Friday, July 13, 2007

تاج محل بھی عجائبات عالم میں شامل

تاج محل کے مداحوں کے لیے یہ خبر خوشی کا باعث ہوگی کہ اس عظیم الشان محبت کی یادگار کو ایک بین الاقوامی مقابلے کے ذریعے طے پانے والے دور جدید کے سات عجائبات عالم میں شامل کرلیا گیاہے۔ دنیا کے نئے سات عجائبات کے انتخاب کے لیے سوئس تنظیم ” نیو سیون ونڈر فاؤنڈیشن “ نے جن اکیس شاہکاروں کی فہرست تیار کی تھی اس میں تاج محل بھی شامل تھا۔

پرتگال کے دار الحکومت لزبن میں ایک تقریب کے دوران ہالی ووڈ کے معروف اداکار بین کنگسلے اور بالی ووڈ کی اداکارہ بپاشا باسو نے ان عجائبات کے ناموں کا اعلان کیا۔آگرہ کی میئر انجولا نے اس کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔

تاج محل کے علاوہ سات عجائبات کی اس فہرست میں اردن میں موجود پیٹرا شہر کی باقیات شامل ہیں ۔ روم میں موجود کلوسیم واحد یورپی عمارت ہے جسے اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔میکسیکو میں موجود چیچن اتزا کے کھنڈرات بھی شامل ہیں ،دیوار چین بھی جدید عجائبات عالم میں اپنی جگہ بناچکی ہے ۔ برازیل کے شہر ریو ڈی جینیرو میں حضرت عیسی علیہ اسلام کا مجسمہ لاطینی امریکا سے شامل ہے اس کے علاوہ آٹھ ہزار فٹ بلندی پر ایک پہاڑی کے ڈھلوان پر واقع پیرو کے ماچو پیچو نامی قدیم شہر کے کھنڈرات جن کا تعلق انکا تہذیب سے بتایا جاتا ہے اس فہرست میں شامل ہیں ۔


 تاج محل جو دراصل ہندوستان کے بادشاہ شاہ جہاں کی بیوی ملکہ ممتاز محل کا مقبرہ ہے، ساری دنیا میں اسے محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔تاج محل برصغیر کی تہذیب و ثقافت کا عکاس اورخصوصاہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا مظہر ہے۔ محبت کی یہ انتہا شاید دنیا اور خصوصا مغرب کے لیے حیرت کا باعث ہو سکتی ہے لیکن پاک و ہند کے رہنے والوں کے لیے نہیں کیونکہ اس زرخیز مٹی سے محبت کی ایسی بے شمار لازوال داستانیں جنم لیتی رہتی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ بقول ساحر

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

 محبت کی اسی یادگار تاج محل کی تعمیر کو اب 353 سال ہوچکے ہیں ۔ چند سال پہلے اس کی تین سو پچاس ویں سالگرہ بہت دھوم دھام سے منائی گئی، اس موقع پر مورخین میں یہ بحث چھڑ گئی کہ آخر تاج محل کی عمر کیا ہے؟ اکثر مورخین کا کہنا ہے کہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں کی ملکہ ممتاز محل کی وفات کے دو برس بعد تاج محل کی تعمیر شروع ہوگئی تھی اور سترہ برس میں مکمل ہوئی، اس حساب سے تاج محل کو تعمیر ہوئے تین سو تریپن برس ہو چلے ہیں۔ مورخین کے مطابق بادشاہ نامے میں تاج محل کی تعمیر کے تمام منصوبوں کا تذکرہ موجود ہے اور تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ان تمام منصوبوں کو عملی جامہ بھی پہنایا گیا، بادشاہ نامے کے مطابق تاج محل 1651 میں مکمل ہوگیا تھا۔
شاہ جہاں کی محبوب بیوی ممتاز محل کے انتقال کے بعد شاہ جہاں نے اپنی محبت کے اظہار کے لیے اس کا ایک عالی شان مقبرہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور سترہ سال کی دن و رات محنت کے بعد سنگ مر مر کی ایک شان دار عمارت تعمیر ہوگئی، تقریبا بیس ہزار مزدوروں نے دن و رات اس پر کام کیا۔کہا جاتا ہے کہ عیسی شیرازی نامی ایک انجینئر نے اس کا نقشہ تیار کیا تھا لیکن بادشاہ نامے میں لکھا ہے کہ خود شاہ جہاں نے اس کا خاکہ تیار کیا تھا۔ عمارت کے زمین دوز حصے میں ممتاز محل کی قبر واقع ہے اور شاہ جہاں بھی اس پہلو میں محو خواب ہیں ۔

تاج محل مغلیہ دور کے فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے اور ایک ایسی بے مثال عمارت ہے جو تعمیر کے بعد سے ہی دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکز رہی ہے، محبت کی یہ لازوال نشانی شاعروں ، ادیبوں ، مصوروں اور فنکاروں کے لیے اگرچہ وجدان کا محرک رہی ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک مقبرہ ہے،تاج محل ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا مظہر ہے اور پورے برصغیر کی تہذیب و ثقافت تاج محل پر نازاں ہے۔ ماہرین کے مطابق تاج محل ایک ایسا فن پارہ ہے جو موجودہ دور میں کمپوزٹ کلچر کی بھی عکاسی کرتا ہے، تاج محل دیکھنے والے کہتے ہیں کہ اسے دیکھ کر انسان کی جمالیاتی حس بیدار ہوتی ہے اور ایک انوکھی سی خوشی حا صل ہوتی ہے۔ دنیا بھر کے عوام اور خواص دونوں ہندوستان پہنچتے ہی تاج محل کے دیدار کو پہنچ جاتے ہیں۔ سن1874 میں برطانوی سیاح ایڈورڈ لیئر نے کہا تھا کہ دنیا کے باشندوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک وہ جنہوں نے تاج محل کا دیدار کیا ہے اور دوسرے وہ جو اس سے محروم رہے۔

لیکن آج جب اسے نئے عجائبات عالم میں شامل کر لیا گیا ہے تو ہم یہ بتاتے چلےں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے تاج محل کو شدید خطرات لاحق ہیں۔اسکے مینار جھک رہے ہیں، بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ تاج محل کے عقب میں دریائے جمنا میں ہونے والی تبدیلیوں کے سبب تاج محل کے مینار جھک رہے ہیں اگرچہ محکمہ آثار قدیمہ اس کی تردید کرتا ہے لیکن ایک اطاع کے مطابق ایک مینارچھ انچ تک جھک گیا ہے، ماضی میں بھی منیاروں کی جھکنے کی خبر آئی تھی جس کے بعد احتیاطا مینار لوگوں کے لیے بند کردیے گئے تھے۔

 میناروں کے جھکنے کا موجودہ تنازعہ آگرہ کے سرکردہ مورخ پروفیسر رام ناتھ کے ایک تحقیقی مقالے کے بعد پیدا ہوا ہے ۔ پروفیسر ناتھ کہتے ہیں کہ 1940 سے 1965 تک تاج محل کے میناروں میں مسلسل جھکاؤ آیا ہے لیکن اس کے باوجود محکمہ آثار قدیمہ نے ہر سال اس کاسروے نہیں کروایا ۔ پروفیسر ناتھ کا کہنا ہے کہ دریائے جمنا تاج محل کے تحفظ کا ضامن ہے اور اگر تاج محل کو بچانا ہے تو اس کے پیچھے بہنے والی جمنا کے رخ میں کسی تبدیلی کے بغیر سال کے تین سو پینسٹھ دن پانی کے بہاؤکو برقرار رکھنا ہوگا ۔ پروفیسر رام ناتھ کا کہنا ہے کہ جمنا کا کچھ حصہ پہلے ہی سوکھا ہے اور وہاں ایک کوریڈور بنانے سے جمنا کے رخ میں تبدیلی آئی ہے اور اب پانی تاج محل کے پشتوں پر جانے کے بجائے سیدھا جانے لگا ہے ۔ اس سے تاج محل کا اصل ڈیزائن متاثر ہوا ہے اور بقول پروفیسر ناتھ کے کہ اس سے تاج محل کو زبردست نقصان پہنچے گا ۔

 مغلیہ فن تعمیر کے سر کردہ ماہر اور محکمہ آثار قدیمہ بھارت کے سابق سربراہ پروفیسر ایم سی جوشی کا کہنا تھا کہ تاج محل کی تعمیر میں جمنا کو بہت اچھی طرح استعمال کیا گیا ہے اور اگر پانی بیس پچیس فٹ اوپر تک بھی پہنچ جائے تو بھی تاج محل کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔ پروفیسر کا کہنا ہے کہ اگر دریا میں کوئی تبدیلی کی جائے گی اور بغیر سمجھے بوجھے عام انجینئروں سے کوئی کام کروایا جائے گا تو یقینا تاج کے میناروں میں جھکاؤ  پیدا ہوگا ۔ پروفیسر جوشی کا یہ بھی خیال ہے کہ تاج محل کو کسی بھی نقصان سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ دریا کی پرانی حالت بحال کی جائے اور اس کی گہرائی اور چوڑائی بھی برقرار رکھی جائے ورنہ محبت کی یہ عظیم یادگار وقت سے پہلے ختم ہوجائے گی ۔
اتر پردیش کی سابق مایا وتی حکومت نے تاج محل کے عقب میں دریائے جمنا کے کنارے ایک تجارتی کمپلیکس بنانے کا آغاز کیا تھالیکن سپریم کورٹ کی بروقت مداخلت سے تعمیر روک دی گئی ۔

تاج محل کے سفید چمکتے ہوئے سنگ مر مر کو تیز روشنیوں سے بھی خطرہ ہے اس کے تحفظ کے لیے پچھلے بیس سالوں سے یہ یادگار شام ہوتے ہی سیاحوں کے لیے بند کردی جاتی ہے ۔ بھارت کی حکومت نے 1984 میں یہ فیصلہ کیا تھا لیکن اب سیاحوں کے اصرار پر پروگرام بنایا جا رہا ہے کہ ایک ماہ میں پانچ راتوں یعنی پورے چاند کی رات اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی دور اتوں کو سیاحوں کے لیے تاج محل کے دروازے کھول دیے جائیں گے ۔ مگر ہر رات ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ تاج محل کے پاس یا ارد گرد تیز روشنی والی فلڈ لائٹس سے اسے نقصان پہنچ سکتاہے ۔تاج محل کا سنگ مر مر آس پاس کی آلودگی کے باعث بھی پیلا پڑتا جارہا ہے جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے ۔ تقریبا ایک عشرہ قبل سپریم کورٹ نے تاج محل کے تحفظ کے لیے آلودگی پھیلانے والی آس پاس کی سیکڑوں کمپنیوں کو بند کرنے اور انہیں دوسرے مقامات پر منتقل کرنے کا حکم دیا تھا ۔ عدالت نے تاج محل کے آس پاس موٹر گاڑیاں کے چلنے پر بھی پابندی لگادی تھی ۔ حالیہ تجزیوں سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ ان اقدامات کے نتیجے میں دھوئیں کی کمی سے سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروز میں تو کمی آئی ہے لیکن فضا میں ایسے اجزا بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں جن سے تاج محل کے سنگ مر مر کا رنگ پیلا پڑتا جارہا ہے ۔

نیو سیون ونڈر فاؤنڈیشن “ نے دنیا بھر سے جن اکیس شاہکاروں کی جو فہرست تیار کی تھی اس میں تاج محل کے ساتھ انکور واٹ مندر بھی شامل تھا ۔ ہندوستان کی ہندو نواز تنظیم آر ایس ایس یعنی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے کمبوڈیا کے اس قدیم انکور مندر کو بھی ووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر تاج حق دار ہے تو اس مندر کو بھی ووٹ ڈالنا چاہیے۔ کمبوڈیا کا انکور مندر دنیا کا سب سے بڑا مندر مانا جاتا ہے۔جو تقریبا دوسو مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں مختلف سائز اور نقش و نگار کے تقریبا تین سو مندر شامل ہیں۔ عالمی آثار قدیمہ کی فہرست میں یہ سب سے بڑی عمارت ہے جسے سن گیارہ سو تیرہ اور گیارہ سو پچاس کے درمیان راجا سوریہ ورمن ثانی نے تعمیر کروایا تھا۔اس مندر کو فن تعمیر کا دلکش نمونہ کہا جاتا ہے۔دنیا کے نئے سات عجائبات کے انتخاب کے لیے سوئس تنظیم آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ انکور مندر ہندوستان کے شاندار کلچر کا عکاس ہے۔ افغانستان میں بامیان میں مہاتما بدھ کے مجسموں کی مسماری کے بعد ہندوستان سے باہر یہ مندر ہی واحد نشانی بچی ہے۔


ان عجائبات کے حوالے سے عوام آن لائن اور موبائل فون کے ذریعے اپنی رائے دے سکتے تھے۔ تاج محل کو ابتدائی طور پر بہت زیادہ ووٹ نہیں ملے تھے لیکن آخر میں صورت حال بدل گئی ۔ مشہور موسیقار اے آر رحمان نے اس کے لیے ایک خوبصورت نغمہ بھی تخلیق کیا تھا۔البتہ حکومتی سطح پر کوئی خاص سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی۔دوسری طرف برازیل کے صدر نے ریڈیو پر عوام کو ریوڈی جینرو میں واقع مسیحی مجسمے کو عجائبات میں شامل کروانے کے لیے ووٹنگ کا طریقہ کار بتایا تھا اور پیرو کی حکومت نے اپنے قدیم شہر ماچو پیچو کو اس فہرست میں شامل کروانے کے لیے عوامی مقامات پر کمپیوٹر لگوائے تھے تاکہ عوام آسانی سے ووٹنگ میں حصہ لے سکیں۔اس بین الاقوامی مقابلے میں ایک سو ملین سے زائد افراد نے انٹر نیٹ ، ٹیلی فون اور ایس ایم ایس کے ذریعے ووٹنگ کی۔

Tuesday, July 3, 2007

اس کی باتیں بہار کی باتیں

جھلسادینے والی گرمی کا توڑ سر سبز چھتیں

 گرمی کے جھلستے ہوئے دن اور سلگتی راتوں میں ہری بھری سر سبز چھتوں کا تذکرہ خاصا بر محل ہے ، دنیا بھر میں ان کی تعمیر کا رحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ یورپی ممالک اور امریکا تجربات کے بعد پچھلے چھ سالوں سے ان کی تعمیر پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی بھی مثبت اقدام پر عمل درآمد میں ہمارے ملک میں جتنا وقت لگتا ہے اس کے حساب سے تو ان چھتوں کی ہریالی ہمارے لیے’ہنوز دلی دور است‘ کے برابر ہے لیکن امید تو کی جاسکتی ہے نا!۔

 پورے ملک اور خصوصا کراچی میں بجلی کی کمی نے کیا تباہی مچائی ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے اور اب بارش نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے ، دودنوں کی بارش نے عوام پر وہ عذاب نازل کیا ہے کہ الامان الحفیظ۔حالانکہ سرکاری بیان بازوں کے بیانات کے مطابق تو ملک کے خزانے ان سات سالوں میں لبریز ہوکر چھلک رہے ہیں ، زرمبادلہ کے ذخائر بھی پٹے پڑے ہیں، دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں ،راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے ۔لیکن اس ہفتے کے منظر نامے نے سچ اور جھوٹ کو دودھ اور پانی کی طرح الگ کردیا ہے۔اے کاش کہ ہمیں جھوٹ بولتے ہوئے تھوڑی سی شرم آجائے!

دو دن کی برسات نے کراچی میں جاری اربوں روپے کی لاگت کے میگا پروجیکٹ کو جس طرح الٹ کر رکھ دیا ،بقول ہمارے ایک کالم نویس کہ یہ میگا پروجیکٹ نہیں میگابلبلے تھے۔برسات کا یہ بہتا ہوا پانی جو پورے ملک میں تباہی پھیلا کر بالآخر سمندر میں گرجائے گا اس کی بوند بوند کتنی قیمتی ہے کاش ہمارے کرتا دھرتا یہ احساس کرسکتے۔ اگرتھوڑی سی بھی ذمے داری سے کام لیتے تو جگہ جگہ برساتی ندی نالوںاور دریاؤں پر چھوٹے چھوٹے ڈیم جو دراصل آبی ذخیرہ گاہ ہوتیں تعمیر کرچکے ہوتے تو آج اتنی تباہی نہ مچتی اور تمام پانی آنے والے دنوں کے لیے محفوظ بھی ہوجاتا۔اس کے لیے لاکھوں روپے کی کسی غیر ملکی کنسلٹینسی کی صرورت نہیں ہے اور نہ سالوں اس کے لیے نشستند گفتنداور برخاستند جیسی میٹنگوں کی۔ہمارے اپنے ملک میں بے شمار ایسے ماہرین موجود ہیں (دسیوں نام تو ہم بھی پیش کرسکتے ہیں) جنہوں نے اس شعبے پر بے پناہ کام کیا ہے ، اپنی عمریں تحقیق پر صرف کی ہیں ، ہم ان کے کام اور تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن اور بھی غم ہیں زمانے میں۔۔۔۔!

  لیکن اگر آپ کودنیا میں سر اٹھاکر جینا ہے، زمانے کے ساتھ چلنا ہے توخود کو بدلنا ہے۔ توانائی کے فرسودہ طریقوں کو ترک کرکے قدرتی ذرائع کو لازمی اختیار کرنا ہے ، آج نہیں تو کل سہی لیکن یہ وہ نوشتہ دیوار ہے جسے آپ کو پڑھ لینا چاہیے۔

 ماحول کی بڑھتی ہوئی تباہی اور گھٹتے ہوئے ذخائر نے دنیا کو توانائی کے قدرتی ذرائع کی طرف بھرپور طریقے سے متوجہ کر دیا ہے۔ ہوا ، سورج،اورپانی کی لہروں سے توانائی کا حصول یہ وہ خواب ہے جوآج ہر ایک آنکھ میں سجا ہوا ہے۔سب سے سستی ہوا اور سورج سے حاصل کردہ توانائی ہے۔توانائی کے حصول کے ساتھ ساتھ توانائی بچانا بھی اتنا ہی ضروری ہے ۔ اسی خیال نے سر سبز چھتوں کے تصور کو جنم دیا ہے ۔ یہ کوئی نیا یا انوکھا طریقہ نہیں ہے بلکہ پرانی روایتی چھتوں ہی کی جدید شکل ہے۔وہ چھتیں خشک گھاس پھوس سے بنائی جاتی تھیں اور ان نئی چھتوں میں سر سبز گھاس اور پودے اگانے کا تصور پیش کیا گیا ہے ۔ یہ سرسبز چھتیں گرمی کی شدت کو کم کرتی ہیں جس سے بجلی کے آلات کا استعمال گھٹ جاتا ہے اور ان چھتوں کے ذریعے بارش کے پانی کا بہاؤ آہستہ کرکے اس پانی کا باآسانی ذخیرہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

 یہ سر سبز چھتوں کی تیاری انتہائی آسان ہے ۔ چھت کو واٹر پروف ممبرین سے ڈھانپ دیا جاتا ہے پھر اس پر مٹی ڈال کر گھاس اور پودے اگائے جاتے ہیں۔ ایسی چھتیں ہماری ذہنی اختراع یا خیالی پلاؤ نہیں ہیں بلکہ امریکا میں چھ سال سے ان چھتوں کی تعمیر پر تجربات جاری ہیں اور اب یہ کئی شہروں میں اپنی بہار جانفزا دکھلا رہی ہیں اور عمارت کے درجہ حرارت کو کم کرکے شہریوں کے گرمی کے عذاب سے بچا رہی ہیں ۔ایک جائزے کے مطابق ایک عام سیمنٹ کی چھت والی عمارت کے مقابلے میں ان سرسبز چھتوں کے درجہ حرارت 31 فیصد کم ہوتا ہے یعنی یہ اکتیس فیصد زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہیں یہ بڑی بڑی چھتیں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے بھی کام آتی ہیں ۔ ان کی تعمیر ڈھلوانی سطح کے انداز میں کی جاتی ہے اور ایسا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے کہ بارش کا پانی تیزی سے بہنے کے بجائے دھیرے دھیرے بہہ کر نیچے نصب ٹنکیوں میں جمع ہوجائے ۔ یہ برسات کا پانی سال بھر انہی سبز چھتوں کی آب پاشی کے لیے کام آتا ہے۔

شکاگو کے میئررچرڈ ڈیلے جونیئر نے 1999میں یورپ کےاتھا۔ دورے سے واپسی پر شکاگو کی ایک اہم عمارت سٹی ہال کی چھت کو سبز چھت کی شکل دی۔ بقول رچرڈ ڈیلے کے یورپ میں انہوں نے ایک سبز چھت کو بیحد کامیابی سے کام کرتے ہوئے دیکھا ۔ یورپ میں یہ سبز چھت لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی ۔ رچرڈ ڈیلے نے حکومت سے مشاورت کے بعد سبز چھت کے لئے فنڈ مختص کرایااور اس طرح آج شکاگو میں سٹی ہال سمیت تین سو اہم عمارات پر سبز چھتیں قائم ہیں ۔ امریکا دیگر شہروں کے مقابلے میں کسی بھی شہر میں سب سے زیادہ چھتیں ہیں۔ ان تین سو چھتوں کا احاطہ تیس لاکھ مربع میٹر پر محیط ہے ۔یہ چھتیں زیادہ تر تجارتی عمارات پر مشتمل ہیں جبکہ کچھ چھتیں رہائشی اور کچھ گودام کی چھتیں بھی ہیں ۔

ٹوم لپٹن شکاگومیں ایک ماہر ماحولیات ہونے کے علاوہ سٹی بیورو آف انوائرنمٹل سروسز کے ایک اہم عہدے دار بھی ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ بیس سال قبل حکومت نے ایک قانون فلور ایریا ریشو( F A R )نافذ کیا جس کے تحت کو ئی بھی بلڈرحکومت کی اجازت سے اپنے پلاٹ سے زیادہ کچھ جگہ اپنے استعمال میں لاسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ یہ اضافی تعمیر وہ صرف مقررہ پلاٹ کی چھت پر تعمیر کرسکتا ہے۔ اس رعایت کے تحت ٹوم لپٹن نے 1996 میں اپنے گیراج پر سبز چھت بنائی ۔

  شکاگو میں بلڈرز کو سبز چھت بنانے کے عیوض حکومت کی طرف سے بہت سی مراعات دی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ شکاگو کا شمار سب سے زیادہ گنجان سبز چھتوں والے شہر میں ہوتا ہے ۔ حکومت کی طرف سے مراعات کے بعد بہت سے بلڈرز اور غیرتجارتی بنیادوں پر کام کرنے والے گروپوں نے حکومت کے ساتھ مل کرسبز چھتیں بنانے میں دل چسپی ظاہر کی ہے۔ نیویارک میں قائم ایک تنظیم ارتھ پلیج نامی تنظیم نے برونیکس ‘بروکلین اور ہارلیم میں سات سبز چھتوں پر کام کیا ۔ لیزا ہوف ارتھ پلیج کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں وہ بتا تی ہیں کہ رہائشی عمارات پر سبز چھتوں کی تعمیر پر لوگ بہت دل چسپی لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سبز چھتوں کے ہمارے نصف سے زیادہ منصوبے رہائشی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سال فروری میں ہمیں اور گرین روفس فار ہیلدی سٹیزن نامی ایک این جی او کو مینا پولیس لاس اینجلس ‘ اٹلانٹا اور دیگر شہروں کے لئے تین لاکھ ڈالرکی گرانٹ دی گئی تاکہ ہم لوگوں میں سبز چھتوں کے شعور کو اجاگر کریں اور انہیں یہ سکھائیں کہ سبز چھتوں کے لئے کیا ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے، کس طرح سبز چھتوں پر لگے سبزے کی آب پاشی کی جاتی ہے اور بارش کا پانی کس طرح سبز چھتوں کے کام آتا ہے ۔

 سبز چھتوں کی پالیسی کے حوالے سے ابھی تک امریکی حکومت نے مکمل اعداد وشمار اکٹھے نہیں کئے ہیں تاہم اپریل 2007ءگرین روفس فار ہیلدی سٹیزن کے نام سے ایک مہم شروع کی جس کے تحت علاقائی سطح پر اعداد وشمارجمع کئے جائے گے ۔

امریکی علاقے میناپولیس اس سلسلے میں ایک ادارے فلپس ایکوانٹرپرائزز نے ایک اہم قدم اٹھایا اور لوگوں میں سبز چھتوں کا شعور اجاگر کرنے اور سہولت کے لیے اپنے ادارے کے پلیٹ فارم سے مقامی پودے فراہم کررہے ہیں جو باآسانی چھتوں پر لگائے جاسکتے ہیں ۔فلپس ایکو انٹرپرائزز اپنے سینٹر پر آنے والوں کو سبز چھتوں کی اہمیت سے بھی آگاہ کرتا ہے ۔


 کیا ہمارے بلڈرز ، این جی اوز اور متعلقہ ادارے اس جانب بھی تھوڑی سی توجہ مرکوز کریں گے؟