پچیس برس قبل اسی ماہ یعنی اپریل 1986کو دنیا کی حادثاتی
تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب یوکرائن میں چرنوبل کے ایٹمی پلانٹ کا ری ایکٹر نمبر
چار ایک دھماکے سے پھٹ گیا تھا جس کے بعد نصف شمالی کرے کے تقریبا تمام ممالک میں تابکاری
کے اثرات پھیل گئے تھے۔ یہ 2011 کا اپریل ہے اور چوتھائی صدی بعد جاپان میں آنے والے
زلزلے اور سونامی نے چرنوبل کے حادثے کو پھر سے تازہ کردیا ہے کیونکہ جاپان میں فوکوشیما
ری ایکٹر پھٹنے کے بعد دنیا کو ایک بار پھر تابکاری کا خطرہ لاحق ہے۔
اب سے 40 سال پہلے تعمیر ہونے والے فوکوشیما کے ایٹمی بجلی
گھر کے بارے میں کسی نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ یہ آنے والے زمانے میں انسانی زندگی
کے لیے ایک بڑا خطرہ بن جائے گا۔ وہ ایٹمی بجلی گھر جو چالیس سال تک جاپان کی توانائی
کی ضروریات پوری کرتا رہا اس وقت دنیا بھر کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے۔ اندازہ لگایا
جارہا ہے کہ بحرالکاہل سے تابکاری سے آلودہ لہریں کتنے دنوں یا ہفتوں میں امریکا، برطانیہ
اور دوسرے ممالک کے ساحل سے ٹکرائیں گی۔ ماہرین موسمیات ہواؤں کے رخ سے اندازہ لگارہے
ہیں کہ تابکاری کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے بادل کب دنیا کے کس حصے کا رخ کریں گے۔ روس
نے بحرالکاہل میں پائی جانے والی مچھلیوں ، کیکڑوں اور جھینگوں میں تابکاری اثرات کا
جائزہ لینا شروع کردیا ہے کہ کہیں تابکاری کا خطرہ خطرناک حدود سے تجاوز تو نہیں کرگیا
ہے۔ خود جاپانی حکومت نے یہ اعلان کردیا ہے کہ فوکوشیما کے قریبی علاقوں میں دودھ ،
پالک کے پتوں اور دوسری سبزیوں میں تابکار ذرات خطرے کی حد سے زیادہ پائے گئے ہیں۔
جاپانی حکومت نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ جلد ہی خوراک کے نمونوں کا ایک بار پھر تجزیہ
کیا جائے گا اور اگر ان میں تابکاری حد سے بڑھی ہوگی تو ایٹمی بجلی گھر سے 150 کلو
میٹر کے دائرے میں پیدا ہونے والی ہر چیز پر پابندی لگادی جائے گی۔
فوکوشیما کے ایٹمی بجلی گھر میں جو تباہی آئی اور آگ لگی
اس نے پوری دنیا کو خوف زدہ کردیا ہے۔ جاپانیوں نے اس بجلی گھر کو تعمیر کرتے ہوئے
سخت حفاظتی انتظامات کیے تھے۔اسے زلزلے سے محفوظ رکھنے کا بھی انتظام کیا تھا۔ لیکن
یہ کون جانتا تھا کہ مستقبل میں آنے والا زلزلہ 9 درجے کی شدت کا ہوگا۔ اس بجلی گھر
کو سونامی سے محفوظ رکھنے کے لیے بہت اونچی دیوار بھی تعمیر کی گئی تھی لیکن سمندر
کی لہریں اس دیوار سے بھی بلند تھیں جو باآسانی اسے پھلانگ کر پلانٹ کے اندر گھس گئیں
اور وہ تباہی پھیلائی کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس کی بھی تحقیقات ہورہی ہیں
کہ زلزلے اور سونامی کے علاوہ اندازے کی کون سی ایسی غلطیاں تھیں جن کی وجہ سے ایٹمی
پلانٹ پھٹا اور تابکاری کا عذاب نازل ہوا۔
یوکرائن میں چرنوبل کے سانحے
میں تابکاری کا علم ہونے کے بعد علاقے بھر کے ایک لاکھ پینتیں ہزار افراد کو محفوظ
مقامات پر منتقل کردیا گیا تھا۔ بعد میں مزید دو لاکھ تیس ہزار افرادکو محفوظ مقامات
پر پہنچادیا گیا۔ ماحول کے لیے کام کرنے والی تنظیم گرین پیس کے مطابق اس حادثے میں
تابکاری سے ابتدائی طور پرمتاثر ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہوسکتی ہے اور
متاثرہ علاقوں میں اب تک بیماریوں کی بڑھتی ہوئی شرح اس تعداد کو اور بڑھادے گی۔
اس سانحے کی بیس ویں سالگرہ (2006)کے موقع پر گرین پیس کی
جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 1986 سے2056 یعنی ستر برس میں یوکرائن، بیلارس اور روس
کے اندر تابکاری کا شکار ہونے والے مزید 93 ہزار افراد ہلاک ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ
بیلارس میں خون کے کینسر سے لگ بھگ تین ہزار افراد اور تھائرائیڈ گلینڈ کینسر سے
14ہزار افراد مزید ہلاک ہوجائیں گے۔ ایٹمی ری ایکٹر سے نکلنے والی تابکاری کس حد تک
مہلک ہوسکتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی جسمانی اور ذہنی
طور پر معذور بچے پیدا ہورہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اثرات ابھی کئی دہائیوں
تک جائیں گے اور اس سانحے سے متاثر ہونے والے بچے کسی نہ کسی بیماری کا شکار رہیں گے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب تک دنیا بھر میں سیکڑوں ایٹمی
حادثات رونما ہوچکے ہیں اور بیشتر رازوں کو قومی راز بنا کر قومی مفاد میں دفن کردیا
گیا ہے۔ یہ ایٹمی تابکاری کی تباہ
کاریوں کا خطرہ ہی تھا کہ سونامی اور زلزلے سے زیادہ جاپانی حکام کو جوہری بحران کی
طرف توجہ دینی پڑی۔ فوکوشیما بجلی گھر میں کئی ہفتوں سے جاپانی حکام اس بحران پر قابو
پانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ ایک بین الاقوامی تھنک ٹینک کارنیگی اینڈاؤمنٹ سے وابستہ
جوہری توانائی کے ماہر مارک کا کہنا ہے کہ اگرچہ جاپان کا جوہری بجلی پروگرام دنیا
بھر میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ مانا جاتا ہے لیکن فوکوشیما کا بحران جاپان کے لیے
نئے چیلنج لے کر سامنے آیا ہے۔ مارک کا کہنا ہے کہ ” جاپان میں پچاس جوہری بجلی گھروں
کو کئی سالوں سے چلایا جارہا ہے ۔ جاپان کے جوہری توانائی پیدا کرنے والے اداروں کا
ڈھانچا انتہائی ترقی یافتہ ، بہترین منصوبہ بندی کا نمونہ اور مستقبل کی ضروریات اور
خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے ۔ پاکستان اور دوسرے ممالک کو اس معیار سے
سیکھنے کی ضرورت ہے۔“ لیکن جاپان میں جوہری حادثے کے بعد دنیا بھر میں جوہری توانائی
کے فوائد اور نقصانات کے حوالے سے بحث شروع ہوچکی ہے۔ جرمنی نے اپنے کئی ری ایکٹر بند
کردیے ہیں۔ امریکی جوہری ریگولیٹری اتھارٹی اپنے بجلی گھروں کا جائزہ لے رہی ہے۔ برطانیہ
کے نائب وزیر اعظم کا بیان بھی آچکا ہے کہ اس سونامی کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ جوہری
بجلی گھروں کے حفاظتی انتظامات پر اٹھنے والے بہت زیادہ اخراجات کی وجہ سے نئے جوہری
بجلی گھروں کا مستقبل خطرے میں ہے۔
جاپان کے زلزلے اور سونامی
کے بعد پاکستان میں بھی یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ جوہری تونائی سے بجلی کا حصول اس سے
وابستہ خطرات کے مقابلے میں کتنا فائدہ مند ہے ؟ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سابق سربراہ اور پاکستان کے
مایہ ناز سائنس داں ڈاکٹر ثمرمبارک مند کے ایک انٹرویو جو انہوں نے وائس آف امریکا
کی اردو سروس کو دیا تھا کے مطابق ، ان کا کہنا ہے کہ صرف کراچی کی جوہری تنصیب ساحلی
علاقے کے قریب ہے جو چالیس سال قبل تعمیر کی گئی تھی۔۔ اگر بحر ہند میں جاپان طرز کے
سونامی سے کسی ایٹمی ری ایکٹر کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے تو وہ 137میگا واٹ کا کراچی کا
نیو کلیئر پاور پلانٹ ہے۔ یہ ری ایکٹر چالیس سال پرانا ہے اور بجلی بھی صرف ساٹھ فیصد
دے رہا ہے۔ تو اگر بحر ہند میں کوئی شدید زلزلہ آئے تو سونامی اس سے تو ٹکرا سکتا ہے
لیکن دیگر ری ایکٹر محفوظ ہیں وہ چشمہ کے مقام پر ہیں۔ انہیں باقاعدہ تحقیق کے بعد
وہاں تعمیر کیا گیا ہے وہ زلزلے کے زون میں نہیں ہیں۔ ان کے ڈیزائن میں یہ چیز شامل
ہے کہ وہ شدید زلزلوں میں بھی خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے
نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔
جاپان میں تباہ کن زلزلے سے متاثرہ نیو کلیئر ری ایکٹر کے
آس پاس کے علاقوں سے اگرچہ کئی لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے تاہم
جاپانی قیادت کا کہنا ہے کہ متاثرہ ری ایکٹرز سے خارج ہونے والی تابکاری ایسی سطح پر
پہنچ چکی ہے جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ فوکو شیما نیوکلیئر پلانٹ
سے 20 سے 30 کلو میٹر کے علاقے میں موجود افراد کو گھروں کے اندر رہنے کے لیے کہا جارہا
ہے۔ جاپان میں زلزلے کے بعد امریکا سمیت دنیا بھر میں یہ بحث بھی ہورہی ہے کہ ایٹمی
توانائی اور ایٹمی بجلی گھروں کی فول پروف حفاظت کے لیے مزید کیا اقدامات کرنے ہوں
گے۔ دو ہفتوں قبل ڈائی چی کی ایٹمی بجلی گھر میں ہونے والے دو ہائیڈروجن دھماکوں میں
پلانٹ کے کئی کارکنوں کے زخمی ہونے اور ڈیڑھ سو سے زائد افراد میں تابکاری کے اثرات
کی تصدیق ہوچکی ہے۔ جوہری ماہرین اس صورت حال کو بڑی تشویش سے دیکھ رہے ہیں۔ جاپانی
حکومت کا اصرار ہے کہ تابکاری کی سطح ابھی خطرناک حد تک نہیں پہنچی لیکن تمام جوہری
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ شاید دنیا کو ایک اور بڑے ایٹمی حادثے کا سامنا ہے۔ ہے۔جاپان
کے ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایٹمی ری ایکٹر کا ڈھانچا انتہائی مضبوط ہوتا ہے ۔
جاپان میں یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا امریکا میں ہے ، اور چرنوبل جیسا بالکل نہیں ہے۔
جس کا کوئی حفاظتی ڈھانچا ہی نہیں تھا۔ اس لیے جب ری ایکٹر پھٹا تو تابکاری کے اثرات
تمام یورپ تک پھیلے تھے ۔ جاپان اور امریکا میں ایسا نہیں ہوگا۔ لیکن اب امریکا ہی
میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں اس حوالے سے بحث چھڑ چکی ہے۔ امریکا میں جاپان کے طرز کے
23 ایٹمی ری ایکٹرز جبکہ کل 104ایٹمی ری ایکٹرز کام کررہے ہیں۔ عالمی ایٹمی توانائی
ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل یوکیا ایمانو نے کہا ہے کہ جاپان میں متاثرہ ری ایکٹر بند
کردیے گئے ہیں اس لیے کسی چین ری ایکشن کا خطرہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہائیڈروجن
کے کچھ دھماکے ہوئے ضرور ہیں لیکن یہ کوئی ایٹمی رد عمل نہیں ہے بلکہ کیمیائی عمل ہے۔
باوجود ان دھماکوں کے ری ایکٹر کا بنیادی ڈھانچا، جسے کسی بڑی تابکاری کو روکنے کے
لیے ڈیزائن کیا گیا ہے اپنی جگہ قائم ہے اور تابکاری کا اخراج بے حد محدود ہے۔ عالمی
ایٹمی توانائی ایجنسی نے یقین دہانی کروائی ہے کہ ایٹمی ری ایکٹرز کے حوالے سے تمام
ضروری معلومات فراہم کی جائیں گی لیکن ماہرین کا یہ کہناہے کہ جاپان میں زلزلے سے ہونے
والی تباہی کے نقصانات کا مکمل اندازہ اسی وقت ہوسکے گا جب جاپان کے ایٹمی ری ایکٹرز
کو پہنچنے والے نقصان کے ماحولیاتی اثرات کا حتمی تخمینہ سامنے آئے گا۔ اب تک کے اندازوں
کے مطابق جاپان سے ہواؤں کا رخ امریکا کی جانب ہوگا لیکن اگر ہواﺅں
کا رخ بدل گیا تو پھر تابکاری کے اثرات بڑی آسانی سے جنوبی ایشیا تک پہنچ جائیں گے۔
جاپان میں جوہری بحران کو اگر صرف جاپان کا بحران سمجھا جارہا ہے تو یہ ایک بہت بھیانک
غلطی ہوگی۔ فوری طور پر اگر دیکھا جائے تو بحرالکاہل میں بھی تابکار آئیوڈین کی سطح
میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہاں کی سمندری مخلوق تابکاری کے اثرات کا شکار
ہوگئی ہے اور اس خوراک کو کھانے والے بھی ان اثرات کا شکار ہوجائیں گے۔ فوری طور پر
تو شاید کوئی نہ مرے لیکن یہ اثرات نسلوں تک منتقل ہوتے ہیں۔ پیدا ہونے والے معذور
بچوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔ کینسر اور کئی دوسرے امراض کا خطرہ بڑھ جائے، اسی خطرے
کے پیش نظ چین نے فوری طور پر جاپان سے غذائی اور زرعی اشیا کی درآمد پر پابندی عائد
کردی ہے۔
پچیس سال قبل چرنوبل کے ایٹمی ری ایکٹر میں دھماکا ایک الم
ناک انسانی سانحے سے کم نہیں۔ دھماکے کے بعد پورے علاقے کو خالی کرالیا گیا تھا، لوگ
صرف ضرورت کی چند اشیا ساتھ لے جاسکے تھے۔ انہیں امید تھی کے وہ اپنے گھر بہت جلد لوٹ
آئیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔ پچیس سال گذر جانے کے بعد بھی ابھی تک یہ علاقہ اجڑا
ہوا اور آسیب زدہ منظر پیش کرتا ہے۔ یہاں کوئی نہیں رہتا البتہ سیاح دنیا بھر سے تباہی
کے یہ نقوش دیکھنے ضرورآتے ہیں۔ چرنوبل کو دیکھنے کی فیس بہت معمولی ہے۔ یہاں آنے والے
سیاحوں کی تعداد ہزاروں میں ہے شاید لوگ اپنی آنکھوں سے ترقی کا ہولناک نتیجہ دیکھ
کر یقین کرنا چاہتے ہیں۔ چرنوبل کے ایٹمی پلانٹ سے کچھ فاصلے پر وہ شہر پری پیات موجود
ہے جسے چرنوبل پلانٹ میں کام کرنے والوں کے لیے بسایا گیا تھا۔ اس شہر کو 36 گھنٹے
بعد خالی کروالیا گیا تھا اور اس شہر کے گھر اور درودیوار آج بھی مکینوں کی راہ دیکھ
رہے ہیں۔ ان دیواروں پر وہاں کے فنکاروں نے گم شدہ افراد کی تصاویر بنادی ہیں۔پری پیات
کو ایک مثالی قصبہ سمجھا جاتا تھا جہاں رہائشی عمارات کے گرد گلاب کے پھول اور درخت
لگائے گئے تھے۔ یہ نوجوان افراد اور بڑھتے خاندانوں کا قصبہ تھا۔ اب اس شہر میں رہنے
والا تو کوئی نہیں۔ راتوں کو گلیوں میں جنگلی سور گھومتے پھرتے ہیں اور تو اور درختوں
نے رہائشی عمارتوں کے اندر اگنا شروع کردیا ہے۔
پری پیات کی گلیوں میں گھومنے والی ایک نوجوان طالبہ کی
بات دنیا کو یاد رکھنی ہوگی۔ آنا ستاسیا کا کہنا تھا کہ ” میں اب تک ایٹمی توانائی
کو کامیاب سمجھتی تھی اور اس میں مزید ترقی کی امید رکھتی تھی لیکن اب میری رائے تبدیل
ہوچکی ہے۔“ ہمارا بھی یہ خیال ہے کہ اب دنیا کو توانائی کے محفوظ طریقوں پر کام کی
رفتار تیز کردینی چاہیئے۔
بین الاقوامی سطح پر نیو کلیئر اینڈ ریڈیولوجیکل واقعات
کی شدت ناپنے کا اسکیل INES کہلاتا ہے جو صفر سے شروع
ہوکر سات تک جاتا ہے۔ صفر کا مطلب ” قابل نظر انداز“ اور سات کے معنی ”بڑا حادثہ “
ہوتا ہے۔ جوہری حادثوں کی تاریخ میں چرنوبل کا سانحہ وہ واحد واقعہ ہے کہ جب اسے سات
کا درجہ دیا گیا تھا۔جاپان میں ایٹمی ری ایکٹر سے تابکاری کے حادثے کو اب تک پانچ درجہ
قرار دیا جارہا ہے۔ اس اسکیل میں پانچ کا مطلب ایسا حادثہ جس کے ب بڑے پیمانے پر بڑے
نتائج رونما ہوسکتے ہیں۔ جوہری ماہرین کے مطابق جاپان میں پیش آنے والے واقعے کو ممکنہ
طور پر ” نیا چرنوبل“ قرار دینا درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جوہری سلامتی کے
حوالے سے دنیا بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ جاپانی جوہری سلامتی ایجنسی کی طرف سے لیول پانچ
کا اطلاق خصوصی طور پر جوہری ری ایکٹرز کی عمارت دو اور تین پر کیا گیا۔ ماہرین کے
مطابق 1979 میں امریکی جزیرے تھری ماڈل میں پیش آنے والے جوہری حادثے کو بھی پانچ کا
درجہ دیا گیا ہے۔