Wednesday, May 20, 2009

ماحول کا عالمی دن اور 15 لاکھ بے گھر

زمیں سخت اور آسماں دور ہے

پینے کے صاف پانی اور سینیٹیشن کی عدم فراہمی خطرناک وبائی امراض کو جنم دے سکتی ہے


بہت سے سر سبز موضوعات تھے جو مجھے پانچ جون یعنی عالمی یوم ماحول پر اپنے احاطہ ءتحریر میں لانا تھے، اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام UNEP کی شروع کردہ شجر کاری مہم The Billion Trees Campaign  کے متعلق لکھنا تھا کہ اس حوالے سے کس ملک نے کتنے اور کیسے درخت لگائے ہیں اور دنیا کے نئے بننے والے ہرے بھرے نقشے پرہمارے ملک کی کیا پوزیشن ہے، ان سب پر مجھے بات کرنی تھی لیکن مجھے اب کچھ بھی یاد نہیں، دل ہے کہ جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ رکھا ہے اور دماغ ہے کہ سوچنے سمجھنے کے قابل نہ رہا اور آنکھیں جن میں بہت سے خواب ہمیشہ ہوا کرتے تھے  ( میرا یقین ہے کہ شکر گذار انسان بننے کے لیے کچھ خواب آنکھوں میں ضرور ہونے چاہییں اس سے انسان خوش رہتا ہے اور حق بندگی کے لیے سر جھکاتا رہتاہے، چاہے یہ خواب پورے ہوں یا نہ ہوں) اب ان آنکھوں میں گویا ریت اڑ رہی ہے کچھ بھی تو دکھائی نہیں دے رہا سوائے ایک ہولناک منظر کے۔۔۔۔

 بوڑھے ، بچے خواتین ،اک قطار در قطار ہے جو گھٹریاں سر پر اٹھائے چلے جارہے ہیں ، گھر ، مویشی مال و اسباب ، کھڑی فصلیں سبھی کچھ چھوڑ کر اک صرف زندگی بچا کر۔ ۔ ۔ وہ زندگی جس کی آگے بھی کوئی ضمانت نہیں ہے۔

ٹیلیویژن پر ایک مختصر تقریر ، بہت بڑا فوجی ایکشن اورنتائج۔۔۔۔ اپنے ہی ملک میں 15 لاکھ بے گھر پاکستانی! میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں!


خدا کی پناہ! پوری دنیا انگشت بدنداں ہے ۔ اسے ڈالروں کی چمک، پانچ ہیلی کاپٹر ،چند مہنگے ہتھیار( ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے جن کی ہمیں ویسے بھی کوئی ضرورت نہیں تھی) کا کمال سمجھا جائے یا قیادت کی عاقبت نا اندیشی کہ اپنے ہی ملک میں وہ کہرام برپا کرڈالا کہ جس کی نظیر شاید ہی تاریخ میں مل سکے۔ تاریخ بنانے کے شوقین ہمارے حکمراں بھول چلے کہ اگر کامیابی بھاری توپوں ، بمباری اور گن شپ ہیلی کاپٹروں سے ملتی ہوتی تو امریکا ویتنام ،افغانستان اور عراق میں یقینا فتح یاب ہوتا اور دھوم دھام سے ہوتا۔ ہم 71میں ملک بچالیتے اور73 اور 2008 میں اپنے ہاتھوں بلوچستان میں آگ نہ لگا لیتے لیکن تاریخ کا سبق پڑھنا اور بات ہے اور اسے یاد رکھنا اور بات ہے۔ ہمارے حصے میں تو ویسے بھی کچھ کمزور یادداشت والے حکمران آئے ہیں جنہیں وعدے قسمیں سبھی کچھ بھول جانے کی عادت ہے۔  فوجی کارروائی کبھی بھی موثر حل نہیں ہوتی اور خصوصا اس صورت میں جب عسکریت پسندوں کو غیر ملکی مدد اور سرپرستی بھی حاصل ہو۔
پاکستان جو پہلے ہی ان گنت ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہے ۔ اس زوال پذیر ماحول کی بھاری قیمت زرکثیر کی صورت ادا کررہا ہے ۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سالانہ365 ارب روپے یعنی روزانہ ایک ارب روپے ماحول کی تنزلی کی صورت ادا کرتا ہے جو اس کی جی ڈی پی کا چھہ فیصد ہے۔ صرف آلودہ پانی اور سینیٹیشن کی ناقص سہولت یا عدم دستیابی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور اموات کی صورت پاکستان 112ارب روپے یعنی تین کروڑ یومیہ سے زائد نقصان برداشت کرتا ہے۔ ایک کمزور معیشت کی کمر توڑنے کے لیے یہی بہت ہے اورابھی وہ اپنے اس شکستہ دامن کو رفو بھی نہ کر پایا تھا کہ مزید چھید اس جھولی میں ہوگئے ۔ شاید ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ یہ پندرہ لاکھ بے گھر پاکستانی آنے والے دنوں میں ملک و قوم کے لیے کس چیلینج کی صورت سامنے ہوں گے۔ کیا یہ سوال کرنا ہمارا حق نہیں بنتا کہ فوجی آپریشن اگر ناگزیر ہی تھا تو کیا اس کی تیاریاں کر لی گئی تھیں؟ کیا ہماری قیادت نے قردادوں کے علاوہ کچھ عملی اقدامات بھی کیے تھے۔ ہمارے متعلقہ ادارے تیار تھے اور اگر تھے تو قوم یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ یہ لوگ جو ہمارے ہم وطن ہیں پھر سڑکوں پرکیوں بیٹھے ہیں ، ان کے معصوم بچے روٹی کے چند ٹکڑوں کے لیے کیوں لڑ رہے ہیں ، ان کی ہاتھوں کی کتابیں کہاں گئیں ؟مریض سوزوکیوں میں بے یار و مددگار کیوں پڑے ہیں اور عورتیں بغیر کسی طبی امداد کے خیموں میں ننگی زمینوں پربچے کیوں پیدا کررہی ہیں۔ تازہ رپورٹ کے مطابق کیمپوں میں بے یارومددگاررہنے والے صرف 10 سے15 فیصد ہیں جبکہ 80% افراد اپنے عزیزوں کے ہاں رہائش پذیر ہیں اور بقیہ 5% دوستوں اور جاننے والوں کے ہاں رہ رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ غریب اور ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے لوگ ہیں ، انہیں اپنے انسانی حقوق کا بھی کچھ پتا نہیں ہے لیکن یہ انسان ہیں، پاکستانی ہیں۔ اس ملک کے وسائل پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی      دوسرے     ہائی فائی ایجوکیٹڈ شہری کا۔ اور اب انہیں اپنے ہی ملک میں مہاجر بنانے والے ان کے لیے کیا کررہے ہیں اور جہاں تک وسائل کی بات ہے تو صرف صدر محترم جناب آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور دیگر تمام صف اول کے سیاست داں اور حکمرانوں کے سرمائے کے ذخائر اربوں ڈالر میں بنتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اس سرمائے کی صرف زکواۃ ہی نکال دیں تو ان مظلوموں کے آنسو پونچھے جاسکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق اب تک بیس لاکھ افراد نقل مکانی کرچکے ہیں اور چودہ لاکھ سے زائد کی رجسٹریشن ہو چکی ہے۔ اندرون ملک اتنی بڑی نقل مکانی کی مثالیں روانڈا جیسے دوچار افریقی ملک ہی میں ملتی ہیں۔

 اگر ان مہاجر کیمپوں کا ماحولیاتی منظرنامہ تصور میں لائیں تو صورت حال بہت بدتر نظر آتی ہے۔اس طرح اچانک پندرہ لاکھ افراد کا سڑکوں پر آجانا پاکستان کے ماحول اوراس کے قدرتی وسائل پر تو منفی اثرات مرتب کرے گا ہی لیکن خود یہ افراد کس قدر خطرناک صورت حال سے دوچار ہیں کیا کسی کو اس کا اندازہ ہے؟ ان لاکھوں افراد کو شدید گرمیوں میں خیموں میں رہنا پڑ رہا ہے۔ تنگ جگہوں پر بہت سے افراد ، تیز گرمی ، پسینہ اور نہانے کے لیے پانی کا نہ ہونا بہت جلد جلدی امراض کے پھیلاؤ کا سبب بن جائے گا۔ ٹھنڈی وادیوں میں رہنے والے یہ افراد اس سخت گرمی کے عادی نہیں ہیں اور اس گرمی میں جہاں ننگے پاؤں چلنا دشوار ہوتا ہے وہاں یہ بچے ننگی زمینوں پر لیٹنے پر مجبور ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ سوات سے آنے والے بہت سے بچے چکن پاکس اور دیگر جلدی امراض کا شکار ہیں ۔ یہ بیماریاں بہت جلد وبائی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔

 پینے کے لیے صاف پانی کا نہ ہونا پیٹ کی بہت سی بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ بیت الخلا کا نامناسب انتظام اور بہت سے کیمپوں میں تو خیموں کے اندر ہی ایک کونے میں گڑھا کھود لیا گیا ہے جو صحت کے حوالے سے بدترین صورت حال ہے۔ انسانی فضلے کا کھانے پینے کی اشیا کے قریب ہونا ہی بذات خود بہت سی بیماریوں کی جڑ ہے۔ پیٹ کی بیماریاں جن میں ہیضہ سر فہرست ہے وہ بہت تیزی سے پھیل سکتا ہے اور ویسے بھی ہیضے کی بیماری گرمیوں میں بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔ ہیضہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ اموات کا سبب سمجھا جاتا ہے۔


پینے کی صاف پانی کی فراہمی اور سینیٹیشن کی سہولت کی فراہمی متعلقہ اداروں کے لیے اصل چیلنج ہے اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو وبائی امراض قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔ اس وقت آدھی دنیا کا مسئلہ پینے کا صاف پانی ہے اور ہر سال تقریبا 25 ملین یعنی پچیس کروڑ کے لگ بھگ افراد گندے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اورایک عام جائزے کے مطابق ان میں سے 5 سے 10ملین افراد یعنی پچاس لاکھ سے کروڑ تک کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اسے اور آسانی سے سمجھیے کہ 14,000 افراد روزانہ پانی کی بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ گویا کہ ہر مہینے ایک سونامی کا سامنا ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں پینے کا جو پانی فراہم کیا جاتا ہے وہ 75% تک آلودگی کا شکار ہوتا ہے۔ اب اس تمام پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے سوچئیے کیا ہم ان لوگوں کو صاف پانی اور سینیٹیشن کی باقاعدہ سہولت فراہم کرسکیں گے۔ یاد رکھیئے کہ ہیضے کی بیماری کی ایک بڑی وجہ گندگی اور آلودہ پانی کا استعمال ہے۔ ہیضہ شیر خوار بچوں میں موت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اسے روکنے لیے دواؤں کے ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی ، پینے کے لیے صاف پانی اور کھانے پینے سے پہلے ہاتھ دھونے پر زور دیا جاتا ہے۔ اس بیماری کی ہی سنگینی کے پیش نظر دنیا بھر میں پندرہ اکتوبر کو ہینڈ واشنگ ڈے منایا جاتا ہے۔ لیکن ان خیموں میں بے سروسامانی کی اس شام غریباں میں ہاتھ دھونے کے لیے صابن اور پینے کے لیے صاف پانی کی عیاشی کیسے ممکن ہوسکے گی؟ یہ سوال ہم سب کو حکومت اور ایک دوسرے سے پوچھنا ہوگا!