Friday, December 19, 2008

پانی کی چوری اور سرکاری خاموشی

سولہ کروڑ عوام کو جاگنا ہوگا

 قوم کو مبارک ہوکہ چناب کے پانی کے روکے جانے کا مسئلہ حل ہو گیا ! من موہن سنگھ جی نے امریکا میں یہ کہہ کر ہم سب کا من موہ لیا کہ سندھ طاس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے گا۔  یقینا عمل کیا جائے گا اور بھارت ایسا کر بھی رہا ہے ۔ کیا ہوا جو اس نے چناب کا پانی روکنے کے لیے غیر قانونی طور پر دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم تعمیر کرلیا ہے  جس کا ابھی حال ہی میں افتتاح کیا گیا ہے اور وہ بھی من موہن جی کے دست مبارک سے  یا وہ دریائے سندھ کا 40% پانی ایک خفیہ ٹنل کے ذریعے چوری کرکے دریائے برہم پترا میں ڈال رہا ہے اور اس سے بھی معاہدے کی روح پر بھلا کیا اثر پڑے گا کہ وہ دریائے سندھ کے اوپر کارگل کے مقام پر ایک بہت بڑا کارگل ڈیم بنا رہا ہے جو دنیا کا تیسرا بڑا ڈیم ہوگا، جس کی تعمیر کے بعد دریائے سندھ کی حیثیت ایک برساتی نالے سے زیادہ کی نہیں رہ جائے گی۔بھارت دریائے سندھ میں آکر گرنے والے ندی نالوں پربھی 14چھوٹے ڈیم بنا رہا ہے اسی طرح جہلم سے ایک اور بگلیہار سے دو نہریں نکال کر راوی میں ڈالی جارہی ہیں اور راوی کا پانی ستلج میں ڈال کر راجھستان لے جایا جارہا ہے۔ جہلم پر 12اور چناب پر مزید 20 چھوٹے ڈیم بنائے جانے کے منصوبوں پر کام جاری ہے اور یہ تمام آبی تجاوزات ان دریاؤں پر ہورہی ہیں جو سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آئے ہیں اور معاہدے کے مطابق ان دریاؤں کے پانی روکنے اور ان پر ڈیم بنانے کا بھارت کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ لیکن ظاہر ہے ان چھوٹی بڑی خلاف ورزیوں سے معاہدے کی روح پر بھلاکیا اثر پڑتا ہے جبھی تو ہماری حکومت بھی اتنی مطمئن نظر آرہی ہے۔بھارت کی تاریخ عہد شکنی سے عبارت ہے ، اس نے کبھی کسی معاہدے اور قانون کی پابندی نہیں کی۔ 

               چاہے وہ مسئلہ کشمیر ہو، سر کریک تنازعہ ہو یا آبی مسائل وہ ہر مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا خواہش مند ضرور نظر آتا ہے لیکن برسوں کے تجربے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کسی بھی مسئلے کے حل میں تعطل پیدا کر دینے کا یہ وہ بہترین ہتھکنڈا ہے جسے بھارت مہارت سے استعمال کرتا ہے۔

کوئی نہیں ہے جو بھارت کو سچ کا آئینہ دکھائے ؟دریائے چناب کے پانی میں سے 7سے 8 ہزار کیوسک پانی بھارت روزانہ چوری کر رہا ہے۔اب صورت حال یہ ہے کہ پنجاب کی اس وقت تمام نہریں بند ہوچکی ہیں ان میں ریت اڑ رہی ہے ۔ساہیوال ،اوکاڑہ ،ملتان ،ایسٹرن بار ،اور ویسٹرن بار کے 35 لاکھ ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہورہی ہیں۔ جون سے اب تک پنجاب اور سندھ کی سوا کروڑ اراضی پانی کی کمی سی دوچار ہے اور قوم کو چاہے کتنے ہی دھوکے میں رکھا جائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ گندم کی فصل کا ہدف اب پورا ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔یہ صورت حال جاری رہی تو خدانخواستہ بہت جلد یہاں ایتھوپیا اور صومالیہ جیسے حالات پیدا ہوجائیں گے اورشمالی کوریا اور روانڈا کی طرح ہماری انتہائی زرخیز زرعی زمینیں اجاڑ ویران اوربے آباد ہو جائیں گی۔اس سنگین صورت حال پر حیرانی یہ ہے کہ کوئی بات ہی نہیں کر رہا ہے ، پچھلی حکومت سے خیر کسی کو کوئی امید نہیں تھی لیکن اس حکومت کو کیا ہوا؟ ایک خاموشی ہے ہر بات کے جواب میں! کیا اس مسئلے کے کرتا دھرتا اس خاموشی کا کوئی تسلی بخش جواز پیش کر سکتے ہیں؟ شاید نہیں ۔۔۔زنجیر بہت مضبوط ہے۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد دونوں ملکوں کے مابین 18 دسمبر 1947 کو ایک معاہدہ کیا گیا جس کی رو سے دونوںممالک کے درمیان پانی کی تقسیم ملکوں کی تقسیم سے پہلے والی پوزیشن پر ہی رکھنی تھی لیکن 8 ماہ سے بھی کم مدت کے اندر بھارت نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے آب پاشی کے لیے مخصوص ہر اس نہر کو بند کر دیا جو فیروز پور اور گورداسپور سے نکل کر دونوں ملکوں کی سرحد عبور کر رہی تھی۔ بھارت کی اس کارروائی کے باعث پاکستانی کی کھڑی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا۔انڈیا کا مطالبہ تھا کہ بھارتی پنجاب سے گزرنے والے تمام دریاؤں پر پاکستان، بھارت کا حق تسلیم کرے اور ان دریاؤں کے پانی پر پاکستان پنجاب کے باشندوں کے حق اور حصے کا مطالبہ نہیں کرے۔ اس کے برعکس پاکستان کا مطالبہ تھا کہ پانی کے استعمال یا کھپت کی موجودہ صورت حال جوں کی توں رہنے دی جائے البتہ زائد پانی کو دونوں ممالک کے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے اس مطالبے کو متعدد معاہدوں اور ملکوں کی حمایت حاصل تھی۔لیکن اپریل 1948 میں بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کو دریاؤں کے پانی کی فراہمی روک کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ کسی معاہدے اور اخلاقیات کو نہیں مانتا ۔اس آبی بحران سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ایک وزارتی وفد کو نئی دہلی کا ہنگامی دورہ کرنا پڑا اور پانی کی بحالی کے لیے بات چیت کرنی پڑی۔ان مذاکرات میں بھارت نے اصرار کیا کہ مشرقی جانب سے آنے والے تمام دریاؤں پر پاکستان، بھارت کا ملکیتی حق تسلیم کرے ۔بھارت کا یہ مطالبہ سراسر غلط تھا کیونکہ 1921 کے بارسلونا کنونشن کے تحت ، جس کا رکن بھارت بھی تھا، کے مطابق کسی بھی ملک کو ایسے دریاؤں کا پانی روکنے یا ان کا رخ تبدیل کر دینے کا قطعی کوئی حق حاصل نہیں ہے جو کسی ملک کی سرحد عبور کر کے پڑوسی ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ مذکورہ کنونشن کے مطاق کسی ملک کو دریاؤں کے پانی کی اس حد تک اور اس طریقے سے استعمال کی اجازت بھی حاصل نہیں کہ اس کے پڑوسی ملک کی زمینیں سیراب نہ ہو سکیں یا وہ پانی کو درست طور سے استعمال نہ کر سکے۔لیکن ہر قاعدے اور قانون سے خود کو ماورا سمجھنے والے بھارت نے اس کنونشن کو بھی اپنی ٹھوکر پر رکھا اور دریاؤں کے بالائی بہاؤ پر واقع اپنی حیثیت اور طاقت کا غیر قانونی مظاہرہ کرتے ہوئے 4 مئی 1948 کو ہونے والے مذاکرات میں پاکستانی وفد کو ایک ایسے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا جس کے تحت اسے ریزرو بینک آف انڈیا میں، بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے مقرر کردہ رقم جمع کروانا ضروری تھا اور اس کے بعد ہی پاکستان کو پانی کی فراہم بحال کی جانی تھی۔ دونوں ممالک کے مابین سرحدوں کا تعین کرتے وقت برصغیر پاک وہند میں قائم نہری نظام پر توجہ نہیں دی گئی تھی البتہ باؤنڈری کمیشن نے یہ تنازع تسلیم کیا تھا۔ متاثرہ علاقوں کے نمائندوں نے ثالثی کمیشن کے سامنے اقرار کیا تھا کہ پانی کی سپلائی پر دونوں ممالک کا حق ہے۔ بہرحال پاکستان کو مجبورا مقررہ رقم بھارتی حکومت کو ادا کرنی پڑی۔مئی 1948 کے اس معاہدے پر دستخط کرنے اور رقم ادا کرنے کے بعد بھی بھارت نے آبی حارحیت برقرار رکھی اور بھارتی رویے سے مجبور ہوکر پاکستان نے بین الاقوامی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس دوران بھارت نے دریائے بیاس اور ستلج کے بالائی حصے میں، فیروز پور سے آگے ہریک کے مقام پر بیراج کی تعمیر شروع کر دی تھی اور بھاگرا کی ڈیم سائٹ پر بھی کام شروع کردیا اور پاکستان کی ہر کوشش اور ہر اعتراض کو اس نے مسترد کر دیا اور یوں حالات ایک خطرناک نہج پر آگئے۔ چونکہ اس مسئلے سے لاکھوں لوگوں کی قسمت وابستہ تھی اور پرامن مذاکرات کے ذریعے اس کا حل بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا لہٰذا امریکا کے ایک مشہور رسالے کولیئر (جو1957 میں بند ہوا) نے ٹینیسی ویلی اتھارٹی کے سابق چیئرمین اور امریکی اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈیوڈ ای کو حقائق معلوم کرنے کی غرض سے بھارت اور پاکستان کے دورے پر بھیجا۔ ان کا کام اس مسئلے پر ایک تفصیلی رپورٹ تیار کرنا تھا جس کی مدد سے یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا۔

وطن واپسی پر ڈیوڈ نے سلسلے وار آرٹیکلز کی صورت میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اس سلسلے کا پہلا آرٹیکل ”کولیئر“ کے 4 اگست 1951 کے شمارے میں شائع ہوا۔اس نے لکھا تھا۔ ”ابتدائی نکتہ، جس سے شروعات کی جائے یہ ہو کہ پاکستان کو پانی سے محرومی اور اسے صحرا بنا دیے جانے کے خدشات ختم کیے جائیں۔ پانی کے حالیہ استعمال کے حجم کی بھارت تصدیق کرے اور دونوں ممالک کو پابند کیا جائے کہ وہ اور بھارت صحیح معنوں میں دریا کے بین الاقوامی طاس میں مل کر کام کریں۔ علیحدہ علیحدہ کام کرنے کی صورت میں مذکورہ دونوں ممالک یہ مقصد حاصل نہیں کر سکیں گے کیوں کہ دریا (سندھ) دونوں ممالک کی سرحد کو خاطر میں نہیں لاتا اور کشمیر، بھارت اور پاکستان سے گزرنے والے اپنے قدرتی راستے پر گامزن رہتا ہے۔ اس پورے نظام کو بطور ایک اکائی ترقی دی جانی چاہیے اور امریکا کے سات ریاستوں کے TVA سسٹم کی طرح بطور ایک اکائی ہی اسے چلایا جانا بھی چاہیے۔

اس وقت کے عالمی بینک کے صدر یوجین آر لیک نے ڈیوڈ کے تحریر کردہ آرٹیکلز پڑھے اور ان سے رابطہ کر کے پوچھا کہ بھارت اور پاکستان کے لیے کیا ان کی تجاویز قابل قبول ہو سکتی ہیں۔ ڈیوڈ سے مشاورت کے بعدصدر عالمی بینک نے دونوں ممالک کے وزرا کے نام خطوط لکھے اور دریائے سندھ کے پانی کے تنازع کے حل کے لیے مذاکرات کی غرض سے اپنے دفتر کی خدمات پیش کر دیں۔ اور یہ مذاکرات مئی 1952 میں عالمی بینک کی نگرانی میں شروع ہوئے۔ یہ مذاکرات وقفے وقفے کے ساتھ طویل نو برسوں تک جاری رہے لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتیں اڑی رہیں کہ ہم اپنے تین دریا کسی قیمت پر بھارت کے حوالے نہیں کریں گے۔1957 میں پاکستان نے مسئلہ سلامتی کونسل میں لے جانے کا فیصلے کیا ،اسے یقین تھا کہ اسے انصاف مل جائے گا لیکن اس کے فورا بعد ایوب خان تشریف لے آئے اور آتے ہی مذاکرات میں مصروف پاکستانی وفد کو حکم دیا کہ وہ بینک کی تجاویز غیر مشروط طور پر مان لیں۔اختلاف رکھنے والے وفد کو مذاکرات سے نکال دیا اور تین دریا یعنی 30 ملین ایکڑ فٹ قدرت کا عظیم تحفہ بالآخربھارت کے حوالے کر دیا گیا۔بھارتی صحافی کلدیپ نائر کی گواہی موجود ہے ”1951میں جب پاکستان سلامتی کونسل میں جا رہا تھا تو امریکی رضامندی سے معاملہ ورلڈ بینک کو منتقل کر دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت تین مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم اور چناب) کے پانی پر پاکستان کو حقدار ٹھہرایا اور دیگر تین مشرقی دریا (راوی ، ستلج اور بیاس) بھارت کے حوالے کر دیے۔یہ معاہدہ جسے انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس معاہدہ) کا نام دیا گیا اس پر 19 ستمبر 1960 کو بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو، اس وقت کے پاکستانی حکومت کے سربراہ صدر ایوب خان اور اس وقت کے صدر عالمی بینک نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کا مقصد 365,000 مربع میل کے علاقے کو سندھ طاس میں واقع دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کرنا اور دونوں ممالک کو اپنی اپنی سرحدوں کے اندر پانی کو قدرتی وسیلے کو محفوظ کرنا اور اس کا انتظام کرنا تھا۔ یہ معاہدہ یکم اپریل 1960 سے موثر ہوا۔ اس معاہدے کے شق میں یہ واضح ہے کہ مشرقی دریاؤں کے تمام تر پانی پربھارت اور مغربی دریاؤں کے پانی پر مکمل طور پر پاکستان کا حق ہوگا۔پاکستان میں داخل ہونے والے تمام دریاؤں کے پانی پر اور ان ذیلی دریاؤں کے پانی پر، جو اپنی قدرتی گزرگاہ سے ہوتے ہوئے مرکزی ستلج اور مرکزی راوی میں ضم ہو جاتے ہیں، پاکستان میں داخل ہونے کے بعد پاکستان کا حق ہو گا اور بھارت کسی بھی طرح ان کا بہاؤں روکنے کا مجاز نہیں ہے۔



لیکن ساٹھ سالہ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے کبھی کسی معاہدے کی پابندی نہیں کی اور اب حالیہ آبی حارحیت دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ اس کے لیے سندھ طاس معاہدہ کاغذ کے کسی بےکار پرزے سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور یہ سمجھنا بھی انتہائی خوش گمانی بلکہ بے وقوفی ہوگا کہ وہ ہماری بات چیت سے قائل ہوکر اپنے کروڑوں ڈالر کے منصوبوں سے دست بردار ہوجائے گا۔بھارت نے ان تین دریاؤں کے پانی کو استعمال کر کے انپے صحرا راجھستان کو گلزار بنا دیا ہے لیکن ہم ایسا نہ کرسکے جب بھی کسی ڈیم کی تعمیر کی بات ہوتی ہے تو سیاسی اور جاگیردارانے نظام کے محافظ وہ ہنگامہ مچادیتے ہیں کہ پورے ملک میں افراتفری پھیل جاتی ہے۔ ہماری اس نالائقی کو دیکھتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم واجپائی نے 2001 میں اپنے ایک انٹرویو میں اس خواہش کا اظار کیا تھا کہ  بھارت پیاس سے مر رہا ہے اور پانی کا ایک ایک قطرہ اس کی ضرورت ہے جبکہ ہمارا پڑوسی ملک پاکستان 35 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع کر رہا ہے تاکہ مچھلیاں بچائی جاسکیں۔ 2003 میں اسلام آباد میں ایک کانفرنس ہوئی تھی جس کا موضوع  واٹر اینڈ سیکیورٹی ان ساؤتھ ایشیا  تھا لیکن اگر آپ ریکارڈ اٹھاکر دیکھیں تو موضوع صرف اور صرف دریائے سندھ ،جہلم اورچناب تک محدود رہا۔ کانفرنس میں بھارتی وفد نے ہماری اسی نالائقی کو زیر بحث لاتے ہوئے ایک تجویز پیش کی تھی کہ پاکستان اب تک اپنے حصے کا پانی استعمال کرنے میں ناکام رہا ہے لہذا اس پانی کو مشترکہ طور پر استعمال کرنے کی غرض سے سندھ طاس معاہدہ نمبر 2 کیا جائے۔پاکستان کی جانب اس تجویز کی جتنی سخت مخالفت ہونی چاہیے تھی وہ بھی نہ ہوئی اور مشرف حکومت نے اگرچہ یہ معاہدہ نہ کیا البتہ جس طرح بھارت کے جارحانہ اقدام کے جواب میں خاموشی اختیار کی یہ خود قومی سطح کا جرم ہے۔ایک آمر نے معاہدے کے تحت تین دریا بیچ ڈالے تو یقینا دوسرے آمر کا اتنا تو حق بنتا تھا کہ وہ بغیر معاہدے کے تین دریا بخش دے۔

پچھلی حکومت بگلیہار ڈیم کی تعمیر کو چیلینج کرنے کے بجائے اس کی تعمیر پر اعتراض کرکے ایک فاش غلطی کرچکی ہے بلکہ اسے غلطی نہیں غداری کہنا زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ اس طرح اس نے بگلیہار ڈیم کی تعمیر کو تسلیم کرلیا تھا اور یہ غلط ہے کیونکہ دریائے چناب پر کسی ڈیم کی تعمیر کا بھارت کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔بلا شبہہ پاکستان اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔شمالی علاقوںمیں رچایا جانے والا آگ اور خون کا کھیل ہمارے چاروں صوبوں کے گلی محلوں اور سڑکوںتک آپہنچا ہے۔ جمہوریت کے ایک سال بعد بڑے دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ قیمتی انسانی جانوں اور املاک کے ساتھ ساتھ قوم کے وہ خواب بھی جل کر راکھ ہوگئے جو سولہ کروڑ آنکھوں نے جمہوریت کی آمد پر امن ،انصاف ،استحکام اورتعمیر نو کے لیے بنے تھے۔ 2001 ءمیں نائن الیون کے بعد جو غلطیوں کے بیج ہم نے بوئے تھے وہ ان سات سالوں میں بارآور ہوئے اور ایسے ہوئے کہ آج یہ فصل خود کش حملوںکی صورت وطن کا بچہ بچہ کاٹ رہا ہے۔ ایسی صورت میں ہم یقینا کسی نئی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے لیکن کیا ہم اپنے حق کے لیے آواز بھی بلند نہیں کر سکتے ؟ دوستی ،مفاہمت اور مصالحت کی پالیسی یقینا بہتر ہے لیکن کس قیمت پر ؟کیا ملک و قوم کی قیمت پر ؟ اپنے مستقبل کی قیمت پر؟ اور کیا یک طرفہ ایسی کسی پالیسی سے ہمارا بھلا ہوسکتا ہے جسے دوسرا فریق اپنی ٹھوکر پر رکھے اور اسے ہماری کمزوری سمجھے۔نہیں، اپنی بقا کے لیے ہمیں اس حوالے سے ایک واضح پالیسی بنانی ہوگی ، اس مسئلے کو ہر بین الاقوامی فورم پر اٹھانا ہوگا، عالمی عدالت انصاف میں بھارت کی اس کھلی آبی حارحیت کو چیلینج کرنا ہوگا۔ عالمی بینک سندھ طاس معاہدے کا ضامن ہے اس کے آگے اس مسئلے کو اٹھانا ہوگا اور اسے اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور کرنا ہوگا ۔اس کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں موجود بھارتی مفادات کے لیے سرگرم ملک دشمن عناصر کو بے نقاب کرنا بھی بہت ضروری ہے ۔سندھ طاس واٹر کونسل کے چیئر مین ظہور الحسن ڈائر کے ایک اخباری انٹرویو کے مطابق پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بھارت کے مفادات کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ محکمہ آب پاشی کے دو اعلی افسران ایسے بھی ہیں جو دن رات اس کوشش میں مصروف ہیں کہ چناب کا معاملہ قومی سطح پر نہ اٹھایا جائے اور وہ اس مقصد کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔حکومت چاہے تو ظہور صاحب کی ان معلومات سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

اور وہ تمام لوگ جنہیں کالا باغ ڈیم پر تحفظات ہیں کیا بھارت کی آبی جارحیت ان کے لیے قابل قبول ہے؟ کالا باغ ڈیم کو نہ قبول کرنے والوں کے لیے کیا کارگل ڈیم قابل قبول ہے؟ خصوصا ہمارے سندھی بھائی ، کیا اس سے سندھ کو نقصان نہیں ہوگا ؟ ہزاروں ایکڑ پر مشتمل انڈس ڈیلٹا جو ویسے ہی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے کیا اس سے وہ یہ جنگ ہار نہیں جائے گا؟ ہزاروں ماہی گیر بے سروساماں بھٹکنے پر مجبور نہیں ہوں گے؟ ساحلی حیات برباد ہوجائے گی اور پاکستان سمندری حیات سے جو کثیر زرمبادلہ حاصل کرتا ہے اس سے محروم ہوجائے گا۔لاکھوں ماہی گیر برباد ہوجائیں گے۔ کیا یہ ماہی گیر تنظیموں کا مسئلہ نہیں ہے ؟ کیا یہ انسان کے بنیادی حقوق کی پامالی نہیں ہے اور اگر ہے تو اس کے لیے آواز بلند کرنے والی ملکی اور غیر ملکی تنظیمیں کہاں ہیں؟ میڈیا کیوں خاموش ہے ؟ ہمارے مقبول ترین ٹاک شوز کے میزبانوں کے لیے اس موضوع میں کوئی کشش نہیں ہے؟ ماحول اور قدرتی وسائل کے تحفظ کی تنظیمیں اور جنگلی حیات کے محافظ کہاں خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں؟ جاگیے۔۔۔ خدا کے لیے جاگ جائیے !

یاد رکھیے کہ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے صرف8 سال ہیں ۔بھارت 2016   میں اپنا  انٹرلنک ریور پروگرام  مکمل کرلے گا جو اس نے گذشتہ حکومت کی خاموش حمایت سے شروع کیا تھا ۔اس منصوبے کے تحت بھارت اپنے 21 دریاؤں کو باہم رابطہ نہروں سے مکمل کرے گا ۔ 33ڈیم بنائے گا اور10ہزار کلو میٹر طویل نہریں کھودے گا اور 33ڈیم بنائے گا۔ اس منصوبے سے اس کی 360ملین ایکڑ زمین آباد ہوگی اور30 ہزار میگا واٹ بجلی دستیاب ہوگی۔  وہ تو سر سبز و گل گلزار ہوجائے گا لیکن ہمارے ملک میں ریت اڑنے لگے گی ۔اس منصوبے کو بنگلہ دیش نے بھی اپنے لیے ڈیتھ ٹریپ فار بنگہ دیش قرار دیا ہے کیونکہ دریائے گنگا اور برہم پترا کے پانی سے بھی بھارت اسی طرح استفادہ کرے گا۔ ہم بنگہ دیش سے مل کر کوئی راہ نکال سکتے ہیں اور بین الاقوامی فورموں پر احتجاج کرسکتے ہیں۔

 اکیس ویں صدی کے اس گلوبل ولیج میں جنگ کے علاوہ بھی بہت سے راستے ہمارے لیے کھلے ہیں۔اور اگر ہم نے اپنی آنکھیں نہ کھولیں تو پھر ہم اپنی آنی والی نسلوں کے لیے قحط اور افلاس کے سوا کچھ نہیں چھوڑیں گے۔پاکستان کی نصف آبادی انتہائی غذائی قلت سے دوچار ہے اورآٹے کا بحران ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے ۔آج یہ مسئلہ جنگ کیے بغیر حل ہو سکتا ہے ، بہت سے دوسرے راستے ہمارے لیے کھلے ہیں لیکن اگر ہم نے دیر کردی تو پھر ہر راستہ بند ہوتا چلا جائے گا سوائے   ۔ ۔ ۔ ۔

Monday, December 15, 2008

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

سینیٹیشن کا بین الاقوامی سال اور ہمارے حالات

نچلی سطح سے پھوٹتی انقلاب کی کرنیں، رضاکار اس تحریک کا ہراول دستہ ہیں

اب ہماری زندگی بدل گئی ہے۔“ اس جملے نے مجھے چونکا دیا ، میں نے غور سے اسے دیکھا۔اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں اور چہرہ شدت جذبات سے تمتمارہا تھا۔عمر کوٹ کے علاقے ساماروکے ایک چھوٹے سے گاؤں ”ہیمارام“ سے آنے والی راج بائی دیہاتی زندگی کی جھجک اور زبان کی مجبوری کے باوجود ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں بولتی رہی۔ جذبات اس کی آنکھوں اور چہرے سے عیاں تھے۔کیا واقعی؟ میرے اس مشکوک رد عمل پر غور کیے بغیر اس نے اپنی بات جاری رکھی کہ ’کس طرح اس کے گاؤں میں کچھ عرصہ پہلے تک گندگی بکھری ہوئی تھی ۔ جانوروں کی غلاظت کے ساتھ ساتھ انسانی فضلہ بھی چاروں جانب بکھرا رہتا۔  اس فضلے پر بیٹھنے والی مچھر مکھیاں کھانے پینے کی چیزوں پر بیٹھ جاتیں اور یوں انتہائی خطرناک جراثیم گاؤں والوں کے پیٹ میں پہنچ جاتے۔راج بائی کے بچے اکثر بیمار رہتے۔ اس کا گھر والا اگرچہ کام کرتا تھالیکن سارے پیسے بیماریوں پر لگ جاتے‘ ۔

اور اب کیا ہوتا ہے؟’اب ایسا نہیں ہوتا ہے۔‘ راج بائی نے فخریہ بتایا’ اب ہم لوگوں نے اپنے گھروں میں لیٹرین بنا لیے ہیں۔ میں نے اپنے گھر کا لیٹرین خود تعمیر کیا کیونکہ میرا گھر والا تو کام پر جاتا تھا ، اس کے پاس ٹیم نہیں تھا ۔میں نے گاؤں کی سب عورتوں کو سمجھایا ، ساری گاؤں کی عورتوں نے اپنی مدد آپ کے تحت گھروں کے لیٹرین خود تعمیر کیے ۔ یہ دیکھیں ہمارے ہاتھوں کے زخم !‘ راج بائی نے اپنے بازو میرے سامنے کردیے۔’پہلے ہم کھلے میں رفع حاجت کے لیے جاتے تھے مگر اب گھروں میں لیٹرین کی تعمیر سے صحت و صفائی میں بھی بہتری ہوئی ہے اور پردے کی طرف سے بھی بے فکری ہوگئی۔اب ہماری زندگی بدل گئی ہے۔ اب ہمارے گاؤں کے 500 لوگ بہت اچھی زندگی گذار رہے ہیں ۔



اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 2008 کو”سال برائے سینیٹیشن International Year of Sanitation“ کے طور پر منایا گیا۔  پاکستان میں بھی اس حوالے سے مختلف سرگرمیاں جاری ہیں۔ اور دیگر شعبوں کی طرح یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم اس شعبے میں بھی بہت پیچھے ہیں۔پانچ کروڑ افراد کو سینیٹیشن کی سہولت میسر نہیں ہے یعنی ان کے گھروں میں لیٹرین موجود نہیں ہیں۔ یہ افراد ابھی تک رفع حاجت کے لیے گاؤں کے کھلے علاقوں مثلا جنگلوں یا کھیتوں وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ مقام افسوس ہے کہ خواتین اور بچے بھی اسی چلن کے عادی ہیں۔ بچے تو دور جانے کا بھی اہتمام نہیں کرتے بلکہ گھروں کے سامنے اور گلیوں میں ہی رفع حاجت کرتے ہیں ۔کھلی جگہوں پر رفع حاجت کا سبب لوگوں کی کم علمی اور صحت و صفائی کی بنیادی باتوں سے عدم آگاہی کے ساتھ ساتھ ان کی غربت اور روایتوں پر سختی سے عمل درآمد ہے۔پاکستان میں سات کروڑ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں صحت اور صفائی کے حوالے سے بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔دنیا بھر میں پانچ ہزار اورپاکستان میں ہر روز پانچ سال سے کم عمرگیارہ سو بچے سینیٹیشن کے ناقص انتظامات ، حفظان صحت کی خرابیوں ، دستوں اور آلودہ پانی سے ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔پاکستان کو دستوں کی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے ہر سال 55 ارب سے لے کر 84ارب تک سرمایہ خرچ کرنا پڑتا ہے جو اس غریب ملک کی معیشت پر اضافی بوجھ ہے۔آلودہ ماحول اور آلودہ پانی بچوں میں پیٹ اور جگر کی بیماریوں کا بڑا سبب ہے۔ انسانی فضلے کے مضر اثرات سے انسانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے اسے محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے۔

اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 2008 کو”سال برائے سینیٹیشن International Year of Sanitation“ کے طور پر منایا گیا ہے۔اسی سال سینیٹیشن کے موضوع پر جنوبی ایشیاکی تیسری سب سے بڑی کانفرنسSouth Asian Conference on Sanitation(SACOSAN) نئی دہلی انڈیا میں منعقد ہوئی۔اس کانفرنس میں تمام سارک ممالک بشمول افغانستان موجود تھے۔ یہ کانفرنس ہر دو سال بعد منعقد ہوتی ہے۔2006 میں یہ اسلام آباد میں منعقد ہوئی تھی۔ نئی دہلی میں ہونے والی اس کانفرنس کا افتتاح انڈیا کے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کیا تھا اور پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ماحول حمید اللہ جان آفریدی بھی موجود تھے جنہوں نے سینیٹیش کے حوالے سے حکومت کے اقدامات اور اس کا نقطہ ءنظر پیش کیا۔

اگرچہ پچھلی کانفرنس سے لے کر اب تک ان دوسالوں میں بہت کام ہوا ہے اور ہر ملک نے اپنی بساط بھر کوشش کی ہے پھر بھی ان دوسالوں میں جنوبی ایشیا میں دس لاکھ بچے صحت و صفائی کی ناقص صورت حال کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہم سے مزید سنجیدگی اور اخلاص کا تقاضا کرتے ہیں۔

حکومت پاکستان نے پالیسی سازی کے حوالے سے بہت سے اقدامات کیے ہیں جن کا تذکرہ ہم آگے کریں گے ویسے بھی کسی پالیسی سے ہمیں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی ہے ۔ پالیسی بنانا اور اس پر عمل درآمد حکومت کا کام ہے سو حکومت جانے اور اس کا کام جانے، لیکن ”رویے بدلنا“ چونکادینے والا کام ہے اور اس سے ہمیں سو فیصد دلچسپی ہے ۔ کسی بھی فرد کا رویہ کیسے بدلا جائے گا؟ کیونکہ رویے بدلنا آسان نہیں ہوتا ہے ۔رویے صدیوں سے جاری رسوم وروایات ، مذہب، معاشی حالات ، جغرافیائی صورت حال اور ارد گرد کے ماحول کے زیر اہتمام تشکیل پاتے ہیں۔یہ ایک دو دن کا نہیں بلکہ صدیوں کا ارتقائی عمل ہوتا ہے۔ رویے کسی بھی مخصوص ورثے اور ثقافت سے جڑے ہوتے ہیں انہیں تبدیل کرنے کا مطلب تو اکثر ایک کھلا فساد ہوتا ہے۔ لیکن کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہوتا ہے سو یہ کام بھی ممکن ہے اور اس کا ثبوت وہ بہت سے پر عزم چہرے تھے جو اپنی کہانیاں سنارہے تھے۔ورلڈ بینک کے واٹر اینڈ سینیٹیشن پروگرام کے زیر اہتمام اسلام آباد میںمنعقد ورکشاپ کے شرکا تفصیلات بتا رہے تھے۔یہ تمام لوگ کسی پیسے کے لالچ کے بغیر ،کسی معاوضے کے بنا اپنے گاؤں کے لوگوں کی تقدیر بدلنے کا عزم کیے ہوئے تھے اور اس میں کامیاب بھی تھے۔یہ چھوٹے چھوٹے گاؤں کے ٹیچر تھے، دکان دار تھے،ناظم تھے یا کچھ بھی نہ تھے بس پر عزم جذبوں اور اخلاص سے پرایک دل کے مالک تھے۔انہیں مختلف تنظیموں کے ذریعے جب لیٹرین کی تعمیر اور افادیت اور انسانی فضلے کے مضر اثرات کا پتا چلا تو نہ صرف انہوں نے خود اس پر عمل کیا بلکہ پورے گاؤں والوں کی سوچ بدل کر رکھ دی ۔(یاد رہے کہ تقریبا پاکستان پانچ کروڑ افرادکو لیٹرین کی باقاعدہ سہولت میسر نہیں ہے) ابتدا میں اگرچہ انہیں بہت سخت مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر یہ نا ممکن ممکن ہو کر رہا۔گاؤں کے ان سادہ لوگوں کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لیکن دلوں کو چھو جانے والی کہانیاں سنتے ہوئے ایک اور خوشگوار احساس ہوا کہ دھیرے دھیرے ہی سہی لیکن بہت نچلی سطح سے ایک انقلاب کی کونپل پھوٹ رہی ہے اور دوسری خوشی کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر کامیاب تجربات کے پیچھے عورت ہی کھڑی نظر آرہی ہے۔پردے سے خود کو ڈھانپے ، کسی حساب کتاب اور بہی کھاتوں میں نظر نہ آنے کے باوجود یہ عورت اتنی طاقت ور ہے کہ سب کچھ بدل کر رکھ دیتی ہے۔زلزلے سے متاثرہ ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹ سریاں کی پرعزم شمیم نے بھی یہی بات دہرائی”زندگی کا مزہ ہمیں اب آرہا ہے“ یہ اب ساری گاؤں کی عورتیں کہتی ہیں۔ پہلی بار جب میں انہیں گھر میں لیٹرین بنانے کے حوالے سے قائل کر رہی تھی تو سب عورتیں میرے خلاف تھیں اور کوئی بات سننے کے لیے تیار نہ تھیں۔ پھر ہم نے اپنے اسکول کی بچیوں کو قائل کیا ۔ اسکول میں انہیں لیٹرین کی سہولت موجود تھی لہذا وہ اس کی افادیت جانتی تھیں ۔ ہم نے انہیں یاد دلایا کہ ” صفائی نصف ایمان ہے“ اور شرم و حیا عورت کا زیور ہے۔ باقی کام ان بچیوں کا ہے۔ ان بچیوں نے گھر والوں کو قائل کیا اور چراغ سے چراغ جلتا رہا۔ وہی عورت کی طاقت!

یہی بات ایبٹ آباد کے درئی ایمان دہرا رہے تھے۔  وہ ریٹائرڈ میجر ہیں انہوں نے رضاکارانہ طور پر یہ کام شروع کیا مگر لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا ، ایک موقع ایسا بھی آیا کہ وہ دل برداشتہ ہوگئے مگر ایسے میں ان کی بیٹی نے ان کی ہمت بڑھائی، وہ ہیلتھ ورکر تھی اس نے اپنی ساتھی کارکنوں کی مدد سے کام شروع کیا اورپہلے خواتین قائل ہوئیں پھر انہوں نے خود اپنے مردوں کو قائل کیا۔ لوگوں کے رویوں میں تبدیلی دراصل ان کی سوچ میں تبدیلی ہے‘۔ ہری پور کے شبیر احمد کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگوں کو قائل کرنے میں ان پر تھوڑا بہت نفسیاتی اثر بھی ڈالتے ہیں۔ اس کے لیے ایک طریقہ (Shock and Shame) اختیار کرتے ہیں، ہم ان کے گاؤں میں چہل قدمی کرتے ہیں اور جہاں غلاظت پڑی نظر آتی ہے انہیں اس پر شرمندہ کرتے ہیں۔ مہمانوں کے سامنے اس گندگی پر وہ بڑے شرم سار ہوتے ہیں۔پھر ہم ایک قدم اور آگے بڑھ کر انہیں بتاتے ہیں کہ یہ گندگی واپس تمھارے کھانے پینے میں شامل ہورہی ہے۔مکھیاں اور مچھر ان پر بیٹھ کر پھر کھانے پینے کی اشیا کو بھی آلودہ کر دیتے ہیں۔اسی سے تمہارے بچے بیمار ہیں۔ ہم انہیں اندازا تخمینہ لگا کر بتاتے ہیں کہ وہ بچوں کی بیماری پر کتنا خرچ کر رہے ہیں جبکہ اس سے کہیں کم پیسوں سے اور بعض جگہوں پر تومفت میں لیٹرین بنایا جا سکتا ہے۔ پہلے کچھ لوگ قائل ہوتے ہیں پھر دھیرے دھیرے پورا گاؤں قائل ہوجاتا ہے۔ایسے گاؤں جو کھلے میں رفع حاجت سے پاک ہوجاتا ہے اسے او ڈی ایف گاؤں کہتے ہیں یعنی

Open Defecation Free ۔اور وہ لوگ جو بلا معاوضہ رضاکارانہ طور پر یہ کام کرتے ہیں انہیں نیچرل لیڈر یا رضاکار (Barefoot ) کہا جاتا ہے۔اور یہ سارا عمل سی ایل ٹی ایس Community Led Total Sanitation کہلاتا ہے۔ سندھ میں اب تک مختلف تنظیموں کے زیر اہتمام 203 رضاکاروں کو تربیت دی گئی اور 720 گاؤں کے لوگوں نے کسی مدد کے بغیر اپنے گھروں میں لیٹرین تعمیر کیے اور یوں 504,000 افراد صفائی کے اس عمل میں شامل ہوگئے ۔ پنجاب میں 98 رضاکاروں نے تربیت حاصل کی اور 70 گاؤں کے 28,000 لوگ مستفید ہوئے۔ بلوچستان میں 39 رضاکاروں نے تربیت پائی اور 19گاؤں کے 10,640لوگوں نے فیض حاصل کیا۔ سرحد میں 124رضاکاروں نے تربیت حاصل کی اور 412 گاؤں کے 40,1700 افراد مستفید ہوئے ۔ اب تک تقریبا 1496 گاؤں صاف ہوئے اور 1.12ملین آبادی مستفید ہوئی۔اگرچہ یہ سارا عمل بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور کامیابیوں کی شرح بھی بہت تیز ہے مگر اسے اور تیز ہونا چاہیے کیونکہ ابھی تک 24 اضلاع میں صرف 500 رضاکار کام کررہے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ہماری تقریباپانچ کروڑافراد کو سینیٹیشن کی سہولت کی ضرورت ہے گویا کروڑوںافرادکے لیے صرف پانچ سو لوگ؟

پاکستان میں سینیٹیشن کے اقدامات کو اگر سرکاری سطح پر دیکھا جائے تو صورت حال کافی امید افزا نظر آتی ہے۔2002 میں جوہانسبرگ میں ہونے والی کانفرنس برائے پائیدار ترقی (WSSD)میں طے کیے گئے اہداف جنہیں ملینیئم ڈیولپمنٹ گول (MDG) کہا جاتا ہے ان کے مطابق 2015 تک ہر ملک کو اپنی آدھی سے زیادہ آبادی کے لیے صاف پانی اور سیوریج کی بہتر سہولت فراہم کرنا ضروری ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی 18%آبادی یعنی 1.2بلین لوگ لیٹرین کے استعمال کے بجائے کھلے علاقوں میں رفع حاجت کرتے ہیں۔

 اس حوالے سے حکومت پاکستان نے وفاقی اور صوبائی سطح پر سینیٹیشن کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے پالیسی سازی کے بہت سے اقدامات کیے ہیں جو درج ذیل ہیں۔

پہلی نیشنل سینیٹیشن پالیسی اکتوبر2006 میں منظور کی گئی۔سندھ کی سینیٹیشن اور سولڈ ویسٹ پالیسی نومبر2007 میں منظور ہوئی، اس پر مزید کام جاری ہے۔پنجاب حکومت کا اربن واٹر سپلائی پروگرام اور سینیٹیشن پالیسی ”صاف ستھرا پنجاب“ تیار ہے اور نئی حکومت کے جائزے کی منتظر ہے۔بلوچستان حکومت نے سینیٹیشن اسٹریٹیجی اپریل 2008 میں منظور کی اور اب اس کا پی سی ون بھی تیار ہوچکا ہے۔ سرحد میں پالیسی کا آخری ڈرافٹ تجزیے کے مراحل سے گذر رہا ہے ۔آزاد کشمیر اور فاٹا میں بھی کام جاری ہے۔سینیٹیشن کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے چاروں صوبوں میں CLTS کے تحت کام جاری ہے ۔یہ تمام گروپ وزارت ماحولیات کے زیر نگراںکام کررہے ہیں۔2008 کے سال کو سینیٹیشن کے سال کے طور پر منانا بھی ان ہی اقدامات کا حصہ ہے اور15اکتوبر کو عالمی سطح پر منایا جانے والا ”ہاتھ دھونے کا دن“ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

حکومت کی یہ تمام پالیسیاں اور اقدامات اپنی جگہ بہترین ہیں لیکن یہ ہم اور آپ سب جانتے ہیں کہ ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا اگر ان منصوبوں کے عمل درآمد میں مقامی آبادی شامل نہ ہو۔پاکستان نے اکیس ویں صدی میں جن مسائل کے ساتھ قدم رکھا ہے ان میں سب سے اہم مسئلہ غربت اور ناخواندگی ہے۔پاکستان کی آدھی آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے اورغربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ ماحولیاتی بگاڑ اور غربت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ماحول اور مقامی آبادی کے مسائل کو نظر میں رکھے بغیر کوئی ترقی پائیدار نہ ہوگی اور نہ ہی قدرتی وسائل کی خاطر خواہ حفاظت ہوسکے گی۔ مقامی افراد کی شراکت بہت جلد کسی بھی منصوبے کا دائرہ کار بڑھا دیتی ہے اور اگر ان منصوبوں میں خواتین کا کردارمرکزیت کا حامل ہو تو پھر سمجھ لیں کہ یہ ترقی پائیدار بھی ہوگی۔ CLTS کے رضاکار بھی یہی دہرا رہے تھے۔ہمیں ماننا ہوگا کہ تبدیلی آرہی ہے اور ذہنوں کے بدلتے ہی سچائی کسی صبح صادق کی طرح چمک اٹھے گی۔ہمیں ماننا ہوگا کہ ہمارے ماحول ،صحت و صفائی اورقدرتی وسائل کی بہترین منتظم اور محافظ عورت ہی ہے ۔یہ وسائل ہماری آنے والی نسلوں کی امانت ہیں اوربھلا ایک” ماں“ سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ آنے والی نسلوں کا خیال کس طرح رکھنا ہے۔سینیٹیشن کی صورت حال بہتر بنانے کے عمل میں بھی ہمیں عورت کے کردار کو بڑھانا ہوگا۔ شعور اور آگہی بانٹنے کے اس عمل میں ہر ماں ، ہر بیوی اور ہر بیٹی کو شامل کرنا ہوگا۔ہر طبقہ ءفکر کو آگے آنا ہوگا۔ اگر مٹھی بھر رضاکار جنہیں Barefoot بھی کہا جاتا ہے ہزار سے زائد گاؤں کا نقشہ بدل سکتے ہیں تو چند ہزار افراد ملک کا نقشہ بھی بدل سکتے ہیں۔ Barefoot کا لفظی ترجمہ ” ننگے پاؤں“ ہے اور یہ بہت برمحل ہے کہ یہ پر عزم رضاکار مشکلات کی چلچلاتی دھوپ میں بہت کم وسائل کے ساتھ ننگے پاؤں ہی تو چل رہے ہیں۔ یہ خوبصورت اصطلاح ہمیں حبیب جالب کی یاد دلارہی ہے۔

ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

اگر ہم نے ان رضاکاروں کا ساتھ نہ دیا اور یہ رضاکار تبدیلی نہ لاسکے تو یقین جانیے کہ ہر بلاول مقروض اور ہر بے نظیر کے پاؤں ننگے ہی رہ جائیں گے۔

 حبیب جالب کا یہ خوبصورت شعر ننگے پاؤں چلنے والے ہر رضاکار کے نام

Wednesday, November 19, 2008

سنیعہ حسین، ماحولیاتی صحافت کی علم بردار

جن کے روشن کیے ہوئے چراغ آج بھی جگمگا رہے ہیں

دھوپ ڈھل رہی تھی اور اگست کی خوش گوار شام پریس کلب کراچی کے سبزہ زار پر اتر رہی تھی۔باہر مختلف نعروں کا شور تھا اور اندر یادوں کا ہجوم تھا جو ذہن میں امنڈ رہا تھا۔ مہمانوں میں کوئی خالی ہاتھ نہ تھا۔کچھ یادیں ، کچھ باتیں، تصورات کے البم سے بہت سی تصویریں ابھر رہیں تھیں۔ گذرے ہوئے مہ و سال نے جنہیں دھندلا ضرور دیا تھا لیکن آج کی محفل نے پھر سے سب کچھ ترو تازہ کردیا تھا۔  یہ محفل سنیعہ حسین کی یاد میں ان کے دوستوں نے سجائی تھی۔سنیعہ اب ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی یادیں،ان کی باتیں اور دلنواز کھنکتی ہوئی ہنسی ابھی گذرے ہوئے کسی پل کی طرح سب کو یاد ہے۔

سنیعہ پاکستانی صحافی خواتین کے اولین کارواں میں شامل تھیں اور یہ وہ وقت تھا کہ صحافت کے شعبے میں کم از کم خواتین کے لیے بہت آسانیاں نہ تھیں۔مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا اور اپنے کام کو منوانا کسی جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا لیکن سنیعہ نے یہ کر دکھایا۔
 سنیعہ حسین نے اپنی عملی زندگی کا آغاز 80 کی دہائی میں انگریزی صحافت سے بطور ایڈیٹرکیا ۔ وہ ایک ذہین ، سمجھ دار اور متحرک شخصیت تھیں۔ ان کے زیر ادارت شائع ہونے والے اخبارکا معیار آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ان کی تحریریں فکری ارتقا کا شعور لیے ہوئے ہوتیں۔

 اس دور میں انہوں نے ملک کے سیاسی حالات و واقعات اور بلدیات و شہری ترقیات جیسے امور پر بھی شاندار شمارے شائع کیے۔ رائے عامہ کی بیداری کے ساتھ ساتھ وہ انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کی علمبردار تھیں۔

یہ وہ دور تھا جب ہمارے معاشرے اور خصوصا صحافت میں ماحول سے متعلق کسی قسم کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا تھا۔

برصغیر میں صحافت کی تاریخ اگرچہ بہت پرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1780ءمیں کلکتہ سے کمپنی کے ایک برطرف ملازم جیمز آگسٹس نے انگریزی زبان میں ایک ہفت روزہ اخبار شروع کیا اور جنوبی ایشیا میں جدید صحافت کا بانی ٹھہرا۔  اس کے اخبار کے بعد ہی کلکتہ ، مدراس اور بمبئی سے متعدد اخبارات شائع ہونے لگے۔مقامی زبانوں میں اخبارات کا اجرا 1822ءمیں اس وقت شروع ہوا جب کلکتہ سے جنوبی ایشیا کا پہلا اردو اخبار جام جہاں نما شائع ہونا شروع ہوا۔

1780 ءسے لے کر آج تک اخبارات نے ایک طویل سفر کیا ہے اور تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنے قارئین کی رہنمائی کی ہے۔1857ءکی جدوجہد ہو، تعلیمی مسائل ہوں یا آئینی پیچیدگیاں، امن و امان کا مسئلہ ہو یا فرقہ ورانہ چپقلش اخبارات نے ہمیشہ اپنے وقت کے اہم مسائل کو اہمیت دی ہے۔ برطانوی تسلط سے آزادی کی تحریک اور اس جدوجہد کے دوران مختلف قوموں کے نقطہ ءنظر کو عوام تک پہنچانے اور عوام کی سوچ اور ان کے رویوں کو ظاہر کرنے میں اخبارات نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔

برصغیر میں اخبارات کی ابتدا چونکہ ایک غیر ملکی سامراجی حکومت کے دور میں ہوئی تھی اس لیے صحافت میں سب سے زیادہ اہمیت آزادی کی تحریک اور عوام کا سیاسی شعور بلند کرنے کو دی جاتی رہی ہے۔ جنوبی ایشیا کے اخبارات ڈیڑھ سو سال سے زائد عرصے تک اس جدوجہد میں مصروف رہے اس لیے صحافیوں اور صحافت کو سیاسی تحریروں کی عادت ہوگئی ہے ۔

موجودہ دور میں بھی اخبارات اسی روایت پر عمل پیرا ہیں۔ سیاست کی قلابازیوں اور بازی گری میں پھنس کر بہت سی سماجی اور ترقیاتی مسائل خصوصا ماحولیاتی مسائل نظروں سے اوجھل ہو کر رہ جاتے ہیں۔آج تو پھر بھی منظر نامہ بہت بہتر ہے لیکن ہم بات کررہے ہیں 80ءکی دہائی کی جب یہ تذکرہ ہمارے لیے زیادہ مانوس نہ تھا۔اسی نا مہرباں دور میں سنیعہ نے ماحول کے حوالے سے کام شروع کیا۔

ماحولیاتی صحافت کا آغاز سنیعہ نے ہی کیا لیکن شاید اخبارات کی تنگ دامانی نے انہیں بہت جلد شعبہ بدلنے پر مجبور کردیا اور انہوں نے اپنی افتاد طبع کے عین مطابق تحفظ ماحول کے حوالے سے کام کرنے والے ایک بین الاقوامی ادارے آئی یو سی این سے وابستگی اختیار کرلی۔
 اب سنیعہ کے سامنے ایک کھلا آسمان تھا اور وہ اپنی من پسند اڑان بھر سکتی تھیں۔سنیعہ نے سب سے پہلے آئی یو سی این کے کنٹری آفس کراچی میں صحافیوں کے لیے ایک جرنلسٹ ریسورس سینٹر قائم کیا ۔ اس ادارے کا مقصد صحافیوں کو ماحولیاتی امور سے متعلق اعدادو شمار اور معلومات کی فراہمی کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی ماحولیاتی مسائل سے آگاہی اور حل کے حوالے سے تربیت فراہم کرنا بھی تھا تاکہ وہ ملک میں ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے رائے عامہ کی بیداری میں اہم کردار ادا کرسکیں۔ شاید وہ جانتی تھیں کہ تحفظ ماحول کے حوالے سے صحافی ہی ہر اول دستہ ثابت ہوں گے۔

 80ءکی دہائی کے آخر میں حکومت پاکستان نے بقائے ماحول سے متعلق’قومی حکمت عملی National  Conservation Strategy  کی تیاری شروع کی سنیعہ نے اس میں بھی بھرپور حصہ لیا۔

 ماحول کے حوالے سے وہ صحافیوں کے کردار کو انتہائی کلیدی سمجھتی تھیں اور رائے عامہ کی بیداری میں صحافت کو بہترین راستہ قرار دیتی تھیں۔ اسی خیال کے تحت انہوں نے ملک کے مختلف شہروں میں صحافیوں کے لیے ماحولیاتی امور سے متعلق کئی تربیتی ورکشاپ بھی منعقدکروائیں۔ ان کی یہ سوچ اور فکر کتنی صحیح تھی آج اس سچائی کی گواہی میں اور مجھہ جیسے بہت سے قلم کار مسلسل ماحول پر لکھ کر دے رہے ہیں۔ آج ملک میں ماحولیاتی صحافت کی جو روایت قائم ہے یقینا اس کاسلسلہ سنیعہ حسین سے جڑتا ہے ۔

1995 تک میرا تعلق بھی ماحول سے اتنا ہی تھا کہ یہ میرے نزدیک درخت، پودوں اور پرندوں کا دوسرا نام تھا لیکن سنیعہ، عمر آفریدی ( بی بی سی کے پروڈیوسر) اور محترم عبید اللہ بیگ (کسی تعارف کے محتاج نہیں) کے زیر تربیت ہونے والی فیصل آباد کی ایک ورکشاپ نے میری سوچ و فکر کو ایک نیا عنوان عطا کیا۔دل و دماغ میں گویا نئے دریچے کھل گئے اور کام کرنے کے لیے ایک نیا جہاں مل گیا۔  یہ پانچ روزہ ورکشاپ فیصل آبادکے مضافات ’گٹ والہ‘ میں جنگلات اور جنگلی حیات کی اہمیت کے حوالے سے منعقد کی گئی تھی لیکن تربیت کاروں کی بہترین صلاحیت نے ہم سب شرکا کو ماحول کے حوالے سے ایک اٹوٹ رشتے میں باندھ دیا ۔میں اس حوالے سے سنیعہ ،عمر اور بیگ صاحب کی کاوشوں کو فراموش نہیں کرسکتی۔ گمبھیراور پیچیدہ مسائل کو سادہ لفظوں میں آسان بنانا اور اس پر غور و فکر کے لیے راہ ہموار کرنا ان سب کا مشترک خاصہ تھا ۔

 سنیعہ کی متحرک اور توانائی سے بھرپور شخصیت نے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑے ، ان سے تعلق کا یہ سلسلہ جاری رہا اور ماحول اور اس کے مسائل پر قلم اٹھانا میرا مشن بن گیا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔

 1998 میں سنیعہ جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن چلی گئیں ، جہاں انہوں نے دو سال عالمی کمیشن برائے ڈیمز میں خدمات انجام دیں۔اس کے بعد وہ نیپال چلی گئیں ،جہاں بین الاقوامی نیوز ایجنسی پانوس کے ریجنل ہیڈ کوارٹر میں ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا کے طور پر خدمات انجام دیں

2005 ءمیں سنیعہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں، وہ آج ہم میں نہیں ہیں لیکن ایسے متحرک لوگ اپنی چھوٹی سی زندگی میں ہی بہت سے چراغ جلا دیتے ہیں اور اپنے بعد آنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کردیتے ہیں۔

 سنیعہ کے اسی کام کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کے گھر والوں اور دوستوں نے ان کے نام سے ایک ادارہ  سنیعہ حسین ٹرسٹ قائم کیا ہے جو ضرورت مندخواتین کی تعلیم اور صلاحیتوں کی تربیت کے لیے کام کرے گا۔

 پریس کلب کے سبزہ زار پر شام ڈھل رہی ہے ، سنیعہ کے چاہنے والے اپنی یادوں کو الفاظ کا روپ دے رہے ہیں ، سحر علیِ، ساحرہ کاظمی، مہتاب اکبر راشدی ، زبیدہ مصطفی ،سنیعہ کی والدہ ، بہنیں اور بہت سے دوست  ۔۔۔ یادوں کا طویل سلسلہ ہے، درختوں پر پرندوں کی چہچہا ہٹ بڑھ رہی ہے شاید وہ بھی اس بچھڑنے والی ماحول دوست کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔

Wednesday, October 29, 2008

خطرات میں گھرے جنگلات

 کیا کسی سیاسی منشور میں جنگلات کا تحفظ شامل ہے؟ 
      
کسی بھی ملک و قوم کی خوش بختی اور خوش حالی کا اندازہ اس کے زر مبادلہ کے ذخائر سے نہیں بلکہ اس کے قدرتی وسائل سے کیا جاتا ہے۔قدرتی وسائل ہی وہ اصل خزانہ ہیں جس سے اس ملک کے کھیت کھلیان سر سبز ، دریاؤں میں رواں دواں پانی اور لوگوں کے چہروں پر خوشی اور مسرت کے رنگ جھلملاتے ہیں۔زمین پر زندگی کے تمام رنگ ان ہی قدرتی وسائل کے مرہون منت ہیں۔ مالا مال سمندر دریا، دنیا کے بلند پہاڑ ان کے دامن میں جھومتے بارشوں کو کھینچتے سیکڑوں سالہ قدیم درخت ، زرخیز مٹی کے میدان ،سر سبز کھیت کھلیان اور رنگ برنگا حیاتی تنوع ہی ہماری اصل دولت ہے۔انسان دراصل دو گھروں کا مکین ہے ، ایک اس کا گھر اور دوسرا کرہ ارض ۔ ہمیں دونوں گھروںکا یکساں تحفظ کرنا ہے لیکن ہم نے اپنی عاقبت نا اندیشی سے اپنے ان دونوں گھروں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

 فطرت کی زبان سمجھنے والے بے آب و گیاہ دھول اڑاتے میدانوں اور خشک جھاڑیوں پر لکھی یہ تحریر پڑھ لیتے ہیں کہ کوئی تو ہے جس نے قدرت کے مکمل اور متوازن ماحول کو اس مقام تک پہنچایاہے۔ زمینی وسائل کے استعمال اور قدرتی ماحول کے درمیان ایک نہایت مضبوط تعلق موجود ہے اور انسانی سرگرمیاں جب قدرتی ماحول میں خلل ڈالتی ہیں تو ہرے بھرے مناظر کو صحراؤں میں تبدیل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ درخت یا جنگلات بظاہر ہمارے لیے ایک عام سے وسائل ہیں لیکن زمین کا تمام تر فطری ماحولیاتی نظام ان ہی کے گرد گھومتا ہے۔یہی موسموں کے جن کو قابو میں رکھتے ہیں۔ جنگلات کو اگر ماحول کا نگہبان کہیں تو زیادہ غلط نہ ہوگا۔یہ بڑے پیمانے پر فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں ،درجہ حرارت اور بارش کو قابو میں رکھتے ہیں۔ان کی جڑیں زمین کو مضبوطی سے تھامے رکھتی ہےں۔ بے شمار جانور اور پرندوں کے لیے فطری مساکن اور لاکھوں افراد کے لیے وطن کا کام کرتے ہیں۔نباتات اور حیوانات کی یہ رنگا رنگی خوراک کی زبردست دولت اور انسانی صحت کے لیے بیش بہا دوائیں فراہم کرتی ہے۔جنگلات سے ایندھن اور تعمیرات کے لیے لکڑی، حیوانات کے لیے چارہ، پھل،شہد، ،حیوانی پروٹین ،دواؤں کے عروق اور دوسری بہت سی خام اشیا مثلا گوند ، موم اور سریش وغیرہ حاصل ہوتے ہیں۔ یہ جنگلات کروڑوں مویشیوں ، بکریوں، بھیڑوں اور اونٹوں کے لیے چارے کی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں۔


 ملک کے بڑے بڑے آب گیر علاقوں( واٹر شیڈز) میں اگنے والا یہ حفاظتی پردہ نہ صرف ماحولیاتی نظاموں کو برقرار رکھتا ہے بلکہ مٹی کو اپنی جگہ قائم رکھ کر سیلابوں کے مقابلے میں رکاوٹ کاکام بھی دیتا ہے۔ شجر کاری کے حوالے سے حضور اکرم ﷺ کی صاف اور صریح ہدایات موجود ہیں ۔ ان کے مطابق مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر شجر کاری کی ترغیب دی گئی ہے۔اسلام نے درخت لگانے اور نباتات کی حفاظت کرنے کو کار ثواب( صدقہ) قرار دے کر نہ صرف دنیاوی فوائد بلکہ آخرت کے لیے سعادت کا حصول قرار دیا ہے۔

لیکن ان جنگلات سے کیا سلوک کیا جاتا ہے ذرا دیکھیے تو:

 کہا جاتا ہے کہ 30 فٹ بال گراؤنڈ کے مساوی جنگل کا رقبہ ہر منٹ کاٹا جاتا ہے۔گذشتہ کئی سالوں سے جنگلات کا خاتمہ یعنی دیسی جنگلوں اور لکڑی کے ذخائر کی مستقل تباہی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔پہلے ہی قدیم اور خالص جنگلات کا ایک تہائی حصہ صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے اور اب دنیا کے قدیم جنگلوں کا صرف40%حصہ ہی باقی بچا ہے۔جنگلوں کادو تہائی حصہ بنیادی طور پر بدل چکا ہے۔اس ضمن میں زیادہ تر نقصان پچھلے 45 سال میں ہوا ہے۔ایشیا میں منطقہ کے 42% اصلی جنگل ختم ہوگئے ہیں۔ یورپ میں ابتدائی جنگلات کا صرف 1%حصہ باقی رہ گیا ہے۔ہمالیہ کے دامن میں جو کبھی صنوبر، شاہ بلوط اور کنیر کے درختوں سے بھرا ہوتا تھا، اب اصلی جنگلوں کا 4% حصہ رہ گیا ہے۔افریقہ کے براعظم میں سب سے بڑھ کر جنگلات کا خاتمہ عمل میں آیا ہے۔مرکزی افریقہ کے بارش والے جنگل کا آدھا حصہ صاف ہوچکا ہے۔ مغربی افریقہ جو کبھی منطقہ حارہ کی عمارتی لکڑی سے مالا مال ہوا کرتا تھا اور تقریبا خالی ہوچکا ہے۔امیزون کے بارانی جنگل بھی تیزی سے گھٹتے جارہے ہیں۔سائنس دانوں کے مطابق ان بارانی جنگلات کے رقبے میں کمی سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھے گی اور جنگل میں لگنے والی آگ کی شرح بھی بڑھے گی۔برازیل کے علاقے میں واقع امیزون جنگل کی خلائی سیارے کی مدد سے لی گئی تصاویر اور جائزوں سے پتا چلا ہے کہ یہاں تقریبا ساڑھے پندرہ سو مربع کلو میٹر پر واقع درختوں کوسالانہ کاٹ دیا جاتا ہے۔یوں دنیا کے گھنے ترین بارانی جنگل کا مستقبل خطرے سے دوچار ہے۔

 پاکستان میں اس قیمتی قدرتی وسیلے سے مزید بد تر سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

پاکستان کا شماران ممالک میں ہوتا جہاں دنیا میں سب سے کم جنگل پائے جاتے ہیں۔یعنی اس کی خشکی کے مجموعی رقبے کا صرف 4.8 فیصد ہے جو بہت کم ہے اور حکومت اسے 2011ءمیں بڑھا کر 5.7 فیصد تک پہنچانا چاہ رہی ہے۔یہ محدود وسیلہ بھی کئی سالوں سے دباؤکا شکار ہو رہا ہے۔

ہر سال حکومت سرکاری سطح پر شجر کاری مہم دھو دھام سے شروع تو کرتی ہے لیکن جتنا کثیر سرمایہ اس پر خرچ ہوتا ہے اس کے مقابلے میں نتائج چند فیصد بھی برآمد نہیں ہوتے ۔اور آئندہ سال جب یہ مہم ایک بار پھر شروع ہوتی ہے تو پچھلے سال کے نتائج قصہ پارینہ سمجھ کر بھلا دیے جاتے ہیں۔

   پاکستانی جنگلات کو تعریف کے لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔پیداواری جنگلات (Productive  Forest) اور محفوظ جنگل (Protected Forests)۔  پاکستان کے اہم جنگلات میں سندھ میں موجود ساحلی جنگلات،دریائی جنگلات، بلوچستان کے چلغوزے اور صنوبر کے جنگلات،شمالی علاقوں کے جنگلات اور آزاد کشمیر کے جنگلات شامل ہیں۔

پاکستان کے ہر شعبے کی طرح جنگلات کے شعبے کو بھی کرپشن کی دیمک چاٹ گئی ہے۔یہ قیمتی وسیلہ سیاسی اثر رسوخ اور مجرموں کی سر عام سرپرستی کے باعث ہمیشہ غیر محفوظ رہا ہے۔اس قیمتی دولت سے فائدہ نہ اٹھانے والے کو عرف عام میں بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔سندھ کے دریائی جنگلات جنہیں کچے کے جنگلات بھی کہا جاتا ہے شدید خطرات سے دوچار ہیں۔یہ جنگلات دریائے سندھ کی گذر گاہ کے کنارے اور نواحی علاقوں میں واقع ہیں اور دریائے سندھ کے سیلابی پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔یہ جنگلات ٹمبر مافیا کے لیے خزانہ ہیں۔فرنیچر اور ایندھن کے لیے یہاں سے بے دریغ درخت کاٹے جاتے ہیں۔ کچے کی لکڑی فرنیچر سازی کے لیے بہترین سمجھی جاتی ہے۔ان علاقوں میں ٹمبر نافیا کا بہت اثر رسوخ ہے اور بغیر کسی نئی شجر کاری کے درختوں کی کٹائی زور شور سے جاری ہے۔اس کا نتیجہ ہم سب بارشوں کی کمی اور خشک سالی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔حالیہ بارشوں سے قطع نظر سندھ کئی سالوں سے خشک سالی کا بد ترین عذاب بھگت رہا تھا خصوصا تھر اور بلوچستان کے علاقے۔دریائے سندھ میں پانی کی کمی سے زراعت کے لیے بھی پانی نا کافی تھا۔ٹیوب ویلوں سے پانی کا حصول نا ممکن ہوچلا تھا کیونکہ بارشوں کی کمی سے زیر زمین پانی بھی کم ہوگیا تھا۔آج کل سندھ کے یہ جنگلات ڈاکوں کی پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں۔گھنے جنگلات کے باعث ا ن ڈاکوؤں تک پہنچنا اور ان پر قابو پانا قانون کے محافظوں کے لیے مشکل تھا لہذا حکومت نے یہ ”بہترین“ حل ڈھونڈا کہ ان جنگلات کا ہی صفایا کردیا جائے تاکہ نہ جنگل ہوگا اور نہ ڈاکو ان میں چھپیں گے۔ایسے ”بہترین“ فیصلے ملک و قوم کے مفاد میں آئے دن کیے جاتے ہیں۔

سیاسی اثر رسوخ بھی ٹمبر مافیا کی حوصلہ افزائی کا ایک سبب ہے۔

بلوچستان کا صرف% 1.7رقبہ جنگلات کے زیر سایہ ہے تاہم یہاں کے صنوبر کے جنگلات اسے اہم مقام بخشتے ہیں۔دنیا بھر میں پائی جانی والی صنوبرکی 25 اقسام میں سے 4اقسام پاکستان اور بھارت میں ہمالیہ کے پہاڑوں پر پائی جاتی ہیں ۔ صنوبر کی کچھ اقسام دنیا بھر میں صرف بلوچستان میں پائی جاتی ہیں۔ان جنگلات کا شمار دنیا کے قدیم ترین جنگلات میں پوتا ہے اور ماہرین بلا مبالغہ ان درختوں کی عمروں کا تخمینہ ہڑاروں سال لگاتے ہیں۔لیکن شعور اور آگہی کی کمی اور اور متبادل سہولت نہ ہونے کے باعث یہ نایاب درخت بھی ایندھن کے لیے کاٹ لیے جاتے ہیں۔اگرچہ قانوناً ان درختوں کی کٹائی منع ہے لیکن ان پر چلتے تیز دھار کلہاڑے ان درختوں کے ساتھ ساتھ قانون کی بھی دھجیاں اڑاتے ہیں۔شمال میں پہاڑوں کے دامن میں موجود جنگلات ہمارے آبگیر علاقوں کے تحفظ کا سبب ہیں ۔ان جنگلات کے باعث بارش اور تیز رفتار سیلاب کی رفتار کم ہوجاتی ہے اور مٹی بھی مضبوطی سے جمی رہتی ہے۔اگر یہ درخت نہ ہوں تو بارش کا پانی تیز رفتاری سے انسانی آبادیوں کو بہا لے جائے گا اور مٹی کے بہنے سے ہمارے ڈیم مٹی سے بھر کر اپنی کارکردگی کھو بیٹھیں گے۔منگلا اور تربیلا ڈیم اس کی مثال ہیں۔ 2005 کے زلزلے کے نتیجے میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ چٹانی اور مٹی کے تودوں کے گرنے سے ہونے والی اموات کی شرح سب سے زیادہ ان علاقوں میں رہی جہاں جنگلات کا صفایا ہوچکا تھا۔

 فاریسٹری سیکٹر ماسٹر پلان کے مطابق ’شمالی پاکستان اور صوبہ سرحد میں ہر سال جنگلات کی کٹائی کے نتیجے میں ہونے والے ہوائی اور آبی کٹاؤ کے سبب کم از کم40 ملین ٹن مٹی سندھ طاس کے بہاؤ  میں شامل ہوجاتی ہے اور 11ملین ہیکٹر زمین متاثر ہوتی ہے۔‘خشک اور نیم بنجر ارضیاتی کیفیت اور دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتی ہوئی صحرا زدگی کے باعث جنگلات میں ہونے والی یہ کمی نہایت تشویش ناک امر ہے۔
اگرچہ جنگلات کا شمار قابل تجدید وسائل میں کیا جاتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم انہیں کاٹے جائیں اوریہ ختم نہ ہوں۔اگر وہ اس رفتارسے کاٹے جائیں جو ان کی دوبارہ نشو و نما کی رفتار سے زیادہ ہو تو ہمارے جنگلات کے وسائل جلد ہی مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔جنگلات کے خاتمے کے اثرات مختصر المعیاد اور طویل المعیاد دونوں ہی ہوتے ہیں ۔جنگلات تمام ماحولیاتی نظاموں کو سہارا دیتے ہیں اورزمین پر زیادہ تر نباتاتی اور حیواناتی حیات کا فطری مسکن ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر ہم نہ صرف ان بیش بہا وسیلے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے بلکہ اس خدمت سے بھی محروم ہوجائیں گے جو یہ جنگل ہم انسانوں کو فراہم کرتے ہیں۔یہ بات شو رکی آلودگی میں بھی اضافہ کردے گی کیونکہ درخت مصروف شاہراہوں اور انسانی آبادیوں سے آوازیں جذب کرکے صوتی اور صوری پردوں کا کام انجام دیتے ہیں۔مختصرا یہ کہ جنگلات کی بربادی پانی اور کاربن کی گردش کودرہم برہم کردے گی اور اس طرح عالمی آب و ہوا بدل جائے گی اور کرہ حیات پر حیات کے لالے پڑ جائیں گے۔یاد رہے کہ 2050 تک دنیا بھر کے تقریبا ایک ارب افراد موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بے گھر ہو سکتے ہیں جس سے عالمی نوعیت کے سنگین مسائل جنم لیں گے۔

  ہمارے قدرتی وسائل اہم قومی سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔مثلا آزاد کشمیر اور دیر کوہستان کے جنگلات کو قابل استعمال ہونے میں سیکڑوں سال لگتے ہیں۔بلوچستان میں پائے جانے والے صنوبر کے جنگلات کی عمریں ہزاروں سالوں پر محیط ہیں۔یہ اگر ایک دفعہ ہم سے رخصت ہوگئے تو یقین جانیے کہ ہماری کئی نسلیں انہیں دیکھ نہیں سکیں گی۔یہ جنگلات ہماری مٹی کی زرخیزی اور پیداواری صلاحیت کے بھی نگہبان ہیں۔زرخیز مٹی کا پانی یا ہوا سے ضائع ہوجانا بھی کسی بڑے نقصان سے کم نہیں ہے کیونکہ مٹی قدرتی طور پر مختلف ماحولیاتی اثرات کے تحت ایک طویل جغرافیائی عمل سے گذر کر صدیوں میں تشکیل پاتی ہے۔

  جنگلات میں ہی نشوو نما پانے والے ایک اور اہم قدرت وسیلے یعنی ادویاتی پودوں کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ پاکستان میں دو ہزار سے زائد ادویاتی پودے پائےجاتے ہیں لیکن فرسودہ طریقوں اور قدرتی ماحول میں انسان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اس وسیلے سے خاطر خواہ استفادے سے محروم کر دیتی ہیں۔

 ہمارے ملک میں الیکشن کا موسم ہے۔ آئے دن کسی نہ کسی پارٹی کا منشور منظر عام پر آرہا ہے لیکن ہمیں حیرت ہے کہ کسی کی بھی ترجیحات میں ماحول کا تحفظ یا کسی قدرتی وسیلے کی بحالی شامل نہیں ہے۔ شاید ان معزز لوگوں کے نزدیک یہ گھٹیا مسائل صرف غریبوں تک محدود ہیں۔لیکن شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ ایک کرہ ارض کے باسی ہونے کے سبب ہر مسئلہ ان تک ضرور پہنچے گا اور متاثر کرے گا ، یہ الگ بات ہے کہ یہ ’بڑے لوگ‘ اپنی رہائش کے لیے کسی اور سیارے کا انتخاب کرلیں۔اگر واقعی کوئی لیڈر ہوتااور اس کے دل میں ملک و قوم کا درد ہوتا تووہ ضرور اس طرف توجہ دیتا۔ 2004 کا نوبل انعام حاصل کرنے والی افریقی ماہرماحولیات ونگاری ماتھائی ان سب کے لیے روشن مثال بن سکتی ہے۔1977 سے کام کا آغاز کرنے والی ماتھائی افریقہ کی پہلی پی ایچ ڈی خاتون بھی ہیں۔انہوں نے بے دریغ کٹائی کے خلاف اور تیزی سے کم ہوتے جنگلات کے تحفظ کے لیے ایک ’سبز تحریک‘(Green Movement)کا آغاز کیا۔ونگاری نے تیس سال کے عرصے میں کینیا میں تیس کروڑ درخت لگائے۔شاید پاکستان کو بھی ایک ونگاری ماتھائی کی ضرورت ہے۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ کے حوالے سے کام کرنے والی ایک ویب سائٹ نے اپنا تجزیہ(CO2 foot print) پیش کیا ہے کہ ایک فرد جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے اسے 5 درخت لگا کر جذب کیا جاسکتا ہے ، گویا ہر فرد پانچ درخت لگا کر فضا سے اپنے حصے کی کاربن ڈائی آکسائیڈ صاف کرسکتا ہے۔چلیے پانچ نہ سہی لیکن18 کروڑ عوام ایک ایک درخت تو لگا ہی سکتے ہیں ۔۔۔


توآئیے کسی لیڈر کسی حکومت کا انتظار کیے بغیر ہم اپنے حصے کا کام کرجائیں۔

Thursday, September 18, 2008

ماحول اور قران کی گواہی

اہل مغرب اپنے آپ کو ماحول کے تحفظ کا علمبردار سمجھتے ہیں مگر وہ اس بات سے لا علم ہیں کہ تحفط ماحول اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔قران کریم اور احادیث نبوی ﷺ میں بار بار پاکیزگی اور صفائی کی تاکید کی گئی ہے۔حتی کہ اہل مغرب کی سوچوں سے بڑھ کر اسلام نے معاشرتی اور روحانی ماحول کے اصول بھی واضح کردیے ہیں۔ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم ان اصولوں کو اپنائیں اور ان پر عمل کریں۔یہ بات بھی اکثر مشاہدے میں آئی ہے کہ علمائے کرام اپنے درس و تدریس اور خطبوں میں ماحول سے متعلق اسلامی تعلیمات پر خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے۔نتیجتاً ایک طرف تو عوام الناس ماحول سے متعلق اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ رہتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے آفاقی مذہب اسلام کا پیغام بھی اہل مغرب یا دیگر غیر اسلامی ممالک تک نہیں پہنچ پاتا ہے ۔اس کمی سے یہ تاثر ملتا ہے کہ خدانخواستہ اسلام ماحولیاتی مسائل اور ماحول کے تحفط کی اہمیت کا احاطہ نہیں کرسکا اور یہ کہ یہ سب افکار و تعلیمات جدید سائنسی علوم کے مرہون منت ہے ۔



قران اللہ تعالی کا کلام ہے اور اس بات میں ہم مسلمانوں کو کوئی شک و شبہہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اسے آپ جوں جوں پڑھتے جاتے ہیں اس کے معنی نت نئے ڈھب سے آپ پر آشکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔قرآن کا عرصہ نزول 23 برس کے طویل عرصے پر محیط ہے۔اس طویل عرصے کے باوجود اس میں بلا کا ربط اور لسانی خوبصورتی ہے۔تمام تہذیبوں میں تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے اہم ذرائع میں ادب اور شاعری سر فہرست رہے ہیں۔دنیا کی تاریخ میں ایسے زمانے بھی گذرے ہیں جب شاعری اور ادب کو ویسا ہی اعلی مقام حاصل تھا جیسا کہ آج کے دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو حاصل ہے۔غیر مسلم ماہرین لسانیات تک کا اس پر اتفاق ہے کہ عربی ادب کا بلند پایہ نمونہ قران پاک ہی ہے ۔یعنی روئے زمین پر عربی ادب کی بہترین سے بھی بہترین مثال صرف قران پاک ہے۔نوع انسانی کو قران پاک کا چیلینج ہے کہ وہ آیات قرانی کے ہم پلہ کچھ بنا کر دکھائے ۔دیکھیے اللہ تعالی کتنے واشگاف الفاط میں کہتے ہیں کہ”اور اگر تمھیں اس امر میں شک ہو کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے ،یہ ہماری ہے یا نہیں تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ،اپنے سارے ہم نواؤں کو بلالو ،ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو مدد لے لو،اگر تم سچے ہو تو یہ کام کر دکھاؤ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ،اور یقینا کر بھی نہیں سکتے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے پتھر اور انسان ۔جو مہیا کی گئی ہے منکرین حق کے لیے۔“ (سورہ 2 آیات نمبر 23 تا 24)۔یہ چیلینج قران پاک میں کئی مقامات پر دیا گیا ہے صرف ایک ایسی سورت بنانے کا جو اپنی خوبصورتی ،خوش بیانی ،معانی کی وسعت اور فکر کی گہرائی میں قران پاک کی برابری کرسکے ،اور آج تک یہ چیلنج پورا نہیں کیا جاسکا ہے۔

عربی دنیا کی وہ منفرد زبان ہے جو اپنے قواعد کے اعتبار اور تلفط اور ہجوں کے لحاط سے بھی ایک کامل و اکمل زبان ہے اور یہ اپنے ذخیرہ الفاظ کے لحاظ سے عدیم النظیر ہے۔ اس کی مشہور لغات مثلا لغت صحاح جوہری چالیس ہزار مادہ ہائے الفاظ پر مشتمل ہے جبکہ قاموس فیروز آبادی میں اسی ہزار مادے جمع ہیں اور تاج العروس سید مرتضی زبیدی کے مادہ ہائے الفاظ کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہے۔مندرجہ بالا تعداد صرف مادہ ہائے الفاظ کی ہے جبکہ ان میں سے ہر ایک مادہ سے درجنوں مشتقات نکلتے ہیں ۔یعنی اگر مشتق الفاظ کو شامل کر لیا جائے تو ان کی تعداد کروڑوں تک پہنچ جاتی ہے ۔عربی زبان میں ایک ایک چیز کے لیے درجنوں الفاظ موجود ہیں مثلا دن کے ہر گھنٹے کے لیے عربی میں جداگانہ نام ہے ،اسی طرح ہر چاندنی رات کا ایک خاص نام ہے ۔صرف پانی کے لیے 170الفاظ ،بارش کے لیے64اور ابر کے لیے 50الفاظ ہیں ۔قران کی زبان عربی دنیا کی تیسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے ۔اس سے پہلے کی قدیم زبانیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں مثلا آریہ کی الہامی زبان سنسکرت ،یہودیوں کی مقدس زبان عبرانی ،عیسائیوں کی لاطینی زبان ،مجوسیوں کی ژندی زبان ،فراعنہ مصر کی قبطی زبان اور بابل و شام کی آشوری اور سریانی اور ہومر کی یونانی وغیرہ۔یہ شرف عربی ہی کو حاصل ہے کہ آج بھی اس آفتاب لا زوال کی تابندہ شعاعیں عالم پر محیط ہیں ۔عربی زبان زندہ ہے اور جب تک دنیا باقی ہے یہ زندہ رہے گی۔

اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔قران اگرچہ 1400سال پہلے نازل ہوا لیکن اس کی حقانیت رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گی اور جب جب اس کا جائزہ لیا جائے گا یہ اس دور کے عین مطابق ثابت ہوگا ۔ قران متعدد تاریخی واقعات کا حوالہ دیتا ہے جو اس وقت کسی کے علم میں نہیں تھے۔لیکن وہ درست ثابت ہوئے۔ اس طرح قران کریم متعدد پیش گوئیاں بھی کرتا ہے اور یہ تمام پیش گوئیاں حرف بہ حرف پوری ہوئیں۔اسی طرح بہت سے ایسے سائنسی حقائق کا ذکر بھی قران میں موجود ہے جو اس وقت لوگوں کے علم میں ہی نہیں تھے۔لیکن آج سائنس داں اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔ہماری اس بات کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ قران کوئی سائنسی کتاب ہے لیکن اس کے باوجود اس میں کم از کم 1000ایسی مثالیں موجود ہیں جن کا براہ راست سائنس سے تعلق بنتا ہے۔ اگر ہم صرف ماحول کے حوالے سے ہی دیکھیں تو تحفظ ماحول اور ہر قدرتی وسیلے سے متعلق تفصیلی تذکرہ موجود ہے ۔ پانی ،اس کی اقسام ،پانی کے ذخائر کی تفصیل مثلا دریا ،سمندر ،جھیلیں،چشمے ،پانی کی صفائی و پاکیزگی،استعمال کے آداب وغیرہ۔ حیاتیاتی تنوع اور اس کی اہمیت ،درختوں کی اہمیت ،شجر کاری کے فوائد، نباتات پر اثر انداز عوامل ،پودوں کی اقسام بلحاظ ساخت،نباتات اور انسانی ساخت۔ زمین کی اہمیت اس کی حفاظت، سیاحت،پہاڑ، فضا اوراس کی اہمیت۔غرض یہ کہ ہرشعبے پر آپ کومطلوبہ تفصیل مل جائے گی۔ طوالت کے خوف سے ہم صرف ایک قدرتی وسیلے یعنی پانی کوموضوع بحث بنا رہے ہیں البتہ اس حوالے سے ہماری تحقیق جاری ہے جو ہم وقتا فوقتا آپ کے لیے پیش کرتے رہیں گے۔

آج یہ بات سب جانتے ہیں کہ پانی زندگی کے لیے لازم و ملزوم ہے، پانی کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ دریا، سمندر اور جھیلوں کے کنارے ہی انسانی تہذیب پھلتی پھولتی اور نشوونما پاکر ترقی یافتہ معاشروں میں ڈھلتی رہی ہے۔حیات کی کسی بھی اکائی کا پانی کے بغیر تصور ممکن نہیں۔سائنس داں آج بھی دوسرے سیاروں پر کمند ڈالتے ہوئے سب سے پہلے پانی ہی کا امکان ڈھونڈتے ہیں۔ پانی کی اسی اہمیت کو قران ڈیڑھ ہزار سال پہلے ہی واضح کرچکا ہے۔دیکھیے سورہ الانبیاکی آیت نمبر 30 اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی اور سورہ نور میں ارشاد ہے  اور اللہ نے ہر جان دار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیے۔

 قران کی اس بات سے آج کے سائنس داںسو فیصد متفق ہیں۔

 Bernard Palac نامی سائنس داں نے 1580 میں water cycle یعنی آبی چکر بیان کیا تھا۔ لیکن اس انکشاف سے ایک ہزار سال پہلے قران نے متعدد مقامات پر آبی چکر کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔قران بتاتا ہے کہ پانی سمندروں کی سطح سے بخارات بن کر اٹھتا ہے ۔بادلوں میں تبدیل ہوتا ہے ،بادل بلآخر کثیف بن جاتے ہیں ،ان میں بجلیاں چمکتی ہیں اور ان سے بارش ہوتی ہے۔

سورہ مومنون میں ارشاد ہوتا ہے:

اورآسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا ، ہم اسے جس طرح چاہے غائب کرسکتے ہیں۔ المومنون  18

سورہ روم میں وضاحت ہے:

اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اٹھاتی ہیں ، پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے جس طرح چاہتا ہے انہیں ٹکڑیوں میں تقسیم کرتا ہے ۔پھر تو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں سے ٹپکے چلے آتے ہیں۔یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے برساتا ہے تو وہ یکایک خوش و خرم ہوجاتے ہیں۔الروم 78

اور دیکھیے:

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا پھر اس پانی سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں۔ ( سورہ الزمر 21 (

اپنی ایک یگانہ روز گار کتاب حیاتیاتی چیزوں کی انفرادیت میں معروف سائنس داں(بائیو کیمسٹ) پروفیسر نیڈہم نے لکھا ہے کہ زندگی کے وجود کے لیے سیال چیزیں بے حد ضروری ہیں کیونکہ ٹھوس چیزوں میں ایٹمی ذرے بہت قریب ہوتے ہیں۔اوروہ کبھی بھی حرکی قوت ،قوت عمل رکھنے والے سالماتی عمل اور رد عمل کی اجازت نہ دیتے جس کی زندہ رہنے والے ہر فرد کو عمل کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ زندگی کی تحریک کے لیے فعال ہونا بے حد ضروری ہے۔آسان لفظوں میں یہ کہ زندگی کی فعالیت کے لیے سیالی ماحول بے حد ضروری ہے اور پانی اللہ تعالی کی تخلیق میں بے حد خوبصورت اور کار آمد چیزہے۔ پانی کے خواص کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ ہر دور میں سائنس دانوں کے لیے حیران کن رہی ہیں۔تمام موجودات میں جیسے جیسے ان کا درجہ حرارت نیچے آتا ہے سکڑتی چلی جاتی ہیں  حجم میں کمی کا مطلب ہے کہ چیزوں کی کثافت بڑھ جاتی ہے  ۔اس کے برعکس پانی سکڑتا ہے اور جب اس کا درجہ حرارت 4 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جائے تو اس حد تک پہنچنے کے بعد پانی پھیلتا ہے اور حجم میں بڑھتا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ ٹھوس حالت میں پانی کا حجم کم ہوتا ہے بہ نسبت مائع حالت کے۔اگراس کو دیکھا جائے تو اپنی منجمد حالت میں برف کو پانی میں ڈوبنا چاہیے مگر ہوتا اس کے برعکس ہے۔

اللہ تعالی کی حکمت دیکھیے کہ پانی کی یہ خصوصیت سمندروں کے لیے بے حد اہم ہے۔اگر پانی میں یہ صفت نہ ہوتی تو زمین پر پانی منجمد ہوجاتا اور جھیلوں ، سمندروں میں زندگی ممکن نہ ہوتی۔اگر اس حقیقت کو ہم تفصیل سے ملاحظہ کریں تو دنیا کے کئی خطوں میں موسم سرما میں جبکہ درجہ حرارت منفی سے بھی نیچے آجاتا ہے اور یہ حالت جھیلوں اور سمندروں پر بھی یکساں اثر انداز ہوتی ہے اور ان جگہوں کا بھی درجہ حرارت گر جاتا ہے۔پانی کی ٹھنڈی تہہ نیچے بیٹھ جاتی ہے اور گرم تہہ اوپر آجاتی ہے۔جہاں وہ بھی ہواؤں سے ٹھنڈی ہوجاتی اور دوبارہ نیچے بیٹھنا شروع ہوجاتی ہے لیکن 4 ڈگری سینٹی گریڈ پر یہ سائیکل ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ یہاں پانی دوبارہ پھیلنا شروع ہوجاتا ہے۔جس کے سبب وہ پھر ہلکا ہوجا تا ہے اور نچلی تہہ میں چلا جاتا ہے۔اور جب مزید کم ہوکر درجہ حرارت تین یا چار ڈگری سینٹی گریڈ پر یا جب پانی کی سطح پر جب درجہ حرارت زیرو ہوجاتا ہے تو پانی جم جاتا ہے۔لیکن صرف سطح پر اور پانی کا چار ڈگری سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت نیچے مچھلیوں اور دوسری سمندری حیات کے لیے حیات کا ضامن ہوتا ہے۔اگر پانی کی یہ خصوصیات نہ ہوتیں اور یہ ویسا ہی ہوتا جیسا کہ عام حالت میں ہوتا ہے یعنی اس کی کثافت بڑھتی تو برف کی شکل میں نیچے بیٹھ جاتا ۔اس پس منظر میں سمندر جھیلیں نیچے سے اوپر کی سطح تک سب منجمد ہوجاتیں اور یہ سلسلہ جاری رہتا ۔کیونکہ پانی کی سطح پر برف کا جو غلاف ہوتا ہے وہی نہ ہوتا جو اوپر کی تہہ کو نچلی تہہ سے جدا کرتا ہے۔یعنی سمندر کی سطح پر ہلکی سی برف کی تہہ کبھی نہ جمتی اور پھر ہوتا یہ کہ سمندروں ،جھیلوں،دریاؤں کی نچلی سطح پر چند میٹر پانی کی سطح ہوتی اور ہوا کا درجہ حرارت دوبارہ گرم ہونے کے باوجود سمندروں میں زندگی بحال نہیں کی جاسکتی اور ایسے ایکو سسٹم میں سمندر مردہ ہوتے اور نہ ہی زمین پر زندگی کے آثار پائے جاسکتے ۔پانی کی اس خاصیت کے لیے ہمیں اللہ تعالی کا حد درجہ شکر گذار ہونا چاہیے جس کے سبب سرد و گرم موسم میں پانی کا درجہ حرارت قائم رہتا ہے اوراس کے سبب ہی زندگی کی رنگا رنگی قائم ودائم ہے۔

پانی کا سطحی دباؤ بھی حیران کن ہے اور اس کا واضح اثر پودوں کی زندگی پر پڑتا ہے ۔کسی پمپ کے بغیر پانی کئی میٹر اونچے درختوں کی شاخوں اور چھوٹے چھوٹے شگوفوں تک پہنچ جاتا ہے۔لیکن اگر سطحی دباؤ ذرا بھی کم ہوتا تو یہ سارا عمل نا ممکن ہوجاتا۔

 اپنی فزیکل یا مادی خصوصیت کے علاوہ پانی بے حد عمدہ محلل ہے جس کے نتیجے میں ایک وسیع تعداد مفید کیمیائی اجزا کی دریاؤں سے پانی کے ساتھ بہتی ہوئی سمندر تک پہنچتی ہے ۔ اس سے سمندر کے کنارے ایک بہت منفرد ماحولیاتی نظام( ایکو سسٹم ) جنم لیتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈیلٹا کی لاکھوں ایکڑ زمین زرخیز ہوجاتی ہے۔تمام انسانوں اور حیوانوں کے لیے پانی کے سالماتی کشش (چپچپاہٹ) بہت ضروری ہے ۔کیونکہ اگر یہ ذرا بھی کم ہوتی تو دوران خون کا نظام اتنی کامیابی اور اکملیت کے ساتھ جاری و ساری نہیں رہ پاتا۔اور اگر پانی میں تھوڑا سا بھی گاڑھا پن بڑھ جاتا تو دنیا کا کوئی بھی قلب خون کو پمپ نہیں کرسکتا۔اسی طرح ہمارے جسم میں آکسیجن کے جذب ہونے کی صلاحیت صرف اس لیے ہے کہ پانی میں یہ خصوصیت موجود ہے ۔جب ہم سانس لیتے ہیں تو آکسیجن ہمارے پھیپھڑوں میں داخل ہوتی ہے جو براہ راست فورا خون میں داخل ہوجاتی ۔ہمارے خون میں جو ہیمو گلوبن موجود ہوتی وہ آکسیجن کے لیے ٹرانسپورٹ کا کام کرتی ہے اور آکسیجن خلیات تک پہنچ جاتی ہے۔


غرض یہ کہ کائنات کا صرف ایک جز پانی ہی اللہ تعلی کا تخلیق کردہ سب سے بڑا معجزہ ہے اور دیکھنے والوں کے لیے اس میں کھلی نشانیاں موجود ہیں۔