جھلسادینے والی گرمی کا توڑ سر سبز چھتیں
گرمی کے جھلستے ہوئے دن اور
سلگتی راتوں میں ہری بھری سر سبز چھتوں کا تذکرہ خاصا بر محل ہے ، دنیا بھر میں ان
کی تعمیر کا رحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ یورپی ممالک اور امریکا تجربات کے بعد پچھلے
چھ سالوں سے ان کی تعمیر پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی بھی مثبت اقدام
پر عمل درآمد میں ہمارے ملک میں جتنا وقت لگتا ہے اس کے حساب سے تو ان چھتوں کی ہریالی
ہمارے لیے’ہنوز دلی دور است‘ کے برابر ہے لیکن امید تو کی جاسکتی ہے نا!۔
پورے ملک اور خصوصا کراچی
میں بجلی کی کمی نے کیا تباہی مچائی ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے اور اب بارش نے رہی
سہی کسر پوری کردی ہے ، دودنوں کی بارش نے عوام پر وہ عذاب نازل کیا ہے کہ الامان الحفیظ۔حالانکہ
سرکاری بیان بازوں کے بیانات کے مطابق تو ملک کے خزانے ان سات سالوں میں لبریز ہوکر
چھلک رہے ہیں ، زرمبادلہ کے ذخائر بھی پٹے پڑے ہیں، دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی
ہیں ،راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے ۔لیکن اس ہفتے کے منظر نامے نے سچ اور جھوٹ کو دودھ
اور پانی کی طرح الگ کردیا ہے۔اے کاش کہ ہمیں جھوٹ بولتے ہوئے تھوڑی سی شرم آجائے!
دو دن کی برسات نے کراچی میں جاری اربوں روپے کی لاگت کے
میگا پروجیکٹ کو جس طرح الٹ کر رکھ دیا ،بقول ہمارے ایک کالم نویس کہ یہ میگا پروجیکٹ
نہیں میگابلبلے تھے۔برسات کا یہ بہتا ہوا پانی جو پورے ملک میں تباہی پھیلا کر بالآخر
سمندر میں گرجائے گا اس کی بوند بوند کتنی قیمتی ہے کاش ہمارے کرتا دھرتا یہ احساس
کرسکتے۔ اگرتھوڑی سی بھی ذمے داری سے کام لیتے تو جگہ جگہ برساتی ندی نالوںاور دریاؤں
پر چھوٹے چھوٹے ڈیم جو دراصل آبی ذخیرہ گاہ ہوتیں تعمیر کرچکے ہوتے تو آج اتنی تباہی
نہ مچتی اور تمام پانی آنے والے دنوں کے لیے محفوظ بھی ہوجاتا۔اس کے لیے لاکھوں روپے
کی کسی غیر ملکی کنسلٹینسی کی صرورت نہیں ہے اور نہ سالوں اس کے لیے نشستند گفتنداور
برخاستند جیسی میٹنگوں کی۔ہمارے اپنے ملک میں بے شمار ایسے ماہرین موجود ہیں (دسیوں
نام تو ہم بھی پیش کرسکتے ہیں) جنہوں نے اس شعبے پر بے پناہ کام کیا ہے ، اپنی عمریں
تحقیق پر صرف کی ہیں ، ہم ان کے کام اور تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن اور بھی
غم ہیں زمانے میں۔۔۔۔!
لیکن اگر آپ کودنیا
میں سر اٹھاکر جینا ہے، زمانے کے ساتھ چلنا ہے توخود کو بدلنا ہے۔ توانائی کے فرسودہ
طریقوں کو ترک کرکے قدرتی ذرائع کو لازمی اختیار کرنا ہے ، آج نہیں تو کل سہی لیکن
یہ وہ نوشتہ دیوار ہے جسے آپ کو پڑھ لینا چاہیے۔
ماحول کی بڑھتی ہوئی تباہی
اور گھٹتے ہوئے ذخائر نے دنیا کو توانائی کے قدرتی ذرائع کی طرف بھرپور طریقے سے متوجہ
کر دیا ہے۔ ہوا ، سورج،اورپانی کی لہروں سے توانائی کا حصول یہ وہ خواب ہے جوآج ہر
ایک آنکھ میں سجا ہوا ہے۔سب سے سستی ہوا اور سورج سے حاصل کردہ توانائی ہے۔توانائی
کے حصول کے ساتھ ساتھ توانائی بچانا بھی اتنا ہی ضروری ہے ۔ اسی خیال نے سر سبز چھتوں
کے تصور کو جنم دیا ہے ۔ یہ کوئی نیا یا انوکھا طریقہ نہیں ہے بلکہ پرانی روایتی چھتوں
ہی کی جدید شکل ہے۔وہ چھتیں خشک گھاس پھوس سے بنائی جاتی تھیں اور ان نئی چھتوں میں
سر سبز گھاس اور پودے اگانے کا تصور پیش کیا گیا ہے ۔ یہ سرسبز چھتیں گرمی کی شدت کو
کم کرتی ہیں جس سے بجلی کے آلات کا استعمال گھٹ جاتا ہے اور ان چھتوں کے ذریعے بارش
کے پانی کا بہاؤ آہستہ کرکے اس پانی کا باآسانی ذخیرہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
یہ سر سبز چھتوں کی تیاری
انتہائی آسان ہے ۔ چھت کو واٹر پروف ممبرین سے ڈھانپ دیا جاتا ہے پھر اس پر مٹی ڈال
کر گھاس اور پودے اگائے جاتے ہیں۔ ایسی چھتیں ہماری ذہنی اختراع یا خیالی پلاؤ نہیں
ہیں بلکہ امریکا میں چھ سال سے ان چھتوں کی تعمیر پر تجربات جاری ہیں اور اب یہ کئی
شہروں میں اپنی بہار جانفزا دکھلا رہی ہیں اور عمارت کے درجہ حرارت کو کم کرکے شہریوں
کے گرمی کے عذاب سے بچا رہی ہیں ۔ایک جائزے کے مطابق ایک عام سیمنٹ کی چھت والی عمارت
کے مقابلے میں ان سرسبز چھتوں کے درجہ حرارت 31 فیصد کم ہوتا ہے یعنی یہ اکتیس فیصد
زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہیں یہ بڑی بڑی چھتیں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے بھی کام آتی
ہیں ۔ ان کی تعمیر ڈھلوانی سطح کے انداز میں کی جاتی ہے اور ایسا طریقہ کار اپنایا
جاتا ہے کہ بارش کا پانی تیزی سے بہنے کے بجائے دھیرے دھیرے بہہ کر نیچے نصب ٹنکیوں
میں جمع ہوجائے ۔ یہ برسات کا پانی سال بھر انہی سبز چھتوں کی آب پاشی کے لیے کام آتا
ہے۔
شکاگو کے میئررچرڈ ڈیلے جونیئر نے 1999میں یورپ کےاتھا۔
دورے سے واپسی پر شکاگو کی ایک اہم عمارت سٹی ہال کی چھت کو سبز چھت کی شکل دی۔ بقول
رچرڈ ڈیلے کے یورپ میں انہوں نے ایک سبز چھت کو بیحد کامیابی سے کام کرتے ہوئے دیکھا
۔ یورپ میں یہ سبز چھت لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی ۔ رچرڈ ڈیلے نے حکومت سے
مشاورت کے بعد سبز چھت کے لئے فنڈ مختص کرایااور اس طرح آج شکاگو میں سٹی ہال سمیت
تین سو اہم عمارات پر سبز چھتیں قائم ہیں ۔ امریکا دیگر شہروں کے مقابلے میں کسی بھی
شہر میں سب سے زیادہ چھتیں ہیں۔ ان تین سو چھتوں کا احاطہ تیس لاکھ مربع میٹر پر محیط
ہے ۔یہ چھتیں زیادہ تر تجارتی عمارات پر مشتمل ہیں جبکہ کچھ چھتیں رہائشی اور کچھ گودام
کی چھتیں بھی ہیں ۔
ٹوم لپٹن شکاگومیں ایک ماہر ماحولیات ہونے کے علاوہ سٹی
بیورو آف انوائرنمٹل سروسز کے ایک اہم عہدے دار بھی ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ بیس سال قبل
حکومت نے ایک قانون فلور ایریا ریشو( F A R )نافذ کیا جس کے تحت کو ئی
بھی بلڈرحکومت کی اجازت سے اپنے پلاٹ سے زیادہ کچھ جگہ اپنے استعمال میں لاسکتا ہے
لیکن شرط یہ ہے کہ یہ اضافی تعمیر وہ صرف مقررہ پلاٹ کی چھت پر تعمیر کرسکتا ہے۔ اس
رعایت کے تحت ٹوم لپٹن نے 1996 میں اپنے گیراج پر سبز چھت بنائی ۔
شکاگو میں بلڈرز کو
سبز چھت بنانے کے عیوض حکومت کی طرف سے بہت سی مراعات دی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ شکاگو
کا شمار سب سے زیادہ گنجان سبز چھتوں والے شہر میں ہوتا ہے ۔ حکومت کی طرف سے مراعات
کے بعد بہت سے بلڈرز اور غیرتجارتی بنیادوں پر کام کرنے والے گروپوں نے حکومت کے ساتھ
مل کرسبز چھتیں بنانے میں دل چسپی ظاہر کی ہے۔ نیویارک میں قائم ایک تنظیم ارتھ پلیج
نامی تنظیم نے برونیکس ‘بروکلین اور ہارلیم میں سات سبز چھتوں پر کام کیا ۔ لیزا ہوف
ارتھ پلیج کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں وہ بتا تی ہیں کہ رہائشی عمارات پر سبز چھتوں کی
تعمیر پر لوگ بہت دل چسپی لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سبز چھتوں کے ہمارے نصف سے زیادہ
منصوبے رہائشی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سال فروری میں ہمیں اور گرین روفس فار ہیلدی
سٹیزن نامی ایک این جی او کو مینا پولیس لاس اینجلس ‘ اٹلانٹا اور دیگر شہروں کے لئے
تین لاکھ ڈالرکی گرانٹ دی گئی تاکہ ہم لوگوں میں سبز چھتوں کے شعور کو اجاگر کریں اور
انہیں یہ سکھائیں کہ سبز چھتوں کے لئے کیا ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے، کس طرح سبز
چھتوں پر لگے سبزے کی آب پاشی کی جاتی ہے اور بارش کا پانی کس طرح سبز چھتوں کے کام
آتا ہے ۔
سبز چھتوں کی پالیسی کے حوالے
سے ابھی تک امریکی حکومت نے مکمل اعداد وشمار اکٹھے نہیں کئے ہیں تاہم اپریل 2007ءگرین
روفس فار ہیلدی سٹیزن کے نام سے ایک مہم شروع کی جس کے تحت علاقائی سطح پر اعداد وشمارجمع
کئے جائے گے ۔
امریکی علاقے میناپولیس اس سلسلے میں ایک ادارے فلپس ایکوانٹرپرائزز
نے ایک اہم قدم اٹھایا اور لوگوں میں سبز چھتوں کا شعور اجاگر کرنے اور سہولت کے لیے
اپنے ادارے کے پلیٹ فارم سے مقامی پودے فراہم کررہے ہیں جو باآسانی چھتوں پر لگائے
جاسکتے ہیں ۔فلپس ایکو انٹرپرائزز اپنے سینٹر پر آنے والوں کو سبز چھتوں کی اہمیت سے
بھی آگاہ کرتا ہے ۔
کیا ہمارے بلڈرز ، این جی
اوز اور متعلقہ ادارے اس جانب بھی تھوڑی سی توجہ مرکوز کریں گے؟
No comments:
Post a Comment