تاج محل کے مداحوں کے لیے یہ خبر خوشی کا باعث ہوگی کہ اس
عظیم الشان محبت کی یادگار کو ایک بین الاقوامی مقابلے کے ذریعے طے پانے والے دور جدید
کے سات عجائبات عالم میں شامل کرلیا گیاہے۔ دنیا کے نئے سات عجائبات کے انتخاب کے لیے
سوئس تنظیم ” نیو سیون ونڈر فاؤنڈیشن “ نے جن اکیس شاہکاروں کی فہرست تیار کی تھی اس
میں تاج محل بھی شامل تھا۔
پرتگال کے دار الحکومت لزبن میں ایک تقریب کے دوران ہالی
ووڈ کے معروف اداکار بین کنگسلے اور بالی ووڈ کی اداکارہ بپاشا باسو نے ان عجائبات
کے ناموں کا اعلان کیا۔آگرہ کی میئر انجولا نے اس کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔
تاج محل کے علاوہ سات عجائبات کی اس فہرست میں اردن میں
موجود پیٹرا شہر کی باقیات شامل ہیں ۔ روم میں موجود کلوسیم واحد یورپی عمارت ہے جسے
اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔میکسیکو میں موجود چیچن اتزا کے کھنڈرات بھی شامل ہیں
،دیوار چین بھی جدید عجائبات عالم میں اپنی جگہ بناچکی ہے ۔ برازیل کے شہر ریو ڈی جینیرو
میں حضرت عیسی علیہ اسلام کا مجسمہ لاطینی امریکا سے شامل ہے اس کے علاوہ آٹھ ہزار
فٹ بلندی پر ایک پہاڑی کے ڈھلوان پر واقع پیرو کے ماچو پیچو نامی قدیم شہر کے کھنڈرات
جن کا تعلق انکا تہذیب سے بتایا جاتا ہے اس فہرست میں شامل ہیں ۔
تاج محل جو دراصل ہندوستان
کے بادشاہ شاہ جہاں کی بیوی ملکہ ممتاز محل کا مقبرہ ہے، ساری دنیا میں اسے محبت کی
علامت سمجھا جاتا ہے۔تاج محل برصغیر کی تہذیب و ثقافت کا عکاس اورخصوصاہندوستان کی
گنگا جمنی تہذیب کا مظہر ہے۔ محبت کی یہ انتہا شاید دنیا اور خصوصا مغرب کے لیے حیرت
کا باعث ہو سکتی ہے لیکن پاک و ہند کے رہنے والوں کے لیے نہیں کیونکہ اس زرخیز مٹی
سے محبت کی ایسی بے شمار لازوال داستانیں جنم لیتی رہتی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ بقول
ساحر
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
محبت کی اسی یادگار تاج محل
کی تعمیر کو اب 353 سال ہوچکے ہیں ۔ چند سال پہلے اس کی تین سو پچاس ویں سالگرہ بہت
دھوم دھام سے منائی گئی، اس موقع پر مورخین میں یہ بحث چھڑ گئی کہ آخر تاج محل کی عمر
کیا ہے؟ اکثر مورخین کا کہنا ہے کہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں کی ملکہ ممتاز محل کی وفات
کے دو برس بعد تاج محل کی تعمیر شروع ہوگئی تھی اور سترہ برس میں مکمل ہوئی، اس حساب
سے تاج محل کو تعمیر ہوئے تین سو تریپن برس ہو چلے ہیں۔ مورخین کے مطابق بادشاہ نامے
میں تاج محل کی تعمیر کے تمام منصوبوں کا تذکرہ موجود ہے اور تحقیق سے پتا چلتا ہے
کہ ان تمام منصوبوں کو عملی جامہ بھی پہنایا گیا، بادشاہ نامے کے مطابق تاج محل
1651 میں مکمل ہوگیا تھا۔
شاہ جہاں کی محبوب بیوی ممتاز محل کے انتقال کے بعد شاہ
جہاں نے اپنی محبت کے اظہار کے لیے اس کا ایک عالی شان مقبرہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا
اور سترہ سال کی دن و رات محنت کے بعد سنگ مر مر کی ایک شان دار عمارت تعمیر ہوگئی،
تقریبا بیس ہزار مزدوروں نے دن و رات اس پر کام کیا۔کہا جاتا ہے کہ عیسی شیرازی نامی
ایک انجینئر نے اس کا نقشہ تیار کیا تھا لیکن بادشاہ نامے میں لکھا ہے کہ خود شاہ جہاں
نے اس کا خاکہ تیار کیا تھا۔ عمارت کے زمین دوز حصے میں ممتاز محل کی قبر واقع ہے اور
شاہ جہاں بھی اس پہلو میں محو خواب ہیں ۔
تاج محل مغلیہ دور کے فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے اور
ایک ایسی بے مثال عمارت ہے جو تعمیر کے بعد سے ہی دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکز رہی ہے،
محبت کی یہ لازوال نشانی شاعروں ، ادیبوں ، مصوروں اور فنکاروں کے لیے اگرچہ وجدان
کا محرک رہی ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک مقبرہ ہے،تاج محل ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب
کا مظہر ہے اور پورے برصغیر کی تہذیب و ثقافت تاج محل پر نازاں ہے۔ ماہرین کے مطابق
تاج محل ایک ایسا فن پارہ ہے جو موجودہ دور میں کمپوزٹ کلچر کی بھی عکاسی کرتا ہے،
تاج محل دیکھنے والے کہتے ہیں کہ اسے دیکھ کر انسان کی جمالیاتی حس بیدار ہوتی ہے اور
ایک انوکھی سی خوشی حا صل ہوتی ہے۔ دنیا بھر کے عوام اور خواص دونوں ہندوستان پہنچتے
ہی تاج محل کے دیدار کو پہنچ جاتے ہیں۔ سن1874 میں برطانوی سیاح ایڈورڈ لیئر نے کہا
تھا کہ دنیا کے باشندوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک وہ جنہوں نے تاج محل
کا دیدار کیا ہے اور دوسرے وہ جو اس سے محروم رہے۔
لیکن آج جب اسے نئے عجائبات عالم میں شامل کر لیا گیا ہے
تو ہم یہ بتاتے چلےں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے تاج محل کو شدید خطرات لاحق ہیں۔اسکے
مینار جھک رہے ہیں، بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ تاج محل کے عقب میں دریائے جمنا میں ہونے
والی تبدیلیوں کے سبب تاج محل کے مینار جھک رہے ہیں اگرچہ محکمہ آثار قدیمہ اس کی تردید
کرتا ہے لیکن ایک اطاع کے مطابق ایک مینارچھ انچ تک جھک گیا ہے، ماضی میں بھی منیاروں
کی جھکنے کی خبر آئی تھی جس کے بعد احتیاطا مینار لوگوں کے لیے بند کردیے گئے تھے۔
میناروں کے جھکنے کا موجودہ
تنازعہ آگرہ کے سرکردہ مورخ پروفیسر رام ناتھ کے ایک تحقیقی مقالے کے بعد پیدا ہوا
ہے ۔ پروفیسر ناتھ کہتے ہیں کہ 1940 سے 1965 تک تاج محل کے میناروں میں مسلسل جھکاؤ
آیا ہے لیکن اس کے باوجود محکمہ آثار قدیمہ نے ہر سال اس کاسروے نہیں کروایا ۔ پروفیسر
ناتھ کا کہنا ہے کہ دریائے جمنا تاج محل کے تحفظ کا ضامن ہے اور اگر تاج محل کو بچانا
ہے تو اس کے پیچھے بہنے والی جمنا کے رخ میں کسی تبدیلی کے بغیر سال کے تین سو پینسٹھ
دن پانی کے بہاؤکو برقرار رکھنا ہوگا ۔ پروفیسر رام ناتھ کا کہنا ہے کہ جمنا کا کچھ
حصہ پہلے ہی سوکھا ہے اور وہاں ایک کوریڈور بنانے سے جمنا کے رخ میں تبدیلی آئی ہے
اور اب پانی تاج محل کے پشتوں پر جانے کے بجائے سیدھا جانے لگا ہے ۔ اس سے تاج محل
کا اصل ڈیزائن متاثر ہوا ہے اور بقول پروفیسر ناتھ کے کہ اس سے تاج محل کو زبردست نقصان
پہنچے گا ۔
مغلیہ فن تعمیر کے سر کردہ
ماہر اور محکمہ آثار قدیمہ بھارت کے سابق سربراہ پروفیسر ایم سی جوشی کا کہنا تھا کہ
تاج محل کی تعمیر میں جمنا کو بہت اچھی طرح استعمال کیا گیا ہے اور اگر پانی بیس پچیس
فٹ اوپر تک بھی پہنچ جائے تو بھی تاج محل کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔ پروفیسر کا
کہنا ہے کہ اگر دریا میں کوئی تبدیلی کی جائے گی اور بغیر سمجھے بوجھے عام انجینئروں
سے کوئی کام کروایا جائے گا تو یقینا تاج کے میناروں میں جھکاؤ پیدا ہوگا ۔ پروفیسر جوشی کا یہ بھی خیال ہے کہ
تاج محل کو کسی بھی نقصان سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ دریا کی پرانی حالت بحال کی
جائے اور اس کی گہرائی اور چوڑائی بھی برقرار رکھی جائے ورنہ محبت کی یہ عظیم یادگار
وقت سے پہلے ختم ہوجائے گی ۔
اتر پردیش کی سابق مایا وتی حکومت نے تاج محل کے عقب میں
دریائے جمنا کے کنارے ایک تجارتی کمپلیکس بنانے کا آغاز کیا تھالیکن سپریم کورٹ کی
بروقت مداخلت سے تعمیر روک دی گئی ۔
تاج محل کے سفید چمکتے ہوئے سنگ مر مر کو تیز روشنیوں سے
بھی خطرہ ہے اس کے تحفظ کے لیے پچھلے بیس سالوں سے یہ یادگار شام ہوتے ہی سیاحوں کے
لیے بند کردی جاتی ہے ۔ بھارت کی حکومت نے 1984 میں یہ فیصلہ کیا تھا لیکن اب سیاحوں
کے اصرار پر پروگرام بنایا جا رہا ہے کہ ایک ماہ میں پانچ راتوں یعنی پورے چاند کی
رات اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی دور اتوں کو سیاحوں کے لیے تاج محل کے دروازے
کھول دیے جائیں گے ۔ مگر ہر رات ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ تاج محل کے پاس یا ارد
گرد تیز روشنی والی فلڈ لائٹس سے اسے نقصان پہنچ سکتاہے ۔تاج محل کا سنگ مر مر آس پاس
کی آلودگی کے باعث بھی پیلا پڑتا جارہا ہے جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے ۔ تقریبا ایک
عشرہ قبل سپریم کورٹ نے تاج محل کے تحفظ کے لیے آلودگی پھیلانے والی آس پاس کی سیکڑوں
کمپنیوں کو بند کرنے اور انہیں دوسرے مقامات پر منتقل کرنے کا حکم دیا تھا ۔ عدالت
نے تاج محل کے آس پاس موٹر گاڑیاں کے چلنے پر بھی پابندی لگادی تھی ۔ حالیہ تجزیوں
سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ ان اقدامات کے نتیجے میں دھوئیں کی کمی سے سلفر ڈائی آکسائیڈ
اور نائٹروز میں تو کمی آئی ہے لیکن فضا میں ایسے اجزا بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں
جن سے تاج محل کے سنگ مر مر کا رنگ پیلا پڑتا جارہا ہے ۔
”
نیو سیون ونڈر فاؤنڈیشن “ نے دنیا بھر سے جن اکیس شاہکاروں
کی جو فہرست تیار کی تھی اس میں تاج محل کے ساتھ انکور واٹ مندر بھی شامل تھا ۔ ہندوستان
کی ہندو نواز تنظیم آر ایس ایس یعنی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے کمبوڈیا کے اس قدیم
انکور مندر کو بھی ووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر تاج حق دار ہے تو
اس مندر کو بھی ووٹ ڈالنا چاہیے۔ کمبوڈیا کا انکور مندر دنیا کا سب سے بڑا مندر مانا
جاتا ہے۔جو تقریبا دوسو مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں مختلف سائز اور نقش و
نگار کے تقریبا تین سو مندر شامل ہیں۔ عالمی آثار قدیمہ کی فہرست میں یہ سب سے بڑی
عمارت ہے جسے سن گیارہ سو تیرہ اور گیارہ سو پچاس کے درمیان راجا سوریہ ورمن ثانی نے
تعمیر کروایا تھا۔اس مندر کو فن تعمیر کا دلکش نمونہ کہا جاتا ہے۔دنیا کے نئے سات عجائبات
کے انتخاب کے لیے سوئس تنظیم آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ انکور مندر ہندوستان کے شاندار
کلچر کا عکاس ہے۔ افغانستان میں بامیان میں مہاتما بدھ کے مجسموں کی مسماری کے بعد
ہندوستان سے باہر یہ مندر ہی واحد نشانی بچی ہے۔
ان عجائبات کے حوالے سے عوام آن لائن اور موبائل فون کے
ذریعے اپنی رائے دے سکتے تھے۔ تاج محل کو ابتدائی طور پر بہت زیادہ ووٹ نہیں ملے تھے
لیکن آخر میں صورت حال بدل گئی ۔ مشہور موسیقار اے آر رحمان نے اس کے لیے ایک خوبصورت
نغمہ بھی تخلیق کیا تھا۔البتہ حکومتی سطح پر کوئی خاص سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی۔دوسری
طرف برازیل کے صدر نے ریڈیو پر عوام کو ریوڈی جینرو میں واقع مسیحی مجسمے کو عجائبات
میں شامل کروانے کے لیے ووٹنگ کا طریقہ کار بتایا تھا اور پیرو کی حکومت نے اپنے قدیم
شہر ماچو پیچو کو اس فہرست میں شامل کروانے کے لیے عوامی مقامات پر کمپیوٹر لگوائے
تھے تاکہ عوام آسانی سے ووٹنگ میں حصہ لے سکیں۔اس بین الاقوامی مقابلے میں ایک سو ملین
سے زائد افراد نے انٹر نیٹ ، ٹیلی فون اور ایس ایم ایس کے ذریعے ووٹنگ کی۔