جن کے روشن کیے ہوئے چراغ آج بھی جگمگا رہے ہیں
دھوپ ڈھل رہی تھی اور اگست کی خوش گوار شام پریس کلب کراچی
کے سبزہ زار پر اتر رہی تھی۔باہر مختلف نعروں کا شور تھا اور اندر یادوں کا ہجوم تھا
جو ذہن میں امنڈ رہا تھا۔ مہمانوں میں کوئی خالی ہاتھ نہ تھا۔کچھ یادیں ، کچھ باتیں،
تصورات کے البم سے بہت سی تصویریں ابھر رہیں تھیں۔ گذرے ہوئے مہ و سال نے جنہیں دھندلا
ضرور دیا تھا لیکن آج کی محفل نے پھر سے سب کچھ ترو تازہ کردیا تھا۔ یہ محفل سنیعہ حسین کی یاد میں ان کے دوستوں نے سجائی
تھی۔سنیعہ اب ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی یادیں،ان کی باتیں اور دلنواز کھنکتی ہوئی
ہنسی ابھی گذرے ہوئے کسی پل کی طرح سب کو یاد ہے۔
سنیعہ پاکستانی صحافی خواتین کے اولین کارواں میں شامل تھیں
اور یہ وہ وقت تھا کہ صحافت کے شعبے میں کم از کم خواتین کے لیے بہت آسانیاں نہ تھیں۔مردوں
کے شانہ بشانہ کام کرنا اور اپنے کام کو منوانا کسی جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا لیکن
سنیعہ نے یہ کر دکھایا۔
سنیعہ حسین نے اپنی عملی زندگی
کا آغاز 80 کی دہائی میں انگریزی صحافت سے بطور ایڈیٹرکیا ۔ وہ ایک ذہین ، سمجھ دار
اور متحرک شخصیت تھیں۔ ان کے زیر ادارت شائع ہونے والے اخبارکا معیار آج بھی لوگوں
کو یاد ہے۔ان کی تحریریں فکری ارتقا کا شعور لیے ہوئے ہوتیں۔
اس دور میں انہوں نے ملک کے
سیاسی حالات و واقعات اور بلدیات و شہری ترقیات جیسے امور پر بھی شاندار شمارے شائع
کیے۔ رائے عامہ کی بیداری کے ساتھ ساتھ وہ انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کی
علمبردار تھیں۔
یہ وہ دور تھا جب ہمارے معاشرے اور خصوصا صحافت میں ماحول
سے متعلق کسی قسم کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا تھا۔
برصغیر میں صحافت کی تاریخ اگرچہ بہت پرانی ہے۔ کہا جاتا
ہے کہ 1780ءمیں کلکتہ سے کمپنی کے ایک برطرف ملازم جیمز آگسٹس نے انگریزی زبان میں
ایک ہفت روزہ اخبار شروع کیا اور جنوبی ایشیا میں جدید صحافت کا بانی ٹھہرا۔ اس کے اخبار کے بعد ہی کلکتہ ، مدراس اور بمبئی سے
متعدد اخبارات شائع ہونے لگے۔مقامی زبانوں میں اخبارات کا اجرا 1822ءمیں اس وقت شروع
ہوا جب کلکتہ سے جنوبی ایشیا کا پہلا اردو اخبار جام جہاں نما شائع ہونا شروع ہوا۔
1780
ءسے لے کر آج تک اخبارات نے ایک طویل سفر کیا ہے اور تاریخ
کے مختلف ادوار میں اپنے قارئین کی رہنمائی کی ہے۔1857ءکی جدوجہد ہو، تعلیمی مسائل
ہوں یا آئینی پیچیدگیاں، امن و امان کا مسئلہ ہو یا فرقہ ورانہ چپقلش اخبارات نے ہمیشہ
اپنے وقت کے اہم مسائل کو اہمیت دی ہے۔ برطانوی تسلط سے آزادی کی تحریک اور اس جدوجہد
کے دوران مختلف قوموں کے نقطہ ءنظر کو عوام تک پہنچانے اور عوام کی سوچ اور ان کے رویوں
کو ظاہر کرنے میں اخبارات نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔
برصغیر میں اخبارات کی ابتدا چونکہ ایک غیر ملکی سامراجی
حکومت کے دور میں ہوئی تھی اس لیے صحافت میں سب سے زیادہ اہمیت آزادی کی تحریک اور
عوام کا سیاسی شعور بلند کرنے کو دی جاتی رہی ہے۔ جنوبی ایشیا کے اخبارات ڈیڑھ سو سال
سے زائد عرصے تک اس جدوجہد میں مصروف رہے اس لیے صحافیوں اور صحافت کو سیاسی تحریروں
کی عادت ہوگئی ہے ۔
موجودہ دور میں بھی اخبارات اسی روایت پر عمل پیرا ہیں۔
سیاست کی قلابازیوں اور بازی گری میں پھنس کر بہت سی سماجی اور ترقیاتی مسائل خصوصا
ماحولیاتی مسائل نظروں سے اوجھل ہو کر رہ جاتے ہیں۔آج تو پھر بھی منظر نامہ بہت بہتر
ہے لیکن ہم بات کررہے ہیں 80ءکی دہائی کی جب یہ تذکرہ ہمارے لیے زیادہ مانوس نہ تھا۔اسی
نا مہرباں دور میں سنیعہ نے ماحول کے حوالے سے کام شروع کیا۔
ماحولیاتی صحافت کا آغاز سنیعہ نے ہی کیا لیکن شاید اخبارات
کی تنگ دامانی نے انہیں بہت جلد شعبہ بدلنے پر مجبور کردیا اور انہوں نے اپنی افتاد
طبع کے عین مطابق تحفظ ماحول کے حوالے سے کام کرنے والے ایک بین الاقوامی ادارے آئی
یو سی این سے وابستگی اختیار کرلی۔
اب سنیعہ کے سامنے ایک کھلا
آسمان تھا اور وہ اپنی من پسند اڑان بھر سکتی تھیں۔سنیعہ نے سب سے پہلے آئی یو سی این
کے کنٹری آفس کراچی میں صحافیوں کے لیے ایک جرنلسٹ ریسورس سینٹر قائم کیا ۔ اس ادارے
کا مقصد صحافیوں کو ماحولیاتی امور سے متعلق اعدادو شمار اور معلومات کی فراہمی کے
علاوہ ملکی اور بین الاقوامی ماحولیاتی مسائل سے آگاہی اور حل کے حوالے سے تربیت فراہم
کرنا بھی تھا تاکہ وہ ملک میں ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے رائے عامہ کی بیداری میں
اہم کردار ادا کرسکیں۔ شاید وہ جانتی تھیں کہ تحفظ ماحول کے حوالے سے صحافی ہی ہر اول
دستہ ثابت ہوں گے۔
80ءکی دہائی کے آخر میں
حکومت پاکستان نے بقائے ماحول سے متعلق’قومی حکمت عملی National Conservation Strategy کی تیاری
شروع کی سنیعہ نے اس میں بھی بھرپور حصہ لیا۔
ماحول کے حوالے سے وہ صحافیوں
کے کردار کو انتہائی کلیدی سمجھتی تھیں اور رائے عامہ کی بیداری میں صحافت کو بہترین
راستہ قرار دیتی تھیں۔ اسی خیال کے تحت انہوں نے ملک کے مختلف شہروں میں صحافیوں کے
لیے ماحولیاتی امور سے متعلق کئی تربیتی ورکشاپ بھی منعقدکروائیں۔ ان کی یہ سوچ اور
فکر کتنی صحیح تھی آج اس سچائی کی گواہی میں اور مجھہ جیسے بہت سے قلم کار مسلسل ماحول
پر لکھ کر دے رہے ہیں۔ آج ملک میں ماحولیاتی صحافت کی جو روایت قائم ہے یقینا اس کاسلسلہ
سنیعہ حسین سے جڑتا ہے ۔
1995
تک میرا تعلق بھی ماحول سے اتنا ہی تھا کہ یہ میرے نزدیک درخت، پودوں اور پرندوں کا
دوسرا نام تھا لیکن سنیعہ، عمر آفریدی ( بی بی سی کے پروڈیوسر) اور محترم عبید اللہ
بیگ (کسی تعارف کے محتاج نہیں) کے زیر تربیت ہونے والی فیصل آباد کی ایک ورکشاپ نے
میری سوچ و فکر کو ایک نیا عنوان عطا کیا۔دل و دماغ میں گویا نئے دریچے کھل گئے اور
کام کرنے کے لیے ایک نیا جہاں مل گیا۔ یہ پانچ
روزہ ورکشاپ فیصل آبادکے مضافات ’گٹ والہ‘ میں جنگلات اور جنگلی حیات کی اہمیت کے حوالے
سے منعقد کی گئی تھی لیکن تربیت کاروں کی بہترین صلاحیت نے ہم سب شرکا کو ماحول کے
حوالے سے ایک اٹوٹ رشتے میں باندھ دیا ۔میں اس حوالے سے سنیعہ ،عمر اور بیگ صاحب کی
کاوشوں کو فراموش نہیں کرسکتی۔ گمبھیراور پیچیدہ مسائل کو سادہ لفظوں میں آسان بنانا
اور اس پر غور و فکر کے لیے راہ ہموار کرنا ان سب کا مشترک خاصہ تھا ۔
سنیعہ کی متحرک اور توانائی
سے بھرپور شخصیت نے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑے ، ان سے تعلق کا یہ سلسلہ جاری رہا اور
ماحول اور اس کے مسائل پر قلم اٹھانا میرا مشن بن گیا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔
1998 میں سنیعہ جنوبی افریقہ
کے شہر کیپ ٹاؤن چلی گئیں ، جہاں انہوں نے دو سال عالمی کمیشن برائے ڈیمز میں خدمات
انجام دیں۔اس کے بعد وہ نیپال چلی گئیں ،جہاں بین الاقوامی نیوز ایجنسی پانوس کے ریجنل
ہیڈ کوارٹر میں ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا کے طور پر خدمات انجام دیں
2005
ءمیں سنیعہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں، وہ آج ہم میں نہیں
ہیں لیکن ایسے متحرک لوگ اپنی چھوٹی سی زندگی میں ہی بہت سے چراغ جلا دیتے ہیں اور
اپنے بعد آنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کردیتے ہیں۔
سنیعہ کے اسی کام کو آگے بڑھاتے
ہوئے ان کے گھر والوں اور دوستوں نے ان کے نام سے ایک ادارہ سنیعہ حسین ٹرسٹ قائم کیا ہے جو ضرورت مندخواتین
کی تعلیم اور صلاحیتوں کی تربیت کے لیے کام کرے گا۔
پریس کلب کے سبزہ زار پر
شام ڈھل رہی ہے ، سنیعہ کے چاہنے والے اپنی یادوں کو الفاظ کا روپ دے رہے ہیں ، سحر
علیِ، ساحرہ کاظمی، مہتاب اکبر راشدی ، زبیدہ مصطفی ،سنیعہ کی والدہ ، بہنیں اور بہت
سے دوست ۔۔۔ یادوں کا طویل سلسلہ ہے، درختوں
پر پرندوں کی چہچہا ہٹ بڑھ رہی ہے شاید وہ بھی اس بچھڑنے والی ماحول دوست کو خراج عقیدت
پیش کر رہے ہیں۔