Thursday, October 11, 2012

ملالہ یوسف زئی! یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی



ملالہ یوسف زئی اور ہمارے معاشرے کی تفریق !!! 

شاید دوبارہ اسکول نہ آسکوں !  یہ جملہ 16جنوری 2009 میں گل مکئی کی لکھی ہوئی ڈائری کے ایک ورق کا عنوان تھا۔
 اس جملے میں چھپے درد اور محرومی کے دکھ کومحسوس کرنے کے لیے لمحے بھر کے لیے چند سال پہلے کے سوات کو یاد کرلیجیے ۔ یہ جملہ عام حالات میں پروان چڑھتی کسی بچی نے نہیں بلکہ سوات کے حبس زدہ ماحول میں اسکول جاتی ساتویں کلاس کی دس سالہ بچی نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا۔ جسے یہ دکھ کھائے جارہا تھا کہ اب وہ کل سے اسکول نہیں جاسکے گی ، اس پر تعلیم کے دروازے بند کیے جارہے ہیں۔ اپنے دکھ اور ، محرومی کو بیان کرنے اور سوات کے لاکھوں بچوں کو زبان دینے والی یہ بچی ملالہ یوسف زئی تھی جو گل مکئی کے فرضی نام سے بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر ڈائری لکھا کرتی تھی۔ وہی ملالہ جو آج زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔
 کل جب چھوٹی سی اور نہتی ملالہ یوسف زئی پر دہشت گردوں نے فائر کھولا تو یہ گولیاں صرف معصوم ملالہ  کے جسم کو ہی نہیں بلکہ پور ی قوم کا دل بھی چھلنی کرگئیں۔ 14سالہ ملالہ چھوٹی سی عمر میں ہزاروں لاکھوں بے زبانوں کی آواز بن کر گونجی تھی۔اسے اپنا اسکول بند ہونے کا بہت دکھ تھا جس کا وہ برملا اظہار کررہی تھی اور اسی حوالے سے اس نے انتہائی بے خوف لہجے میں کہا تھا کہ” وہ کسی سے نہیں ڈرتی“ اور شاید یہی اس کا جرم ناقابل برداشت ٹھہرا جس کی سزا اسے دی گئی۔
چند سال پہلے سوات کے علاقے مینگورہ شہر کی رہائشی ملالہ نے گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھ کر بین الاقوامی شہرت حاصل کی تھی۔بعدازاں حکومت پاکستان نے انہیں سوات میں طالبان کے عروج کے دور میں بچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر نقد انعام اور امن ایوارڈ بھی دیا تھا۔ انہیں 2011 میں ” انٹرنیشنل پیس پرائز“ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔
ملالہ یوسف زئی کا تعلق سوات کے صدر مقام مینگورہ سے ہی ہے۔سوات میں دو ہزار نو میں فوجی آپریشن سے پہلے حالات انتہائی کشیدہ تھے، علاقے میں لڑکیوں کے اسکولوں پر پابندی لگادی گئی تھی۔ عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا ممنوع تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ خوف کی وجہ سے میڈیا پر کوئی بات نہیں کرسکتے تھے۔ ان حالات میں ملالہ نے کمسن ہوتے ہوئے بھی انتہائی جرات کا مظاہرہ کیا اور مینگورہ سے گل مکئی کے فرضی نام سے بی بی سی اردو سروس کے لیے باقاعدگی سے ڈائری لکھنا شروع کی۔
اس ڈائری میں وہ سوات میں پیش آنے والے واقعات بیان کرتیں۔ اس ڈائری کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ ان کی تحریریں مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی باقاعدگی سے شائع ہونے لگیں۔ملالہ پر دو بین الاقوامی اداروں نے دستاویزی فلمیں بھی بنائی ہیں جن میں انہوں نے کھل کر تعلیم پر پابندیوں کی مخالفت کی تھی۔
ملالہ کا قصور کیا تھا ؟ یہی کہ وہ تعلیم اور خصوصا لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھاتی تھی ؟
ملالہ پر حملہ سراسر بزدلی اور اسلام کی تعلیمات کے یکسر منافی ہے۔ اسلام تو محبت اور رواداری کا مذہب ہے، برداشت کا درس دیتا ہے اور توازن کی راہ سجھاتا ہے ۔ وہ بوڑھوں اور بچوں پر حالت جنگ میں بھی ہاتھ اٹھانے سے روکتاہے۔ملالہ نے ہر گز ایسا کوئی کام نہیں کیا تھا جس کی اسلام میں یہ سزابنتی ہو۔ ایسے واقعات دنیا بھر میں اسلام اورمسلمانوںکا ایک انتہائی منفی عکس پیش کرتے ہیں ، شاید آج اسلام کو اصل خطرہ مسلمانوں سے ہی ہے۔ ہم نے اپنی گروہی لڑائی جھگڑوں کو جہاد کا نام دے کر لفظ جہاد پر بھی بہت سے سوالات اٹھادیے ہیں۔
ملالہ یوسف زئی پر حملے کی ہر سطح پر مذمت کی جارہی ہے ، بین الاقوامی سطح پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔لیکن ہمارے نزدیک افسوس بلکہ انتہائی تشویش کی بات یہ ہے کہ ملک کے اندر اس پر دورائے جنم لے رہی ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جو کھل کر اس درندگی اور بربریت کے خلاف بول رہا ہے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کررہا ہے جبکہ دوسری جانب خوفناک سناٹے کا عالم ہے۔ دبی دبی زبان میں مذمت جاری ہے اور ساتھ ساتھ حملے کے جواز بھی گھڑے جارہے ہیں کہ” ملالہ پر حملہ ہوا تو سب تڑپ اٹھے جبکہ ڈرون حملوں میں مارے جانے والوں بچوں کے لیے کوئی نہیں بولتا۔“گمنام ایس ایم ایس اور ای میل پر تو یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ تمام لوگ جو ملالہ کے لیے افسوس کررہے ہیں وہ سب ”کافر “ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں یہ تفریق انتہائی خوفناک اور مزید انتشار کن ثابت ہوتی ہے۔ نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بھی زیادہ تربے گناہ ہیں اور جنہیں مشکوک سمجھ کر مارا جارہا ہے یہ بھی انتہائی غیر قانونی اقدام اور انسانیت کے خلاف ہے۔ مشکوک افراد کو مارنے کا اختیار کسی مذہب اور کسی قانون میں نہیں۔انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایسے مشکوک افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اگر وہ مجرم ہیں تو قرار واقعی سزا دی جائے۔یقینا یہ ڈرون حملے بھی انتہائی قابل مذمت ہیں۔ لیکن کیا اس سے ملالہ جیسے بے گناہوں کو مارنے کا جواز پیدا ہوجاتا ہے؟ ایک جرم دوسرے جرم کا جوازبن سکتا ہے ؟
مشہور صحافی حامد میرجن کے پروگرام میں پہلی بار ملالہ کو بے خوفی سے لوگوں نے بولتے سنا تھا، ملالہ نے کئی بار ان کے ٹی وی پروگرام میں بھی شرکت کی تھی، وہ ملالہ کے خاندان سے بھی بات چیت کرتے رہے ہیں ،معاشرے کی اس تفریق پر ان کا کہنا تھا کہ” ہم جب تک امریکا کی جنگ لڑتے رہیں گے ، ایسے سانحات ہوتے رہیں گے۔ ہماری سوسائٹی اس دہشت گردی کی جنگ میں بٹ چکی ہے۔ ایک ہی خاندان کے لوگوں سے اگر بات کریں تو وہ بھی مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ ایک بھائی پاک فوج اور ریاست کی حمایت میں بول رہا ہوگا تو دوسرا اس کے خلاف۔ وہ لوگ جنہیں طالبان سے نقصان پہنچا ہے وہ طالبان کے خلاف ہیں اور حکومت و فوج کے سپورٹر جبکہ جن کے گھروالے فوجی آپریشن میں مارے گئے وہ فوج کے مخالف اور طالبان کی حمایت میں بولتے ہیں۔ غرض یہ سوسائٹی بٹ چکی ہے اور اس کی ذمے دار صرف اور صرف حکومت پاکستان کی پالیسی ہے۔ حکومت جب تک پیسے لے کر امریکا کی جنگ لڑتی رہے گی حالات یہی رہیں گے۔لوگ اسی طرح نفرت کی آگ میں جلتے رہیں گے۔
پچھلے سال ہمیں بھی سوات جانے کا اتفاق ہوا تھا اور اپنے ایک ہفتے کے قیام میں سوات کے سفر میں ہم جن جن افراد سے ملے تھے ، ان کی باتیں یاد کرتے ہیں تو حامد میر کی باتوں کی تائید ہوتی ہے۔ سوات میں لوگ اسی طرح بٹی ہوئی سوچ کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔اب بھی جب ہم نے ملالہ پر حملے کے بعدسوات کے لوگوں کی آرا جاننے کی کوشش کی تو بہت سے لوگوں نے تو بے بسی سے یہ بھی کہا کہ ہمیں سمجھ نہیں آتی ہم کیا کریں، کون صحیح ہے اور کون غلط ؟ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ دونوں غلط ہیں۔اکثریت کی رائے یہ تھی کہ ایک اور آپریشن کا جواز پیدا کیا جارہا ہے۔ حکومت اور ریاست پر انتہائی عدم اعتماد کا اظہار کیا جارہا تھا۔ کسی کو حکومت پر بھروسہ نہ تھا۔
اٹھارہ لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل وادی سوات پچھلے چند سال پہلے دہشت گردی کی آگ میں جل رہی تھی۔ بموں سے اسکولوں کو اڑایاجارہا تھا۔ خواتین اور بچوں کا گھر سے نکلنا بند تھا۔ سی ڈیز اورنائیوں کی دکانیں تباہ کی جارہی تھیں۔ برقعے کے بغیر کسی عورت کے گھر سے باہرنکلنے پر زندگی کی کوئی ضمانت نہ تھی۔سر عام لوگوں کو مارا پیٹا اور قتل کیا جاتا، ہر قسم کا کاروبار تباہ ہوچکا تھا۔ لوگ واقعتا فاقے کررہے تھے ۔
 سوات میں مجھے عام لوگوں سے بات چیت کرنے اور ملنے جلنے کا موقع ملاتھا ، ان سے بات کرو تو وہ انتہائی متضاد رویے کا شکار نظر آتے ۔ وہ مایوس بھی تھے اور ان لوگوں کی آنکھوں میں مستقبل کے خواب بھی روشن تھے۔وہ چند سال پہلے کی دہشت گردی کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتے لیکن ذکر کیے بغیر بھی نہیں رہتے۔ ملالہ کے شہر مینگورہ کے لوگوں کا کہنا تھا کہ اب وہ اس ”خونی چوک“ کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتے تھے ( پھر تفصیل بھی بتادیتے)  جہاں مذہب کے نام پر لوگوں کو ذبح کیا جارہا تھا۔ ایک صاحب ، کی آواز یہ بتاتے ہوئے کپکپارہی تھی”اسی چوک پر ایک نوجوان گلوکارہ کو ذبح کرکے اس کی لاش عبرت کے لیے لٹکا دی گئی تھی۔ میرے کانوں میں آج بھی اس کی آواز گونج رہی ہے ، وہ روروکر یہی کہہ رہی تھی کہ مجھے گولی ماردو مگر ذبح نہ کرو۔“ اس گلوکارہ کا جرم اس کی گلوکاری تھی۔
سوات کے ہر گلی کوچے اور سڑک پر جا بجا آرمی کی چوکیاں اور ناکے بنے ہوئے تھے جو چیکنگ کے بغیر کسی کو آگے نہیں جانے دے رہے تھے اور خصوصا غیر ملکیوں کوتو بغیر سیکیورٹی گھومنے کی اجازت نہیں تھی۔
ایک اور اہم بات جو ہمارے مشاہدے میں آئی تھی وہ یہ تھی کہ اگرچہ قیام امن کے لیے لوگ پاک فوج کے شکر گزار تھے لیکن کچھ انفرادی واقعات کے سبب سوات کے لوگ شاکی بھی تھے۔ یہ لوگ اب دبی زبان سے پاک فوج کی چوکیوں اور ناکوں کے حوالے سے آواز اٹھانے لگے تھے۔ ہم نے مختلف لوگوں سے بات چیت کی تو ایک ہی بات سامنے آئی کہ ان چیک پوسٹوں پر مقامی لوگوں سے توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔ انہیں بدتمیزی سے پکارا جاتا ہے۔ بعض اوقات ان کی خواتین بھی ان کے ساتھ ہوتی ہیں جس سے وہ بہت زیادہ شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ کہیں کہیں تو انہیں گاڑی سے اتار کر کھڑا بھی کردیا جاتا ہے۔ انفرادی سطح پر ہونے والے یہ واقعات لوگوں میں غم و غصہ اور مایوسی کو جنم دے رہے تھے۔ ایک اور بات جو ہم نے یہاں نوٹ کی تھی وہ مختلف علاقوں میں گھروں کے درودیوار اور دکانوں کے شٹر کے رنگ تھے۔ کہیں سبز تو کہیں پیلا، کہیں سرخی مائل اور کہیں نارنجی۔ لوگ اس حوالے سے بھی بہت شاکی تھے کہ کبھی کوئی رنگ کرنے کا آرڈر ملتا ہے تو کبھی کسی اور رنگ کا۔ شاید رنگوں کی یہ تبدیلی کسی دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہو مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان غریب لوگوں کو رنگ کرنے کے لیے کچھ مالی امداد بھی کردی جاتی۔ بہرحال یہ چیکنگ اور ناکے اس بات کی واضح علامت تھے کہ حالات بہتر نہیں تھے۔ پاک فوج کے کنٹرول کے باوجودمقامی لوگوں کی رائے یہ تھی کہ پہاڑوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود تھے۔
معاشرے کو اس تفریق سے نکالنے اور قومی سطح پر اتنے بڑے مسائل پر مکمل ہم آہنگی اوریکسوئی کیسے اختیارکی جائے، یہ سوال آج کے حالات کو دیکھتے ہوئے انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ امریکا جس طرح اپنی جنگ کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا نام دے کر اس خطے میں اپنے مقاصد پورے کررہا ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے اور اس سے زیادہ افسوس ناک کردار ہماری ریاست کا ہے جو کمال ڈھٹائی سے اس جنگ کو اپنی جنگ قرار دیتی ہے، اور عوام ایک مخمصے میں پھنس کر رہ گئی ہے۔اس حوالے سے حامد میر صاحب کی تجویز تھی کہ” حکومت اور ریاست کو سب سے پہلے اپنی پالیسی بدلنی ہوگی۔ امریکا سے پیسے لینا بند کریں اور امریکا کی جنگ سے دوری اختیار کرلیں۔ اس کے بعد ان علاقوں میں جو بھی شورش ہے یا دہشت گردی ہے اس کے لیے خود کارروائی کریں۔ جن علاقوں میں دہشت گرد موجود ہیں وہاں کے لوگوں کو اعتماد میں لیں،اپنے ساتھ ملائیں۔ اگر لوگوں کا ریاست اور حکومت پر اعتماد بحال ہو تو پھر وہ خود امن و امان کے قیام میں حکومت کی مدد کریں گے۔ یہی آخری راستہ ہے پاکستان میں امن کے قیام کا۔
ملالہ جیسی ننھی بچی نے اپنے حق اور تعلیم کی اہمیت کے لیے آواز اٹھا کر سناٹے کو توڑنے کی جسارت کی تھی جو اس کا جرم ٹھہرا۔ آج وہ زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے یہ جنگ بھی جیت لے گی (آمین)۔ ملالہ یوسف زئی پر دہشت گردی کا یہ واقعہ حکومت کے لیے نوشتہ ءیوار ہے کہ وہ دہشت گردی کی اس جنگ کے حوالے سے جلد از جلد اپنی ایک ایک علیحدہ پالیسی تشکیل دے اور ڈرون حملوں کے خلاف پارلیمینٹ کی قرارداد پر عمل کرے۔

 سوات اور ارد گرد کے علاقوں میں جو فضا بدل رہی ہے وہ یقینالمحہ ءفکریہ ہے