سولہ کروڑ عوام کو جاگنا ہوگا
قوم کو مبارک ہوکہ چناب کے
پانی کے روکے جانے کا مسئلہ حل ہو گیا ! من موہن سنگھ جی نے امریکا میں یہ کہہ کر ہم
سب کا من موہ لیا کہ سندھ طاس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ یقینا عمل کیا جائے گا اور بھارت ایسا کر بھی رہا
ہے ۔ کیا ہوا جو اس نے چناب کا پانی روکنے کے لیے غیر قانونی طور پر دریائے چناب پر
بگلیہار ڈیم تعمیر کرلیا ہے جس کا ابھی حال
ہی میں افتتاح کیا گیا ہے اور وہ بھی من موہن جی کے دست مبارک سے یا وہ دریائے سندھ کا 40% پانی ایک خفیہ ٹنل کے ذریعے
چوری کرکے دریائے برہم پترا میں ڈال رہا ہے اور اس سے بھی معاہدے کی روح پر بھلا کیا
اثر پڑے گا کہ وہ دریائے سندھ کے اوپر کارگل کے مقام پر ایک بہت بڑا کارگل ڈیم بنا
رہا ہے جو دنیا کا تیسرا بڑا ڈیم ہوگا، جس کی تعمیر کے بعد دریائے سندھ کی حیثیت ایک
برساتی نالے سے زیادہ کی نہیں رہ جائے گی۔بھارت دریائے سندھ میں آکر گرنے والے ندی
نالوں پربھی 14چھوٹے ڈیم بنا رہا ہے اسی طرح جہلم سے ایک اور بگلیہار سے دو نہریں نکال
کر راوی میں ڈالی جارہی ہیں اور راوی کا پانی ستلج میں ڈال کر راجھستان لے جایا جارہا
ہے۔ جہلم پر 12اور چناب پر مزید 20 چھوٹے ڈیم بنائے جانے کے منصوبوں پر کام جاری ہے
اور یہ تمام آبی تجاوزات ان دریاؤں پر ہورہی ہیں جو سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان
کے حصے میں آئے ہیں اور معاہدے کے مطابق ان دریاؤں کے پانی روکنے اور ان پر ڈیم بنانے
کا بھارت کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ لیکن ظاہر ہے ان چھوٹی بڑی خلاف ورزیوں سے معاہدے
کی روح پر بھلاکیا اثر پڑتا ہے جبھی تو ہماری حکومت بھی اتنی مطمئن نظر آرہی ہے۔بھارت
کی تاریخ عہد شکنی سے عبارت ہے ، اس نے کبھی کسی معاہدے اور قانون کی پابندی نہیں کی۔
چاہے وہ مسئلہ کشمیر ہو، سر کریک
تنازعہ ہو یا آبی مسائل وہ ہر مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا خواہش مند ضرور
نظر آتا ہے لیکن برسوں کے تجربے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کسی بھی مسئلے کے حل میں تعطل
پیدا کر دینے کا یہ وہ بہترین ہتھکنڈا ہے جسے بھارت مہارت سے استعمال کرتا ہے۔
کوئی نہیں ہے جو بھارت کو سچ کا آئینہ دکھائے ؟دریائے چناب
کے پانی میں سے 7سے 8 ہزار کیوسک پانی بھارت روزانہ چوری کر رہا ہے۔اب صورت حال یہ
ہے کہ پنجاب کی اس وقت تمام نہریں بند ہوچکی ہیں ان میں ریت اڑ رہی ہے ۔ساہیوال ،اوکاڑہ
،ملتان ،ایسٹرن بار ،اور ویسٹرن بار کے 35 لاکھ ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہورہی
ہیں۔ جون سے اب تک پنجاب اور سندھ کی سوا کروڑ اراضی پانی کی کمی سی دوچار ہے اور قوم
کو چاہے کتنے ہی دھوکے میں رکھا جائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ گندم کی فصل کا ہدف اب پورا
ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔یہ صورت حال جاری رہی تو خدانخواستہ بہت جلد یہاں ایتھوپیا
اور صومالیہ جیسے حالات پیدا ہوجائیں گے اورشمالی کوریا اور روانڈا کی طرح ہماری انتہائی
زرخیز زرعی زمینیں اجاڑ ویران اوربے آباد ہو جائیں گی۔اس سنگین صورت حال پر حیرانی
یہ ہے کہ کوئی بات ہی نہیں کر رہا ہے ، پچھلی حکومت سے خیر کسی کو کوئی امید نہیں تھی
لیکن اس حکومت کو کیا ہوا؟ ایک خاموشی ہے ہر بات کے جواب میں! کیا اس مسئلے کے کرتا
دھرتا اس خاموشی کا کوئی تسلی بخش جواز پیش کر سکتے ہیں؟ شاید نہیں ۔۔۔زنجیر بہت مضبوط
ہے۔
وطن واپسی پر ڈیوڈ نے سلسلے وار آرٹیکلز کی صورت میں اپنی
رائے کا اظہار کیا۔ اس سلسلے کا پہلا آرٹیکل ”کولیئر“ کے 4 اگست 1951 کے شمارے میں
شائع ہوا۔اس نے لکھا تھا۔ ”ابتدائی نکتہ، جس سے شروعات کی جائے یہ ہو کہ پاکستان کو
پانی سے محرومی اور اسے صحرا بنا دیے جانے کے خدشات ختم کیے جائیں۔ پانی کے حالیہ استعمال
کے حجم کی بھارت تصدیق کرے اور دونوں ممالک کو پابند کیا جائے کہ وہ اور بھارت صحیح
معنوں میں دریا کے بین الاقوامی طاس میں مل کر کام کریں۔ علیحدہ علیحدہ کام کرنے کی
صورت میں مذکورہ دونوں ممالک یہ مقصد حاصل نہیں کر سکیں گے کیوں کہ دریا (سندھ) دونوں
ممالک کی سرحد کو خاطر میں نہیں لاتا اور کشمیر، بھارت اور پاکستان سے گزرنے والے اپنے
قدرتی راستے پر گامزن رہتا ہے۔ اس پورے نظام کو بطور ایک اکائی ترقی دی جانی چاہیے
اور امریکا کے سات ریاستوں کے TVA سسٹم کی طرح بطور ایک اکائی ہی اسے چلایا
جانا بھی چاہیے۔
اس وقت کے عالمی بینک کے صدر یوجین آر لیک نے ڈیوڈ کے تحریر
کردہ آرٹیکلز پڑھے اور ان سے رابطہ کر کے پوچھا کہ بھارت اور پاکستان کے لیے کیا ان
کی تجاویز قابل قبول ہو سکتی ہیں۔ ڈیوڈ سے مشاورت کے بعدصدر عالمی بینک نے دونوں ممالک
کے وزرا کے نام خطوط لکھے اور دریائے سندھ کے پانی کے تنازع کے حل کے لیے مذاکرات کی
غرض سے اپنے دفتر کی خدمات پیش کر دیں۔ اور یہ مذاکرات مئی 1952 میں عالمی بینک کی
نگرانی میں شروع ہوئے۔ یہ مذاکرات وقفے وقفے کے ساتھ طویل نو برسوں تک جاری رہے لیکن
پاکستان کی سیاسی جماعتیں اڑی رہیں کہ ہم اپنے تین دریا کسی قیمت پر بھارت کے حوالے
نہیں کریں گے۔1957 میں پاکستان نے مسئلہ سلامتی کونسل میں لے جانے کا فیصلے کیا ،اسے
یقین تھا کہ اسے انصاف مل جائے گا لیکن اس کے فورا بعد ایوب خان تشریف لے آئے اور آتے
ہی مذاکرات میں مصروف پاکستانی وفد کو حکم دیا کہ وہ بینک کی تجاویز غیر مشروط طور
پر مان لیں۔اختلاف رکھنے والے وفد کو مذاکرات سے نکال دیا اور تین دریا یعنی 30 ملین
ایکڑ فٹ قدرت کا عظیم تحفہ بالآخربھارت کے حوالے کر دیا گیا۔بھارتی صحافی کلدیپ نائر
کی گواہی موجود ہے ”1951میں جب پاکستان سلامتی کونسل میں جا رہا تھا تو امریکی رضامندی
سے معاملہ ورلڈ بینک کو منتقل کر دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت تین مغربی دریاؤں (سندھ،
جہلم اور چناب) کے پانی پر پاکستان کو حقدار ٹھہرایا اور دیگر تین مشرقی دریا (راوی
، ستلج اور بیاس) بھارت کے حوالے کر دیے۔یہ معاہدہ جسے انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس معاہدہ)
کا نام دیا گیا اس پر 19 ستمبر 1960 کو بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو، اس وقت کے
پاکستانی حکومت کے سربراہ صدر ایوب خان اور اس وقت کے صدر عالمی بینک نے دستخط کیے۔
اس معاہدے کا مقصد 365,000 مربع میل کے علاقے کو سندھ طاس میں واقع دونوں ممالک کے
درمیان تقسیم کرنا اور دونوں ممالک کو اپنی اپنی سرحدوں کے اندر پانی کو قدرتی وسیلے
کو محفوظ کرنا اور اس کا انتظام کرنا تھا۔ یہ معاہدہ یکم اپریل 1960 سے موثر ہوا۔ اس
معاہدے کے شق میں یہ واضح ہے کہ مشرقی دریاؤں کے تمام تر پانی پربھارت اور مغربی دریاؤں
کے پانی پر مکمل طور پر پاکستان کا حق ہوگا۔پاکستان میں داخل ہونے والے تمام دریاؤں
کے پانی پر اور ان ذیلی دریاؤں کے پانی پر، جو اپنی قدرتی گزرگاہ سے ہوتے ہوئے مرکزی
ستلج اور مرکزی راوی میں ضم ہو جاتے ہیں، پاکستان میں داخل ہونے کے بعد پاکستان کا
حق ہو گا اور بھارت کسی بھی طرح ان کا بہاؤں روکنے کا مجاز نہیں ہے۔
لیکن ساٹھ سالہ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے کبھی کسی معاہدے
کی پابندی نہیں کی اور اب حالیہ آبی حارحیت دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے
کہ اس کے لیے سندھ طاس معاہدہ کاغذ کے کسی بےکار پرزے سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور یہ
سمجھنا بھی انتہائی خوش گمانی بلکہ بے وقوفی ہوگا کہ وہ ہماری بات چیت سے قائل ہوکر
اپنے کروڑوں ڈالر کے منصوبوں سے دست بردار ہوجائے گا۔بھارت نے ان تین دریاؤں کے پانی
کو استعمال کر کے انپے صحرا راجھستان کو گلزار بنا دیا ہے لیکن ہم ایسا نہ کرسکے جب
بھی کسی ڈیم کی تعمیر کی بات ہوتی ہے تو سیاسی اور جاگیردارانے نظام کے محافظ وہ ہنگامہ
مچادیتے ہیں کہ پورے ملک میں افراتفری پھیل جاتی ہے۔ ہماری اس نالائقی کو دیکھتے ہوئے
بھارتی وزیر اعظم واجپائی نے 2001 میں اپنے ایک انٹرویو میں اس خواہش کا اظار کیا تھا
کہ بھارت پیاس سے مر رہا ہے اور پانی کا ایک
ایک قطرہ اس کی ضرورت ہے جبکہ ہمارا پڑوسی ملک پاکستان 35 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع کر
رہا ہے تاکہ مچھلیاں بچائی جاسکیں۔ 2003 میں اسلام آباد میں ایک کانفرنس ہوئی تھی جس
کا موضوع واٹر اینڈ سیکیورٹی ان ساؤتھ ایشیا
تھا لیکن اگر آپ ریکارڈ اٹھاکر دیکھیں تو موضوع
صرف اور صرف دریائے سندھ ،جہلم اورچناب تک محدود رہا۔ کانفرنس میں بھارتی وفد نے ہماری
اسی نالائقی کو زیر بحث لاتے ہوئے ایک تجویز پیش کی تھی کہ پاکستان اب تک اپنے حصے
کا پانی استعمال کرنے میں ناکام رہا ہے لہذا اس پانی کو مشترکہ طور پر استعمال کرنے
کی غرض سے سندھ طاس معاہدہ نمبر 2 کیا جائے۔پاکستان کی جانب اس تجویز کی جتنی سخت مخالفت
ہونی چاہیے تھی وہ بھی نہ ہوئی اور مشرف حکومت نے اگرچہ یہ معاہدہ نہ کیا البتہ جس
طرح بھارت کے جارحانہ اقدام کے جواب میں خاموشی اختیار کی یہ خود قومی سطح کا جرم ہے۔ایک
آمر نے معاہدے کے تحت تین دریا بیچ ڈالے تو یقینا دوسرے آمر کا اتنا تو حق بنتا تھا
کہ وہ بغیر معاہدے کے تین دریا بخش دے۔
پچھلی حکومت بگلیہار ڈیم کی تعمیر کو چیلینج کرنے کے بجائے
اس کی تعمیر پر اعتراض کرکے ایک فاش غلطی کرچکی ہے بلکہ اسے غلطی نہیں غداری کہنا زیادہ
بہتر ہوگا کیونکہ اس طرح اس نے بگلیہار ڈیم کی تعمیر کو تسلیم کرلیا تھا اور یہ غلط
ہے کیونکہ دریائے چناب پر کسی ڈیم کی تعمیر کا بھارت کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔بلا شبہہ
پاکستان اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔شمالی علاقوںمیں رچایا جانے والا آگ اور
خون کا کھیل ہمارے چاروں صوبوں کے گلی محلوں اور سڑکوںتک آپہنچا ہے۔ جمہوریت کے ایک
سال بعد بڑے دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ قیمتی انسانی جانوں اور املاک کے ساتھ ساتھ قوم
کے وہ خواب بھی جل کر راکھ ہوگئے جو سولہ کروڑ آنکھوں نے جمہوریت کی آمد پر امن ،انصاف
،استحکام اورتعمیر نو کے لیے بنے تھے۔ 2001 ءمیں نائن الیون کے بعد جو غلطیوں کے بیج
ہم نے بوئے تھے وہ ان سات سالوں میں بارآور ہوئے اور ایسے ہوئے کہ آج یہ فصل خود کش
حملوںکی صورت وطن کا بچہ بچہ کاٹ رہا ہے۔ ایسی صورت میں ہم یقینا کسی نئی جنگ کے متحمل
نہیں ہوسکتے لیکن کیا ہم اپنے حق کے لیے آواز بھی بلند نہیں کر سکتے ؟ دوستی ،مفاہمت
اور مصالحت کی پالیسی یقینا بہتر ہے لیکن کس قیمت پر ؟کیا ملک و قوم کی قیمت پر ؟ اپنے
مستقبل کی قیمت پر؟ اور کیا یک طرفہ ایسی کسی پالیسی سے ہمارا بھلا ہوسکتا ہے جسے دوسرا
فریق اپنی ٹھوکر پر رکھے اور اسے ہماری کمزوری سمجھے۔نہیں، اپنی بقا کے لیے ہمیں اس
حوالے سے ایک واضح پالیسی بنانی ہوگی ، اس مسئلے کو ہر بین الاقوامی فورم پر اٹھانا
ہوگا، عالمی عدالت انصاف میں بھارت کی اس کھلی آبی حارحیت کو چیلینج کرنا ہوگا۔ عالمی
بینک سندھ طاس معاہدے کا ضامن ہے اس کے آگے اس مسئلے کو اٹھانا ہوگا اور اسے اپنا کردار
ادا کرنے پر مجبور کرنا ہوگا ۔اس کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں موجود بھارتی مفادات کے
لیے سرگرم ملک دشمن عناصر کو بے نقاب کرنا بھی بہت ضروری ہے ۔سندھ طاس واٹر کونسل کے
چیئر مین ظہور الحسن ڈائر کے ایک اخباری انٹرویو کے مطابق پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں
ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بھارت کے مفادات کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں۔ان کا کہنا
ہے کہ محکمہ آب پاشی کے دو اعلی افسران ایسے بھی ہیں جو دن رات اس کوشش میں مصروف ہیں
کہ چناب کا معاملہ قومی سطح پر نہ اٹھایا جائے اور وہ اس مقصد کے لیے پیسہ پانی کی
طرح بہا رہے ہیں۔حکومت چاہے تو ظہور صاحب کی ان معلومات سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
اور وہ تمام لوگ جنہیں کالا باغ ڈیم پر تحفظات ہیں کیا بھارت
کی آبی جارحیت ان کے لیے قابل قبول ہے؟ کالا باغ ڈیم کو نہ قبول کرنے والوں کے لیے
کیا کارگل ڈیم قابل قبول ہے؟ خصوصا ہمارے سندھی بھائی ، کیا اس سے سندھ کو نقصان نہیں
ہوگا ؟ ہزاروں ایکڑ پر مشتمل انڈس ڈیلٹا جو ویسے ہی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے کیا
اس سے وہ یہ جنگ ہار نہیں جائے گا؟ ہزاروں ماہی گیر بے سروساماں بھٹکنے پر مجبور نہیں
ہوں گے؟ ساحلی حیات برباد ہوجائے گی اور پاکستان سمندری حیات سے جو کثیر زرمبادلہ حاصل
کرتا ہے اس سے محروم ہوجائے گا۔لاکھوں ماہی گیر برباد ہوجائیں گے۔ کیا یہ ماہی گیر
تنظیموں کا مسئلہ نہیں ہے ؟ کیا یہ انسان کے بنیادی حقوق کی پامالی نہیں ہے اور اگر
ہے تو اس کے لیے آواز بلند کرنے والی ملکی اور غیر ملکی تنظیمیں کہاں ہیں؟ میڈیا کیوں
خاموش ہے ؟ ہمارے مقبول ترین ٹاک شوز کے میزبانوں کے لیے اس موضوع میں کوئی کشش نہیں
ہے؟ ماحول اور قدرتی وسائل کے تحفظ کی تنظیمیں اور جنگلی حیات کے محافظ کہاں خواب خرگوش
کے مزے لے رہے ہیں؟ جاگیے۔۔۔ خدا کے لیے جاگ جائیے !
یاد رکھیے کہ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے صرف8 سال ہیں ۔بھارت
2016 میں اپنا انٹرلنک ریور پروگرام مکمل کرلے گا جو اس نے گذشتہ حکومت کی خاموش حمایت
سے شروع کیا تھا ۔اس منصوبے کے تحت بھارت اپنے 21 دریاؤں کو باہم رابطہ نہروں سے مکمل
کرے گا ۔ 33ڈیم بنائے گا اور10ہزار کلو میٹر طویل نہریں کھودے گا اور 33ڈیم بنائے گا۔
اس منصوبے سے اس کی 360ملین ایکڑ زمین آباد ہوگی اور30 ہزار میگا واٹ بجلی دستیاب ہوگی۔
وہ تو سر سبز و گل گلزار ہوجائے گا لیکن ہمارے
ملک میں ریت اڑنے لگے گی ۔اس منصوبے کو بنگلہ دیش نے بھی اپنے لیے ڈیتھ ٹریپ فار بنگہ
دیش قرار دیا ہے کیونکہ دریائے گنگا اور برہم پترا کے پانی سے بھی بھارت اسی طرح استفادہ
کرے گا۔ ہم بنگہ دیش سے مل کر کوئی راہ نکال سکتے ہیں اور بین الاقوامی فورموں پر احتجاج
کرسکتے ہیں۔
اکیس ویں صدی کے اس گلوبل
ولیج میں جنگ کے علاوہ بھی بہت سے راستے ہمارے لیے کھلے ہیں۔اور اگر ہم نے اپنی آنکھیں
نہ کھولیں تو پھر ہم اپنی آنی والی نسلوں کے لیے قحط اور افلاس کے سوا کچھ نہیں چھوڑیں
گے۔پاکستان کی نصف آبادی انتہائی غذائی قلت سے دوچار ہے اورآٹے کا بحران ہماری آنکھیں
کھول دینے کے لیے کافی ہے ۔آج یہ مسئلہ جنگ کیے بغیر حل ہو سکتا ہے ، بہت سے دوسرے
راستے ہمارے لیے کھلے ہیں لیکن اگر ہم نے دیر کردی تو پھر ہر راستہ بند ہوتا چلا جائے
گا سوائے ۔ ۔ ۔ ۔