Monday, May 3, 2010

غیر محفوظ ابارشن، دو کروڑ اور بیس لاکھ ڈالرزکامعیشت پر اضافی بوجھ

بس باجی کیا بتاؤں ، میں تو مرتے مرتے بچی ہوں۔  حمیدہ نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔ دائی کے ہاتھوں غیر محفوظ ابارشن نے اسے موت کے منہ تک پہنچادیا تھا لیکن شاید اس کی خوش نصیبی نے اسے بچالیا یا پھر قدرت کو اس کے سات چھوٹے چھوٹے بچوں پر رحم آگیا جن کی عمریں تیرہ سے ڈھائی سال تک ہیں۔

ابراہیم حیدری کی رہائشی حمیدہ گھروں میں جھاڑو پونچھے کا کام کرتی ہے۔ اس کی دونوں بڑی بیٹیاں جو 13اور 11 سال کی ہیں اس کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔اس کے پہلے ہی سات بچے ہیں اور اب وہ مزید بچے نہیں چاہتی تھی لہذا حسب روایت جب وہ ساتویں بچے کی پیدائش کے سال بھر بعد ہی امید سے ہوگئی تو اس بار یہ بچہ اسے نہیں چاہیے تھا، یہ اس کا حتمی فیصلہ تھااور اس کا شوہر بھی اس کا ہم خیال تھا۔ ضرورت اسے محلے کی ایک دائی تک لے گئی۔ جہاں اس کا کیس اس حد تک بگڑا کہ لینے کے دینے پڑ گئے بہرحال سرکاری اسپتال میں پورے ایک مہینے علاج کے بعد وہ اس قابل ہوگئی تھی کہ جیسے تیسے کام پر آ گئی تھی۔ اس بیماری پر اس کے شوہر کو پندرہ ہزار کا قرض لینا پڑا اورایک مہینہ کام سے غیر حاضری پر دو تین گھروں کا کام بھی چھوٹ گیا۔

اب اسما سے ملیے! گلشن اقبال میں رہائش پذیرتیس سال کی پڑھی لکھی خاتون ، دو بچوں کی ماں، جب تیسری مرتبہ امید سے ہوئی تو اسے بھی یہ بچہ نہیں چاہیے تھا۔ اپنے سسرال والوں سے چھپ کر لیکن شوہر کی مرضی سے اس نے بھی محلے کے ایک چھوٹے کلینک کا رخ کیا اور غیر تربیت یافتہ مسیحا سے مسیحائی کی بھیک مانگی۔ اس کی بھی حالت بگڑ گئی۔ میں جب اس سے ملی تو چہرہ زرد ہورہا تھا ، خون کی شدید کمی اور نقاہت اس کے چہرے سے عیاں تھی۔

تم تو اچھی خاصی پڑھی لکھی خاتون ہو، تمھاری عقل کو کیا ہوا تھا، اگر جانا ہی تھا تو کسی مستند ڈاکٹر کے پاس جاتیں۔
میں نے حیرت سے پوچھا۔

جب ڈاکٹر منع کردیں تو بھلا پھر مریض کہاں جائے؟ اس نے الٹا مجھ سے سوال کردیا۔
کیا مطلب، ڈاکٹرز کیوں منع کریں گے؟

میں کئی ڈاکٹرز کے پاس گئی لیکن سب نے منع کردیا کہ ہم یہ غیر قانونی کام نہیں کرتے۔ پھر میرے پاس اور کیا راستہ تھا!
یہ دو الگ سماجی پس منظر کی حامل خواتین ہیں۔ دونوں کا تعلیمی پس منظر ، معاشی حیثیت سبھی مختلف ہے لیکن حالات بالکل ایک جیسے ہیں۔ حمیدہ معاشی وسائل کی کمی کے باعث کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس نہں جاسکی ( یہ اور بات ہے کہ بعد میں جب اس کی حالت بگڑی تو بات ہزاروں تک جاپہنچی۔) اور اگر شاید چلی جاتی تو اسے بھی ڈاکٹر منع کردیتے۔جبکہ اسما ڈاکٹر کے علاج کی حیثیت رکھتی تھی لیکن ڈاکٹروں نے اس کی کوئی مدد نہیں کی۔ گویا ہر صورت میں دونوں خواتین محفوظ طبی امداد سے محروم رہیں حتی کہ ایمرجنسی کی صورت آپہنچی۔
اسقاط حمل ،ایک انتہائی اہم مسئلہ جس میں عورت کی زندگی داؤپر لگی ہوتی ہے تو ایسے میں ڈاکٹر وں کا یہ رویہ سمجھ میں نہیں آتا ہے؟ مسئلہ ہے کیا؟ ہمارے اس سوال کا جواب ڈاکٹر نگہت شاہ نے تفصیل سے دیا۔

ڈاکٹر نگہت شاہ آغا خان یونیورسٹی اسپتال سے بطور آبسٹیٹریشن اور گائناکولوجسٹ وابستہ ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہمارے مذہبی اور ملکی قوانین کچھ مخصوص صورتوں میں ابارشن کی اجازت دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹرز ایسی خواتین کی مدد نہیں کرتے۔ وہ آج بھی ابارشن کو غیر قانونی اور غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔ایسے تمام ڈاکٹرز جو ایسی خواتین کی مدد کرنے سے انکار کردیتے ہیں انہیں جان لینا چاہیے کہ وہ انکار کرکے اس عورت کی جان سے کھیل رہے ہیں۔ اگر آپ اسے مایوس کردیں گے تویقینا وہ کسی دائی یا کسی مڈوائف یاکچی آبادیوں میں کھلے ہوئے ”زچہ بچہ کلینک“ میں ہی جائے گی اور یوں اس خاتون کی زندگی کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے۔
اصل میں اسقاط یا ابارشن کی اجازت یا اختیار مذہبی، قانونی ، سماجی اور روایتی اعتبار سے ہے یا نہیں؟ اوراگر اجازت ہے تو کن حالات میں ہے ؟یہ سوالات ہمیشہ ہر معاشرے میں بحث طلب رہے ہےں۔ اس حوالے سے ہمیشہ دو نکتے نظر سامنے آتے رہے ہیں کہ کس کا زندگی پر حق زیادہ ہے ماں کا یا اس بچے کا جو ابھی اس دنیا میں آیا ہی نہیں ہے یا یوں کہہ لیں کہ ابھی اس میں زندگی کے واضح آثار ہی نمودار نہیں ہوئےہیں۔

یہاں لفظ ابارشن اور مس کیرج کے حوالے سے بھی بڑی کنفیوزن پھیلی ہوئی ہے۔ڈاکٹر نگہت شاہ نے بتایا کہ  عموما حادثاتی طور پر حمل کے ضائع ہونے کو مس کیرج اور ارادی طور پر حمل ضائع کروانے کو ابارشن کہا جاتا ہے ، جبکہ میڈیکل کی اصطلاح کے مطابق 24 ہفتوں سے پہلے حمل کا ضائع ہونا چاہے یہ عمل ارادی ہو یا حادثاتی مس کیرج کہلاتا ہے۔ یہ اصطلاح میڈیکل اور کلینیکل پریکٹس میں استعمال کی جاتی ہے۔

ابارشن کے حوالے سے دستیاب اعدادوشمار انتہائی تشویشناک ہیں۔ 2002میں تقریبا 24 لاکھ پاکستانی خواتین حاملہ ہوگئی تھیں لیکن یہ بچہ انہیں نہیں چاہیے تھا لہذاان میں سے 9 لاکھ نے اسقاط حمل کا سہارا لیا۔ قوانین صرف مخصوص حالات میں اسقاط حمل کی اجازت دیتے ہیں لہذا جو عورتیں یہ کام کرنا چاہتی ہیں وہ چوری چھپے غیر محفوظ طریقوں سے کرواتی ہیں۔ غریب خواتین حالات سے مجبور ہوکر غیر تربیت یافتہ کارکنوں سے یہ خدمات حاصل کرتی ہیں۔ اس کا نتیجہ ایسی پیچیدگیوں کی صورت میں نکلتا ہے جو عمر بھر کی معذوری یا موت بھی ہوسکتی ہیں۔ غیر محفوظ اسقاط حمل سے مرنے والی خواتین کی شرح ماؤں کی کل اموات کا 5.6 فیصد ہے۔ جہاں ایک طرف معذوری یا موت کا اثر خاندانوں پر پڑتا ہے۔ وہیں دوسری طرف ان پیچیدگیوں کے علاج معالجے کا بہت بڑا بوجھ صحت کے سسٹم اور اداروں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی معیشت پر غیر محفوظ ابارشن کے مد میں 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز کا اضافی بوجھ پڑتا ہے۔
واحد دستیاب قومی سطح کے ایک سروے کے مطابق 2002 میںاندازا 890,000 حمل ضائع ہوئے یعنی 1000تولیدی عمر کی عورتوں میں اسقاط کی شرح 29 تھی۔ ہر 100حمل میں سے 14ضائع ہوئے۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں اسقاط حمل کی شرح نسبتا زیادہ یعنی ہر ہزار عورتوں میں 37,38 کے درمیان تھی۔ اس کے مقابلے میں سندھ اور پنجاب میں یہ شرح بتدریج 31 اور 25 تھی۔

پاکستان میں ایک چوتھائی بچوں کی پیدائش بغیر منصوبے کے ہوتی ہے گو اسقاط حمل سے متعلق قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ واضح ہے کہ حمل ختم کرنے کا عمل ہر علاقے میں عام ہے۔

پاکستان میں چونکہ یہ ایک معیوب عمل سمجھا جاتا ہے لہذا عورتوں سے اس موضوع پر بات کرنا بہت مشکل ہے، وہ اپنے تجربات بیان کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ اس لیے معلومات کے دوسرے طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔

1997-98میں کراچی کے ایک اسپتال کے سروے سے جو معلومات حاصل ہوئیں ان کے مطابق اسقاط حمل کی پیچیدگیوں کے ساتھ داخل ہونے والی خواتین میں سے صرف 7 فیصد نے یہ قبول کیا کہ انہوں نے حمل ضائع کروایا تھا۔

یہ بھی ایک غور طلب بات ہے کہ پاکستان میں جن خواتین کا اسقاط حمل کی پیچیدگیوں کا علاج کیا جاتا ہے وہ اوسطا 4 بچوں کی مائیں ہوتی ہیں۔ پاکستانی عورت عام طور پر 3 بچوں کی خواہاں ہوتی ہے، تین بچوں کے بعدچونکہ ان کی خواہش پوری ہوچکی ہوتی ہے اس لیے وہ مزید بچے نہیں چاہتیں۔ اگرعورتوں سے بات کی جائے توابارشن کی جو سب سے اہم وجہ سامنے آتی ہے کہ ایک تو یہ کہ وہ غریب ہیں اور یہ کہ انہیں ”مزید بچے نہیں چاہئیں۔“ 2002 میں پاکستان کے چاروں صوبوں میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق تین صوبوں میں 55% عورتوں نے کہا کہ ان کے ” کافی بچے “ ہیں۔ 54% نے غربت وجہ بتائی اور 25% نے کہا کہ بچوں کے درمیان وقفہ بہت کم تھا۔

پاکستان میں اسقاط کے حوالے سے مدد فراہم کرنے والوں میں ڈاکٹروں سے لے کر روایتی معالج مثلا دائیاں وغیرہ شامل ہیں۔ جن کی اکثر خدمات غیر محفوظ ہوتی ہیں۔علاج کے لیے آنے والی خواتین میں سے 30% نے ڈاکٹروں سے ،36% نے مڈوائفوں، نرسوں یا ہیلتھ وزیٹروں سے اور32% نے دائیوں اور 2% نے الٹی سیدھی دوائیں کھا کر، چھلانگیں لگاکر اور وزن اٹھا کرخود سے یہ کوشش کی۔

2002 میں نرس مڈوائف کی مدد سے ہونے والے اسقاط پر ایک غریب دیہاتی عورت کے 1700روپے خرچ ہوئے جبکہ باحیثیت دیہاتی عورت کے 2500 روپے خرچ ہوئے۔ جبکہ باحیثیت شہری عورت کے 3850 روپے خرچ ہوئے۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسقاط حمل کے اخراجات یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ عورت یہ خدمات کہاں اورکس سے حاصل کرتی ہے یعنی غریب عورت کے لیے اس بات کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ غیر تربیت یافتہ لیکن سستی مدد فراہم کرنے والوں کے پاس جائے۔

قوانین کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹر عذرا احسان، ایسوسی ایشن آف مدر اور نیوبورن کی سیکریٹری جنرل ، نیشنیل کمیٹی فار میٹرنل ہیلتھ اور نیونینٹل ہیلتھ سے بطور ٹیکنیکل کنسلٹنٹ اورآبسٹیٹریشن اور گائناکولوجسٹ ، اسقاط حمل کے حوالے سے اپنی ایک تفصیلی پریزنٹیشن میں بتاتی ہیں کہ”اسقاط حمل کے حوالے سے دنیا کے ہر ملک میں قوانین موجود ہیں اور زیادہ تر ممالک میں کچھ شرائط کے ساتھ اس کی اجازت ہے۔ اگر ہم دنیا کے 57 اسلامی ممالک میں قوانین کا جائزہ لیں تو ان میں بڑا تنوع نظر آتا ہے۔ تنزانیہ اور ترکی میں اس عمل کی کھلے عام اور ہر صورت میں اجازت ہے وہاں اسے عورت کا ذاتی معاملہ اور حقوق نسواں کا حساس مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ سوڈان ، سعودی عرب اور ایران میں ان قوانین کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر رکھی گئی ہے۔ جبکہ دیگر اسلامی ممالک میں برٹش دور کے قوانین موجود ہیں۔ اگر عورت کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو تو دنیاکے ہر ملک میں اس کی اجازت ہے جبکہ اگر عورت کی جسمانی صحت کو خطرہ ہوتو اردن، کویت، مراکو ، قطر اور سعودی عرب میں اس کی اجازت ہے۔ عورت کی جسمانی اور ذہنی صحت داؤ پرلگی ہو تو الجیریہ میں اجازت ہے۔ کویت اور قطر میں اس کا دارومدار جنین کی نشوونما پر ہے۔ سوڈان میں اگر معاملہ ریپ کا ہو تو اس کی اجازت ہے۔ پاکستان میں اسقاط کی اجازت کچھ مخصوص حالات میں دی گئی ہے۔ ابتدا میں تو برطانوی قوانین موجود تھے لیکن 1989میں سپریم کورٹ نے حکومت سے کہا کہ وہ ان قوانین کا ازسرنو جائزہ لے اور ضروری ترامیم کرے۔ اس کے بعد ان قوانین میں قران و سنت کی روشنی میں ترامیم کی گئیں جن کے تحت 1990 میں حکومت پاکستان نے انگریزوں کے زمانے کے اسقاط حمل کے قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق تبدیل کیا۔

1990 کے نئے قوانین میں قانونی اسقاط کا انحصار جنین کے دورانیے یعنی ماں کی کوکھ میں اس کی عمر پر ہے۔

ماں کی زندگی بچانے کے لیے اور ”ضرورت کے مطابق“ علاج کے لیے قانون اسقاط حمل کی اجازت دیتا ہے۔

غیر قانونی اسقاط حمل کرنے والے کی سزا کا انحصار اسقاط کے وقت جنین کی نشونما کے مراحل پر ہے۔ اعضا کی ساخت بننے سے پہلے کی سزا 3 سے 10کی قید ہے۔اعضا بننے کے بعد اس سے ہرجانہ بھی لیا جاسکتا ہے اور اس کے علاوہ اسے قید کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔

مذہبی دانشوروں کی رائے میں اعضا کی ساخت حمل کے چوتھے مہینے تک ہوجاتی ہے۔

غیر محفوظ اسقاط حمل سے عورت کی زندگی کو لاحق خطرات اور معیشت پر اربوں روپے کے اضافی بوجھ سے بچا جاسکتا ہے اور بھی بہت آسانی سے ، متعلقہ ڈاکٹروں کے مشورے سے کوئی بھی مانع حمل احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہے۔ بہت سے محفوظ اور سستے طریقے موجود ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں خواتین اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیتی ہیں مگر احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتیں۔ اس حوالے سے جب ڈاکٹر نگہت سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ” یہ غلط فہمی عام ہے کہ مانع حمل احتیاطی تدابیر غیر اسلامی اور صحت کے لیے نقصان دہ ہیں ، اس لیے خواتین اس پر دھیان نہیں دیتی ہیں۔“ اس حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ ” ایک سروے کے مطابق فیملی پلاننگ کے حوالے سے کام کرنے والی خواتین مثلا مڈوائف ایل ایچ وی اور ایل ایچ ڈبلیو وغیرہ بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا پائی جاتی ہیں اور جب تک وہ خود ذہنی طور پر یکسو نہیں ہوں گی دیگر خواتین کو کیسے اس پر قائل کرپائیں گی۔“ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت پاکستان ابھی تک تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو نہیں پاسکی ہے اگرچہ ہمارے پاس فیملی پلاننگ کے حوالے سے ایک علیحدہ وزارت تک موجود ہے ۔ ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس (2008) کے مطابق پاکستان اپنی 18کروڑآبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹاملک ہے اور 2050 تک اس کی آبادی45 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ بدلتے ہوئے تیز رفتار وقت سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ہمیں اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو اپنے وسائل سے ہم آہنگ کرنا ہوگا تبھی اکیس ویں صدی میں ہم ایک خوش حال پاکستان اور تندرست ماں اور بچے کے خواب کی تعبیر پاسکیں گے۔
یاد رہے کہ اگر عورت کی زندگی اور صحت کو خطرہ لاحق ہے تو ایسی صورت میں ابارشن غیر قانونی ہرگزنہیں ہے

Tuesday, April 13, 2010

پانی کی کفایت اور شجرکاری

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ۔۔۔۔۔

پانی کی کفایت اور شجرکاری ، منزل کی جانب یہی راستہ جاتا ہے

ہمارا ”گھر“ اب خطرے کی زد میں ہے! اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے گھر کو بچانے کے لیے تیزی سے اقدامات کرنے ہوں گے۔انسان دراصل دو گھروں کا مکین ہے ، ایک اس کا گھر اور دوسرا کرہ ارض ۔ ہمیں دونوں گھروں کا یکساں تحفظ کرنا ہے لیکن ہم نے اپنی عاقبت نا اندیشی سے اپنے ان دونوں گھروں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

 زمینی وسائل کے استعمال اور قدرتی ماحول کے درمیان ایک نہایت مضبوط تعلق موجود ہے اور انسانی سرگرمیاں جب قدرتی ماحول میں خلل ڈالتی ہیں تو ہرے بھرے مناظر کو صحراؤں میں تبدیل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔

کسی بھی ملک و قوم کی خوش بختی اور خوش حالی کا اندازہ اس کے زر مبادلہ کے ذخائر سے نہیں بلکہ اس کے قدرتی وسائل سے کیا جاتا ہے۔قدرتی وسائل ہی وہ اصل خزانہ ہیں جس سے اس ملک کے کھیت کھلیان شاداب ، دریاؤں میں پانی رواں دواں اور لوگوں کے چہروں پر خوشی اور مسرت کے رنگ جھلملاتے ہیں۔زمین پر زندگی کے تمام رنگ ان ہی قدرتی وسائل کے مرہون منت ہیں۔ مالا مال سمندر دریا، دنیا کے بلند پہاڑ ان کے دامن میں جھومتے بارشوں کو کھینچتے سیکڑوں سالہ قدیم درخت ، زرخیز مٹی کے میدان ،سر سبز کھیت کھلیان اور رنگ برنگا حیاتی تنوع ہی ہماری اصل دولت ہے۔

درخت یا جنگلات بھی بظاہر ہمارے لیے ایک عام سے وسائل ہیں لیکن زمین کا تمام تر فطری ماحولیاتی نظام ان ہی کے گرد گھومتا ہے۔یہی موسموں کے جن کو قابو میں رکھتے ہیں۔ جنگلات کو اگر ماحول کا نگہبان کہیں تو زیادہ غلط نہ ہوگا۔یہ بڑے پیمانے پر فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں ،درجہ حرارت اور بارش کو قابو میں رکھتے ہیں۔بڑے آب گیر علاقوں( واٹر شیڈز) میں اگنے والا یہ حفاظتی پردہ نہ صرف ماحولیاتی نظاموں کو برقرار رکھتا ہے بلکہ مٹی کو اپنی جگہ قائم رکھ کر سیلابوں کے مقابلے میں رکاوٹ کاکام بھی دیتا ہے۔ اب یہ ثابت ہوچلا ہے کہ بدلتے موسم یعنی کلائمیٹ چینج جیسے پیچیدہ مسئلے سے نمٹنے کا ایک آسان حل زیادہ سے زیادہ شجر کاری ہے۔



پاکستان کا شماران ممالک میں ہوتا ہے جہاں دنیا میں سب سے کم جنگل پائے جاتے ہیں۔یعنی اس کی خشکی کے مجموعی رقبے کا صرف 5 فیصد ہے جو بہت کم ہے اور حکومت اسے 2011؁میں بڑھا کر 5.7 فیصد تک پہنچانا چاہ رہی ہے۔یہ محدود وسیلہ بھی مسلسل دباؤ کا شکارہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کے چپے چپے پر شجرکاری کا اہتمام کیا جائے۔ جنگلاتی وسائل کی ابتری کے باوجود بہت سی جگہوں پر بہت اچھا کام بھی ہورہا ہے اور جس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں۔ ایسا ہی شجرکاری کا ایک پروجیکٹ ہمیں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔

یہ مارچ کا آخری ہفتہ تھا، اسلام آباد میں ایک غیر سرکاری تنظیم ” لیڈ“ کے زیر اہتمام علاقائی سطح پر ایک تین روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ شرکا میں پاکستانی صحافیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی صحافی بھی موجود تھے اور موضوع تھا"Sharing our resources: A vision for addressing cross border water scarcity caused by climate change"
بدلتے موسم آبی وسائل پر کیا اثرات مرتب کررہے ہیں اور سرحدوں کے پار کیا ہورہا ہے؟ دونوں ممالک کے صحافیوں کے لیے یہ ایک معلوماتی ،دلچسپ اور اہم تبادلہ ، خیال تھا لیکن اس کی تفصیل ایک مکمل اور علیحدہ مضمون کی متقاضی ہے۔ سر دست تو بدلتے موسم اور شجر کاری کے حوالے سے ہم اپنے پٹریاٹہ( نیو مری) کے سفر کی روداد بیان کریں گے۔ ورکشاپ کے تیسرے دن فیلڈ وزٹ کے طور پر ہمیں پٹریاٹہ یا نیو مری کا دورہ کرنا تھا جہاں ایک چھوٹی سی مقامی تنظیم ”سکھی“ نے مقامی آبادی کی شمولیت سے چھوٹے پیمانے پر ہی سہی ایک تبدیلی کا آغاز کیا ہے۔

مری کے جنوب مشرقی پہاڑیوں سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر پٹریاٹہ ہے، یہ یہاںکا سب سے اونچا مقام ہے جو سمندر سے نو ہزار فٹ کی بلندی پرہے۔پائن اور روک کے درختوں سے ڈھکی پہاڑیاں،گنگناتے چشمے ،تاحد نظر پھیلی ہریالی ،پھلوں سے لدے باغات روح پرور مناظرپیش کرتے ہیں۔

پٹریاٹہ جسے نیو مری بھی کہا جاتا ہے، تحصیل مری کی ایک یونین کونسل میں واقع ہے۔ یہاں سطح سمندر سے 8,000 بلند ترین چوٹی واقع ہے۔ سرسبز و شاداب یہ چوٹی پائن کے درختوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس بلند ترین چوٹی کے ارد گرد خوبصورت وادیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہیں پر ایشیا کی طویل ترین کیبل کار اور چیئر لفٹ سسٹم ( تقریبا 6 کلومیٹر طویل) نصب ہے۔ یہاں ملک بھرسے اور بیرون ملک سے تقریبا 3000 سیاح قدرت کی عنایت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ خصوصا پیک سیزن ( جون سے اگست تک) ۔ مقامی آبادی زیادہ تر اپنے چھوٹے موٹے کاروبار مثلا ہوٹل، دکانیں، ڈرائیوری، چھوٹے پیمانے پر کاشت کاری ( مکئی، گندم اور پھلوں میں سیب ، ناشپاتی اور اخروٹ اگائے جاتے ہیں۔) سے وابستہ ہیں جبکہ کچھ لوگ سرکاری دفاتر میں بھی کام کرتے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ یہاں سیاحوں کی تعداد بڑھنے کی وجوہات میں اسلام آباد سے نیو مری تک ایکسپریس وے کی تعمیر ہے جو اپنے معیار میں کسی موٹروے سے کم نہیں ہے جس پر سفر کرکے لوگ صرف 50 منٹ میں اسلام آباد سے پٹریاٹہ پہنچ جاتے ہیں۔

 اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل سے پٹریاٹہ تک گھنٹے بھر کا یہ سفر اونچے بلند وبالا سر سبزپہاڑ اور دوسری جانب ہزاروں فٹ گہری کھائیاں ، پیچ در پیچ گھومتا راستہ ، ایسے میں تیز رفتار اور ہموار سفر اللہ تعالی کی مہربانی اور ڈرائیوروں کی مہارت کا مرہون منت تھا۔ اسلام آباد کی خوبصورت اور بھیگی بھیگی صبح میں یہ سفر شروع ہوا۔ ایک رات پہلے ہی اسلام آباد میں طوفان بادوباراں اور اولے پڑچکے تھے جس کی ٹھنڈک ابھی تک ماحول میں رچی بسی تھی۔

غیر سرکاری تنظیم ”سکھی “ (Society For Upgradation of Knowledge Health and Infrastructure) کے ساتھیوں نے تمام صحافیوں کے گلے میں ہار ڈالے اور پرتپاک استقبال کیا۔ ”سکھی“ کے روح رواں چوہدری اسرار الحق نے اپنے کام کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔”ہم نے2007 میں یہ پروجیکٹ UNDP/GEF/کے زیر اہتمام اسمال گرانٹ پروگرام کے تعاون سے شروع کیا۔ اس پروجیکٹ کا بنیادی مقصدتحفظ ماحول اور مقامی آبادی کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔

 ”گھریلو سطح پربارش کے پانی کا ذخیرہ اور سوشل فارسٹری کا فروغ ہماری پہلی ترجیح تھی۔ شجر کاری کے لیے بھی ہم نے پھل دار پودوں کا انتخاب کیا تاکہ چند سال بعد جب وہ پھل دیں تو مقامی آبادی معاشی طور پر بھی مستحکم ہو ۔ یہاں پھل دار درخت لگانے کی روایات تو موجود تھیں لیکن یہ پودے غیر معیاری ہوتے تھے ۔ ہم نے اس بات کا بھی اہتمام کیا کہ لگائے جانے والے پھلوں کے پودے اعلی معیار کے ہوں ، اس حوالے سے تحصیل مری کی تین یونین کونسلوں میں 31,000 جنگلاتی پودے اور 34,000 پھل دار پودے 1,115مقامی افراد کو فراہم کیے ۔ آنے والے چند سالوں میں یہ درخت پھل دیں گے جس سے لوگوں کو معقول آمدنی کا ایک باقاعدہ ذریعہ حاصل ہو جائے گا۔ ان علاقوں میں بارش کا پانی جمع کرنے کے لیے بھی سادہ اور آسان طریقوں کو کام میں لایا جارہا ہے۔ بہنے والے تمام پانی کو پختہ ٹنکیوں میں جمع کرلیا جاتا ہے جس سے ان پودوں کی آب پاشی اور مقامی افراد کی گھریلو ضروریات میں کام آتا ہے ۔ نیو مری کا یہ علاقہ انتہائی سرسبز اور مرطوب ہے لہذا یہاں پودوں اور درختوں کو بہت کم پانی درکار ہوتا ہے ، یوں سمجھ لیں کہ ہفتے بھر میں صرف 5 لٹر ۔ اس علاقے میں پانی کا ذخیرہ یوں بھی ضروری ہے کیونکہ یہاں دوسرے علاقوں کی نسبت بارشوں کا اوسط کم ہے۔ مقامی آبادی میں خواتین کی تعداد% 50       سے کم نہیں ہے جو کاشت کاری، گلہ بانی اور بطور ٹیچر، ڈاکٹر اور لیڈی ہیلتھ وزیٹرکام کررہی ہیں۔ ان کی ایک اہم ذمے داری دور دراز علاقوں سے پانی لانا بھی ہے لیکن ” سکھی“ کے زیر اہتمام پانی ذخیرہ کرنے اور کم استعمال کی ترغیب دھیرے دھیرے ہی سہی اس منظرنامے کو تبدیل کر رہی ہے۔ یہاں خواتین با اعتماد طور پرسول سوسائٹی کی چھوٹی تنظیمیں بھی چلا رہی ہیں۔

اسرار صاحب کا کہنا ہے کہ ہمارا اصل کام مقامی آبادی میں ماحول سے متعلق شعور اور آگہی پیدا کرنا ہے تاکہ انہیں اپنے ماحول اور وسائل کی اہمیت کا احساس ہوجائے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے ایسے تمام متاثرین جن کے گھر اور زمینیں مری اسلام آباد ایکسپریس وے کی زد میں آگئے تھے ، یا جن کے پاس تھوڑی سی زمین تھی اور جس پر کوئی قابل ذکر کاشت نہیں ہوسکتی تھی اور ایسے تمام لوگ جن کے ذرائع آمدنی محدود یا نہ ہونے کے برابر تھے انہیں پھل دار درخت اور خصوصا معیاری پھل دار پودے لگانے پر راغب کیا۔ مارکیٹنگ کے حوالے سے بھی یہاں بہترین مواقع موجود ہیں۔ان پھلوں کی مارکیٹ قریب ترین شہروں یعنی اسلام آباد، راولپنڈی اور یہاں آنے والے ہزاروں سیاح ہیں۔

ہم نے اس تمام علاقے کا چیدہ چیدہ مشاہدہ کیا اور جو بات ہمیں اچھی لگی وہ یہ ہے کہ روایتی جدید شہروں سے بہت دور اس پس ماندہ علاقے میں خواتین کا نہایت اعتماد سے اس پروجیکٹ میں حصہ لینا ہے۔ خواتین کی ان تمام کاموں میں شمولیت نے مقامی سطح پر بھی اچھے اثرات مرتب کیے ہیں اوراس سے کام کا دائرہ  کار بھی تیزی سے بڑھا ہے۔ اس کارکردگی کو دیکھتے ہوئے سکھی کو 2009 میں ایک اور پروجیکٹ دیا گیا جس میں انہیں 40,000 پھل دار پودے تصدیق شدہ معیار کے دیے گئے۔ ان میں آڑو، سیب، اخروٹ اور ناشپاتی کے پودے شامل تھے۔ یہ پودے 746 افراد میں تقسیم کیے جائیں گے۔ سکھی ہی نے اب ایک قدم اور آگے بڑھ کر یہاں پھل دار پودوں کی نرسری بھی قائم کی ہے جس میں 5,000 پودے مقامی آبادی کے لیے دستیاب ہیں۔

اس خوبصورت اور سرسبز علاقے میں ترقی کی رفتار اور تیز ہوسکتی ہے اگر سرکار تھوڑی سی توجہ ادھر کرلے۔ یہاں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے صرف اسکول کی سطح تک تعلیم کا انتظام موجود ہے جبکہ یہاں کم از کم کالج تو قائم ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ انتہائی اہم بات یہاں صحت کی معیاری سہولیات کی عدم دستیابی ہے، کوئی معیاری اسپتال بھی نہیں ہے۔ یہ وہ دو بنیادی ضرورتیں ہیں جو ہماری حکومت بہت آسانی سے ان ہرے بھرے علاقوں کے محنت کشوں کو فراہم کرسکتی ہے۔ اس سے یہاں کی سیاحت پر بھی اچھے اثرات رونما ہوں گے۔

بدلتے موسم ایک نئے اور بدترین خطرے کی صورت ہمارے سروں پر منڈلارہے ہیں اور اس حوالے سے انتہائی تیز رفتاری سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم خواتین کو اپنے ہر منصوبے میں شامل کریں۔یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ خواتین اور قدرتی وسائل لازم و ملزوم ہیں۔ ماحولیاتی انحطاط کا خسارہ زیادہ تر خواتین ہی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ جیسے جیسے قدرتی وسائل آلودہ یا کمیاب ہوتے چلے جاتے ہیں، خواتین کے مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ قدرتی وسائل اور ماحولیاتی انحطاط سے بالواسطہ اور براہ راست خواتین ہی زیادہ متاثر ہوتی ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ماحولیاتی انحطاط کا عمل تیزی سے جاری ہے اور قدرتی وسائل کمیاب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

اس ماحولیاتی انحطاط میں اگرچہ عورت کا اتنا ہاتھ نہیں ہے لیکن پاکستانی معاشرے میں ماحول اور قدرتی وسائل کے انتظام و انصرام میں عورت کا کردار انتہائی اہم اور واضح ہے۔ وہ ان وسائل کی زیادہ اچھی محافظ ہے۔ یہ وسائل ہماری آئندہ نسلوں کی امانت ہیں لہٰذا ان کی حفاظت ہمارا فرض ہے اور آنے والی نسلوں کا خیال ایک ”ماں“ عورت سے زیادہ کون رکھ سکتا ہے۔

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے یعنی 1994 میں موسمی تبدیلیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کی توثیق کی تھی۔ یہی نہیں بلکہ اس نے دیگر متعلقہ معاہدوں Protocol کی تصدیق بھی کردی تھی۔ اگرچہ پاکستان کے بعض اہم اور متعلقہ حلقوں کا خیال یہ ہے کہ موسمی تبدیلیوں کا صنف سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور یہ مردو عورت پر یکساں ہوتے ہیں تو یہ بالکل غلط خیال ہے۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ Adaptability, Vulnerability اور Mitigation کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو موسم کی تبدیلیوں کے اثرات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔


اس وقت پاکستان میں موسمی تبدیلیوں سے متعلق پالیسی پر کام جاری ہے تاہم پاکستان کو موسمی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ایسی پالیسی وضح کرنے کو ترجیح دے جس میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہو کہ عورتوں اور مردوں پر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس پالیسی کے عمل میں اگر عورتوں کو بڑے پیمانے پر شامل کیا جائے تو ایسی صورت میں فیصلہ سازی کے لیے جو مواد حاصل ہوگا اس میں ہر مکتب خیال کو موثر نمائندگی حاصل ہوگی اور تبھی شاید کوئی بہتری کی صورت نکل سکے۔ وقت مٹھی میں بند ریت کی طرح پھسل رہا ہے اور مجھ سمیت کروڑوں لوگ انتظار کررہے ہیں کہ شاید2010جاتے جاتے وقت کی کتاب پرکچھ پکے رنگوں کے انمٹ اور یادگار نقوش چھوڑ جائے۔

Sunday, February 28, 2010

دلی سے ہریانہ تک، ہری بھری یادوں کا سفر

شیخ چلی کا مزار اور پانچ ہزار سال پرانی جھیل برہماسرور، کرک شترا کی وجہ شہرت ہے

            صبح کے چھ بج رہے تھے ، ہلکا ہلکا اجالا پھیلا ہوا تھا،گاڑی انٹر کانٹی نینٹل گرینڈ ہوٹل کے باہر تیار تھی۔ اتنی صبح کوئی بھی ناشتے کے لیے تیار نہ تھا اس لیے حفظ ماتقدم کے طور پر رات ہی کو ہوٹل والوں سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ سب کا ناشتہ پیک کردیں۔ ملگجے سے اجالے ، نومبر کی ہلکی خنک ہوا اور دلی کی ٹریفک سے خالی سڑکیں، ایک خوشگوار سفر کا آغاز ہوا جس کی منزل ہریانہ کے ضلع کرک شترا کا ایک سر سبز گاؤں بشن گڑھ تھا۔

            یہ 17نومبر 2008 کا ایک خوش گوار دن تھا۔ سینیٹشن کے حوالے سے تیسری کانفرنس SOUTH ASIAN CONFERENCE ON SANITATION (SACOSAN III) دہلی میں ہورہی تھی۔ اس کانفرنس میں تمام سارک ممالک شامل تھے، اس بار اہم بات یہ تھی کہ ہمسایہ ملک افغانستان بھی اس میں شامل تھا، یوں اب شریک ملکوں کی تعداد 8 ہوگئی تھی۔ یہ علاقائی کانفرنس ہر دوسال بعد منعقد ہوتی ہے۔ پہلی ڈھاکا، دوسری اسلام آباد اور اب یہ تیسری دہلی میں منعقد ہورہی تھی۔ کانفرنس کا باقاعدہ آغاز 18نومبر کو تھا مگر کانفرنس کے ذیلی پروگرام شروع ہوچکے تھے۔ ہم اسی کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی میں موجود تھے۔ ہمارا میزبان ورلڈبینک کا ذیلی ادارہ برائے واٹر اور سینیٹیشن (WSP) تھا۔ اسی ادارے کی گیتا شرما ہمارے ساتھ موجود تھیں۔ سادہ اور پروقار سی گیتا شرما کی آنکھوں میں خلوص کی چمک اور باتوں سے ذہانت کی خوشبو مہک رہی تھی۔ فورم آف انوائرنمنٹل جرنلسٹس آف انڈیا کے چیئرپرسن ڈیرل بھی موجود تھے اور دہلی میں یہی ٹیم لیڈر بھی تھے جبکہ WSP پاکستان سے فرحان سمیع اور عرفان سعید الراعی بھی ہمارے ساتھ تھے ۔ انڈیا کے 15اور بنگلہ دیش کے 4 صحافی اور پاکستان سے ہم چھ افراد یہاں موجود تھے۔ ان میں اسلام آباد سے ہما خاور، آفتاب ظہور، پشاور سے ثمینہ رسول (جو آج کل وائس آف امریکا سے وابستہ ہیں) اور کراچی سے میرے علاوہ سمیرا نقوی اور جان خاصخیلی بھی شامل تھے۔ یہ تمام لوگ ماحول کے حوالے سے کام کرنے والے تھے اوران سب کا ایک مقابلے کے ذریعے انتخاب کیا گیا تھا۔


            پاکستان اور انڈیا آج بھی سینیٹیشن کے حوالے سے ایک دگرگوں صورت حال سے دوچار ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم اس شعبے میں بھی بہت پیچھے ہیں۔اگر صرف پاکستان ہی کی بات کریں تو پانچ کروڑ افراد کو سینیٹیشن کی سہولت میسر نہیں ہے یعنی ان کے گھروں میں لیٹرین موجود نہیں ہیں۔  یہ افراد ابھی تک رفع حاجت کے لیے گاؤں کے کھلے علاقوں مثلا جنگلوں یا کھیتوں وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ مقام افسوس ہے کہ خواتین اور بچے بھی اسی چلن کے عادی ہیں۔  بچے تو دور جانے کا بھی اہتمام نہیں کرتے بلکہ گھروں کے سامنے اور گلیوں میں ہی رفع حاجت کرتے ہیں ۔کھلی جگہوں پر رفع حاجت کا سبب لوگوں کی کم علمی اور صحت و صفائی کی بنیادی باتوں سے عدم آگاہی کے ساتھ ساتھ ان کی غربت اور روایتوں پر سختی سے عمل درآمد ہے۔پاکستان میں سات کروڑ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں صحت اور صفائی کے حوالے سے بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔دنیا بھر میں پانچ ہزار اورپاکستان میں ہر روز پانچ سال سے کم عمرگیارہ سو بچے سینیٹیشن کے ناقص انتظامات ، حفظان صحت کی خرابیوں ، دستوں اور آلودہ پانی سے ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔پاکستان کو دستوں کی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے ہر سال 55 ارب سے لے کر 84ارب تک سرمایہ خرچ کرنا پڑتا ہے جو اس غریب ملک کی معیشت پر اضافی بوجھ ہے۔آلودہ ماحول اور آلودہ پانی بچوں میں پیٹ اور جگر کی بیماریوں کا بڑا سبب ہے۔ انسانی فضلے کے مضر اثرات سے انسانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے۔ اسی لیے اب حکومت اور اس کے ساتھ بہت سے ادارے اسی حوالے سے کام کررہے ہیں اور لوگوں میں شعور و آگہی کی روشنی پھیلا رہے ہیں، WSP بھی ایسا ہی ایک نام ہے۔ ایسے گاؤں جہاں ہر گھر میں ٹوائلٹ کی سہولت موجود ہو اور وہ کھلی جگہوں پر فضلے سے پاک ہوجائے تو اسے او ڈی ایف گاؤں کہتے ہیں یعنی Open Defecation Freeاور وہ لوگ جو بلا معاوضہ رضاکارانہ طور پرشعورو آگہی کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں انہیں نیچرل لیڈر یا رضاکار(Barefoot ) کہا جاتا ہے اور یہ سارا عمل سی ایل ٹی ایس Community Led Total Sanitation کہلاتا ہے۔

اب تک پاکستان کے تقریبا15,00 گاؤں کھلی جہگہوں میں انسانی فضلے سے پاک ہوچکے ہیں اور 2011 تک ایسے گاؤں کی تعداد 15,000ہوجائے گی ، اس کا مطلب ہوگا کہ ایک تہائی دیہی آبادی کو یہ سہولت حاصل ہوجائے گی ۔

            ہریانہ کے ضلع کرک شتراکا گاؤں بشن گڑھ بھی ایسا ہی ایک ODF گاؤں تھا جہاں بہت کم عرصے میں اس بظاہر ناممکن کام کو ممکن بنایا گیا تھا اور اس تمام تر جدوجہد کا سہرا کرک شترا کی پرجوش اےڈیشنل ڈپٹی کمشنر ”سمیدھا کٹاریہ“ کے سر تھا۔
            ضلع کرک شترا جو دہلی سے 160کلومیٹر اور چندی گڑھ سے 90کلومیٹرکے فاصلے پر ہے ، ایک اہم روڈ جنکشن کہلاتا ہے۔ کرک شترا مذہبی اعتبار سے انڈیا کا ایک اہم علاقہ ہے اور ہندو عقیدے کے مطابق مہا بھارت کرک شترا کی سرزمین پر ہی لڑی گئی۔ یہیں پر پانچ ہزار سال پرانی جھیل ” برہما سرور“ دیکھی جس کا پانی آئینے کی طرح شفاف تھا۔ میڈم کٹاریہ ہمارے ساتھ تھیں اور انہوں نے خود ہی گویا ہماری گائیڈ کے فرائص سنبھال لیے تھے۔انہوں نے بتایا کہ یہاں انڈیا بھر سے لوگ چاند گرہن میں آکر پوجا پاٹ کرتے ہیں اور اس جھیل کا پانی خود پر انڈیلنے سے وہ گناہوں سے پاک ہوجاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف پانی کان پر لگانے سے بھی گناہ دھل جائیں گے ، ہم سب نے ان کے اصرار پر صرف ان کا دل رکھتے ہوئے پانی چھونے پر اکتفا کیا۔ جھیل کے سامنے بھگوان کرشنا اور ارجن کے دیو قامت دھاتی مجسمے موجود تھے۔ اسی علاقے میں شیخ چلی کا مزار بھی موجود ہے۔ یہیں پر بھگوان کرشنا میوزیم اور کرک شترا پینوراما اور سائنس میوزیم بھی موجود ہے۔ پینوراما سینٹر میں پہنچ کر آپ ہزاروں سال پرانی ہندو تہذیب میں سانس لے رہے ہوتے ہیں۔ یہاںانتہائی پر تاثیر انداز میں مہا بھارت کی ہزاروں سال پرانی 18روزہ جنگ کو زندہ کیا گیا ہے۔ دیوہیکل مجسمے اور آوازوں سے آپ کو یہی لگتا ہے کہ آپ اسی دور میں زندہ ہیں اور اس جنگ کے چشم دید گواہ ہیں، سمیدھا جی ہر قدم پر ہماری رہنمائی کررہی تھیں، انہوں نے تفصیل سے اس اٹھارہ دنوں کی جنگ کے اہم واقعات دہرائے۔

            بشن گڑھ ابھی دور تھا لہذا راستے میں آنے والے سرکاری ریسٹ ہاؤس میں کچھ دیر سستانے کے لیے رکے۔ یہاں انتہائی شان دار لوازمات کے ساتھ چائے کا انتظام تھا۔ ہر قسم کی سلاد اور ہر قسم کے پکوڑوں کا ہم نے اپنے انڈیا میں قیام کے دوران لطف اٹھایا۔ یہیں پر سمیدھا کٹاریہ نے سینیٹیشن کے حوالے سے اپنے کام اور خصوصا خواتین کی جدوجہد پر روشنی ڈالی ، ان کی اس بات کی سچائی بشن گڑھ پہنچنے پر ثابت بھی ہوگئی۔ گاؤں کے لوگوں نے روایتی انداز میں ڈھول بجا کر اور عورتوں نے گاکر ہمارا استقبال کیا۔ مہمان مردوں کو پگڑیاں اور خواتین کو دوپٹے پہنائے گئے۔ روایتی پیلے پھولوں کے ہار گلے میں ڈالے گئے۔ خواتین گانے کے ساتھ ساتھ ” جے سچیتا“ یعنی صفائی زندہ باد کے نعرے بھی لگارہی تھیں۔ تعارف کے بعد پرجوش خواتین اپنی کامیابیوں کی تفصیل بتارہی تھیں، ان کے جوش سے سرخ چہرے اور باتوں سے ناممکن کو ممکن بنانے کاعزم عیاں تھا۔ ہر عورت اپنے تجربات زوروشور سے بیان کررہی تھی اور میرے ذہن میں ایک خیال کی گونج پھیل رہی تھی کہ وہ سماجی انقلاب جس کی راہ دیکھتے دیکھتے اس خطے کی کتنی نسلیں مٹی اوڑھ کر سوچکی ہیں وہ سماجی انقلاب اب دہلیز تک آپہنچا ہے، صرف دروازہ کھولنے کی دیر تھی ۔۔۔ امید بندھ چلی تھی کہ برصغیر کے اس سماجی انقلاب کے کاروواں کی علم بردار عورت ہی ہوگی۔