شیخ چلی کا مزار اور پانچ ہزار سال پرانی جھیل برہماسرور،
کرک شترا کی وجہ شہرت ہے
صبح
کے چھ بج رہے تھے ، ہلکا ہلکا اجالا پھیلا ہوا تھا،گاڑی انٹر کانٹی نینٹل گرینڈ ہوٹل
کے باہر تیار تھی۔ اتنی صبح کوئی بھی ناشتے کے لیے تیار نہ تھا اس لیے حفظ ماتقدم کے
طور پر رات ہی کو ہوٹل والوں سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ سب کا ناشتہ پیک کردیں۔ ملگجے
سے اجالے ، نومبر کی ہلکی خنک ہوا اور دلی کی ٹریفک سے خالی سڑکیں، ایک خوشگوار سفر
کا آغاز ہوا جس کی منزل ہریانہ کے ضلع کرک شترا کا ایک سر سبز گاؤں بشن گڑھ تھا۔
یہ
17نومبر 2008 کا ایک خوش گوار دن تھا۔ سینیٹشن کے حوالے سے تیسری کانفرنس SOUTH ASIAN
CONFERENCE ON SANITATION (SACOSAN III) دہلی
میں ہورہی تھی۔ اس کانفرنس میں تمام سارک ممالک شامل تھے، اس بار اہم بات یہ تھی کہ
ہمسایہ ملک افغانستان بھی اس میں شامل تھا، یوں اب شریک ملکوں کی تعداد 8 ہوگئی تھی۔
یہ علاقائی کانفرنس ہر دوسال بعد منعقد ہوتی ہے۔ پہلی ڈھاکا، دوسری اسلام آباد اور
اب یہ تیسری دہلی میں منعقد ہورہی تھی۔ کانفرنس کا باقاعدہ آغاز 18نومبر کو تھا مگر
کانفرنس کے ذیلی پروگرام شروع ہوچکے تھے۔ ہم اسی کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی میں
موجود تھے۔ ہمارا میزبان ورلڈبینک کا ذیلی ادارہ برائے واٹر اور سینیٹیشن (WSP) تھا۔
اسی ادارے کی گیتا شرما ہمارے ساتھ موجود تھیں۔ سادہ اور پروقار سی گیتا شرما کی آنکھوں
میں خلوص کی چمک اور باتوں سے ذہانت کی خوشبو مہک رہی تھی۔ فورم آف انوائرنمنٹل جرنلسٹس
آف انڈیا کے چیئرپرسن ڈیرل بھی موجود تھے اور دہلی میں یہی ٹیم لیڈر بھی تھے جبکہ WSP پاکستان
سے فرحان سمیع اور عرفان سعید الراعی بھی ہمارے ساتھ تھے ۔ انڈیا کے 15اور بنگلہ دیش
کے 4 صحافی اور پاکستان سے ہم چھ افراد یہاں موجود تھے۔ ان میں اسلام آباد سے ہما خاور،
آفتاب ظہور، پشاور سے ثمینہ رسول (جو آج کل وائس آف امریکا سے وابستہ ہیں) اور کراچی
سے میرے علاوہ سمیرا نقوی اور جان خاصخیلی بھی شامل تھے۔ یہ تمام لوگ ماحول کے حوالے
سے کام کرنے والے تھے اوران سب کا ایک مقابلے کے ذریعے انتخاب کیا گیا تھا۔
پاکستان
اور انڈیا آج بھی سینیٹیشن کے حوالے سے ایک دگرگوں صورت حال سے دوچار ہیں۔ یہ ایک تلخ
حقیقت ہے کہ ہم اس شعبے میں بھی بہت پیچھے ہیں۔اگر صرف پاکستان ہی کی بات کریں تو پانچ
کروڑ افراد کو سینیٹیشن کی سہولت میسر نہیں ہے یعنی ان کے گھروں میں لیٹرین موجود نہیں
ہیں۔ یہ افراد ابھی تک رفع حاجت کے لیے گاؤں
کے کھلے علاقوں مثلا جنگلوں یا کھیتوں وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ مقام افسوس ہے کہ
خواتین اور بچے بھی اسی چلن کے عادی ہیں۔ بچے
تو دور جانے کا بھی اہتمام نہیں کرتے بلکہ گھروں کے سامنے اور گلیوں میں ہی رفع حاجت
کرتے ہیں ۔کھلی جگہوں پر رفع حاجت کا سبب لوگوں کی کم علمی اور صحت و صفائی کی بنیادی
باتوں سے عدم آگاہی کے ساتھ ساتھ ان کی غربت اور روایتوں پر سختی سے عمل درآمد ہے۔پاکستان
میں سات کروڑ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں صحت اور صفائی کے حوالے سے بنیادی سہولتیں
میسر نہیں ہیں۔دنیا بھر میں پانچ ہزار اورپاکستان میں ہر روز پانچ سال سے کم عمرگیارہ
سو بچے سینیٹیشن کے ناقص انتظامات ، حفظان صحت کی خرابیوں ، دستوں اور آلودہ پانی سے
ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔پاکستان کو دستوں کی بیماریوں
پر قابو پانے کے لیے ہر سال 55 ارب سے لے کر 84ارب تک سرمایہ خرچ کرنا پڑتا ہے جو اس
غریب ملک کی معیشت پر اضافی بوجھ ہے۔آلودہ ماحول اور آلودہ پانی بچوں میں پیٹ اور جگر
کی بیماریوں کا بڑا سبب ہے۔ انسانی فضلے کے مضر اثرات سے انسانوں کو محفوظ رکھنے کے
لیے ضروری ہے کہ اسے محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے۔ اسی لیے اب حکومت اور اس کے
ساتھ بہت سے ادارے اسی حوالے سے کام کررہے ہیں اور لوگوں میں شعور و آگہی کی روشنی
پھیلا رہے ہیں، WSP بھی
ایسا ہی ایک نام ہے۔ ایسے گاؤں جہاں ہر گھر میں ٹوائلٹ کی سہولت موجود ہو اور وہ کھلی
جگہوں پر فضلے سے پاک ہوجائے تو اسے او ڈی ایف گاؤں کہتے ہیں یعنی Open Defecation
Freeاور وہ لوگ جو بلا معاوضہ رضاکارانہ طور پرشعورو
آگہی کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں انہیں نیچرل لیڈر یا رضاکار(Barefoot ) کہا
جاتا ہے اور یہ سارا عمل سی ایل ٹی ایس Community Led Total Sanitation کہلاتا
ہے۔
اب تک پاکستان کے تقریبا15,00 گاؤں کھلی جہگہوں میں انسانی
فضلے سے پاک ہوچکے ہیں اور 2011 تک ایسے گاؤں کی تعداد 15,000ہوجائے گی ، اس کا مطلب
ہوگا کہ ایک تہائی دیہی آبادی کو یہ سہولت حاصل ہوجائے گی ۔
ہریانہ
کے ضلع کرک شتراکا گاؤں بشن گڑھ بھی ایسا ہی ایک ODF گاؤں تھا جہاں بہت کم عرصے میں اس بظاہر
ناممکن کام کو ممکن بنایا گیا تھا اور اس تمام تر جدوجہد کا سہرا کرک شترا کی پرجوش
اےڈیشنل ڈپٹی کمشنر ”سمیدھا کٹاریہ“ کے سر تھا۔
ضلع
کرک شترا جو دہلی سے 160کلومیٹر اور چندی گڑھ سے 90کلومیٹرکے فاصلے پر ہے ، ایک اہم
روڈ جنکشن کہلاتا ہے۔ کرک شترا مذہبی اعتبار سے انڈیا کا ایک اہم علاقہ ہے اور ہندو
عقیدے کے مطابق مہا بھارت کرک شترا کی سرزمین پر ہی لڑی گئی۔ یہیں پر پانچ ہزار سال
پرانی جھیل ” برہما سرور“ دیکھی جس کا پانی آئینے کی طرح شفاف تھا۔ میڈم کٹاریہ ہمارے
ساتھ تھیں اور انہوں نے خود ہی گویا ہماری گائیڈ کے فرائص سنبھال لیے تھے۔انہوں نے
بتایا کہ یہاں انڈیا بھر سے لوگ چاند گرہن میں آکر پوجا پاٹ کرتے ہیں اور اس جھیل کا
پانی خود پر انڈیلنے سے وہ گناہوں سے پاک ہوجاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف پانی کان
پر لگانے سے بھی گناہ دھل جائیں گے ، ہم سب نے ان کے اصرار پر صرف ان کا دل رکھتے ہوئے
پانی چھونے پر اکتفا کیا۔ جھیل کے سامنے بھگوان کرشنا اور ارجن کے دیو قامت دھاتی مجسمے
موجود تھے۔ اسی علاقے میں شیخ چلی کا مزار بھی موجود ہے۔ یہیں پر بھگوان کرشنا میوزیم
اور کرک شترا پینوراما اور سائنس میوزیم بھی موجود ہے۔ پینوراما سینٹر میں پہنچ کر
آپ ہزاروں سال پرانی ہندو تہذیب میں سانس لے رہے ہوتے ہیں۔ یہاںانتہائی پر تاثیر انداز
میں مہا بھارت کی ہزاروں سال پرانی 18روزہ جنگ کو زندہ کیا گیا ہے۔ دیوہیکل مجسمے اور
آوازوں سے آپ کو یہی لگتا ہے کہ آپ اسی دور میں زندہ ہیں اور اس جنگ کے چشم دید گواہ
ہیں، سمیدھا جی ہر قدم پر ہماری رہنمائی کررہی تھیں، انہوں نے تفصیل سے اس اٹھارہ دنوں
کی جنگ کے اہم واقعات دہرائے۔
بشن گڑھ ابھی
دور تھا لہذا راستے میں آنے والے سرکاری ریسٹ ہاؤس میں کچھ دیر سستانے کے لیے رکے۔
یہاں انتہائی شان دار لوازمات کے ساتھ چائے کا انتظام تھا۔ ہر قسم کی سلاد اور ہر قسم
کے پکوڑوں کا ہم نے اپنے انڈیا میں قیام کے دوران لطف اٹھایا۔ یہیں پر سمیدھا کٹاریہ
نے سینیٹیشن کے حوالے سے اپنے کام اور خصوصا خواتین کی جدوجہد پر روشنی ڈالی ، ان کی
اس بات کی سچائی بشن گڑھ پہنچنے پر ثابت بھی ہوگئی۔ گاؤں کے لوگوں نے روایتی انداز
میں ڈھول بجا کر اور عورتوں نے گاکر ہمارا استقبال کیا۔ مہمان مردوں کو پگڑیاں اور
خواتین کو دوپٹے پہنائے گئے۔ روایتی پیلے پھولوں کے ہار گلے میں ڈالے گئے۔ خواتین گانے
کے ساتھ ساتھ ” جے سچیتا“ یعنی صفائی زندہ باد کے نعرے بھی لگارہی تھیں۔ تعارف کے بعد
پرجوش خواتین اپنی کامیابیوں کی تفصیل بتارہی تھیں، ان کے جوش سے سرخ چہرے اور باتوں
سے ناممکن کو ممکن بنانے کاعزم عیاں تھا۔ ہر عورت اپنے تجربات زوروشور سے بیان کررہی
تھی اور میرے ذہن میں ایک خیال کی گونج پھیل رہی تھی کہ وہ سماجی انقلاب جس کی راہ
دیکھتے دیکھتے اس خطے کی کتنی نسلیں مٹی اوڑھ کر سوچکی ہیں وہ سماجی انقلاب اب دہلیز
تک آپہنچا ہے، صرف دروازہ کھولنے کی دیر تھی ۔۔۔ امید بندھ چلی تھی کہ برصغیر کے اس
سماجی انقلاب کے کاروواں کی علم بردار عورت ہی ہوگی۔