کیا حکومت اور مقدمہ لڑنے والے اس فتح کی وضاحت نہیں کریں
گے ؟
حال ہی میں دریائے نیلم پر پاکستا ن کے نیلم جہلم پاور پروجیکٹ
اور دوسری جانب اسی دریا پر بھارتی منصوبے کشن گنگا ڈیم پاور پروجیکٹ پر عالمی ثالثی
عدالت کا فیصلہ آچکا ہے اور ہم نے اپنے ایک محترم وزیر کا بیان بھی پڑھ اور سن لیا
ہوگا کہ"یہ فیصلہ پاکستان کے موقف کی فتح ہے۔
تو آئیے ذرا اس فتحکا جائزہ لتے ہیں
نیلم جہلم منصوبے کے حوالے سے مکمل فیصلہ اس سال فروری میں
آگیا تھا جس کے تحت عالمی عدالت نے بھارت کو دریا کے بہاؤ کا رخ موڑتے ہوئے اس کا پانی
وولر بیراج میں ڈالنے کی اجازت دی تھی ۔ ہمارے آبی ماہرین کے مطابق یہ پاکستان کے موقف
کی کھلی شکست تھی اوراس طرح پاکستان ” نیلم جہلم ہائڈرو پاور پروجیکٹ“ کا کیس ہارچکا
تھا۔ عالمی عدالت کے فیصلے جس میں بھارت کو دریا ئے جہلم کا پانی وولر بیراج میں ڈالنے
کی اجازت دی گئی ، اس پانی سے بھارت کے کشن گنگا ڈیم کا منصوبہ تکمیل پائے گا جبکہ
دریائے جہلم پر ہمارے منصوبے نیلم جہلم ہائیڈروپاور
پروجیکٹ کی کارکردگی شدید متاثر ہوگی۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے ہم بگلیہار ڈیم پر اپنا
کیس اسی فراخ دلی سے ہار چکے ہیں۔
آبی ذخائر کے شعبے کے ماہرین
کا واضح موقف ہے کہ بھارت کا کشن گنگا منصوبہ پاکستان کے نیلم ،جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کو تباہ کرنے کا
منصوبہ ہے۔ بھارت کو اس منصوبے کے حوالے سے یہ تحفظات بھی ہیں کہ چین اس منصوبے میں
پاکستان کا مددگار ہے۔ نیلم جہلم منصوبہ جس سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہوسکتی
ہے، کشن گنگا ڈیم بننے سے اس کی کارکردگی پر یقینا منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
عالمی ثالثی عدالت میں پاکستان کا موقف تھا کہ سندھ طاس
معاہدے کے تحت بھارت دریا کا رخ نہیں موڑ سکتا۔ لیکن وکلا کی عدم دلچسپی سے پاکستان
کا موقف عالمی عدالت میں واضح ہی نہیں سکا اور فیصلہ بھارت کے حق میں دے دیا گیا۔
اب حال ہی میں دریائے نیلم میں پانی کے بہاؤ اور مقدارکے
حوالے سے آنے والا فیصلہ بھی اسی فیصلے کا تسلسل یعنی پاکستانی موقف کی شکست ہے لیکن
ہماری قانونی ٹیم اور نئی منتخب حکومت بھی اپنی پیش رو حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے
کامیابی کا راگ الاپ رہی ہے۔ اگر صرف فیصلے کو غور سے پڑھ لیا جائے تو یہی ایک مکمل
چارج شیٹ ہے جو مقدمہ لڑنے والوں اور متعلقہ سرکاری محکموں کے خلاف ثابت ہوتی ہے ۔
عالمی ثالثی عدالت تک نے اس
بات پر حیرانی کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان نے اپنے حصے کے پانی پراپنا دعوی ظاہر کرنے
کے لیے اہم ترین معلومات فراہم نہیں کیں۔ فیصلے کے مندرجات کے مطابق پاکستان نے اپنے موجودہ اور متوقع زرعی استعمال کے
لیے کشن گنگا سے پانی کے حصول کی معلومات فراہم نہیں کیں اور یہ کہ پاکستان نے یہ تک
نہیں بتایاکہ اس طرح کی تعمیرات کے نتیجے میں کیا ہوگااور ایسے کوئی شواہد پیش نہیں
کیے گئے جن پر عدالت انحصار کرسکے، عدالت اس کے ممکنہ انحصار کے حوالے سے معلومات حاصل
نہیں کرسکی اور عدالت صرف ہائیڈروالیکٹرک اور ماحولیاتی پہلوؤں کی بنیاد پر کم از کم
بہاؤ کے اپنے فیصلے پر پہنچی ہے۔
ایک طرف جب اک سرکاری وزیر یہ سمجھ رہے ہیں کہ بین الاقوامی
عدالت کا فیصلہ پاکستان کی جیت ہے ، جبکہ عالمی عدالت کے فیصلے سے یہ ثابت ہوتا ہے
کہ پاکستان نے متعلقہ معلومات فراہم نہیں کیں جس سے کیس کا فیصلہ پاکستان کے حق میں
آسکتا۔ مزید دیکھیے کہ عدالت کے فیصلے کے پیرا نمبر 93 میں لکھا ہے کہ
پاکستان کے زرعی استعمالات
پاکستان نے کشن
گنگا یا نیلم دریا سے پانی کے اپنے موجودہ اور متوقع استعمال کے حوالے سے کوئی معلومات
فراہم نہیں کیں۔تاہم پاکستان نے یہ ضرور بتایا
ہے کہ مستقبل میں وادی نیلم میں کسی بھی ترقیاتی کام کا انحصار گزارے کے لیے کی جانے
والی زراعت سے ہٹ کر دریا سے لفٹ اری گیشن کے ذریعے پانی کے استعمال پر ہوگا۔
پیرا نمبر 94 میں عالمی عدالت لکھتی ہے کہ ”کم از کم بہاؤ
کا پیمانہ طے کرتے ہوئے عدالت کے مشاہدے میں
زرعی مقاصد کے لیے متوقع پانی کو عمومی حیثیت سے دیکھا جائے گا۔تاہم چونکہ پاکستان
نے ممکنہ ترقیاتی کام کا اندازہ بھی پیش نہیں کیا ، تو ایسے شواہد بھی بہت کم ہیں جن
پر عدالت انحصار کرسکے۔لہذا عدالت ممکنہ استعمال کے حوالے سے معلومات حاصل نہیں کرسکی
اور عدالت صر ف ہائیڈرو الیکٹرک اور ماحولیاتی پہلوؤں کی بنیاد پر کم از کم بہاؤکے
اپنے فیصلے پر پہنچی ہے۔لیکن اس کے باوجود عدالت کو اس بات کا یقین ہے کہ جو کم از
کم بہاؤ عدالت نے طے کیا ہے اس کی بنیاد پر مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس قدر
پانی دستیاب ہوسکے گا جس سے وادی نیلم میں زرعی ترقیاتی سرگرمیوں کے حوالے سے پانی
کا حصہ کم نہیں ہوگا۔
فریقین کی جانب سے ہائیڈرولوجیکل اعدادوشماراکھٹا کرنے کے
طریقہ ءکار کے پہلوؤں پر تبصرہ کرتے ہوئے عدالت نے لکھا ہے کہ پاکستان نے بھارت کے
ساتھ سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے شائع شدہ معیاری اعدادوشمار کا تبادلہ کرنے کی تھوڑی
سی بھی کوشش نہیں کی۔لہذا عدالت اس تجویز سے مطمئن نہیں ہے کہ بھارت فیس کے لیے ، پاکستان
کی ہائیڈرولوجیکل کی سالانہ کتب میں شائع شدہ اعدادوشمار سے اصلاح کرے۔عدالت فریقین
سے سفارش کرتی ہے کہ وہ دریائے سندھ کی شاخوں سے حاصل ہونے والے ہائیڈرولوجیکل ڈیٹا
کے حوالے سے معیار کی ضمانت حاصل کرتے رہیں اور حاصل ہونے والے اعدادوشمار کو مستقل
سندھ کمیشن کے میکنزم کے ذریعے ایک دوسرے کو فراہم کرتے رہیں۔
اپنے حصے کے پانی کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے کیے جانے
والے بے حسی کے مظاہرے کے حوالے سے بین الاقوامی عدالت کے فیصلے میں لکھا ہے کہ
2004 سے 2006 کے درمیان ہونے والے رابطوں اور اقدامات کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ
اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مقاصد اور اقدامات کی روشنی میں بھارت کا کشن گنگا ہائیڈروالیکٹرک
پروجیکٹ کے حوالے سے دعوی بہت مضبوط ہے۔اور یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا پاکستان نے نیلم
جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ کے لیے دعوی کیا تھا۔جس سے یہ طے ہوتا ہے کہ کشن گنگا یا نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پاور جنریشن کے حوالے سے اول الذکر کا حق ترجیحی بنیادوں پر آخر
الذکر سے زیادہ ہے۔
آبی امور کے ماہر ارشد عباسی کے مطابق پاکستان کو عالمی
عدالت انصاف میں بھارت کے خلاف کشن گنگا ڈیم پر مقدمے میں شکست کے بعداسے پانی کے بہاؤ
میں بڑی حد تک کمی کے باعث نیلم جہلم منصوبے میں بجلی کی پیداوار میں کمی کا سامناکرنا
ہوگا۔جس سے ملک کو ہر سال 14 کروڑ 50 لاکھ ڈالر زکا نقصان ہوگا۔ پاکستان کو 2001 کی
خشک سالی کی طرح ہر سال 54 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوگا۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے
پاکستان کی معیشت کو نا قابل عمل نقصان پہنچے گا۔
ارشد عباسی کا یہ بھی کہنا
ہے کہ عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کا مقدمہ لڑنے والی قانونی اور تکنیکی ماہرین
کے خلاف تحقیقات ہونی چاہیے۔کیونکہ وہ اچھے انداز میں پاکستان کا مقدمہ لڑنے میں ناکام
رہے۔ عالمی عدالت کا فیصلہ پاکستان کے لیے تباہ کن ہے۔جس سے نہ صرف نیلم جہلم پاور
پروجیکٹ کی بجلی پیدا کرنے کی استعداد میں کمی آئے گی بلکہ اس سے وادی نیلم کی خوبصورتی
میں بھی کمی آئے گی۔ انہوں نے پاکستان کی قانونی اور تکنیکی ماہرین کی ٹیم پر تنقید
کرتے ہوئے کہا کہ عالمی عدالت کا فیصلہ پاکستان کی ٹیم کی نااہلیت کا منہ بولتا ثبوت
ہے۔جس میں واضح طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ پاکستان نے نیلم جہلم یا کشن گنگا ڈیم کے فی
الحال اور مستقبل میں زراعت کے لیے استعمال کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ثبوت مقدمے میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی قانونی اورتکنیکی
ٹیم کے خلاف تحقیقات کا آغاز کرنے اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کے لیے
کافی ہے۔ اور اگر ان کا جرم ثابت ہوجائے تو ان کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج ہونا
چاہیے۔کیونکہ انہوں نے پاکستان کے نہایت اہم مفادات پر سمجھوتا کیا ہے۔ان کا کہنا ہے
کہ پاکستان کو ہر سال اوسط 24 لاکھ اکڑ فٹ پانی ملتا ہے۔ اور اگر پچھلے تیس سالوں میں
پانی کے اخراج کے اوسط کو مد نظر رکھا جائے تو پاکستان اپنے پانی کے 45 فیصد حصے سے
محروم ہوجائے گا۔واضح رہے کہ پاکستان کو آزد کشمیر میں دریائے نیلم پر 278 ارب روپے
کی مالیت سے 969 واٹ بجلی کی پیداواری استعدادکے حامل کے منصوبے کو 2015 تک مکمل کرلینا
ہے۔جس کا مطلب ہے کہ اس منصوبے سے 5 ارب17کروڑ80 لاکھ یونٹ بجلی پیدا ہوگی۔ لیکن بھارت
کی جانب سے اگر کشن گنگا ڈیم پر کام جاری رکھا گیا تو اس سے اس منصوبے کو ملنے والے
پانی میں فی سیکنڈ 58.4 مکعب میٹر کمی آئے گی۔ ارشد عباسی کا کہنا ہے کہ نئی منتخب
حکومت بھی اس قانونی اور تکنیکی جال مں پھنس گئی جس نے یہ کیس خراب کردیا۔
سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے ارشد عباسی کا کہنا تھا کہ
اس معاہدے میں اپنی جگہ کوئی خرابی نہیں ہے۔ معاہدے کی رو سے دونوں ممالک کو یہ حق
حاصل ہے کہ دریائی پانی کو ہائیڈروپاور کے لیے استعال کرسکتے ہیں۔ معاہدے کی رو سے
کسی بھی ڈیم کی تعمیر سے پہلے اس کے ڈیزائن پر دونوں ممالک کا متفق ہونا بہت ضروری
ہے ۔ بگلیہار پر بھی ہم نے نہ ہندوستان سے ڈیزائن مانگا اور نہ ہی اس پروجیکٹ کے ای
آئی اے کا مطالبہ کیا۔اس کیس کو بھی عالمی فورم پر ہم جب لے گئے جب ڈیم کا تقرباً کام
مکمل ہوچکا تھا۔ یہاں ایک اور بات آپ کو بتاتا چلوں کہ بگلیہار کے فیصلے میں عالمی
بینک نے ثالثی کی تھی اور جج نے اپنے فیصلے میں یہ وضاحت ضروری سمجھی کہ پاکستانی وفد
کی فرمائش پر ہی میٹنگز پیرس، واشنگٹن، جنیوا اور پھر لندن میں منعقد ہوئی تھیں۔ شکر
ہے کہ اس وفد کی تیارکردہ تفریحی لسٹ ان ہی شہروں پر ختم ہوگئی !
ہمارا دریائے نیلم پر تعمیر
ہونے والا ہائیڈرو پاور کا منصوبہ نیلم جہلم پروجیکٹ کا ڈیزائن 1996میں مکمل ہوگیا
تھا لیکن ہم نے تعمیر شروع نہیں کی بلکہ اس وقت کا انتظار کیا کہ جب ہندوستان اسی دریا
پر کشن گنگا پروجیکٹ پر کام شروع کردے۔ سندھ طاس معاہدے کی رو سے جو پہلے تعمیر کرے
گا اسی کا حق مانا جائے گا۔لہذا ہندوستان کو پورا موقع دیا گیا کہ وہ اپنے منصوبے کا
آغاز ہم سے پہلے کرلے تاکہ اسے حق اولیت مل جائے۔ اسی طرح کے تاخیری حربے اب نیموبازگو
ڈیم کے حوالے سے کیے جارہے ہیں تاکہ ہندوستان اپنا کام مکمل کرلے پھر ہم صرف کاغذی
کارروائی کے لیے لکیر پیٹنے کا ڈراما کریں۔
پاکستان اور بھارت اگرچہ دو پڑوسی ملک ہیں لیکن اگر ان کی
65 سالہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو تنازعات سے بھری ہوئی ہے۔ دونوں کے درمیان باقاعدہ
جنگیں ہوچکی ہیں اور کشمیر، سیاچن ، سرکریک سمیت بہت سے مسائل حل طلب ہیں۔ سرحدی جھڑپیں
تو اک عام سی بات ہے۔ پڑوسی ہونے کے ناتے دونوں ممالک کے آبی وسائل بھی مشترکہ ہیں
اور دریا کے بالائی حصے پر ہونے کے باعث بھارت کو ہم پر برتری بھی حاصل ہے، لیکن اس
جغرافیائی برتری کے باوجود دنیاکا کوئی قاعدہ یا قانون کسی بھی ملک کو مشترکہ وسائل
پر مکمل تسلط کا اختیار نہیں دیتا۔
دونوں ممالک کے درمیان دریائی
پانی پر ابتدا ہی سے تنازعات اٹھتے رہے جس کے حل کے لیے مذاکرات کی غرض سے عالمی بینک
نے اپنی خدمات پیش کی تھیں، یہ مذاکرات مئی 1952 میں عالمی بینک کی نگرانی میں شروع
ہوئے جو وقفے وقفے کے ساتھ طویل نو برسوں تک جاری رہے اور بالآخراس تنازع کے حل کے
لیے عالمی بینک نے عالمی طاقتوں کی حمایت سے دونوں ممالک کو ایک معاہدے کے لیے رضامند
کرلیا جسے سندھ طاس معاہدہ کہتے ہیں۔
شاید اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان پڑوسی ملک بھارت سے دونوں
ممالک کے درمیان موجود اس آبی معاہدے سندھ
طاس کا از سرنو جائزہ لینے کا مطالبہ کرے۔ یہ معاہدہ 1960میں پاکستان کے ایک باوردی
حکمرن کے ہاتھوں تشکیل پایا تھا جس کے تحت پاکستان کے تین دریا بھارت کے حوالے کردیے
گئے تھے۔ معاہدے کے تحت تین مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم اور چناب) کے پانی پر پاکستان
کو حق دار ٹھہرایا گیا اور دیگر تین مشرقی دریا (راوی ، ستلج اور بیاس) بھارت کے حوالے
کر دیے گئے۔ یہ معاہدہ جسے انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس معاہدہ) کا نام دیا گیا اس پر
19 ستمبر 1960 کو بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو، پاکستان کے صدر ایوب خان اور اس
وقت کے صدر عالمی بینک نے دستخط کیے۔
ووڈروولسن انٹرنیشنل سینٹر
فار اسکالرز 2009 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی پانی کی دستیابی فی فرد 70% کم
ہوچکی ہے۔1947 میں پانی کی یہ دستیابی 5000 کیوبک میٹر فی فرد تھی جو اب صرف 1000 کیوبک
میٹر فی فرد ہوچکی ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق پاکستان کو
55,000 کیوسک پانی ملنا چاہیے تھا لیکن2008 اور 2009 میں پاکستان کو سردیوں یعنی ربیع
کے سیزن میں صرف 13,000کیوسک ملا اور گرمیوں میں خریف کے سیزن میں صرف 29,000 کیوسک
ملا۔ بھارت کے پاس ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے اعلی تکنیکی صلاحیت موجود ہے۔ اور وہ
اپنے 4079 ڈیموں کی تعداد کے حوالے سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔
جبکہ ہمارے ہاں صورت حال اس
کے برعکس ہے اوراگر صاف بات کی جائے تورسوائی ،غفلت اور عاقبت نااندیشی کی یہ کہانی
نئی نہیں ہے پچھلے 65 سالوں سے ہمارا یہی رویہ ہے۔ اپنے وسائل کو غیر اہم جان کر اپنے
ہاتھوں نقصان پہنچانے کی یہ روایت بہت پرانی ہے۔ پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے جو
زندگی اور موت کا مسئلہ ٹھہرتاہے وہ ارباب اختیار کے لیے انتہائی غیر سنجیدہ ہوتا ہے۔نیلم
جہلم ہائیڈروپاور پروجیکٹ کیس کا فیصلہ بھارت کے حق میں آنے کے بعدہمارے ارباب اقتدار
نے پارلیمنٹ میں رسمی طور پر شور مچایا جارہا ہے وہ بالآخر خانہ پری ہی ٹھہرے گا اور
پھر یہی کہنا پڑے گا کہ
قومے فروختند چہ ارزاں فروختند !