آیا کہ وہ دل برداشتہ ہوگئے مگر ایسے میں ان کی بیٹی نے ان کی ہمت بڑھائی، وہ ہیلتھ ورکر تھی اس نے اپنی ساتھی کارکنوں کی مدد سے کام شروع کیا اورپہلے خواتین قائل ہوئیں پھر انہوں نے خود اپنے مردوں کو قائل کیا۔ لوگوں کے رویوں میں تبدیلی دراصل ان کی سوچ میں تبدیلی ہے‘۔ ہری پور کے شبیر احمد کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگوں کو قائل کرنے میں ان پر تھوڑا بہت نفسیاتی اثر بھی ڈالتے ہیں۔ اس کے لیے ایک طریقہ (Shock and Shame) اختیار کرتے ہیں، ہم ان کے گاؤں میں چہل قدمی کرتے ہیں اور جہاں غلاظت پڑی نظر آتی ہے انہیں اس پر شرمندہ کرتے ہیں۔ مہمانوں کے سامنے اس گندگی پر وہ بڑے شرم سار ہوتے ہیں۔پھر ہم ایک قدم اور آگے بڑھ کر انہیں بتاتے ہیں کہ یہ گندگی واپس تمھارے کھانے پینے میں شامل ہورہی ہے۔مکھیاں اور مچھر ان پر بیٹھ کر پھر کھانے پینے کی اشیا کو بھی آلودہ کر دیتے ہیں۔اسی سے تمہارے بچے بیمار ہیں۔ ہم انہیں اندازا تخمینہ لگا کر بتاتے ہیں کہ وہ بچوں کی بیماری پر کتنا خرچ کر رہے ہیں جبکہ اس سے کہیں کم پیسوں سے اور بعض جگہوں پر تومفت میں لیٹرین بنایا جا سکتا ہے۔ پہلے کچھ لوگ قائل ہوتے ہیں پھر دھیرے دھیرے پورا گاؤں قائل ہوجاتا ہے۔ایسے گاؤں جو کھلے میں رفع حاجت سے پاک ہوجاتا ہے اسے او ڈی ایف گاؤں کہتے ہیں یعنی

Open Defecation Free ۔اور وہ لوگ جو بلا معاوضہ رضاکارانہ طور پر یہ کام کرتے ہیں انہیں نیچرل لیڈر یا رضاکار (Barefoot ) کہا جاتا ہے۔اور یہ سارا عمل سی ایل ٹی ایس Community Led Total Sanitation کہلاتا ہے۔ سندھ میں اب تک مختلف تنظیموں کے زیر اہتمام 203 رضاکاروں کو تربیت دی گئی اور 720 گاؤں کے لوگوں نے کسی مدد کے بغیر اپنے گھروں میں لیٹرین تعمیر کیے اور یوں 504,000 افراد صفائی کے اس عمل میں شامل ہوگئے ۔ پنجاب میں 98 رضاکاروں نے تربیت حاصل کی اور 70 گاؤں کے 28,000 لوگ مستفید ہوئے۔ بلوچستان میں 39 رضاکاروں نے تربیت پائی اور 19گاؤں کے 10,640لوگوں نے فیض حاصل کیا۔ سرحد میں 124رضاکاروں نے تربیت حاصل کی اور 412 گاؤں کے 40,1700 افراد مستفید ہوئے ۔ اب تک تقریبا 1496 گاؤں صاف ہوئے اور 1.12ملین آبادی مستفید ہوئی۔اگرچہ یہ سارا عمل بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور کامیابیوں کی شرح بھی بہت تیز ہے مگر اسے اور تیز ہونا چاہیے کیونکہ ابھی تک 24 اضلاع میں صرف 500 رضاکار کام کررہے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ہماری تقریباپانچ کروڑافراد کو سینیٹیشن کی سہولت کی ضرورت ہے گویا کروڑوںافرادکے لیے صرف پانچ سو لوگ؟

پاکستان میں سینیٹیشن کے اقدامات کو اگر سرکاری سطح پر دیکھا جائے تو صورت حال کافی امید افزا نظر آتی ہے۔2002 میں جوہانسبرگ میں ہونے والی کانفرنس برائے پائیدار ترقی (WSSD)میں طے کیے گئے اہداف جنہیں ملینیئم ڈیولپمنٹ گول (MDG) کہا جاتا ہے ان کے مطابق 2015 تک ہر ملک کو اپنی آدھی سے زیادہ آبادی کے لیے صاف پانی اور سیوریج کی بہتر سہولت فراہم کرنا ضروری ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی 18%آبادی یعنی 1.2بلین لوگ لیٹرین کے استعمال کے بجائے کھلے علاقوں میں رفع حاجت کرتے ہیں۔

 اس حوالے سے حکومت پاکستان نے وفاقی اور صوبائی سطح پر سینیٹیشن کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے پالیسی سازی کے بہت سے اقدامات کیے ہیں جو درج ذیل ہیں۔

پہلی نیشنل سینیٹیشن پالیسی اکتوبر2006 میں منظور کی گئی۔سندھ کی سینیٹیشن اور سولڈ ویسٹ پالیسی نومبر2007 میں منظور ہوئی، اس پر مزید کام جاری ہے۔پنجاب حکومت کا اربن واٹر سپلائی پروگرام اور سینیٹیشن پالیسی ”صاف ستھرا پنجاب“ تیار ہے اور نئی حکومت کے جائزے کی منتظر ہے۔بلوچستان حکومت نے سینیٹیشن اسٹریٹیجی اپریل 2008 میں منظور کی اور اب اس کا پی سی ون بھی تیار ہوچکا ہے۔ سرحد میں پالیسی کا آخری ڈرافٹ تجزیے کے مراحل سے گذر رہا ہے ۔آزاد کشمیر اور فاٹا میں بھی کام جاری ہے۔سینیٹیشن کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے چاروں صوبوں میں CLTS کے تحت کام جاری ہے ۔یہ تمام گروپ وزارت ماحولیات کے زیر نگراںکام کررہے ہیں۔2008 کے سال کو سینیٹیشن کے سال کے طور پر منانا بھی ان ہی اقدامات کا حصہ ہے اور15اکتوبر کو عالمی سطح پر منایا جانے والا ”ہاتھ دھونے کا دن“ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

حکومت کی یہ تمام پالیسیاں اور اقدامات اپنی جگہ بہترین ہیں لیکن یہ ہم اور آپ سب جانتے ہیں کہ ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا اگر ان منصوبوں کے عمل درآمد میں مقامی آبادی شامل نہ ہو۔پاکستان نے اکیس ویں صدی میں جن مسائل کے ساتھ قدم رکھا ہے ان میں سب سے اہم مسئلہ غربت اور ناخواندگی ہے۔پاکستان کی آدھی آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے اورغربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ ماحولیاتی بگاڑ اور غربت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ماحول اور مقامی آبادی کے مسائل کو نظر میں رکھے بغیر کوئی ترقی پائیدار نہ ہوگی اور نہ ہی قدرتی وسائل کی خاطر خواہ حفاظت ہوسکے گی۔ مقامی افراد کی شراکت بہت جلد کسی بھی منصوبے کا دائرہ کار بڑھا دیتی ہے اور اگر ان منصوبوں میں خواتین کا کردارمرکزیت کا حامل ہو تو پھر سمجھ لیں کہ یہ ترقی پائیدار بھی ہوگی۔ CLTS کے رضاکار بھی یہی دہرا رہے تھے۔ہمیں ماننا ہوگا کہ تبدیلی آرہی ہے اور ذہنوں کے بدلتے ہی سچائی کسی صبح صادق کی طرح چمک اٹھے گی۔ہمیں ماننا ہوگا کہ ہمارے ماحول ،صحت و صفائی اورقدرتی وسائل کی بہترین منتظم اور محافظ عورت ہی ہے ۔یہ وسائل ہماری آنے والی نسلوں کی امانت ہیں اوربھلا ایک” ماں“ سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ آنے والی نسلوں کا خیال کس طرح رکھنا ہے۔سینیٹیشن کی صورت حال بہتر بنانے کے عمل میں بھی ہمیں عورت کے کردار کو بڑھانا ہوگا۔ شعور اور آگہی بانٹنے کے اس عمل میں ہر ماں ، ہر بیوی اور ہر بیٹی کو شامل کرنا ہوگا۔ہر طبقہ ءفکر کو آگے آنا ہوگا۔ اگر مٹھی بھر رضاکار جنہیں Barefoot بھی کہا جاتا ہے ہزار سے زائد گاؤں کا نقشہ بدل سکتے ہیں تو چند ہزار افراد ملک کا نقشہ بھی بدل سکتے ہیں۔ Barefoot کا لفظی ترجمہ ” ننگے پاؤں“ ہے اور یہ بہت برمحل ہے کہ یہ پر عزم رضاکار مشکلات کی چلچلاتی دھوپ میں بہت کم وسائل کے ساتھ ننگے پاؤں ہی تو چل رہے ہیں۔ یہ خوبصورت اصطلاح ہمیں حبیب جالب کی یاد دلارہی ہے۔

ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

اگر ہم نے ان رضاکاروں کا ساتھ نہ دیا اور یہ رضاکار تبدیلی نہ لاسکے تو یقین جانیے کہ ہر بلاول مقروض اور ہر بے نظیر کے پاؤں ننگے ہی رہ جائیں گے۔

 حبیب جالب کا یہ خوبصورت شعر ننگے پاؤں چلنے والے ہر رضاکار کے نام