مارچ کے تیسرے ہفتے ۱۶ تا ۲۲ مارچ
میں شروع ہونے والے پانچویں ورلڈ واٹر فورم میں ۲۰،۰۰۰ افراددنیا بھر میں پانی کے حوالے
سے درپیش مسائل کے حل کے لیے یکجا تھے۔ یہ
فورم اس بار ترکی کے شہر استنبول میں منعقد ہوا تھا ۔ اس فورم میں شرکت کا مجھے بھی
موقع ملا۔ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے اورماحول کے حوالے سے کام کرنے والے مجھ
سمیت ۴۱ صحافی بھی اس تاریخی فورم میں شامل تھے۔سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والی صحافیوں
کی ایک تنظیم میڈیا ۲۱ ہماری میزبان تھی۔
اس فورم کا بنیادی خیال Bridging divides for Water تھا۔ عالمی سطح پر واٹر فورم منانے کا سلسلہ نوے کی دہائی کے آخری سالوں میں شروع ہواتھا ۔ یہ فورم ہر تیسرے سال منعقد ہوتا ہے۔پہلا ورلڈ واٹر فورم ۱۹۹۷مراکش میں دوسرا ۲۰۰۰نیدر لینڈ میں تیسرا ۲۰۰۳ جاپان چوتھا ۲۰۰۶ میکسیکو میں اور یہ پانچواں ترکی کے خوبصورت اور تاریخی شہر استنبول میں منعقد ہوا تھا۔ اس فورم کے انعقاد کا بنیادی مقصد دنیا کو پانی کے حوالے سے درپیش چیلینجز سے آگاہی اور پانی کے مسائل کو حکومتوں اور ساست دانوں کے سرکاری اور سیاسی ایجنڈے میں سر فہرست لانا ہے۔ اس فورم کا افتتاح ترکی کے صدر عبداللہ گل نے کیا جبکہ اور بہت سے ممالک کی سرکردہ شخصیات نے بھی اس میں شرکت کی۔ خبر گرم تھی کہ پاکستان سے بھی بہت سے لوگ شرکت کر رہے ہیں لیکن معذرت کے ساتھ مجھے کہیں بھی پاکستان کی نمائندگی خصوصا سرکاری سطح پر نظر نہیں آئی۔ ایک آدھ اسٹال ہی کہیں لگادیا جاتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود آبی تنازعات کو اجاگر کرنے کا یہ بہترین موقع تھا کیونکہ اس بین الاقوامی فورم پردنیا بھر کے واٹر ایڈووکیٹ جمع تھے۔ لیکن خیر سرکار کا کام سرکار ہی جانے!
اس فورم کا بنیادی خیال Bridging divides for Water تھا۔ عالمی سطح پر واٹر فورم منانے کا سلسلہ نوے کی دہائی کے آخری سالوں میں شروع ہواتھا ۔ یہ فورم ہر تیسرے سال منعقد ہوتا ہے۔پہلا ورلڈ واٹر فورم ۱۹۹۷مراکش میں دوسرا ۲۰۰۰نیدر لینڈ میں تیسرا ۲۰۰۳ جاپان چوتھا ۲۰۰۶ میکسیکو میں اور یہ پانچواں ترکی کے خوبصورت اور تاریخی شہر استنبول میں منعقد ہوا تھا۔ اس فورم کے انعقاد کا بنیادی مقصد دنیا کو پانی کے حوالے سے درپیش چیلینجز سے آگاہی اور پانی کے مسائل کو حکومتوں اور ساست دانوں کے سرکاری اور سیاسی ایجنڈے میں سر فہرست لانا ہے۔ اس فورم کا افتتاح ترکی کے صدر عبداللہ گل نے کیا جبکہ اور بہت سے ممالک کی سرکردہ شخصیات نے بھی اس میں شرکت کی۔ خبر گرم تھی کہ پاکستان سے بھی بہت سے لوگ شرکت کر رہے ہیں لیکن معذرت کے ساتھ مجھے کہیں بھی پاکستان کی نمائندگی خصوصا سرکاری سطح پر نظر نہیں آئی۔ ایک آدھ اسٹال ہی کہیں لگادیا جاتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود آبی تنازعات کو اجاگر کرنے کا یہ بہترین موقع تھا کیونکہ اس بین الاقوامی فورم پردنیا بھر کے واٹر ایڈووکیٹ جمع تھے۔ لیکن خیر سرکار کا کام سرکار ہی جانے!
استنبول ترکی کا دارالحکومت نہیں ہے لیکن تاریخی اہمیت کی
بنا پر اسے ترکی کے دارالحکومت انقرہ پر سبقت حاصل ہے۔صدیوں پرانے اس شہر کے قدیم درو
دیوارگذرتے وقت کو اپنے اندر سمیٹے تاریح سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بہت اہم ہیں۔
آپ چاہیں تو گذرے ہوئے وقت کو محسوس بھی کرسکتے ہیں اور چھو بھی سکتے ہیں یہ آپ پر
منحصر ہے۔ تین ہزار چھوٹی بڑی مسجدوں کے شہر استنبول کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ میرے
لیے اس شہرکی اہمیت کا حوالہ مذہبی تھا۔ مرکزی
شہر سے دور گولڈن ہارن کے کنارے محترم صحابی اور میزبان رسول ﷺ حضرت ابو ایوب انصاری
آرام فرما ہیں۔ سلطان محمد فاتح نے یہاں ایک
شان دار مقبرہ اور ایک عالی شان مسجد تعمیر کروائی ہے۔ سلطان ہی کے ہاتھ کا لگا ہوا
ایک بہت بڑا اور قدیم درخت مزار کے احاطے میں موجود ہے۔ ترک عقیدت و محبت سے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کو سلطان
ایوب کہتے ہیں۔ یہاںحضور اکرم ﷺ کی نعلین مبارک
موجود ہے جس کے دیدار کے بعد بلاشبہ انسان خود کو خوش نصیب سمجھنے لگتا ہے۔ حضرت ابو
ایوب انصاری کے مزار پر فاتحہ پڑھ کر اور نعلین مبارک کے دیدار کے بعد ہمارا دوسرا
اہم کام توپ کاپی میوزیم کی زیارت تھی۔ توپ کاپی میوزیم دراصل ترکی کے سلطان محمد دوم
کا محل تھا جس کے ایک حصے کو میوزیم کی شکل دی گئی ہے۔ شاید مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ
کے بعد یہ وہ محترم شہر ہے جہاں حضور اکرمﷺ اور دیگر انبیاءکی اتنی اہم اور متبرک اشیا
اکھٹی موجود ہوں۔ یہاں کیا نہیں ہے کسے دیکھیں اور کسے نہ دیکھیں اور کس طرح دیکھیں
کہ یہ سب آنکھوں میں بس جائے۔ حضورﷺ کا دندان مبارک، داڑھی مبارک کے بال ، نقش قدم
مبارک، چار تلواریں، مہر مبارک، مدینے کی مٹی، روضہ رسول پر بچھنے والا قالین ، کعبے
کے طلائی تالے ، حجر اسود کا طلائی کیس، حضرت ابراہیمِؑ کا پیالہ ، حضرت یوسف ؑ کا
صافہ یا پگڑی ، حضرت موسیؑ کا عصا، حضرت عیسیؑ کی تلوار، خلفائے راشدینؓ اورزبیر بن
عوام ؓکی تلواریں غرض اور بھی بہت کچھ جسے یاد رکھنا بھی بہت مشکل ہے کہ وہاں یہ سب
دیکھتے ہوئے انسان کسی اوردنیا میں پہنچ جاتا ہے۔
اسی تاریخی اور مذہبی اہمیت
کے حامل شہر استنبول کو پانچویں ورلڈ واٹر فورم کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔
دنیا میں اس وقت پانی کے حوالے سے بہت گرما گرمی پائی جاتی
ہے۔ خصوصا وہ ممالک بھی جہاں پانی کا فی الحال کوئی مسئلہ نہیں ہے بہت سرگرم ہیں کیونکہ
وہ جانتے ہیں کہ بدلتے موسموں کی بے ترتیبی کسی بھی وقت ان کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا
کرسکتی ہے۔لیکن وطن عزیز جو پانی کی کمی کے سنگین مسائل سے دوچار ہے یہاں اس حوالے
سے کوئی فکرمندی یا تشویش نہیں پائی جاتی ہے ۔ گویا راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا
ہے۔
رواں سال جسے ماحولیات کے
قومی سال کا نام دیا گیا تھا دھیرے دھیرے مٹھی میں بند ریت کی طرح سرک رہا ہے۔ سال
کا چوتھا مہینہ اپریل بھی اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے لیکن ابھی تک کوئی ایک بھی
ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا ہے جسے ہم ماحول کی بہتری کے لیے بنیادی قدم قرار دے سکیں۔
اپنے پچھلے مضمون میں ہم نے لکھا تھا کہ پاکستان
پانی کے حوالے سے اپنے بیش بہا قدرتی وسائل کے باوجود انتہائی مشکلات سے دوچار ہے اور
مستقبل میں یہ مشکلات اور بڑھ جائیں گی اگر ہم نے اس حوالے سے کوئی واضح حکمت عملی
نہیں اپنائی۔ کم از کم اس سال پانی کے حوالے سے چند ضروری اور بنیادی نوعیت کے کام
کر لیے جاتے تاکہ کچھ بھرم ہی رہ جاتا۔ پاکستان میں پانی کا مسئلہ بھی عجب پیچیدہ مسئلہ
ہے ہم وہ کم نصیب ہیں جو خشک سالی کے دنوں میں قحط و
افلاس کے ہاتھوں جان دیتے ہیں اور اگر قسمت یاوری کرجائے اور رحمت خداوندی برس جائے
تو پھر دریا ، ندی نالوں سے چھلکتا سیلاب بلائے جاں بن جاتا ہے۔ پانی کے حوالے سے ہم
دسیوں بین الاقوامی معاہدوں کے شریک ہیں پاکستان میں پانی اور زراعت کی قومی پالیسیاں
بھی تیار ہےں مگر بوجوہ یہ ابھی تک فائنل نہیں ہوسکی ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے یہ ہم نہیں جانتے لیکن کم از کم
یہی کام ہم اس سال کرلیا جائے۔ پانی کی پالیسی
۲۰۰۵ میں تیار ہوئی تھی لیکن ابھی تک منظوری کے مراحل سے نہیں گذری جبکہ زراعت کی پالیسی
۱۹۹۰ کی تیار کردہ ہے۔ اب جبکہ یہ پالیساں
ابھی تک روایتی دفتری مراحل سے گذر رہی ہیں لہذا اس مہلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہتر
ہے کہ ان کی منظوری سے پہلے ان میں چند اہم نکات کا اضافہ کردیا جائے۔ ہماری معلومات کے مطابق دونوں پالیسیوں میں موسمی
تبدیلیوں کو نظر انداز کیا گیا ہے یا اس کا صرف سرسری ذکر ہوا ہے۔ حالانکہ اب سب سے زیادہ یہی موضوع وقت کی ضرورت ہے
کیونکہ موسمی تبدیلیاں سب سے زیادہ پانی کے معمولات کو ہی متاثر کررہی ہیں اور کریں
گی۔ چاہے پہاڑوں میں گلیشیئر کا پگھلنا ہو
دریاؤں میں پانی کی روانی کا تسلسل ہو صوبوں کے مابین پانی کے تنازعات ہوں یا سرحدوں سے
باہر کے مسائل ہوں ان تمام مسائل کی جڑیں بنیادی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں سے ہی جا
کر ملتی ہیں اس کے بعد پانی کا انتظام اور تقسیم وغیرہ کے مسائل سامنے آتے ہیں۔ ہمارے سامنے عالمی بینک کی ایک رپورٹ موجود ہے جس
کے مطابق پاکستان کی معیشت ماحول کی تباہی کی قیمت ۳۶۵ ارب روپے سالانہ (مجموعی جی
ڈی پی کا ٪۶ ادا کررہی ہے یعنی ایک ارب روپے روزانہ ! ایک کمزور معیشت کے لیے یہ نقصان کتنا خطرناک ہے
اس کااندازہ لگانے کے لیے کسی معیشت داں کی ضرورت نہیں ہے۔ پانی کی صفائی کے ناقص نظام، پانی کی آلودگی اور
اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی صورت ۱۱۲
ارب زرعی شعبے کی بدحالی کی مد میں ۷۰ ارب
گھریلو فضائی آلودگی کا نقصان ۶۷ ارب شہروں میں فضائی آلودگی ۶۵ ارب جبکہ چراگاہوں اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی پرتقریبا
۷ ارب روپے سالانہ ضائع ہوتے ہیں۔ اب ذرا غور کیجیے ایک ارب روپے سالانہ ہم اپنی غفلت
اور بے پرواہی سے ضائع کر رہے ہیں اور دوسری جانب ہماری حکومت ہر بین الاقوامی فورم
پر ہاتھ میں کشکول لیے کھڑی ہے۔ خدا جانے یہ
بات ہماری سمجھ میں کب آئے گی کہ معیشت کی جھولی کا یہ سوراخ جس سے ایک ارب روپے روزانہ
گر رہے ہیں اگر رفو نہیں کیا جائے گا تو چاہے کتنا ہی قرضہ لے لیا جائے جھولی ہر گز
نہیں بھرے گی۔
دنیا بھر میں بدلتے موسم ایک اہم مسئلہ بن کر سامنے آرہے
ہیں اور تمام ممالک حتی الامکاں ایسی حکمت عملیاں تیار کررہے ہیں جو ان بدلتے موسموں
سے ہم آہنگ ہوں خصوصا Climate Change adaptation in the water sector اب وقت کی ضرورت تسلیم کر لی گئی
ہے۔ کلائمیٹ چینج ہمارے لیے بھی ایک چیلنج
بن کر موجود ہے۔ ترقی پذیر ملک ہونے کے ناتے ہمارے مسائل اور گمبھیر ہیں۔ درجہ حرارت
کے بڑھنے سے ہمارے پانی کے وسائل براہ راست متاثر ہورہے ہیں اور ہر دو صورت میں یعنی
سیلاب ہو یا خشک سالی ہمارے لیے عظیم بحران موجود ہے مثلا درجۂ حرارت کے بڑھنے سے پاکستان
کے لیے پہلا خطرہ ہمالیائی گلیشیئرز ثابت ہوں گے۔ ان گلیشیئرز سے دنیا کے کئی بڑے دریا
مثلاً دریائے سندھ گنگا برہم پترا سلوین میکا
ونگ یانگ ژی اور زرد دریا نکلتے ہیں جن کا پانی پاکستان بھارت چین اور نیپال میں زندگی
کو رواں دواں رکھنے کا باعث ہے۔ گرمی کے بڑھنے سے یہ گلیشیئرز تیزی سے پگھلیں گے اور
ان دریاؤں میں طغیانی کی کیفیت پیدا ہو گی جس سے کناروں پر آباد لاکھوں افراد کو سیلاب
کا سامنا ہو گا۔ سیلاب سے بچاؤ کے اقدامات کے لیے جس قدر کثیر سرمایہ درکار ہے اس کا
پاکستان جیسا غریب ملک تصور بھی نہیں کر سکتا ہے۔کچھ عرصے بعد جب پانی کم ہو جائے گا
تو یہی ممالک خشک سالی کا عذاب سہیں گے۔ زراعت تباہی سے دوچار ہو گی، قحط پھیلے گا
اور ان غریب ممالک پر افلاس کے سائے اور گہرے ہو جائیں گے۔ یہ وہ کم از کم خطرات ہیں جو کسی ناکردہ جرم کی سزا
کے طور پر پاکستان کو بھی بھگتنا ہوں گے۔
پانی ہمارے لیے موت اور زندگی کا مسئلہ ہے
پانی کے بارے میں ہمیں سنجیدگی
سے منصوبہ بندی کرنی ہوگی ۔ ہندوستان نے اپنے
دریاؤں پر دسیوں بڑے ڈیم بنا کر نہ صرف اپنا پانی محفوظ کر لیا ہے بلکہ پاکستان کے
دریاؤں کا پانی بھی دھڑلے سے چرا رہا ہے۔ لیکن پاکستان کے پاس صرف دو ڈیم ہیں اور یہ
دونوں ڈیم بھی مٹی اور ریت بھر جانے کے باعث اپنی گنجائش سے بہت کم پانی ذخیرہ کرسکتے
ہیں۔ دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بہت کم ہے
مثلا امریکا اور آسٹیلیا کی آبی ذخیرے کی صلاحیت ۵۰۰۰ کیوبک میٹر پر کیپیٹا اور چین کی ۲۲۰۰ کیوبک میٹر
پر کیپیٹا ہے جبکہ پاکستان کی یہ صلاحیت صرف ۱۵۰ کیوبک میٹر پر کیپیٹا ہے۔ بھارت اپنے ذخیرہ کردہ پانی سے اپنے متعلقہ دریاؤں
کو ۱۲۰ سے ۲۲۰ دن تک رواں رکھ سکتا ہے جبکہ پاکستان کے دریا صرف ۳۰ دن تک رواں رہ سکتے
ہیں۔ جب تک ہم اپنے پانی کو کہیں ذخیرہ نہیں کر سکتے پانی کو اپنی مرضی اور منشا کے
مطابق استعمال بھی نہیں کرسکتے۔ ماہرین کے مطابق تقریبا ۸ سے ۱۰ مقامات دریائے سندھ پر ایسے ہیں جہاں پانی
ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ چھوٹے ڈیم کم مدت اور
کم لاگت میں تعمیر کیے جاسکتے ہیں اس کے لیے نہ غیر ملکی قرضوں کی ضرورت ہے اور نہ
ہی ماہرین کی۔ اپنے وسائل اور اپنی مہارت سے
ہم باآسانی یہ کام کرسکتے ہیں۔ یہ بدلتے موسم یعنی خشک سالی
اور سیلاب براہ راست صحت کو بھی متاثر کریں گے خصوصا پاکستان جیسے خشک ملک میں جہاں
بارشیں کم ہوتی ہیں یہ خشک سالی قیامت مچا دے گی۔ زیر زمین پانی بھی کم ہوتا چلا جائے
گا۔پانی میں آلودگی اور بڑھ جائے گی ۔آلودہ پانی سے آنتوں کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔گرمیوں
میں وبائی بیماریاں تیزی سے پھیلتی ہیں۔ بے شمار سروے رپورٹ بتاتی ہیں کہ گرمیوں میں
ہی متعدی امراض مثلا ملیریا اور ڈینگی کی شدت بڑھتی ہے۔ ہمارے ملک کے سرد حصے جو ان
بیماریوں سے محفوظ ہیں لیکن گلوبل وارمنگ کے تحت جب ان علاقوں کا بھی درجۂ حرارت بڑھے
گا تو یہاں بھی یہ بیماریاں پھیلنے لگیں گی۔ ان بیماریوں کے علاج کے ضمن میں شہریوں
پرجواضافی بوجھ پڑے گا وہ پہلے سے بدحال معیشت کو اور تباہ حال کردے گا۔ حرارت
کا بڑھنا شہری گنجان علاقوں کے ساتھ ساتھ جزیروں ساحلی علاقوں نیم صحرائی علاقوں اور پہاڑی علاقوں کو بھی یکساں
طور پر متاثر کرے گا۔ پاکستان
جیسا غریب اورترقی پذیر ملک جہاں کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرتے
ہیں جہاں انسانوں کا خون پانی سے بھی ارزاں اور پینے کا صاف پانی جنس گراں مایہ بن
چکا ہو جہاں لمبی قطاروں میں لگ کر آٹا دال
خریدنا پڑتا ہو وہاں climate change سے پیدا ہونے والے ان مسائل
پر کون توجہ دے گا اور اس سے کون نمٹے گا؟ بسا اوقات مایوسی کا شدید احساس ہر امید
کو ڈسنے لگتا ہے!
پانی کے بعد زراعت ہمارا اہم ترین شعبہ ہے ۔ اگر ہم چاہیں
تو اس سال اس حوالے سے بھی چند ایک اہم فیصلے کرسکتے ہیں۔ ہمارا زرعی شعبہ پانی کی
کمی سے دوچار ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارا ٪۹۰ پانی جوزراعت میں استعمال ہوتا
ہے اس میں سے ۲۰ سے ۳۰ فیصد راستے ہی میں ضائع ہوجاتا ہے ۔ ہمیں اس ضیاع کو روکنے کے
لیے اقدامات کرنا ہوں گے ۔ پاکستان کی زرعی فصلوں پر
بھی دھیان دینا ہوگا۔ کیونکہ پانی کی بچت انتہائی ضروری ہے۔ ایسی فصلیں اگانا جس میں
پانی کم استعمال ہو اور وہ منافع زیادہ دیں بہت ضروری ہوگا ۔ آنے والے وقتوں میں پرانی
روایتی فصلیں اگانا بہت مشکل ہو جائے گا۔
ہماری تقریبا ۶۰فی صد آبادی
شہروں میں رہے گی اس لیے ضروری ہے کہ تمام ضروریات زندگی مثلا سبزیاں پھل جانوروں
کی پرورش اور دیگر تمام سرگرمیاں شہروں کے قریب ہوں۔ اس سے ٹرانسپورٹ کے اخراجات اور
کاربن کا اخراج بھی کم ہو گا۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ
میں درختوں کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ موجودہ جنگلات کے بچاؤ کے ساتھ ساتھ زیادہ سے
زیادہ درخت لگائے جائیں۔کیونکہ موسمی تبدیلی سے سیلاب آئیں گے۔ اس کے لیے ہمیں مربوط منصوبہ بندی اور زون بنانے
ہوں گے۔ یاد رہے کہ ان تمام تبدیلیوں اور خطرات
کی زد میں ہمارا غریب اور مظلوم طبقہ ہی نشانہ بنے گااورزیادہ تر علاقوں سے غریب لوگ
نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔ اس کے لیے ابھی
سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ورنہ اس نقل مکانی کے بہت برے اثرات رونما ہو سکتے ہیں۔ پاکستان موسمی تبدیلیوں سے
مکمل طور پر محفوظ نہیں رہ سکتا لیکن بروقت بہترین منصوبہ بندی سے اس کے اثرات کو کم
سے کم کیا جاسکتا ہے۔
ان تمام اقدامات کے ساتھ ساتھ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ہم
اپنی عوام کو بھی ذہنی طور پر ان آفات سے نمٹنے کے لیے تیار کریں۔ ہمارا میڈیا ایک بہترین ذریعہ بن سکتا ہے جو لوگوں
کو آنے والے کل کے خطرات سے آگاہ بھی کرسکتا ہے اور بچاؤکے لیے راستے بھی بتا سکتا
ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ اب سیاست اور سیاست دانوں کے دائرے سے باہر
نکلے ۔ زندگی کے اور بھی بہت سے حقائق ہماری
توجہ چاہتے ہیں۔ اگرچہ سرکاری سطح پر کوئی
خوش آئند بات نظر نہیں آتی لیکن عدلیہ بحالی کی حالیہ تحریک کی کامیابی امید کے در
وا کررہی ہے کہ اب پاکستان بدل رہا ہے۔ خدا
کرے کہ اس بدلتے ہوئے پاکستان میں رہنے والوں کے دن بھی بدل جائیں! آمین۔