کسی بھی ملک و قوم کی خوش بختی اور خوش حالی کا اندازہ اس
کے زر مبادلہ کے ذخائر سے نہیں بلکہ اس کے قدرتی وسائل سے کیا جاتا ہے۔قدرتی وسائل
ہی وہ اصل خزانہ ہیں جس سے اس ملک کے کھیت کھلیان سر سبز ، دریاؤں میں رواں دواں پانی
اور لوگوں کے چہروں پر خوشی اور مسرت کے رنگ جھلملاتے ہیں۔زمین پر زندگی کے تمام رنگ
ان ہی قدرتی وسائل کے مرہون منت ہیں۔ مالا مال سمندر دریا، دنیا کے بلند پہاڑ ان کے
دامن میں جھومتے بارشوں کو کھینچتے سیکڑوں سالہ قدیم درخت ، زرخیز مٹی کے میدان ،سر
سبز کھیت کھلیان اور رنگ برنگا حیاتی تنوع ہی ہماری اصل دولت ہے۔انسان دراصل دو گھروں
کا مکین ہے ، ایک اس کا گھر اور دوسرا کرہ ارض ۔ ہمیں دونوں گھروںکا یکساں تحفظ کرنا
ہے لیکن ہم نے اپنی عاقبت نا اندیشی سے اپنے ان دونوں گھروں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
فطرت کی زبان سمجھنے والے
بے آب و گیاہ دھول اڑاتے میدانوں اور خشک جھاڑیوں پر لکھی یہ تحریر پڑھ لیتے ہیں کہ
کوئی تو ہے جس نے قدرت کے مکمل اور متوازن ماحول کو اس مقام تک پہنچایاہے۔ زمینی وسائل
کے استعمال اور قدرتی ماحول کے درمیان ایک نہایت مضبوط تعلق موجود ہے اور انسانی سرگرمیاں
جب قدرتی ماحول میں خلل ڈالتی ہیں تو ہرے بھرے مناظر کو صحراؤں میں تبدیل ہونے میں
زیادہ وقت نہیں لگتا۔ درخت یا جنگلات بظاہر ہمارے لیے ایک عام سے وسائل ہیں لیکن
زمین کا تمام تر فطری ماحولیاتی نظام ان ہی کے گرد گھومتا ہے۔یہی موسموں کے جن کو قابو
میں رکھتے ہیں۔ جنگلات کو اگر ماحول کا نگہبان کہیں تو زیادہ غلط نہ ہوگا۔یہ بڑے پیمانے
پر فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں ،درجہ حرارت اور بارش کو قابو میں رکھتے
ہیں۔ان کی جڑیں زمین کو مضبوطی سے تھامے رکھتی ہےں۔ بے شمار جانور اور پرندوں کے لیے
فطری مساکن اور لاکھوں افراد کے لیے وطن کا کام کرتے ہیں۔نباتات اور حیوانات کی یہ
رنگا رنگی خوراک کی زبردست دولت اور انسانی صحت کے لیے بیش بہا دوائیں فراہم کرتی ہے۔جنگلات
سے ایندھن اور تعمیرات کے لیے لکڑی، حیوانات کے لیے چارہ، پھل،شہد، ،حیوانی پروٹین
،دواؤں کے عروق اور دوسری بہت سی خام اشیا مثلا گوند ، موم اور سریش وغیرہ حاصل ہوتے
ہیں۔ یہ جنگلات کروڑوں مویشیوں ، بکریوں، بھیڑوں اور اونٹوں کے لیے چارے کی ضروریات
بھی پوری کرتے ہیں۔
ملک کے بڑے بڑے آب گیر علاقوں(
واٹر شیڈز) میں اگنے والا یہ حفاظتی پردہ نہ صرف ماحولیاتی نظاموں کو برقرار رکھتا
ہے بلکہ مٹی کو اپنی جگہ قائم رکھ کر سیلابوں کے مقابلے میں رکاوٹ کاکام بھی دیتا ہے۔ شجر کاری کے حوالے سے حضور اکرم ﷺ کی صاف اور صریح ہدایات
موجود ہیں ۔ ان کے مطابق مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر شجر کاری کی ترغیب
دی گئی ہے۔اسلام نے درخت لگانے اور نباتات کی حفاظت کرنے کو کار ثواب( صدقہ) قرار دے
کر نہ صرف دنیاوی فوائد بلکہ آخرت کے لیے سعادت کا حصول قرار دیا ہے۔
لیکن ان جنگلات سے کیا سلوک کیا جاتا ہے ذرا دیکھیے تو:
کہا جاتا ہے کہ 30 فٹ بال
گراؤنڈ کے مساوی جنگل کا رقبہ ہر منٹ کاٹا جاتا ہے۔گذشتہ کئی سالوں سے جنگلات کا خاتمہ
یعنی دیسی جنگلوں اور لکڑی کے ذخائر کی مستقل تباہی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔پہلے ہی قدیم
اور خالص جنگلات کا ایک تہائی حصہ صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے اور اب دنیا کے قدیم جنگلوں
کا صرف40%حصہ ہی باقی بچا ہے۔جنگلوں کادو تہائی حصہ بنیادی طور پر بدل چکا ہے۔اس ضمن
میں زیادہ تر نقصان پچھلے 45 سال میں ہوا ہے۔ایشیا میں منطقہ کے 42% اصلی جنگل ختم
ہوگئے ہیں۔ یورپ میں ابتدائی جنگلات کا صرف 1%حصہ باقی رہ گیا ہے۔ہمالیہ کے دامن میں
جو کبھی صنوبر، شاہ بلوط اور کنیر کے درختوں سے بھرا ہوتا تھا، اب اصلی جنگلوں کا
4% حصہ رہ گیا ہے۔افریقہ کے براعظم میں سب سے بڑھ کر جنگلات کا خاتمہ عمل میں آیا ہے۔مرکزی
افریقہ کے بارش والے جنگل کا آدھا حصہ صاف ہوچکا ہے۔ مغربی افریقہ جو کبھی منطقہ حارہ
کی عمارتی لکڑی سے مالا مال ہوا کرتا تھا اور تقریبا خالی ہوچکا ہے۔امیزون کے بارانی
جنگل بھی تیزی سے گھٹتے جارہے ہیں۔سائنس دانوں کے مطابق ان بارانی جنگلات کے رقبے میں
کمی سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھے گی اور جنگل میں لگنے والی آگ کی
شرح بھی بڑھے گی۔برازیل کے علاقے میں واقع امیزون جنگل کی خلائی سیارے کی مدد سے لی
گئی تصاویر اور جائزوں سے پتا چلا ہے کہ یہاں تقریبا ساڑھے پندرہ سو مربع کلو میٹر
پر واقع درختوں کوسالانہ کاٹ دیا جاتا ہے۔یوں دنیا کے گھنے ترین بارانی جنگل کا مستقبل
خطرے سے دوچار ہے۔
پاکستان میں اس قیمتی قدرتی
وسیلے سے مزید بد تر سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
پاکستان کا شماران ممالک میں ہوتا جہاں دنیا میں سب سے کم
جنگل پائے جاتے ہیں۔یعنی اس کی خشکی کے مجموعی رقبے کا صرف 4.8 فیصد ہے جو بہت کم ہے
اور حکومت اسے 2011ءمیں بڑھا کر 5.7 فیصد تک پہنچانا چاہ رہی ہے۔یہ محدود وسیلہ بھی
کئی سالوں سے دباؤکا شکار ہو رہا ہے۔
ہر سال حکومت سرکاری سطح پر شجر کاری مہم دھو دھام سے شروع
تو کرتی ہے لیکن جتنا کثیر سرمایہ اس پر خرچ ہوتا ہے اس کے مقابلے میں نتائج چند فیصد
بھی برآمد نہیں ہوتے ۔اور آئندہ سال جب یہ مہم ایک بار پھر شروع ہوتی ہے تو پچھلے سال
کے نتائج قصہ پارینہ سمجھ کر بھلا دیے جاتے ہیں۔
پاکستانی جنگلات کو
تعریف کے لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔پیداواری جنگلات (Productive Forest) اور محفوظ جنگل (Protected Forests)۔ پاکستان کے اہم جنگلات میں
سندھ میں موجود ساحلی جنگلات،دریائی جنگلات، بلوچستان کے چلغوزے اور صنوبر کے جنگلات،شمالی
علاقوں کے جنگلات اور آزاد کشمیر کے جنگلات شامل ہیں۔
پاکستان کے ہر شعبے کی طرح جنگلات کے شعبے کو بھی کرپشن
کی دیمک چاٹ گئی ہے۔یہ قیمتی وسیلہ سیاسی اثر رسوخ اور مجرموں کی سر عام سرپرستی کے
باعث ہمیشہ غیر محفوظ رہا ہے۔اس قیمتی دولت سے فائدہ نہ اٹھانے والے کو عرف عام میں
بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔سندھ کے دریائی جنگلات جنہیں کچے کے جنگلات بھی کہا جاتا ہے
شدید خطرات سے دوچار ہیں۔یہ جنگلات دریائے سندھ کی گذر گاہ کے کنارے اور نواحی علاقوں
میں واقع ہیں اور دریائے سندھ کے سیلابی پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔یہ جنگلات ٹمبر مافیا
کے لیے خزانہ ہیں۔فرنیچر اور ایندھن کے لیے یہاں سے بے دریغ درخت کاٹے جاتے ہیں۔ کچے
کی لکڑی فرنیچر سازی کے لیے بہترین سمجھی جاتی ہے۔ان علاقوں میں ٹمبر نافیا کا بہت
اثر رسوخ ہے اور بغیر کسی نئی شجر کاری کے درختوں کی کٹائی زور شور سے جاری ہے۔اس کا
نتیجہ ہم سب بارشوں کی کمی اور خشک سالی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔حالیہ بارشوں سے
قطع نظر سندھ کئی سالوں سے خشک سالی کا بد ترین عذاب بھگت رہا تھا خصوصا تھر اور بلوچستان
کے علاقے۔دریائے سندھ میں پانی کی کمی سے زراعت کے لیے بھی پانی نا کافی تھا۔ٹیوب ویلوں
سے پانی کا حصول نا ممکن ہوچلا تھا کیونکہ بارشوں کی کمی سے زیر زمین پانی بھی کم ہوگیا
تھا۔آج کل سندھ کے یہ جنگلات ڈاکوﺅں
کی پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں۔گھنے جنگلات کے باعث ا ن ڈاکوؤں تک پہنچنا اور ان پر قابو
پانا قانون کے محافظوں کے لیے مشکل تھا لہذا حکومت نے یہ ”بہترین“ حل ڈھونڈا کہ ان
جنگلات کا ہی صفایا کردیا جائے تاکہ نہ جنگل ہوگا اور نہ ڈاکو ان میں چھپیں گے۔ایسے
”بہترین“ فیصلے ملک و قوم کے مفاد میں آئے دن کیے جاتے ہیں۔
سیاسی اثر رسوخ بھی ٹمبر مافیا کی حوصلہ افزائی کا ایک سبب
ہے۔
بلوچستان کا صرف% 1.7رقبہ جنگلات کے زیر سایہ ہے تاہم یہاں
کے صنوبر کے جنگلات اسے اہم مقام بخشتے ہیں۔دنیا بھر میں پائی جانی والی صنوبرکی
25 اقسام میں سے 4اقسام پاکستان اور بھارت میں ہمالیہ کے پہاڑوں پر پائی جاتی ہیں
۔ صنوبر کی کچھ اقسام دنیا بھر میں صرف بلوچستان میں پائی جاتی ہیں۔ان جنگلات کا شمار
دنیا کے قدیم ترین جنگلات میں پوتا ہے اور ماہرین بلا مبالغہ ان درختوں کی عمروں کا
تخمینہ ہڑاروں سال لگاتے ہیں۔لیکن شعور اور آگہی کی کمی اور اور متبادل سہولت نہ ہونے
کے باعث یہ نایاب درخت بھی ایندھن کے لیے کاٹ لیے جاتے ہیں۔اگرچہ قانوناً ان درختوں
کی کٹائی منع ہے لیکن ان پر چلتے تیز دھار کلہاڑے ان درختوں کے ساتھ ساتھ قانون کی
بھی دھجیاں اڑاتے ہیں۔شمال میں پہاڑوں کے دامن میں موجود جنگلات ہمارے آبگیر علاقوں
کے تحفظ کا سبب ہیں ۔ان جنگلات کے باعث بارش اور تیز رفتار سیلاب کی رفتار کم ہوجاتی
ہے اور مٹی بھی مضبوطی سے جمی رہتی ہے۔اگر یہ درخت نہ ہوں تو بارش کا پانی تیز رفتاری
سے انسانی آبادیوں کو بہا لے جائے گا اور مٹی کے بہنے سے ہمارے ڈیم مٹی سے بھر کر اپنی
کارکردگی کھو بیٹھیں گے۔منگلا اور تربیلا ڈیم اس کی مثال ہیں۔ 2005 کے زلزلے کے نتیجے
میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ چٹانی اور مٹی کے تودوں کے گرنے سے ہونے والی اموات کی
شرح سب سے زیادہ ان علاقوں میں رہی جہاں جنگلات کا صفایا ہوچکا تھا۔
فاریسٹری سیکٹر ماسٹر پلان
کے مطابق ’شمالی پاکستان اور صوبہ سرحد میں ہر سال جنگلات کی کٹائی کے نتیجے میں ہونے
والے ہوائی اور آبی کٹاؤ کے سبب کم از کم40 ملین ٹن مٹی سندھ طاس کے بہاؤ میں شامل ہوجاتی ہے اور 11ملین ہیکٹر زمین متاثر
ہوتی ہے۔‘خشک اور نیم بنجر ارضیاتی کیفیت اور دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتی ہوئی صحرا
زدگی کے باعث جنگلات میں ہونے والی یہ کمی نہایت تشویش ناک امر ہے۔
اگرچہ جنگلات کا شمار قابل تجدید وسائل میں کیا جاتا ہے
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم انہیں کاٹے جائیں اوریہ ختم نہ ہوں۔اگر وہ اس رفتارسے
کاٹے جائیں جو ان کی دوبارہ نشو و نما کی رفتار سے زیادہ ہو تو ہمارے جنگلات کے وسائل
جلد ہی مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔جنگلات کے خاتمے کے اثرات مختصر المعیاد اور طویل
المعیاد دونوں ہی ہوتے ہیں ۔جنگلات تمام ماحولیاتی نظاموں کو سہارا دیتے ہیں اورزمین
پر زیادہ تر نباتاتی اور حیواناتی حیات کا فطری مسکن ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر ہم نہ صرف
ان بیش بہا وسیلے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے بلکہ اس خدمت سے بھی محروم ہوجائیں گے جو یہ
جنگل ہم انسانوں کو فراہم کرتے ہیں۔یہ بات شو رکی آلودگی میں بھی اضافہ کردے گی کیونکہ
درخت مصروف شاہراہوں اور انسانی آبادیوں سے آوازیں جذب کرکے صوتی اور صوری پردوں کا
کام انجام دیتے ہیں۔مختصرا یہ کہ جنگلات کی بربادی پانی اور کاربن کی گردش کودرہم برہم
کردے گی اور اس طرح عالمی آب و ہوا بدل جائے گی اور کرہ حیات پر حیات کے لالے پڑ جائیں
گے۔یاد رہے کہ 2050 تک دنیا بھر کے تقریبا ایک ارب افراد موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث
بے گھر ہو سکتے ہیں جس سے عالمی نوعیت کے سنگین مسائل جنم لیں گے۔
ہمارے قدرتی وسائل
اہم قومی سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔مثلا آزاد کشمیر اور دیر کوہستان کے جنگلات کو
قابل استعمال ہونے میں سیکڑوں سال لگتے ہیں۔بلوچستان میں پائے جانے والے صنوبر کے جنگلات
کی عمریں ہزاروں سالوں پر محیط ہیں۔یہ اگر ایک دفعہ ہم سے رخصت ہوگئے تو یقین جانیے
کہ ہماری کئی نسلیں انہیں دیکھ نہیں سکیں گی۔یہ جنگلات ہماری مٹی کی زرخیزی اور پیداواری
صلاحیت کے بھی نگہبان ہیں۔زرخیز مٹی کا پانی یا ہوا سے ضائع ہوجانا بھی کسی بڑے نقصان
سے کم نہیں ہے کیونکہ مٹی قدرتی طور پر مختلف ماحولیاتی اثرات کے تحت ایک طویل جغرافیائی
عمل سے گذر کر صدیوں میں تشکیل پاتی ہے۔
جنگلات میں ہی نشوو
نما پانے والے ایک اور اہم قدرت وسیلے یعنی ادویاتی پودوں کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ پاکستان
میں دو ہزار سے زائد ادویاتی پودے پائےجاتے ہیں لیکن فرسودہ طریقوں اور قدرتی ماحول
میں انسان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اس وسیلے سے خاطر خواہ استفادے سے محروم کر دیتی
ہیں۔
ہمارے ملک میں الیکشن کا موسم
ہے۔ آئے دن کسی نہ کسی پارٹی کا منشور منظر عام پر آرہا ہے لیکن ہمیں حیرت ہے کہ کسی
کی بھی ترجیحات میں ماحول کا تحفظ یا کسی قدرتی وسیلے کی بحالی شامل نہیں ہے۔ شاید
ان معزز لوگوں کے نزدیک یہ گھٹیا مسائل صرف غریبوں تک محدود ہیں۔لیکن شاید وہ یہ بھول
رہے ہیں کہ ایک کرہ ارض کے باسی ہونے کے سبب ہر مسئلہ ان تک ضرور پہنچے گا اور متاثر
کرے گا ، یہ الگ بات ہے کہ یہ ’بڑے لوگ‘ اپنی رہائش کے لیے کسی اور سیارے کا انتخاب
کرلیں۔اگر واقعی کوئی لیڈر ہوتااور اس کے دل میں ملک و قوم کا درد ہوتا تووہ ضرور اس
طرف توجہ دیتا۔ 2004 کا نوبل انعام حاصل کرنے والی افریقی ماہرماحولیات ونگاری ماتھائی
ان سب کے لیے روشن مثال بن سکتی ہے۔1977 سے کام کا آغاز کرنے والی ماتھائی افریقہ کی
پہلی پی ایچ ڈی خاتون بھی ہیں۔انہوں نے بے دریغ کٹائی کے خلاف اور تیزی سے کم ہوتے
جنگلات کے تحفظ کے لیے ایک ’سبز تحریک‘(Green Movement)کا آغاز کیا۔ونگاری نے تیس
سال کے عرصے میں کینیا میں تیس کروڑ درخت لگائے۔شاید پاکستان کو بھی ایک ونگاری ماتھائی
کی ضرورت ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کے حوالے سے کام کرنے والی ایک ویب سائٹ
نے اپنا تجزیہ(CO2
foot print) پیش کیا ہے کہ ایک فرد جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے اسے 5 درخت
لگا کر جذب کیا جاسکتا ہے ، گویا ہر فرد پانچ درخت لگا کر فضا سے اپنے حصے کی کاربن
ڈائی آکسائیڈ صاف کرسکتا ہے۔چلیے پانچ نہ سہی لیکن18 کروڑ عوام ایک ایک درخت تو لگا
ہی سکتے ہیں ۔۔۔
توآئیے کسی لیڈر کسی حکومت کا انتظار کیے بغیر ہم اپنے حصے
کا کام کرجائیں۔