Tuesday, April 13, 2010

پانی کی کفایت اور شجرکاری

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ۔۔۔۔۔

پانی کی کفایت اور شجرکاری ، منزل کی جانب یہی راستہ جاتا ہے

ہمارا ”گھر“ اب خطرے کی زد میں ہے! اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے گھر کو بچانے کے لیے تیزی سے اقدامات کرنے ہوں گے۔انسان دراصل دو گھروں کا مکین ہے ، ایک اس کا گھر اور دوسرا کرہ ارض ۔ ہمیں دونوں گھروں کا یکساں تحفظ کرنا ہے لیکن ہم نے اپنی عاقبت نا اندیشی سے اپنے ان دونوں گھروں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

 زمینی وسائل کے استعمال اور قدرتی ماحول کے درمیان ایک نہایت مضبوط تعلق موجود ہے اور انسانی سرگرمیاں جب قدرتی ماحول میں خلل ڈالتی ہیں تو ہرے بھرے مناظر کو صحراؤں میں تبدیل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔

کسی بھی ملک و قوم کی خوش بختی اور خوش حالی کا اندازہ اس کے زر مبادلہ کے ذخائر سے نہیں بلکہ اس کے قدرتی وسائل سے کیا جاتا ہے۔قدرتی وسائل ہی وہ اصل خزانہ ہیں جس سے اس ملک کے کھیت کھلیان شاداب ، دریاؤں میں پانی رواں دواں اور لوگوں کے چہروں پر خوشی اور مسرت کے رنگ جھلملاتے ہیں۔زمین پر زندگی کے تمام رنگ ان ہی قدرتی وسائل کے مرہون منت ہیں۔ مالا مال سمندر دریا، دنیا کے بلند پہاڑ ان کے دامن میں جھومتے بارشوں کو کھینچتے سیکڑوں سالہ قدیم درخت ، زرخیز مٹی کے میدان ،سر سبز کھیت کھلیان اور رنگ برنگا حیاتی تنوع ہی ہماری اصل دولت ہے۔

درخت یا جنگلات بھی بظاہر ہمارے لیے ایک عام سے وسائل ہیں لیکن زمین کا تمام تر فطری ماحولیاتی نظام ان ہی کے گرد گھومتا ہے۔یہی موسموں کے جن کو قابو میں رکھتے ہیں۔ جنگلات کو اگر ماحول کا نگہبان کہیں تو زیادہ غلط نہ ہوگا۔یہ بڑے پیمانے پر فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں ،درجہ حرارت اور بارش کو قابو میں رکھتے ہیں۔بڑے آب گیر علاقوں( واٹر شیڈز) میں اگنے والا یہ حفاظتی پردہ نہ صرف ماحولیاتی نظاموں کو برقرار رکھتا ہے بلکہ مٹی کو اپنی جگہ قائم رکھ کر سیلابوں کے مقابلے میں رکاوٹ کاکام بھی دیتا ہے۔ اب یہ ثابت ہوچلا ہے کہ بدلتے موسم یعنی کلائمیٹ چینج جیسے پیچیدہ مسئلے سے نمٹنے کا ایک آسان حل زیادہ سے زیادہ شجر کاری ہے۔



پاکستان کا شماران ممالک میں ہوتا ہے جہاں دنیا میں سب سے کم جنگل پائے جاتے ہیں۔یعنی اس کی خشکی کے مجموعی رقبے کا صرف 5 فیصد ہے جو بہت کم ہے اور حکومت اسے 2011؁میں بڑھا کر 5.7 فیصد تک پہنچانا چاہ رہی ہے۔یہ محدود وسیلہ بھی مسلسل دباؤ کا شکارہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کے چپے چپے پر شجرکاری کا اہتمام کیا جائے۔ جنگلاتی وسائل کی ابتری کے باوجود بہت سی جگہوں پر بہت اچھا کام بھی ہورہا ہے اور جس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں۔ ایسا ہی شجرکاری کا ایک پروجیکٹ ہمیں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔

یہ مارچ کا آخری ہفتہ تھا، اسلام آباد میں ایک غیر سرکاری تنظیم ” لیڈ“ کے زیر اہتمام علاقائی سطح پر ایک تین روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ شرکا میں پاکستانی صحافیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی صحافی بھی موجود تھے اور موضوع تھا"Sharing our resources: A vision for addressing cross border water scarcity caused by climate change"
بدلتے موسم آبی وسائل پر کیا اثرات مرتب کررہے ہیں اور سرحدوں کے پار کیا ہورہا ہے؟ دونوں ممالک کے صحافیوں کے لیے یہ ایک معلوماتی ،دلچسپ اور اہم تبادلہ ، خیال تھا لیکن اس کی تفصیل ایک مکمل اور علیحدہ مضمون کی متقاضی ہے۔ سر دست تو بدلتے موسم اور شجر کاری کے حوالے سے ہم اپنے پٹریاٹہ( نیو مری) کے سفر کی روداد بیان کریں گے۔ ورکشاپ کے تیسرے دن فیلڈ وزٹ کے طور پر ہمیں پٹریاٹہ یا نیو مری کا دورہ کرنا تھا جہاں ایک چھوٹی سی مقامی تنظیم ”سکھی“ نے مقامی آبادی کی شمولیت سے چھوٹے پیمانے پر ہی سہی ایک تبدیلی کا آغاز کیا ہے۔

مری کے جنوب مشرقی پہاڑیوں سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر پٹریاٹہ ہے، یہ یہاںکا سب سے اونچا مقام ہے جو سمندر سے نو ہزار فٹ کی بلندی پرہے۔پائن اور روک کے درختوں سے ڈھکی پہاڑیاں،گنگناتے چشمے ،تاحد نظر پھیلی ہریالی ،پھلوں سے لدے باغات روح پرور مناظرپیش کرتے ہیں۔

پٹریاٹہ جسے نیو مری بھی کہا جاتا ہے، تحصیل مری کی ایک یونین کونسل میں واقع ہے۔ یہاں سطح سمندر سے 8,000 بلند ترین چوٹی واقع ہے۔ سرسبز و شاداب یہ چوٹی پائن کے درختوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس بلند ترین چوٹی کے ارد گرد خوبصورت وادیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہیں پر ایشیا کی طویل ترین کیبل کار اور چیئر لفٹ سسٹم ( تقریبا 6 کلومیٹر طویل) نصب ہے۔ یہاں ملک بھرسے اور بیرون ملک سے تقریبا 3000 سیاح قدرت کی عنایت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ خصوصا پیک سیزن ( جون سے اگست تک) ۔ مقامی آبادی زیادہ تر اپنے چھوٹے موٹے کاروبار مثلا ہوٹل، دکانیں، ڈرائیوری، چھوٹے پیمانے پر کاشت کاری ( مکئی، گندم اور پھلوں میں سیب ، ناشپاتی اور اخروٹ اگائے جاتے ہیں۔) سے وابستہ ہیں جبکہ کچھ لوگ سرکاری دفاتر میں بھی کام کرتے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ یہاں سیاحوں کی تعداد بڑھنے کی وجوہات میں اسلام آباد سے نیو مری تک ایکسپریس وے کی تعمیر ہے جو اپنے معیار میں کسی موٹروے سے کم نہیں ہے جس پر سفر کرکے لوگ صرف 50 منٹ میں اسلام آباد سے پٹریاٹہ پہنچ جاتے ہیں۔

 اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل سے پٹریاٹہ تک گھنٹے بھر کا یہ سفر اونچے بلند وبالا سر سبزپہاڑ اور دوسری جانب ہزاروں فٹ گہری کھائیاں ، پیچ در پیچ گھومتا راستہ ، ایسے میں تیز رفتار اور ہموار سفر اللہ تعالی کی مہربانی اور ڈرائیوروں کی مہارت کا مرہون منت تھا۔ اسلام آباد کی خوبصورت اور بھیگی بھیگی صبح میں یہ سفر شروع ہوا۔ ایک رات پہلے ہی اسلام آباد میں طوفان بادوباراں اور اولے پڑچکے تھے جس کی ٹھنڈک ابھی تک ماحول میں رچی بسی تھی۔

غیر سرکاری تنظیم ”سکھی “ (Society For Upgradation of Knowledge Health and Infrastructure) کے ساتھیوں نے تمام صحافیوں کے گلے میں ہار ڈالے اور پرتپاک استقبال کیا۔ ”سکھی“ کے روح رواں چوہدری اسرار الحق نے اپنے کام کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔”ہم نے2007 میں یہ پروجیکٹ UNDP/GEF/کے زیر اہتمام اسمال گرانٹ پروگرام کے تعاون سے شروع کیا۔ اس پروجیکٹ کا بنیادی مقصدتحفظ ماحول اور مقامی آبادی کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔

 ”گھریلو سطح پربارش کے پانی کا ذخیرہ اور سوشل فارسٹری کا فروغ ہماری پہلی ترجیح تھی۔ شجر کاری کے لیے بھی ہم نے پھل دار پودوں کا انتخاب کیا تاکہ چند سال بعد جب وہ پھل دیں تو مقامی آبادی معاشی طور پر بھی مستحکم ہو ۔ یہاں پھل دار درخت لگانے کی روایات تو موجود تھیں لیکن یہ پودے غیر معیاری ہوتے تھے ۔ ہم نے اس بات کا بھی اہتمام کیا کہ لگائے جانے والے پھلوں کے پودے اعلی معیار کے ہوں ، اس حوالے سے تحصیل مری کی تین یونین کونسلوں میں 31,000 جنگلاتی پودے اور 34,000 پھل دار پودے 1,115مقامی افراد کو فراہم کیے ۔ آنے والے چند سالوں میں یہ درخت پھل دیں گے جس سے لوگوں کو معقول آمدنی کا ایک باقاعدہ ذریعہ حاصل ہو جائے گا۔ ان علاقوں میں بارش کا پانی جمع کرنے کے لیے بھی سادہ اور آسان طریقوں کو کام میں لایا جارہا ہے۔ بہنے والے تمام پانی کو پختہ ٹنکیوں میں جمع کرلیا جاتا ہے جس سے ان پودوں کی آب پاشی اور مقامی افراد کی گھریلو ضروریات میں کام آتا ہے ۔ نیو مری کا یہ علاقہ انتہائی سرسبز اور مرطوب ہے لہذا یہاں پودوں اور درختوں کو بہت کم پانی درکار ہوتا ہے ، یوں سمجھ لیں کہ ہفتے بھر میں صرف 5 لٹر ۔ اس علاقے میں پانی کا ذخیرہ یوں بھی ضروری ہے کیونکہ یہاں دوسرے علاقوں کی نسبت بارشوں کا اوسط کم ہے۔ مقامی آبادی میں خواتین کی تعداد% 50       سے کم نہیں ہے جو کاشت کاری، گلہ بانی اور بطور ٹیچر، ڈاکٹر اور لیڈی ہیلتھ وزیٹرکام کررہی ہیں۔ ان کی ایک اہم ذمے داری دور دراز علاقوں سے پانی لانا بھی ہے لیکن ” سکھی“ کے زیر اہتمام پانی ذخیرہ کرنے اور کم استعمال کی ترغیب دھیرے دھیرے ہی سہی اس منظرنامے کو تبدیل کر رہی ہے۔ یہاں خواتین با اعتماد طور پرسول سوسائٹی کی چھوٹی تنظیمیں بھی چلا رہی ہیں۔

اسرار صاحب کا کہنا ہے کہ ہمارا اصل کام مقامی آبادی میں ماحول سے متعلق شعور اور آگہی پیدا کرنا ہے تاکہ انہیں اپنے ماحول اور وسائل کی اہمیت کا احساس ہوجائے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے ایسے تمام متاثرین جن کے گھر اور زمینیں مری اسلام آباد ایکسپریس وے کی زد میں آگئے تھے ، یا جن کے پاس تھوڑی سی زمین تھی اور جس پر کوئی قابل ذکر کاشت نہیں ہوسکتی تھی اور ایسے تمام لوگ جن کے ذرائع آمدنی محدود یا نہ ہونے کے برابر تھے انہیں پھل دار درخت اور خصوصا معیاری پھل دار پودے لگانے پر راغب کیا۔ مارکیٹنگ کے حوالے سے بھی یہاں بہترین مواقع موجود ہیں۔ان پھلوں کی مارکیٹ قریب ترین شہروں یعنی اسلام آباد، راولپنڈی اور یہاں آنے والے ہزاروں سیاح ہیں۔

ہم نے اس تمام علاقے کا چیدہ چیدہ مشاہدہ کیا اور جو بات ہمیں اچھی لگی وہ یہ ہے کہ روایتی جدید شہروں سے بہت دور اس پس ماندہ علاقے میں خواتین کا نہایت اعتماد سے اس پروجیکٹ میں حصہ لینا ہے۔ خواتین کی ان تمام کاموں میں شمولیت نے مقامی سطح پر بھی اچھے اثرات مرتب کیے ہیں اوراس سے کام کا دائرہ  کار بھی تیزی سے بڑھا ہے۔ اس کارکردگی کو دیکھتے ہوئے سکھی کو 2009 میں ایک اور پروجیکٹ دیا گیا جس میں انہیں 40,000 پھل دار پودے تصدیق شدہ معیار کے دیے گئے۔ ان میں آڑو، سیب، اخروٹ اور ناشپاتی کے پودے شامل تھے۔ یہ پودے 746 افراد میں تقسیم کیے جائیں گے۔ سکھی ہی نے اب ایک قدم اور آگے بڑھ کر یہاں پھل دار پودوں کی نرسری بھی قائم کی ہے جس میں 5,000 پودے مقامی آبادی کے لیے دستیاب ہیں۔

اس خوبصورت اور سرسبز علاقے میں ترقی کی رفتار اور تیز ہوسکتی ہے اگر سرکار تھوڑی سی توجہ ادھر کرلے۔ یہاں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے صرف اسکول کی سطح تک تعلیم کا انتظام موجود ہے جبکہ یہاں کم از کم کالج تو قائم ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ انتہائی اہم بات یہاں صحت کی معیاری سہولیات کی عدم دستیابی ہے، کوئی معیاری اسپتال بھی نہیں ہے۔ یہ وہ دو بنیادی ضرورتیں ہیں جو ہماری حکومت بہت آسانی سے ان ہرے بھرے علاقوں کے محنت کشوں کو فراہم کرسکتی ہے۔ اس سے یہاں کی سیاحت پر بھی اچھے اثرات رونما ہوں گے۔

بدلتے موسم ایک نئے اور بدترین خطرے کی صورت ہمارے سروں پر منڈلارہے ہیں اور اس حوالے سے انتہائی تیز رفتاری سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم خواتین کو اپنے ہر منصوبے میں شامل کریں۔یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ خواتین اور قدرتی وسائل لازم و ملزوم ہیں۔ ماحولیاتی انحطاط کا خسارہ زیادہ تر خواتین ہی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ جیسے جیسے قدرتی وسائل آلودہ یا کمیاب ہوتے چلے جاتے ہیں، خواتین کے مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ قدرتی وسائل اور ماحولیاتی انحطاط سے بالواسطہ اور براہ راست خواتین ہی زیادہ متاثر ہوتی ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ماحولیاتی انحطاط کا عمل تیزی سے جاری ہے اور قدرتی وسائل کمیاب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

اس ماحولیاتی انحطاط میں اگرچہ عورت کا اتنا ہاتھ نہیں ہے لیکن پاکستانی معاشرے میں ماحول اور قدرتی وسائل کے انتظام و انصرام میں عورت کا کردار انتہائی اہم اور واضح ہے۔ وہ ان وسائل کی زیادہ اچھی محافظ ہے۔ یہ وسائل ہماری آئندہ نسلوں کی امانت ہیں لہٰذا ان کی حفاظت ہمارا فرض ہے اور آنے والی نسلوں کا خیال ایک ”ماں“ عورت سے زیادہ کون رکھ سکتا ہے۔

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے یعنی 1994 میں موسمی تبدیلیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کی توثیق کی تھی۔ یہی نہیں بلکہ اس نے دیگر متعلقہ معاہدوں Protocol کی تصدیق بھی کردی تھی۔ اگرچہ پاکستان کے بعض اہم اور متعلقہ حلقوں کا خیال یہ ہے کہ موسمی تبدیلیوں کا صنف سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور یہ مردو عورت پر یکساں ہوتے ہیں تو یہ بالکل غلط خیال ہے۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ Adaptability, Vulnerability اور Mitigation کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو موسم کی تبدیلیوں کے اثرات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔


اس وقت پاکستان میں موسمی تبدیلیوں سے متعلق پالیسی پر کام جاری ہے تاہم پاکستان کو موسمی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ایسی پالیسی وضح کرنے کو ترجیح دے جس میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہو کہ عورتوں اور مردوں پر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس پالیسی کے عمل میں اگر عورتوں کو بڑے پیمانے پر شامل کیا جائے تو ایسی صورت میں فیصلہ سازی کے لیے جو مواد حاصل ہوگا اس میں ہر مکتب خیال کو موثر نمائندگی حاصل ہوگی اور تبھی شاید کوئی بہتری کی صورت نکل سکے۔ وقت مٹھی میں بند ریت کی طرح پھسل رہا ہے اور مجھ سمیت کروڑوں لوگ انتظار کررہے ہیں کہ شاید2010جاتے جاتے وقت کی کتاب پرکچھ پکے رنگوں کے انمٹ اور یادگار نقوش چھوڑ جائے۔