اہل مغرب اپنے آپ کو ماحول کے تحفظ کا علمبردار سمجھتے ہیں
مگر وہ اس بات سے لا علم ہیں کہ تحفط ماحول اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔قران
کریم اور احادیث نبوی ﷺ میں بار بار پاکیزگی اور صفائی کی تاکید کی گئی ہے۔حتی کہ اہل
مغرب کی سوچوں سے بڑھ کر اسلام نے معاشرتی اور روحانی ماحول کے اصول بھی واضح کردیے
ہیں۔ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم ان اصولوں کو اپنائیں اور ان پر عمل کریں۔یہ بات
بھی اکثر مشاہدے میں آئی ہے کہ علمائے کرام اپنے درس و تدریس اور خطبوں میں ماحول سے
متعلق اسلامی تعلیمات پر خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے۔نتیجتاً ایک طرف تو عوام الناس ماحول
سے متعلق اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ رہتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے آفاقی مذہب اسلام
کا پیغام بھی اہل مغرب یا دیگر غیر اسلامی ممالک تک نہیں پہنچ پاتا ہے ۔اس کمی سے یہ
تاثر ملتا ہے کہ خدانخواستہ اسلام ماحولیاتی مسائل اور ماحول کے تحفط کی اہمیت کا احاطہ
نہیں کرسکا اور یہ کہ یہ سب افکار و تعلیمات جدید سائنسی علوم کے مرہون منت ہے ۔
قران اللہ تعالی کا کلام ہے اور اس بات میں ہم مسلمانوں
کو کوئی شک و شبہہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اسے آپ جوں جوں پڑھتے جاتے ہیں اس کے
معنی نت نئے ڈھب سے آپ پر آشکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔قرآن کا عرصہ نزول 23 برس کے طویل
عرصے پر محیط ہے۔اس طویل عرصے کے باوجود اس میں بلا کا ربط اور لسانی خوبصورتی ہے۔تمام
تہذیبوں میں تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے اہم ذرائع میں ادب اور شاعری سر فہرست رہے
ہیں۔دنیا کی تاریخ میں ایسے زمانے بھی گذرے ہیں جب شاعری اور ادب کو ویسا ہی اعلی مقام
حاصل تھا جیسا کہ آج کے دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو حاصل ہے۔غیر مسلم ماہرین لسانیات
تک کا اس پر اتفاق ہے کہ عربی ادب کا بلند پایہ نمونہ قران پاک ہی ہے ۔یعنی روئے زمین
پر عربی ادب کی بہترین سے بھی بہترین مثال صرف قران پاک ہے۔نوع انسانی کو قران پاک
کا چیلینج ہے کہ وہ آیات قرانی کے ہم پلہ کچھ بنا کر دکھائے ۔دیکھیے اللہ تعالی کتنے
واشگاف الفاط میں کہتے ہیں کہ”اور اگر تمھیں اس امر میں شک ہو کہ یہ کتاب جو ہم نے
اپنے بندے پر اتاری ہے ،یہ ہماری ہے یا نہیں تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ،اپنے
سارے ہم نواؤں کو بلالو ،ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو مدد لے لو،اگر تم
سچے ہو تو یہ کام کر دکھاؤ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ،اور یقینا کر بھی نہیں سکتے
تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے پتھر اور انسان ۔جو مہیا کی گئی ہے منکرین حق
کے لیے۔“ (سورہ 2 آیات نمبر 23 تا 24)۔یہ چیلینج قران پاک میں کئی مقامات پر دیا گیا
ہے صرف ایک ایسی سورت بنانے کا جو اپنی خوبصورتی ،خوش بیانی ،معانی کی وسعت اور فکر
کی گہرائی میں قران پاک کی برابری کرسکے ،اور آج تک یہ چیلنج پورا نہیں کیا جاسکا ہے۔
عربی دنیا کی وہ منفرد زبان ہے جو اپنے قواعد کے اعتبار
اور تلفط اور ہجوں کے لحاط سے بھی ایک کامل و اکمل زبان ہے اور یہ اپنے ذخیرہ الفاظ
کے لحاظ سے عدیم النظیر ہے۔ اس کی مشہور لغات مثلا لغت صحاح جوہری چالیس ہزار مادہ
ہائے الفاظ پر مشتمل ہے جبکہ قاموس فیروز آبادی میں اسی ہزار مادے جمع ہیں اور تاج
العروس سید مرتضی زبیدی کے مادہ ہائے الفاظ کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہے۔مندرجہ بالا
تعداد صرف مادہ ہائے الفاظ کی ہے جبکہ ان میں سے ہر ایک مادہ سے درجنوں مشتقات نکلتے
ہیں ۔یعنی اگر مشتق الفاظ کو شامل کر لیا جائے تو ان کی تعداد کروڑوں تک پہنچ جاتی
ہے ۔عربی زبان میں ایک ایک چیز کے لیے درجنوں الفاظ موجود ہیں مثلا دن کے ہر گھنٹے
کے لیے عربی میں جداگانہ نام ہے ،اسی طرح ہر چاندنی رات کا ایک خاص نام ہے ۔صرف پانی
کے لیے 170الفاظ ،بارش کے لیے64اور ابر کے لیے 50الفاظ ہیں ۔قران کی زبان عربی دنیا
کی تیسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے ۔اس سے پہلے کی قدیم زبانیں قصہ پارینہ
بن چکی ہیں مثلا آریہ کی الہامی زبان سنسکرت ،یہودیوں کی مقدس زبان عبرانی ،عیسائیوں
کی لاطینی زبان ،مجوسیوں کی ژندی زبان ،فراعنہ مصر کی قبطی زبان اور بابل و شام کی
آشوری اور سریانی اور ہومر کی یونانی وغیرہ۔یہ شرف عربی ہی کو حاصل ہے کہ آج بھی اس
آفتاب لا زوال کی تابندہ شعاعیں عالم پر محیط ہیں ۔عربی زبان زندہ ہے اور جب تک دنیا
باقی ہے یہ زندہ رہے گی۔
اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔قران اگرچہ 1400سال
پہلے نازل ہوا لیکن اس کی حقانیت رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گی اور جب جب اس کا
جائزہ لیا جائے گا یہ اس دور کے عین مطابق ثابت ہوگا ۔ قران متعدد تاریخی واقعات کا
حوالہ دیتا ہے جو اس وقت کسی کے علم میں نہیں تھے۔لیکن وہ درست ثابت ہوئے۔ اس طرح قران
کریم متعدد پیش گوئیاں بھی کرتا ہے اور یہ تمام پیش گوئیاں حرف بہ حرف پوری ہوئیں۔اسی
طرح بہت سے ایسے سائنسی حقائق کا ذکر بھی قران میں موجود ہے جو اس وقت لوگوں کے علم
میں ہی نہیں تھے۔لیکن آج سائنس داں اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔ہماری اس بات کا ہر گز یہ
مطلب نہیں ہے کہ قران کوئی سائنسی کتاب ہے لیکن اس کے باوجود اس میں کم از کم 1000ایسی
مثالیں موجود ہیں جن کا براہ راست سائنس سے تعلق بنتا ہے۔ اگر ہم صرف ماحول کے حوالے
سے ہی دیکھیں تو تحفظ ماحول اور ہر قدرتی وسیلے سے متعلق تفصیلی تذکرہ موجود ہے ۔ پانی
،اس کی اقسام ،پانی کے ذخائر کی تفصیل مثلا دریا ،سمندر ،جھیلیں،چشمے ،پانی کی صفائی
و پاکیزگی،استعمال کے آداب وغیرہ۔ حیاتیاتی تنوع اور اس کی اہمیت ،درختوں کی اہمیت
،شجر کاری کے فوائد، نباتات پر اثر انداز عوامل ،پودوں کی اقسام بلحاظ ساخت،نباتات
اور انسانی ساخت۔ زمین کی اہمیت اس کی حفاظت، سیاحت،پہاڑ، فضا اوراس کی اہمیت۔غرض یہ
کہ ہرشعبے پر آپ کومطلوبہ تفصیل مل جائے گی۔ طوالت کے خوف سے ہم صرف ایک قدرتی وسیلے
یعنی پانی کوموضوع بحث بنا رہے ہیں البتہ اس حوالے سے ہماری تحقیق جاری ہے جو ہم وقتا
فوقتا آپ کے لیے پیش کرتے رہیں گے۔
آج یہ بات سب جانتے ہیں کہ پانی زندگی کے لیے لازم و ملزوم
ہے، پانی کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ دریا، سمندر اور جھیلوں
کے کنارے ہی انسانی تہذیب پھلتی پھولتی اور نشوونما پاکر ترقی یافتہ معاشروں میں ڈھلتی
رہی ہے۔حیات کی کسی بھی اکائی کا پانی کے بغیر تصور ممکن نہیں۔سائنس داں آج بھی دوسرے
سیاروں پر کمند ڈالتے ہوئے سب سے پہلے پانی ہی کا امکان ڈھونڈتے ہیں۔ پانی کی اسی اہمیت
کو قران ڈیڑھ ہزار سال پہلے ہی واضح کرچکا ہے۔دیکھیے سورہ الانبیاکی آیت نمبر 30 اور
ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی اور سورہ نور میں ارشاد ہے اور اللہ نے ہر جان دار ایک طرح کے پانی سے پیدا
کیے۔
قران کی اس بات سے آج کے سائنس
داںسو فیصد متفق ہیں۔
Bernard Palac نامی
سائنس داں نے 1580 میں water cycle یعنی آبی چکر بیان کیا تھا۔
لیکن اس انکشاف سے ایک ہزار سال پہلے قران نے متعدد مقامات پر آبی چکر کو تفصیل سے
بیان کیا ہے۔قران بتاتا ہے کہ پانی سمندروں کی سطح سے بخارات بن کر اٹھتا ہے ۔بادلوں
میں تبدیل ہوتا ہے ،بادل بلآخر کثیف بن جاتے ہیں ،ان میں بجلیاں چمکتی ہیں اور ان سے
بارش ہوتی ہے۔
سورہ مومنون میں ارشاد ہوتا ہے:
”
اورآسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں
پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا ، ہم اسے جس طرح چاہے غائب کرسکتے ہیں۔ المومنون
18
سورہ روم میں وضاحت ہے:
”اللہ
ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اٹھاتی ہیں ، پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں
پھیلاتا ہے جس طرح چاہتا ہے انہیں ٹکڑیوں میں تقسیم کرتا ہے ۔پھر تو دیکھتا ہے کہ بارش
کے قطرے بادل میں سے ٹپکے چلے آتے ہیں۔یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا
ہے برساتا ہے تو وہ یکایک خوش و خرم ہوجاتے ہیں۔الروم 78
اور دیکھیے:
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور
پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا پھر اس پانی
سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں۔ ( سورہ الزمر 21 (
اپنی ایک یگانہ روز گار کتاب حیاتیاتی چیزوں کی انفرادیت
میں معروف سائنس داں(بائیو کیمسٹ) پروفیسر نیڈہم نے لکھا ہے کہ زندگی کے وجود کے لیے
سیال چیزیں بے حد ضروری ہیں کیونکہ ٹھوس چیزوں میں ایٹمی ذرے بہت قریب ہوتے ہیں۔اوروہ
کبھی بھی حرکی قوت ،قوت عمل رکھنے والے سالماتی عمل اور رد عمل کی اجازت نہ دیتے جس
کی زندہ رہنے والے ہر فرد کو عمل کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ زندگی کی تحریک کے لیے فعال
ہونا بے حد ضروری ہے۔آسان لفظوں میں یہ کہ زندگی کی فعالیت کے لیے سیالی ماحول بے حد
ضروری ہے اور پانی اللہ تعالی کی تخلیق میں بے حد خوبصورت اور کار آمد چیزہے۔ پانی
کے خواص کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ ہر دور میں سائنس دانوں کے لیے حیران کن رہی ہیں۔تمام
موجودات میں جیسے جیسے ان کا درجہ حرارت نیچے آتا ہے سکڑتی چلی جاتی ہیں حجم میں کمی کا مطلب ہے کہ چیزوں کی کثافت بڑھ جاتی
ہے ۔اس کے برعکس پانی سکڑتا ہے اور جب اس کا
درجہ حرارت 4 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جائے تو اس حد تک پہنچنے کے بعد پانی پھیلتا ہے
اور حجم میں بڑھتا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ ٹھوس حالت میں پانی کا حجم کم ہوتا ہے بہ نسبت
مائع حالت کے۔اگراس کو دیکھا جائے تو اپنی منجمد حالت میں برف کو پانی میں ڈوبنا چاہیے
مگر ہوتا اس کے برعکس ہے۔
اللہ تعالی کی حکمت دیکھیے کہ پانی کی یہ خصوصیت سمندروں
کے لیے بے حد اہم ہے۔اگر پانی میں یہ صفت نہ ہوتی تو زمین پر پانی منجمد ہوجاتا اور
جھیلوں ، سمندروں میں زندگی ممکن نہ ہوتی۔اگر اس حقیقت کو ہم تفصیل سے ملاحظہ کریں
تو دنیا کے کئی خطوں میں موسم سرما میں جبکہ درجہ حرارت منفی سے بھی نیچے آجاتا ہے
اور یہ حالت جھیلوں اور سمندروں پر بھی یکساں اثر انداز ہوتی ہے اور ان جگہوں کا بھی
درجہ حرارت گر جاتا ہے۔پانی کی ٹھنڈی تہہ نیچے بیٹھ جاتی ہے اور گرم تہہ اوپر آجاتی
ہے۔جہاں وہ بھی ہواؤں سے ٹھنڈی ہوجاتی اور دوبارہ نیچے بیٹھنا شروع ہوجاتی ہے لیکن
4 ڈگری سینٹی گریڈ پر یہ سائیکل ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ یہاں پانی دوبارہ پھیلنا شروع ہوجاتا
ہے۔جس کے سبب وہ پھر ہلکا ہوجا تا ہے اور نچلی تہہ میں چلا جاتا ہے۔اور جب مزید کم
ہوکر درجہ حرارت تین یا چار ڈگری سینٹی گریڈ پر یا جب پانی کی سطح پر جب درجہ حرارت
زیرو ہوجاتا ہے تو پانی جم جاتا ہے۔لیکن صرف سطح پر اور پانی کا چار ڈگری سینٹی گریڈ
کا درجہ حرارت نیچے مچھلیوں اور دوسری سمندری حیات کے لیے حیات کا ضامن ہوتا ہے۔اگر
پانی کی یہ خصوصیات نہ ہوتیں اور یہ ویسا ہی ہوتا جیسا کہ عام حالت میں ہوتا ہے یعنی
اس کی کثافت بڑھتی تو برف کی شکل میں نیچے بیٹھ جاتا ۔اس پس منظر میں سمندر جھیلیں
نیچے سے اوپر کی سطح تک سب منجمد ہوجاتیں اور یہ سلسلہ جاری رہتا ۔کیونکہ پانی کی سطح
پر برف کا جو غلاف ہوتا ہے وہی نہ ہوتا جو اوپر کی تہہ کو نچلی تہہ سے جدا کرتا ہے۔یعنی
سمندر کی سطح پر ہلکی سی برف کی تہہ کبھی نہ جمتی اور پھر ہوتا یہ کہ سمندروں ،جھیلوں،دریاؤں
کی نچلی سطح پر چند میٹر پانی کی سطح ہوتی اور ہوا کا درجہ حرارت دوبارہ گرم ہونے کے
باوجود سمندروں میں زندگی بحال نہیں کی جاسکتی اور ایسے ایکو سسٹم میں سمندر مردہ ہوتے
اور نہ ہی زمین پر زندگی کے آثار پائے جاسکتے ۔پانی کی اس خاصیت کے لیے ہمیں اللہ تعالی
کا حد درجہ شکر گذار ہونا چاہیے جس کے سبب سرد و گرم موسم میں پانی کا درجہ حرارت قائم
رہتا ہے اوراس کے سبب ہی زندگی کی رنگا رنگی قائم ودائم ہے۔
پانی کا سطحی دباؤ بھی حیران کن ہے اور اس کا واضح اثر پودوں
کی زندگی پر پڑتا ہے ۔کسی پمپ کے بغیر پانی کئی میٹر اونچے درختوں کی شاخوں اور چھوٹے
چھوٹے شگوفوں تک پہنچ جاتا ہے۔لیکن اگر سطحی دباؤ ذرا بھی کم ہوتا تو یہ سارا عمل نا
ممکن ہوجاتا۔
اپنی فزیکل یا مادی خصوصیت
کے علاوہ پانی بے حد عمدہ محلل ہے جس کے نتیجے میں ایک وسیع تعداد مفید کیمیائی اجزا
کی دریاؤں سے پانی کے ساتھ بہتی ہوئی سمندر تک پہنچتی ہے ۔ اس سے سمندر کے کنارے ایک
بہت منفرد ماحولیاتی نظام( ایکو سسٹم ) جنم لیتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈیلٹا کی لاکھوں ایکڑ
زمین زرخیز ہوجاتی ہے۔تمام انسانوں اور حیوانوں کے لیے پانی کے سالماتی کشش (چپچپاہٹ)
بہت ضروری ہے ۔کیونکہ اگر یہ ذرا بھی کم ہوتی تو دوران خون کا نظام اتنی کامیابی اور
اکملیت کے ساتھ جاری و ساری نہیں رہ پاتا۔اور اگر پانی میں تھوڑا سا بھی گاڑھا پن بڑھ
جاتا تو دنیا کا کوئی بھی قلب خون کو پمپ نہیں کرسکتا۔اسی طرح ہمارے جسم میں آکسیجن
کے جذب ہونے کی صلاحیت صرف اس لیے ہے کہ پانی میں یہ خصوصیت موجود ہے ۔جب ہم سانس لیتے
ہیں تو آکسیجن ہمارے پھیپھڑوں میں داخل ہوتی ہے جو براہ راست فورا خون میں داخل ہوجاتی
۔ہمارے خون میں جو ہیمو گلوبن موجود ہوتی وہ آکسیجن کے لیے ٹرانسپورٹ کا کام کرتی ہے
اور آکسیجن خلیات تک پہنچ جاتی ہے۔
غرض یہ کہ کائنات کا صرف ایک جز پانی ہی اللہ تعلی کا تخلیق
کردہ سب سے بڑا معجزہ ہے اور دیکھنے والوں کے لیے اس میں کھلی نشانیاں موجود ہیں۔