اربوں ڈالر قدر کا نہری نظام ۔۔۔ تھوڑی سی توجہ سے زمینیں
سونا اگل سکتی ہیں
عالمی یوم آب 22 مارچ کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے، اس
بار اس کا موضوع ”پانی اور تونائی“ ہے۔
آب و حیات کے ربط کا فلسفہ انتہائی سادہ لیکن مضبوط اور
مربوط بنیادوں پر استوار ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم اور ملزوم ہیں۔ حیات کے تمام
رنگ آب ہی سے نکھرتے ہیں اور سنورتے ہیں۔تاریخ بھی اسی فلسفے کی تائید کرتی ہے کہ دنیا
کی تمام بڑی تہذیبوں نے پانی ہی کنارے جنم لیا اور یہیں ارتقا کے مراحل طے کیے۔ ہمیں
قدرت نے ایک دو نہیں سات دریا عطا کیے جو اس کی فیاضی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، اسی لیے
ہم سات دریاؤں کی سرزمین کہلاتے ہیں، یہ دریا ، دریائے سندھ، راوی ، چناب ، ستلج بیاس
، جہلم اور دریائے سرسوتی یا ہاکڑو(گھگر) ہیں۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں
کا نظام قدرت کی فراخ دلی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔۔۔ لیکن آبی وسائل کا غیر دانش مندانہ
استعمال،ناقص آبی انتظام اوربدلتے موسموں نے ہمارے آبی وسائل کوخطرے میں ڈال دیا ہے۔
دیو مالائی اہمیت کے حامل دریائے سندھ کی لمبائی 2,900کلو
میٹر ہے جو تبت میں جھیل مانسرور سے 30 میل دور کیلاش کے برفانی پانیوں سے شروع ہوتا
ہے۔یہاں سے بہتا ہوا یہ عظیم دریا ایک چھوٹے سے مقام ”دم چک“ سے لداخ میں داخل ہوجاتا
ہے ۔لداخ میں اسے ”سنگھے کھب“ کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ سنگھے کا مطلب ہے شیر اور
کھب کامطلب ہے منہ یعنی شیر کا دہانہ ۔پاکستان بھر میں اس شیر کے دہانے والے دریا کے
مختلف نام ہیں،یہ جن جن بستیوں کو سیراب کرتا اور ان کے دامن میں خوش حالی انڈیلتا
گذرتا ہے وہاں کے رہنے والے اسے محبت اور شکر گذاری کے تحت مختلف نام دیتے ہیں مثلا
پشتو میں اسے”ابا سین“ یعنی دریاؤں کا باپ ،سندھ میں اسے ”مہران“ اورسندھو ندی بھی
کہا جاتا ہے۔لفظ سندھو سنسکرت کا لفظ ہے جس کی بنیاد ”سیند“ پر ہے جس کے معنی بہنے
کے ہیں۔۔۔لیکن سدا بہنے والے اس سندھو کا پانی اب کہیں راستے میں ہی کھو جاتا ہے اور
اس کے بعد تو صرف ریت ہی ریت رہ جاتی ہے ، ہر طرف اڑنے والی اور آنکھوں میں بھر جانے
والی ریت!
پانی زمین پر زندگی کی ضمانت بھی ہے اورفطرت کے نظام میں
توازن کی بنیاد، یہ زندگی کی ہر صورت کے لیے لازم بھی ہے اور ملزوم بھی۔چھ ارب سے زائد
آبادی کے لیے پانی کی طلب دن بہ دن بڑھ رہی ہے اور یہ آبادی کرہ ارض پر موجود میٹھے
پانی کا %54 استعمال کرجاتی ہے۔یہ میٹھا پانی%70 زراعت، %22 صنعتیں ا ور %8 گھریلو سطح پر استعمال
کیا جاتا ہے۔پانی کے استعمال کے حوالے سے یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ یہ استعمال
2025 تک ترقی پزیر ممالک میں %50 اور ترقی یافتہ ممالک میں %18 بڑھے گا۔ 1.4 ارب لوگ
دریاؤں کے بیسن میں رہتے ہیں ، جہاں پانی کا استعمال اتنا زیاہ ہے کہ زیر زمین پانی
کی سطح انتہائی کم ہوگئی ہے۔یورپ کے %60 شہروں میں پانی کا استعمال اس شرح سے کہیں
زیادہ ہے جس شرح سے یہ زمین میں جذب ہوگا ۔1.8 ارب افراد2025 تک پانی کی کمی کا شکار
ہوں گے اور دنیا کی آبادی کا دو تہائی انتہائی کمی کا شکار ہوگا۔ یہ بھی ایک توجہ طلب
بات ہے کہ ایک دن میں ایک شخص کی ضروریات پر دو سے چار لٹرز پانی خرچ ہوتا ہے لیکن
اسی فرد کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے صرف ایک کلوگرام چاول حاصل کرنے کے لیے
دو ہزار سے پانچ ہزار لیٹرز پانی کی ضررت ہوتی ہے۔جبکہ ایک کلوگرام گندم کے حصول کے
لیے تیرہ ہزار سے سترہ ہزار لٹرز پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
روزانہ دو ملین ٹن کوڑا اور فضلہ میٹھے پانی کے ذخائر میں
بہادیا جاتا ہے۔.ترقی پزیر ممالک میں %70صنعتی فضلہ بغیر ٹریٹ کیے میٹھے پانی میں بہادیا
جاتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او اور یونیسکو کی 2012 کی رپورٹ کے مطابق لاکھوں افراد کی سینیٹیشن
کی سہولیات تک رسائی نہیں ہے اسی لیے دنیا بھر میں ڈائریا بیماری اور اموات کی بڑی
وجوہات میں سے ایک ہے اور %88 اموات کا سبب خراب سینیٹیشن کی سہولت ہے ۔آج بھی 2.5
ارب افراد کو بنیادی سنیٹیشن کی سہولت میسر نہیں ہیں اور اس ناقص سینیٹیشن کے باعث
ہر بیس سیکنڈ بعد ایک بچہ اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ ڈائریا کی روک تھام کے لیے پہلی
بار 15اکتوبر2008 کو پہلی بار ہینڈ واشنگ ڈے منایا گیا۔
پاکستان میں صورت حال مختلف لیکن زیادہ ابتر ہے۔ اگر گہرائی
سے تجزیہ کیا جائے تو پاکستان کا شمار کم آبی وسائل والے ملک سے انتہائی آبی قلت کے
ملک کے طور پر کیا جائے گا 2025 تک۔زرعی ملک ہونے کے ناتے پانی کا زراعت میں بے تحاشہ
استعمال ہے یعنی %93 زراعت کے لیے، %4 گھریلو استعمال کے لیے اور بقیہ صنعتی شعبے میں استعمال
کیا جاتا ہے۔ جبکہ سیلابی پانی صرف ڈیلٹا کے استعمال میں آتا ہے جو ماحولیاتی نظام
کے لیے بہتر ہے۔ سیلاب اور خشک سالی عام مظاہر ہیں۔ مون سون کی بارشوں اور گرمیوں میں
گلیشئرز پگھلنے کے باعث دریا میں پانی کی مقدار خریف کے سیزن میں پانچ گنا زیادہ ہوتی
ہے ربیع کے مقابلے میں۔
کرہءارض اور لوگوں پربدلتے موسم یا کلائمیٹ چینج کے اثرات
کا بنیادی ذریعہ پانی ہی ہوگا۔ یہ نہ صرف آبی وسائل میں تبدیلی لائے گا بلکہ اس حوالے
سے یہ وسیلہ اور کمیاب ہوتا جائے گا۔
پاکستان کا شمار پانی کے کمی والے اور نیم خشک ممالک میں
کیا جاتا ہے۔یہاں بارشوں کا سالانہ اوسط 240 ملی میٹر ہے۔آبادی اور دستیاب پانی کے
درمیان عدم توازن کے باعث پاکستان کا شمار پانی کی کمی والے ممالک میں کیا جاتا ہے
لیکن اس کی تیز رفتار بڑھنے والی آبادی اسے بہت جلد انتہائی کمی والے ممالک میں لے
جائے گی۔ آبادی اور زراعت کا دارومدار دریائے سندھ کے پانی پر ہے، اور گلوبل چینج امپیکٹ
اسٹڈی سینٹر(GCISC)
کی تحقیق کے مطابق آئندہ پچاس سالوں میں مغربی ہمالیائی
گلیشئرز میں کمی واقع ہوگی جس سے دریا میں پانی اور بھی کم ہوجائے گی،اور اگر ایسا
ہوجاتا ہے تو ہمالیائی خطے پر انحصار کرنے والے ممالک کی معیشت، ماحول اور معاشرے پر
برے اثرات مرتب ہوں گے، یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان کے آبی ذخائر قراقرم اور کوہ ہندوکش
کے گلیشیئرز پر زیادہ تر انحصار کرتے ہیں،اور ماہرین کے مطابق بدلتے موسموں کے اثرات
کے تحت اس میں بہت زیادہ پگھلاؤ دیکھنے میں نہیں آیا ہے،مشاہدہ اور تحقیقی نتائج واضح
کررہے ہیں کہ پانی کی کمی بدلتے موسموں کے اثرات سے اور بڑھ جائے گی، اور اس کے اثرات
معیشت اور معاشرہ، ذاتی کمی، قدرتی آفات میں اضافہ، بڑے پیمانے پر لوگوں کی نقل مکانی
بالائی اور زیریں علاقوں میں رہنے والوں میں تنازعات میں اضافہ آنے والے دنوں میں بڑھ
جائے گا۔
آج پانی کے مسائل کے پیش نظر کچھ اقدامات ضروری نظر آتے
ہیں جن کے حوالے سے حکومت کو فوری توجہ دینی چاہیے، ان میں چند درج ذیل ہیں۔
آبی وسائل اور خارجہ پالیسی
ہمیں آبی وسائل کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرنو
مرتب کرنا ہوگا تاکہ سرحدوں سے باہر ان مشترکہ وسائل کا پائدار انتظام کیا جاسکے ۔
آنے والے وقتوں میں صرف بھارت سے ہی نہیں بلکہ افغانستان سے بھی آبی تنازعات میں اضافہ
ہوگا ۔ موسمیاتی تبدیلیاں دریائے کابل کے پانی کی مقدارکو بھی متاثر کررہی ہیں لہذا
اس حوالے سے بھی دونوں ممالک کے درمیان حساسیت بڑھے گی ۔ دریائے سندھ کے پانی پر بھارت
کا تسلط اس کے بالائی علاقے میں ہونے کے باعث ہے جبکہ افغانستان کے دریائے کابل پر
ہم بالائی اور زیریں دونوں علاقوں سے متعلق ہیں، افغانستان اس دریا کے درمیانی حصے
سے متعلق ہے ۔ سندھ طاس کے معاہدے کا موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں ازسرنو جائزہ
اور افغانستان سے دریائے کابل پر ایک نئے معاہدے کی تشکیل آنے والے دور کے مسائل کا
واحد حل ہوگا ۔
پاکستان اور بھارت دونوں ممالک آبی وسائل کے حوالے سے بڑھتی
ہوئی بداعتمادی کو غیر اہم نہ جانیں اور فوری طور پر سندھ طاس معاہدے کو بھی اپنی بات
چیت کے ایجنڈے میں سر فہرست لے آئیں ۔
بھارت کو یاد دلانا ہوگا کہ سندط طاس معاہدے کی شق نمبر
7 میں
Futur Coperation کا ذکر ہے لیکن اگر ہم بھارت کا اس حوالے
سے کردار دیکھیں تو حال یا مستقبل کسی حوالے سے کوئی مشترکہ سوچ موجودنہیں ہے ۔ اس
کے ڈیموں کی تعمیر اس بات کی غماز ہے کہ وہ صرف اپنے مفاد کے لیے کام کرتا رہے گا اوراس
حوالے سے کسی بھی قاعدے اور قانون کے ٹوٹنے کی پروا نہیں کرے گا ۔
پڑوسی ممالک کے درمیان بین السرحدی مسائل پانی کی بڑھتی
ہوئی طلب کے باعث سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ آبادی میں اضافہ اور معاشی سرگرمیوں کا بڑھنا
ان تنازعات کو اور بڑھاوا دے رہا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے مابین آبی وسائل کے منصفانہ
تقسیم کے لیے ایک معاہدہ” سندھ طاس معاہدہ“ موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد کے حوالے
سے بہت سے سوال اٹھتے ہیں ۔ دریائے کابل کے پانی پر بھی تنازعات کھڑے ہوسکتے ہیں لہذا
” کابل طاس “ معاہدہ عمل میں لایا جائے۔ آبی سفارت کاری کے ضمن میں ٹریک 3 کے تحت دونوں
ممالک کے درمیان بات چیت کا آغاز بھی فوری کیا جائے۔
صوبوں کے مابین اعتماد سازی
دریائے سندھ پر تین ذخیرہ گاہیں منگلا، تربیلااور چشمہ قائم
ہیں جہاں خریف کے موسم میں جمع ہونے والا پانی ربیع کی فصلوں تک چلایا جاتاہے۔ ان ذخیرہ
گاہوں صرف 35 دن کا پانی جمع کیا جاسکتا ہے جبکہ اب یہ گنجائش کم ہوکر 27 دن رہ گئی
ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ صوبوں کے مابین کسی بھی بڑے ہائڈروپاور ڈیم کے لیے کس طرح اعتماد
بحال کیا جائے؟ اس حوالے سے ضروری ہے کہ بات چیت کا آغاز ہو، اٹھتے ہوئے تمام سوالات
کے تسلی بخش جواب دیے جائیں اور پانی کی تقسیم کے حوالے سے منصفانہ اور شفاف طریقہ
ءکار طے کیا جائے۔ تمام معلومات کا اکھٹا کرنااور متعلقین تک اس کی رسائی بہت ضروری
ہے تبھی لوگ متعلقہ ماحولیاتی مسائل سمجھ سکیں گے جو فیصلہ سازی میں مددگارثابت ہوگا۔
صوبوں کے درمیان دریائے کابل اور دریائے سندھ کے پانی پر
تنازعات انتہائی شدید ہیں اور اس کی بنیادی وجہ اعتماد کی انتہائی کمی ہے ۔ اس حوالے
سے ایسے اقدام ضروری ہیں جس سے صوبوں کے مابین اعتماد بڑھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے
ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے جو تنازعات ہمارے صوبوں کے درمیان ہے اس کی بنیادی وجہ
آئین کی دفعہ 161نظر آتی ہے، اس حوالے سے ماہر آبی امور اور ماحولیات ڈاکٹر پرویز امیر
بھی زور دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ”پاکستان میں آبی ذخائر اور ڈیموں کی تعمیر میں آئین
پاکستان کی دفعہ 161 بھی بہت بڑی رکاوٹ ہے جس کے مطابق ہائڈرو پاور کی رائلٹی اس صوبے
کو ملے گی جس کی زمین پر پاور ہاؤس تعمیر ہوگا۔“
آئین پاکستان کی یہی دفعہ 161 صوبوں کے مابین فساد کی جڑ
بنی ہوئی ہے۔ اگر ہماری پارلیمنٹ متفقہ طور پر اس شق کو تبدیل یا ترمیم کردیتی ہے جس
سے پورے پاکستان کو مساوی حقوق ملیں تو شاید صورت حال کچھ بدل جائے، ایک اعتماد کی
فضا پیدا ہو اور آبی ذخائر کی تعمیر میں اتنی رکاوٹیں پیش نہ آئیں۔ہندوستان اپنے چھوٹے
ڈیمز اور بیراجوں کی تعمیر اور مرمت سے 285 ملین ایکڑ پانی جمع کرنے کے لیے اپنا %40
کام مکمل کرچکا ہے جبکہ پاکستان ابھی تک صرف %10 ہی کرچکا ہے۔یہی صورت حال رہی تو آئندہ
سیزن میں گندم کی فصل کو نقصان ہوگا۔ اس کی قیمت لوگوں کی قوت خرید سے اور باہر ہوجائے
گی۔
یہ بھی ایک خوش آئند بات ہے کہ اب پاکستان میں زراعت اور
توانائی کی ضروریات کو پوراکرنے کے لیے چھوٹے اور درمیانے ڈیموں پر توجہ دی جارہی ہے
۔ ذرائع کے مطابق ایسے کئی ڈیموں پر کام جاری ہے ۔
نہری پانی کی پیداواری صلاحیت اور چھوٹے ڈیموں کی کارکردگی
میں اضافہ
پاکستان میں نہری نظام اور چھوٹے ڈیموں کی پیداواری صلاحیت
سے دنیا کے دیگر ممالک مثلا مصر،ترکی اور ایران وغیرہ سے کم ہے۔اس صلاحیت میں اضافے
کی غرض سے فصلوں کے لیے معیاری بیجوں کا استعمال، کھیتوں میں آب پاشی کے جدید اور کم
خرچ طریقے مثلا فوارہ اورقطرہ آب پاشی وغیرہ سے پانی کا ضیاع کم کیا جائے گا۔ روزگار
کے نئے مواقع سے بھی زراعت اور خصوصا پانی پر دباؤکم ہوجائے گا۔
اسی طر ح چھوٹے ڈیموں کی پیداواری
صلاحیت کے ساتھ ساتھ ، مقامی افراد کے شراکتی منصوبوں سے پانی کی مقدار میں اضافہ اور
ساتھ ہی حیاتیاتی تنوع اور جنگلی حیات کے لیے بھی ماحول بہتر بنایا جاسکے گا۔
اس وقت دنیا بھرکی نظریں ہمالیائی خطے کے ممالک اوران کے
آبی وسائل پر مرکوز ہیں۔ یہ خطہ اپنے آبی وسائل کے حوالے سے دنیا بھر میں ایک منفرد
اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا کے کئی اہم ترین دریا اسی خطے کی پگھلتی برف سے رواں دواں رہتے
ہیں۔ اس خطے کے دریائی علاقوں کو مشترکہ طور پر استعمال کرنے والے ممالک میں پاکستان،
افغانستان،بنگلہ دیش،بھوٹان،انڈیا،چین اور نیپال شامل ہیں۔دنیا کی %21 آبادی ان ہی ملکوں میں آباد ہے ۔ یہی خطہ دیگر جنوبی
ایشیائی دریاؤں کے ساتھ ساتھ دو بڑے دریایعنی عظیم دریائے سندھ اور برہم پترا کا منبع
بھی ہے۔ ہمالیہ سے پھوٹتے پانی کے یہ سرچشمے یعنی برہم پترا، گنگا،سند ھ، میگھنا
1.5بلین یعنی ڈیڑھ ارب لوگوں کی زندگیوں کو رواں دواں رکھتے ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ
اس خطے کے لوگ اور حکومتیں مشترکہ طور پر ایسے اقدام کریں جس سے اس علاقے کے آبی وسائل
مزید منظم ہوں اور زیریں علاقوں میں رہنے والے بھی اس سے مستفید ہوں، شاید یہی بقا
کا راستہ ہوگا۔
ےہ امر مسلم ہے کہ پانی نہ صرف حےاتےاتی نمو کے لیے اےک
جزو لازم ہے بلکہ ماحول کو متناسب اور متوازن رکھنے کے لیے بھی نہایت ضروری ہے۔ مگر
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ صوبہ بلوچستان میں گذشتہ کئی دہائیوں سے یہاں کے بسنے والوں
نے آبی ذخائر کا جس بے دردی سے ضیاع کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ نتیجتاً اس صوبے
میں پانی کی کمیابی نہایت سنگین مسئلہ اختیار کر گئی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ پانی کی قلت
ماحول پر اس خطرناک طریقے سے اثر انداز ہو رہی کہ خطرہ ہے کہ اگر کوئی سد باب نہ کیا
گے تو شاید اس صوبے کے بیشتر علاقے انسانی و حیوانی زندگی کے لیے موزوں نہ رہیں گے۔
آج سے تقریباً تیس سال قبل
سبز انقلاب کا نعرہ لگایا گیا اور اس انقلاب کو بپا کرنے کے لیے جس بے دردی سے ماحولیاتی
عناصر بالخصوص پانی کے ذخائر کو استعمال کیا گے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بلوچستان کے مختلف اضلاع
ماحولیاتی بد حالی کا شکار ہیں اور اپنے پانی کے ذخیروں جس میں ان کی آنے والی نسلوں
کا بھی حصہ تھا خرچ کر بیٹھے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں آبی وسائل کے تحفظ کے
حوالے سے صورت حال بہت حوصلہ افزا نہیں ہے ۔اس منظرنامے میں صرف پانی کی کمی ہی
نہی بلکہ اس کا تحفظ بھی ایک اہم مسئلہ ہے ۔آبی وسائل محدود ہیں لیکن خوش آئند بات
یہ ہے کہ ان کے بہتر انتظام کے لیے ملک کا انڈس بیسن اریگیشن سسٹم موجود ہے جو ملک
کا قابل قدر اثاثہ ہے۔ دنیا کے بڑے نہری نظامو ںمیں سے ایک دریائے سندھ کا نہری
نظام وفاق کے ماتحت ہے۔ یہ نہری نظام ملکی معیشت میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے ۔
اس نظام کے ڈھانچے کی مالی قدر 300 ارب ڈالر ٹھہرتی ہے۔ جبکہ معیشت میں اس کا حصہ
18 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کا %21 ہے۔