Sunday, November 29, 2009

وزیر اعظم کے نام ایک خط

  انتہائی قابل احترام وزیر اعظم صاحب،

  سال 2009 دھیرے دھیرے مٹھی میں بند ریت کی طرح پھسلتا گیا اور اب سال کا آخری مہینہ دسمبربھی رخصت ہوا چاہتا ہے، صرف دو روز اور پھر یہ سال بھی وقت کی گہری کھائی میں اتر جائے گا۔ سال 2009 کوحکومت نے ماحول کا قومی سال قرار دیا تھا لہذا ماحول سے منسوب اس سال کی رخصتی سے پہلے کچھ باتیں آپ سے کرنا چاہ رہی ہوں۔

  محترم ، آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں، ملک کے سب سے مقتدر عہدے پر فائز گویا ملک کے کرتا دھرتا آپ ہی ہیں لہذاان اہم مسائل کے لیے ہمیں آپ ہی کی طرف دیکھنا ہوگا۔  اگرچہ کہ ان مسائل کا تعلق این آر او، کرپشن یا سیاسی پیش گوئیوں سے بالکل بھی نہیں ہے اور نہ ہی ان کا تعلق کسی کے آنے اور جانے سے ہے ، یہ مسائل تو دراصل ملک و قوم کی بقا سے متعلق ہیں گویا اصل مسائل یہ ہی ہیں۔



  محترم، آپ یقینا جانتے ہوں گے کہ ماحولیاتی مسائل اب دنیا بھر کی حکومتوں کی ترجیحات میں سرفہرست ہیں، آپ حالیہ کوپن ہیگن کانفرنس کے نتائج سے بھی باخبر ہوں گے۔  یقینا یہ حقیقت بھی آپ سے ڈھکی چھپی نہیں ہوگی کہ پاکستان کا شمار فضا کوآلودہ کرنے والے ممالک میں بہت نیچے ہے لیکن موسموں کی بے ترتیبی سے ہونے والے نقصانات کا شکار ملکوں کی فہرست میں بہت اوپرہے۔  دست قدرت نے پاکستان کو دل کھول کروسائل سے نوازا ہے، پہاڑوں میں موجود گلیشیئروں سے لے کر بحیرہ عرب کے ساحلوں تک بیش بہا قدرتی وسائل ہمارے ملک کے طول و عرض میں موجود ہیں۔  ایک محتاط اندازے کے مطابق قطبین کے بعد شاید سب سے زیادہ گلیشیئرز ہمارے بالائی علاقوں میں ہی موجود ہیں۔  یہ گلیشیئرز ہمارے آبی وسائل کا سرچشمہ ہیں لیکن موسموں کی بے ترتیبی(Climate Change)  سب سے زیادہ ان ہی آبی وسائل کو متاثر کرے گی۔دنیا بھر میں اب ایسی حکمت عملیاں تیار کی جارہی ہیں جو ان بے ترتیب موسموں سے ہم آہنگ ہوں خصوصا Climate change adaptation in the water sector  اب وقت کی ضرورت تسلیم کرلی گئی ہے۔ ترقی پزیر اور ٹوٹی پھوٹی معیشت ہونے کے ناتے ہمارے مسائل اور بھی گمبھیر ہیں۔ مثلادرجۂ حرارت کے بڑھنے سے پاکستان کے لیے پہلا خطرہ ہمالیائی گلیشیئرزہوں گے، ان گلیشیئرز سے دنیا کے کئی بڑے دریا مثلاً دریائے سندھ، گنگا، برہم پترا، سلوین، میکا ونگ، یانگ ژی اور زرد دریا نکلتے ہیں جن کا پانی پاکستان، بھارت، چین اور نیپال میں زندگی کو رواں دواں رکھنے کا باعث ہے۔ گرمی کے بڑھنے سے یہ گلیشیئرز تیزی سے پگھلیں گے اور ان دریاؤں میں طغیانی کی کیفیت پیدا ہو گی جس سے کناروں پر آباد لاکھوں افراد کو سیلاب کا سامنا ہو گا۔ سیلاب سے بچاؤکے لیے جس قدر سرمایہ درکار ہوگا اس کا پاکستان جیسا غریب ملک تصور بھی نہیں کرسکتا۔  کچھ عرصے بعد جب پانی کم ہوجائے گا تویہی ممالک خشک سالی کا عذاب سہیں گے۔  زراعت تباہی سے دوچار ہوگی، قحط پھیلے گا اور غربت و افلاس کے سائے مزید گہرے ہوجائیں گے۔  یہ وہ کم از کم خطرات ہیں جو کسی ناکردہ جرم کی سزا کے طور پر ہمارے اس پیارے ملک کو بھی بھگتنا ہوگا۔ کیا ہم نے ایسی کسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار کی ہے؟ اگر دریاؤں میں پانی زیادہ آجائے تو اسے کہاں ذخیرہ کیا جائے گا؟ منگلا اور تربیلا تو پہلے ہی ریت اور مٹی سے اٹ کر گنجائش سے کہیں کم پانی ذخیرہ کررہے ہیں۔ کیا ہم نے چھوٹے ڈیم یا بند تعمیر کرنے کی کوئی عملی تیاری کی۔  ماہرین کے مطابق دریائے سندھ پردسیوں ایسے مقامات ہیں جہاں پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ چھوٹے ڈیم کم مدت اور کم لاگت میں تعمیر کیے جاسکتے ہیں اس کے لیے نہ غیر ملکی قرضوں کی ضرورت ہے اور نہ ہی ماہرین کی۔  اپنے وسائل اور اپنی مہارت سے اس سال ہم باآسانی یہ کام کرسکتے تھے۔۔۔ لیکن ہم یہ بھی نہ کرسکے!

محترم، آبی وسائل کی زبوں حالی کے تانے بانے جاکر ہماری کمزور ( بلکہ اگر آپ برا نہ مانیں تو میں اسے ”ناکام“ کہنے کی جسارت کروں گی) خارجہ پالیسی سے بھی جاکر ملتے ہیں جس کا تسلسل کئی دہائیوں سے جاری ہے۔  ایک آمرنے بڑی فراخ دلی سے تین دریا ہندوستان کو بخش دیے تھے جبکہ گذشتہ سالوں میں دوسرے آمر نے ہندوستان کو ہمارے دریاؤں پر ڈیم بنانے کی اجازت دے کر اسے ہمارے دریاؤں کا پانی روکنے کا پروانہ عطا کیاتھا۔ صد شکر کہ آج کوئی آمر موجود نہیں ہے لیکن افسوس کہ اس کے باوجود جب ہندوستان آج بھی ہمارے دریاؤں کا پانی روک دیتا ہے تو کہیں اندرون ملک یا کسی بین الاقوامی فورم پر کوئی احتجاج نہیں ہوتا ہے ! یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ہندوستان نے اپنے دریاؤں پر دسیوں بڑے ڈیم بنا کر نہ صرف اپنا پانی محفوظ کر لیا ہے بلکہ پاکستان کے دریاؤں کا پانی بھی دھڑلے سے چرا رہا ہے۔

محترم، آپ یقینا یہ بھی جانتے ہوں گے کہ پاکستان کے پاس دوسرے ممالک کے مقابلے میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بہت کم ہے مثلا امریکا اور آسٹریلیا کی آبی ذخیرے کی صلاحیت5,000 کیوبک میٹر پر کیپیٹا اور چین کی 2,200 کیوبک میٹر پر کیپیٹا ہے جبکہ پاکستان کی یہ صلاحیت صرف 150کیوبک میٹر پر کیپیٹا ہے۔ بھارت اپنے ذخیرہ کردہ پانی سے اپنے متعلقہ دریاؤں کو 120سے 220 دن تک رواں رکھ سکتا ہے جبکہ پاکستان کے دریا صرف 30دن تک رواں رہ سکتے ہیں۔ جب تک ہم اپنے پانی کو کہیں ذخیرہ نہیں کر سکتے پانی کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق استعمال بھی نہیں کرسکتے۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ بے ترتیب موسموں کا شاخسانہ بہت دور تک جائے گا۔  یہ بدلتے موسم یعنی خشک سالی اور سیلاب براہ راست صحت کو بھی متاثر کریں گے خصوصا پاکستان جیسے خشک ملک میں جہاں بارشیں کم ہوتی ہیں یہ خشک سالی قیامت مچا دے گی۔ زیر زمین پانی بھی کم ہوتا چلا جائے گا۔پانی میں آلودگی اور بڑھ جائے گی ۔آلودہ پانی سے آنتوں کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔گرمیوں میں وبائی بیماریاں تیزی سے پھیلتی ہیں۔ بے شمار سروے رپورٹ بتاتی ہیں کہ گرمیوں میں ہی متعدی امراض مثلا ملیریا اور ڈینگی کی شدت بڑھتی ہے۔ہمارے ملک کے سرد حصے جو ان بیماریوں سے محفوظ ہیں لیکن گلوبل وارمنگ کے تحت جب ان علاقوں کا بھی درجۂ حرارت بڑھے گا تو یہاں بھی یہ بیماریاں پھیلنے لگیں گی۔  ان بیماریوں کے علاج کے ضمن میں جواضافی بوجھ پڑے گا وہ پہلے سے بدحال معیشت کو اور تباہ حال کردے گا۔ غریبوں کے لیے جینا تو جینا مرنا بھی مشکل ہوجائے گا۔

  پاکستان جیسا غریب اورترقی پذیر ملک جہاں کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرتے ہیں جہاں انسانوں کا خون پانی سے بھی ارزاں اور پینے کا صاف پانی جنس گراں مایہ بن چکا ہو، جہاں لمبی قطاروں میں لگ کر آٹا دال خریدنا پڑتا ہو وہاں کیا ہماری حکومت  "climate change" سے پیدا ہونے والے ان مسائل پر توجہ دے پائے گی ؟  مایوسی کا شدید احساس ہر امید کو ڈسنے لگتا ہے!
  ہمارا دوسرا بڑا شعبہ زراعت جس کا انحصار پانی ہی پرہے ، پانی کی کمی سے دوچار ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارا 90% پانی جوزراعت میں استعمال ہوتا ہے اس میں سے 20 سے 30فی صد راستے ہی میں ضائع ہوجاتا ہے ۔ ہمیں اس ضیاع کو روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے ۔  پاکستان کی زرعی فصلوں پر بھی دھیان دینا ہوگا۔  کیونکہ پانی کی بچت انتہائی ضروری ہے۔ ایسی فصلیں اگانا جس میں پانی کم استعمال ہو اور وہ منافع زیادہ دیں بہت ضروری ہوگا ۔ آنے والے وقتوں میں پرانی روایتی فصلیں اگانا بہت مشکل ہو جائے گا۔

 ہماری تقریبا 60 فی صد آبادی شہروں میں رہے گی اس لیے ضروری ہے کہ شہروں کے نئے ماسٹر پلان تیار کیے جائیں جن کے تحت تمام ضروریات زندگی مثلا سبزیاں ، پھل ، جانوروں کی پرورش اور دیگر تمام سرگرمیاں شہروں کے قریب ہوں۔ اس سے ٹرانسپورٹ کے اخراجات اور emissions بھی کم ہوں گے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ میں درختوں کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ موجودہ جنگلات کے بچاؤ کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ کیونکہ موسمی تبدیلی سے سیلاب آئیں گے۔  اس کے لیے ہمیں مربوط منصوبہ بندی اور زون بنانے ہوں گے۔  یاد رہے کہ ان تمام تبدیلیوں اور خطرات کی زد میں ہمارا غریب اور مظلوم طبقہ ہی نشانہ بنے گااورزیادہ تر علاقوں سے غریب لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔  اس کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ورنہ اس نقل مکانی کے بہت برے اثرات رونما ہو سکتے ہیں۔

  پاکستان موسمی تبدیلیوں سے مکمل طور پر محفوظ نہیں رہ سکتا لیکن بروقت بہترین منصوبہ بندی سے اس کے اثرات کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔ کیااس سال ہم نے اس حوالے سے کوئی جامع اور مربوط حکمت عملی تیار کی ہے؟

  محترم ، اب آخر میں ایک انتہائی اہم بات ! یہ چند اعدادوشمار ہیں جنہیں پڑھ کر شاید آپ مندرجہ بالا گزارشات کی سنگینی کا اندازہ کرسکیں، عالمی بینک کی ایک مستندرپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت ماحول کی تباہی کی قیمت 365 ارب روپے سالانہ(مجموعی جی ڈی پی کا 6%) ادا کررہی ہے یعنی ایک ارب روپے روزانہ ! ایک کمزور معیشت کے لیے یہ نقصان کتنا خطرناک ہے اس کااندازہ لگانے کے لیے کسی ماہر کی ضرورت نہیں ہے۔ پانی کی صفائی کے ناقص نظام، پانی کی آلودگی اور اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی صورت 112ارب،زرعی شعبے کی بدحالی کی مد میں 70ارب ،گھریلو فضائی آلودگی کا نقصان 67ارب ،شہروں میں فضائی آلودگی 65ارب ،جبکہ چراگاہوں اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی پرتقریبا 7ارب روپے سالانہ ضائع ہوتے ہیں۔

  اب ذرا غور کیجیے ! ایک ارب روپے سالانہ ہم اپنی غفلت اور بے پرواہی سے ضائع کر رہے ہیں اور دوسری جانب ہماری حکومت ہر بین الاقوامی فورم پر ہاتھ میں کشکول لیے کھڑی ہے۔ شایدکبھی ہم سمجھ پائیں کہ معیشت کی جھولی کا یہ سوراخ جس سے ایک ارب روپے روزانہ گر رہے ہیں اگر رفو نہیں کیا جائے گا تو چاہے کتنا ہی قرضہ لے لیا جائے جھولی ہر گز نہیں بھرے گی۔

  محترم، میں جانتی ہوں کہ میرا ملک پاکستان اس وقت انتہائی نازک دور سے گذر رہا ہے۔  نظام افراتفری ، ادارے انتہائی کمزور اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا شکار ہیں۔ کرپشن نے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں، ماضی کی غلط خارجہ پالیسیوں نے ملک میں بیرونی مداخلت اوردہشت گردی کی راہ ہموار کردی ہے۔ غریب عوام کے جسموں کے پرخچے آئے دن خودکش بمباروں کی زد میں آکر اڑ رہے ہیں۔  ایسی افراتفری میں بھلا ماحول اور ماحولیاتی مسائل کو کون پوچھے گا اگرچہ کہ ہمارے پاس وزارت ماحولیات بھی موجود ہے اور درجن بھر اس کے معاون ادارے بھی لیکن نتائج۔۔۔۔

 ا گرچہ مایوسی کا اندھیرا بہت گہرا ہے لیکن عدلیہ بحالی کی درخشاں تحریک کی کامیابی امید کے در وا کررہی ہے کہ اب پاکستان بدل رہا ہے۔  خدا کرے کہ اس بدلتے ہوئے پاکستان میں رہنے والوں کے دن بھی بدل جائیں! آمین۔


شبینہ فراز ، ایک پاکستانی