بس باجی کیا بتاؤں ، میں تو مرتے مرتے بچی ہوں۔ حمیدہ نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔ دائی کے ہاتھوں غیر
محفوظ ابارشن نے اسے موت کے منہ تک پہنچادیا تھا لیکن شاید اس کی خوش نصیبی نے اسے
بچالیا یا پھر قدرت کو اس کے سات چھوٹے چھوٹے بچوں پر رحم آگیا جن کی عمریں تیرہ سے
ڈھائی سال تک ہیں۔
ابراہیم حیدری کی رہائشی حمیدہ گھروں میں جھاڑو پونچھے کا
کام کرتی ہے۔ اس کی دونوں بڑی بیٹیاں جو 13اور 11 سال کی ہیں اس کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔اس
کے پہلے ہی سات بچے ہیں اور اب وہ مزید بچے نہیں چاہتی تھی لہذا حسب روایت جب وہ ساتویں
بچے کی پیدائش کے سال بھر بعد ہی امید سے ہوگئی تو اس بار یہ بچہ اسے نہیں چاہیے تھا،
یہ اس کا حتمی فیصلہ تھااور اس کا شوہر بھی اس کا ہم خیال تھا۔ ضرورت اسے محلے کی ایک
دائی تک لے گئی۔ جہاں اس کا کیس اس حد تک بگڑا کہ لینے کے دینے پڑ گئے بہرحال سرکاری
اسپتال میں پورے ایک مہینے علاج کے بعد وہ اس قابل ہوگئی تھی کہ جیسے تیسے کام پر آ
گئی تھی۔ اس بیماری پر اس کے شوہر کو پندرہ ہزار کا قرض لینا پڑا اورایک مہینہ کام
سے غیر حاضری پر دو تین گھروں کا کام بھی چھوٹ گیا۔
اب اسما سے ملیے! گلشن اقبال میں رہائش پذیرتیس سال کی پڑھی
لکھی خاتون ، دو بچوں کی ماں، جب تیسری مرتبہ امید سے ہوئی تو اسے بھی یہ بچہ نہیں
چاہیے تھا۔ اپنے سسرال والوں سے چھپ کر لیکن شوہر کی مرضی سے اس نے بھی محلے کے ایک
چھوٹے کلینک کا رخ کیا اور غیر تربیت یافتہ مسیحا سے مسیحائی کی بھیک مانگی۔ اس کی
بھی حالت بگڑ گئی۔ میں جب اس سے ملی تو چہرہ زرد ہورہا تھا ، خون کی شدید کمی اور نقاہت
اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
تم تو اچھی خاصی پڑھی لکھی خاتون ہو، تمھاری عقل کو کیا
ہوا تھا، اگر جانا ہی تھا تو کسی مستند ڈاکٹر کے پاس جاتیں۔
میں نے حیرت سے پوچھا۔
جب ڈاکٹر منع کردیں تو بھلا پھر مریض کہاں جائے؟ اس نے الٹا
مجھ سے سوال کردیا۔
کیا مطلب، ڈاکٹرز کیوں منع کریں گے؟
میں کئی ڈاکٹرز کے پاس گئی لیکن سب نے منع کردیا کہ ہم یہ
غیر قانونی کام نہیں کرتے۔ پھر میرے پاس اور کیا راستہ تھا!
یہ دو الگ سماجی پس منظر کی حامل خواتین ہیں۔ دونوں کا تعلیمی
پس منظر ، معاشی حیثیت سبھی مختلف ہے لیکن حالات بالکل ایک جیسے ہیں۔ حمیدہ معاشی وسائل
کی کمی کے باعث کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس نہں جاسکی ( یہ اور بات ہے کہ بعد میں جب اس
کی حالت بگڑی تو بات ہزاروں تک جاپہنچی۔) اور اگر شاید چلی جاتی تو اسے بھی ڈاکٹر منع
کردیتے۔جبکہ اسما ڈاکٹر کے علاج کی حیثیت رکھتی تھی لیکن ڈاکٹروں نے اس کی کوئی مدد
نہیں کی۔ گویا ہر صورت میں دونوں خواتین محفوظ طبی امداد سے محروم رہیں حتی کہ ایمرجنسی
کی صورت آپہنچی۔
اسقاط حمل ،ایک انتہائی اہم مسئلہ جس میں عورت کی زندگی
داؤپر لگی ہوتی ہے تو ایسے میں ڈاکٹر وں کا یہ رویہ سمجھ میں نہیں آتا ہے؟ مسئلہ ہے
کیا؟ ہمارے اس سوال کا جواب ڈاکٹر نگہت شاہ نے تفصیل سے دیا۔
ڈاکٹر نگہت شاہ آغا خان یونیورسٹی اسپتال سے بطور آبسٹیٹریشن
اور گائناکولوجسٹ وابستہ ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہمارے مذہبی اور ملکی قوانین
کچھ مخصوص صورتوں میں ابارشن کی اجازت دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت
ہے کہ ڈاکٹرز ایسی خواتین کی مدد نہیں کرتے۔ وہ آج بھی ابارشن کو غیر قانونی اور غیر
اسلامی سمجھتے ہیں۔ایسے تمام ڈاکٹرز جو ایسی خواتین کی مدد کرنے سے انکار کردیتے ہیں
انہیں جان لینا چاہیے کہ وہ انکار کرکے اس عورت کی جان سے کھیل رہے ہیں۔ اگر آپ اسے
مایوس کردیں گے تویقینا وہ کسی دائی یا کسی مڈوائف یاکچی آبادیوں میں کھلے ہوئے ”زچہ
بچہ کلینک“ میں ہی جائے گی اور یوں اس خاتون کی زندگی کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے۔
اصل میں اسقاط یا ابارشن کی اجازت یا اختیار مذہبی، قانونی
، سماجی اور روایتی اعتبار سے ہے یا نہیں؟ اوراگر اجازت ہے تو کن حالات میں ہے ؟یہ
سوالات ہمیشہ ہر معاشرے میں بحث طلب رہے ہےں۔ اس حوالے سے ہمیشہ دو نکتے نظر سامنے
آتے رہے ہیں کہ کس کا زندگی پر حق زیادہ ہے ماں کا یا اس بچے کا جو ابھی اس دنیا میں
آیا ہی نہیں ہے یا یوں کہہ لیں کہ ابھی اس میں زندگی کے واضح آثار ہی نمودار نہیں ہوئےہیں۔
یہاں لفظ ابارشن اور مس کیرج کے حوالے سے بھی بڑی کنفیوزن
پھیلی ہوئی ہے۔ڈاکٹر نگہت شاہ نے بتایا کہ عموما حادثاتی طور پر حمل کے ضائع ہونے کو مس کیرج
اور ارادی طور پر حمل ضائع کروانے کو ابارشن کہا جاتا ہے ، جبکہ میڈیکل کی اصطلاح کے
مطابق 24 ہفتوں سے پہلے حمل کا ضائع ہونا چاہے یہ عمل ارادی ہو یا حادثاتی مس کیرج
کہلاتا ہے۔ یہ اصطلاح میڈیکل اور کلینیکل پریکٹس میں استعمال کی جاتی ہے۔
ابارشن کے حوالے سے دستیاب اعدادوشمار انتہائی تشویشناک
ہیں۔ 2002میں تقریبا 24 لاکھ پاکستانی خواتین حاملہ ہوگئی تھیں لیکن یہ بچہ انہیں نہیں
چاہیے تھا لہذاان میں سے 9 لاکھ نے اسقاط حمل کا سہارا لیا۔ قوانین صرف مخصوص حالات
میں اسقاط حمل کی اجازت دیتے ہیں لہذا جو عورتیں یہ کام کرنا چاہتی ہیں وہ چوری چھپے
غیر محفوظ طریقوں سے کرواتی ہیں۔ غریب خواتین حالات سے مجبور ہوکر غیر تربیت یافتہ
کارکنوں سے یہ خدمات حاصل کرتی ہیں۔ اس کا نتیجہ ایسی پیچیدگیوں کی صورت میں نکلتا
ہے جو عمر بھر کی معذوری یا موت بھی ہوسکتی ہیں۔ غیر محفوظ اسقاط حمل سے مرنے والی
خواتین کی شرح ماؤں کی کل اموات کا 5.6 فیصد ہے۔ جہاں ایک طرف معذوری یا موت کا اثر
خاندانوں پر پڑتا ہے۔ وہیں دوسری طرف ان پیچیدگیوں کے علاج معالجے کا بہت بڑا بوجھ
صحت کے سسٹم اور اداروں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی
معیشت پر غیر محفوظ ابارشن کے مد میں 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز کا اضافی بوجھ پڑتا ہے۔
واحد دستیاب قومی سطح کے ایک سروے کے مطابق 2002 میںاندازا
890,000 حمل ضائع ہوئے یعنی 1000تولیدی عمر کی عورتوں میں اسقاط کی شرح 29 تھی۔ ہر
100حمل میں سے 14ضائع ہوئے۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں اسقاط حمل کی شرح نسبتا
زیادہ یعنی ہر ہزار عورتوں میں 37,38 کے درمیان تھی۔ اس کے مقابلے میں سندھ اور پنجاب
میں یہ شرح بتدریج 31 اور 25 تھی۔
پاکستان میں ایک چوتھائی بچوں کی پیدائش بغیر منصوبے کے
ہوتی ہے گو اسقاط حمل سے متعلق قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ واضح ہے کہ حمل
ختم کرنے کا عمل ہر علاقے میں عام ہے۔
پاکستان میں چونکہ یہ ایک معیوب عمل سمجھا جاتا ہے لہذا
عورتوں سے اس موضوع پر بات کرنا بہت مشکل ہے، وہ اپنے تجربات بیان کرنے سے ہچکچاتی
ہیں۔ اس لیے معلومات کے دوسرے طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔
1997-98میں
کراچی کے ایک اسپتال کے سروے سے جو معلومات حاصل ہوئیں ان کے مطابق اسقاط حمل کی پیچیدگیوں
کے ساتھ داخل ہونے والی خواتین میں سے صرف 7 فیصد نے یہ قبول کیا کہ انہوں نے حمل ضائع
کروایا تھا۔
یہ بھی ایک غور طلب بات ہے کہ پاکستان میں جن خواتین کا
اسقاط حمل کی پیچیدگیوں کا علاج کیا جاتا ہے وہ اوسطا 4 بچوں کی مائیں ہوتی ہیں۔ پاکستانی
عورت عام طور پر 3 بچوں کی خواہاں ہوتی ہے، تین بچوں کے بعدچونکہ ان کی خواہش پوری
ہوچکی ہوتی ہے اس لیے وہ مزید بچے نہیں چاہتیں۔ اگرعورتوں سے بات کی جائے توابارشن
کی جو سب سے اہم وجہ سامنے آتی ہے کہ ایک تو یہ کہ وہ غریب ہیں اور یہ کہ انہیں ”مزید
بچے نہیں چاہئیں۔“ 2002 میں پاکستان کے چاروں صوبوں میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق
تین صوبوں میں 55% عورتوں نے کہا کہ ان کے ” کافی بچے “ ہیں۔ 54% نے غربت وجہ بتائی
اور 25% نے کہا کہ بچوں کے درمیان وقفہ بہت کم تھا۔
پاکستان میں اسقاط کے حوالے سے مدد فراہم کرنے والوں میں
ڈاکٹروں سے لے کر روایتی معالج مثلا دائیاں وغیرہ شامل ہیں۔ جن کی اکثر خدمات غیر محفوظ
ہوتی ہیں۔علاج کے لیے آنے والی خواتین میں سے 30% نے ڈاکٹروں سے ،36% نے مڈوائفوں،
نرسوں یا ہیلتھ وزیٹروں سے اور32% نے دائیوں اور 2% نے الٹی سیدھی دوائیں کھا کر، چھلانگیں
لگاکر اور وزن اٹھا کرخود سے یہ کوشش کی۔
2002
میں نرس مڈوائف کی مدد سے ہونے والے اسقاط پر ایک غریب دیہاتی
عورت کے 1700روپے خرچ ہوئے جبکہ باحیثیت دیہاتی عورت کے 2500 روپے خرچ ہوئے۔ جبکہ باحیثیت
شہری عورت کے 3850 روپے خرچ ہوئے۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسقاط حمل کے اخراجات
یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ عورت یہ خدمات کہاں اورکس سے حاصل کرتی ہے یعنی غریب عورت کے
لیے اس بات کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ غیر تربیت یافتہ لیکن سستی مدد فراہم
کرنے والوں کے پاس جائے۔
قوانین کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر عذرا احسان، ایسوسی ایشن آف مدر اور نیوبورن کی سیکریٹری
جنرل ، نیشنیل کمیٹی فار میٹرنل ہیلتھ اور نیونینٹل ہیلتھ سے بطور ٹیکنیکل کنسلٹنٹ
اورآبسٹیٹریشن اور گائناکولوجسٹ ، اسقاط حمل کے حوالے سے اپنی ایک تفصیلی پریزنٹیشن
میں بتاتی ہیں کہ”اسقاط حمل کے حوالے سے دنیا کے ہر ملک میں قوانین موجود ہیں اور زیادہ
تر ممالک میں کچھ شرائط کے ساتھ اس کی اجازت ہے۔ اگر ہم دنیا کے 57 اسلامی ممالک میں
قوانین کا جائزہ لیں تو ان میں بڑا تنوع نظر آتا ہے۔ تنزانیہ اور ترکی میں اس عمل کی
کھلے عام اور ہر صورت میں اجازت ہے وہاں اسے عورت کا ذاتی معاملہ اور حقوق نسواں کا
حساس مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ سوڈان ، سعودی عرب اور ایران میں ان قوانین کی بنیاد اسلامی
تعلیمات پر رکھی گئی ہے۔ جبکہ دیگر اسلامی ممالک میں برٹش دور کے قوانین موجود ہیں۔
اگر عورت کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو تو دنیاکے ہر ملک میں اس کی اجازت ہے جبکہ اگر عورت
کی جسمانی صحت کو خطرہ ہوتو اردن، کویت، مراکو ، قطر اور سعودی عرب میں اس کی اجازت
ہے۔ عورت کی جسمانی اور ذہنی صحت داؤ پرلگی ہو تو الجیریہ میں اجازت ہے۔ کویت اور قطر
میں اس کا دارومدار جنین کی نشوونما پر ہے۔ سوڈان میں اگر معاملہ ریپ کا ہو تو اس کی
اجازت ہے۔ پاکستان میں اسقاط کی اجازت کچھ مخصوص حالات میں دی گئی ہے۔ ابتدا میں تو
برطانوی قوانین موجود تھے لیکن 1989میں سپریم کورٹ نے حکومت سے کہا کہ وہ ان قوانین
کا ازسرنو جائزہ لے اور ضروری ترامیم کرے۔ اس کے بعد ان قوانین میں قران و سنت کی روشنی
میں ترامیم کی گئیں جن کے تحت 1990 میں حکومت پاکستان نے انگریزوں کے زمانے کے اسقاط
حمل کے قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق تبدیل کیا۔
1990
کے نئے قوانین میں قانونی اسقاط کا انحصار جنین کے دورانیے
یعنی ماں کی کوکھ میں اس کی عمر پر ہے۔
ماں کی زندگی بچانے کے لیے اور ”ضرورت کے مطابق“ علاج کے
لیے قانون اسقاط حمل کی اجازت دیتا ہے۔
غیر قانونی اسقاط حمل کرنے والے کی سزا کا انحصار اسقاط
کے وقت جنین کی نشونما کے مراحل پر ہے۔ اعضا کی ساخت بننے سے پہلے کی سزا 3 سے 10کی
قید ہے۔اعضا بننے کے بعد اس سے ہرجانہ بھی لیا جاسکتا ہے اور اس کے علاوہ اسے قید کی
سزا بھی دی جاسکتی ہے۔
مذہبی دانشوروں کی رائے میں اعضا کی ساخت حمل کے چوتھے مہینے
تک ہوجاتی ہے۔
غیر محفوظ اسقاط حمل سے عورت کی زندگی کو لاحق خطرات اور
معیشت پر اربوں روپے کے اضافی بوجھ سے بچا جاسکتا ہے اور بھی بہت آسانی سے ، متعلقہ
ڈاکٹروں کے مشورے سے کوئی بھی مانع حمل احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہے۔ بہت سے
محفوظ اور سستے طریقے موجود ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں خواتین اپنی جان کو خطرے
میں ڈال دیتی ہیں مگر احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتیں۔ اس حوالے سے جب ڈاکٹر نگہت
سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ” یہ غلط فہمی عام ہے کہ مانع حمل احتیاطی تدابیر غیر
اسلامی اور صحت کے لیے نقصان دہ ہیں ، اس لیے خواتین اس پر دھیان نہیں دیتی ہیں۔“ اس
حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ ” ایک سروے کے مطابق فیملی پلاننگ کے حوالے سے کام
کرنے والی خواتین مثلا مڈوائف ایل ایچ وی اور ایل ایچ ڈبلیو وغیرہ بھی اسی غلط فہمی
میں مبتلا پائی جاتی ہیں اور جب تک وہ خود ذہنی طور پر یکسو نہیں ہوں گی دیگر خواتین
کو کیسے اس پر قائل کرپائیں گی۔“ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت پاکستان ابھی تک تیزی سے
بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو نہیں پاسکی ہے اگرچہ ہمارے پاس فیملی پلاننگ کے حوالے سے
ایک علیحدہ وزارت تک موجود ہے ۔ ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس (2008) کے مطابق پاکستان اپنی
18کروڑآبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹاملک ہے اور 2050 تک اس کی آبادی45 کروڑ تک پہنچ
جائے گی۔ بدلتے ہوئے تیز رفتار وقت سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ہمیں اپنی تیزی سے بڑھتی
ہوئی آبادی کو اپنے وسائل سے ہم آہنگ کرنا ہوگا تبھی اکیس ویں صدی میں ہم ایک خوش حال
پاکستان اور تندرست ماں اور بچے کے خواب کی تعبیر پاسکیں گے۔
یاد رہے کہ اگر عورت کی زندگی اور صحت کو خطرہ لاحق ہے تو
ایسی صورت میں ابارشن غیر قانونی ہرگزنہیں ہے!