Monday, February 25, 2008

نہ وہ سورج نکلتا ہے نہ اپنے دن بدلتے ہیں

کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کوکیمیائی زہر سے خطرات
 ان کیمیکل کو کیڑے مار ادویات نہیں بلکہ صرف”زہر“ کہیے

 حد نظر تک لہراتے رنگ برنگے آنچل،دور دور تک پھیلے ہوئے چاندی جیسی کپاس کے کھیت اور ان کو چن کر سونا بناتے ہاتھ ، یہ ہاتھ ان ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کے ہیں کہ جنہوں نے اپنے نازک کاندھوں پر پاکستان کی پوری کاٹن ، ٹیکسٹائل اورکلوتھنگ انڈسٹری کا بوجھ سنبھالا ہوا ہے۔یہ صنعت اس زرعی ملک کے لیے خطیر زرمبادلہ فراہم کرنے کا سبب ہے اور پاکستان دنیا بھر میں کپاس کی پیداوار کے حوالے سے ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔۔۔یہاں تک تو سب ٹھیک ہے ، ہم سب ان حقائق کو جانتے اور مانتے ہیں اور دنیا بھر میں”کاٹن ، ٹیکسٹائل اور کلوتھنگ انڈسٹری“ کی زنجیر کی اہم کڑی ہونے پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں لیکن ۔۔۔ اس کے بعد ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے،بے خبروں کا تو ذکر ہی کیا جو ہر طرح سے ”با خبر“ہیں وہ بھی چپ کا لبادہ اوڑھے کھڑے ہیں کیونکہ اسی میں ان کا فائدہ ہے۔

 دنیا بھر کے سروے اور تجزیوں کے نتائج چیخ چیخ کر اعلان کر رہے کہ پاکستان بھر میں کپاس کے کھیتوں میں کام کرتی اوراس چاندی سے سونا بناتی پاکستانی عورت شدید خطرات سے دوچار ہے ، پورے ملک کے کھیتوں پر چھڑکے جانے والے کیڑے مار زہر کا 80%کپاس کے کھیتوں پر چھڑکا جاتا ہے اور یہ زہر وہاں کام کرنے والی خواتین کی سانسوں میں رچ بس جاتا ہے۔دوسروں کو خوش حالی دینے والی ان خواتین کوان کھیتوں سے سر درد، جلدی بیماریوں اورمختلف اعضا کا کینسر تحفے میں ملتا ہے۔



 یہاں ہم اس بات کی صاف الفاط میں وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ کیڑے مار کیمیکل کو” ادویات“ کہنا لوگوں کو کھلا دھوکا دینا ہے ، یاد رکھیے کہ یہ کسی صورت دوا نہیں کہلا سکتے یہ تو صرف اورصرف زہر ہیں لہذا انہیں صرف ”زہر“ ہی کہا جائے ۔

 بدحال اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنے والی عورت کو تو ان خطرات کا ادراک ہی نہیں ہے لیکن جو لوگ اس بات کو جانتے ہیں وہ اپنی اپنی معاشی اور سماجی مجبوریوں کے باعث چپ ہیں۔ ان کی یہ خاموشی انتہائی مجرمانہ ہے۔

 حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق کہ جس میں کھیتوں میں کام کرنے والی مختلف خواتین کے خون کے نمونوں کا جب تجزیہ کیا گیا تو 42%نمونے ان زہریلی ادویات سے آلودہ پائے گئے۔صرف10%خون کے نمونے نارمل پائے گئے۔

 پاکستان میں کپاس کی کاشت سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ اگرچہ یہ ایک موسمی سرگرمی کہلا ئی جا سکتی ہے لیکن اس سے وابستہ افراد کی تعداد اسے ایک اہم تجارتی سرگرمی میں شمار کرتی ہے۔کپاس چننے کا زیادہ تر کام خواتین ہی کرتی ہیں ۔ اندازہ اگست سے فروری تک 20لاکھ کپاس چننے والے افراد پاکستان کے اس ایکسپورٹ انجن کو ایندھن فراہم کرتے ہیں۔

 قدرتی وسائل کے ترقیاتی اور پیداواری عمل میں عورت کا کردار پورے معاشرے سے پیوست نظر آتا ہے۔اعداد و شمار کے بہی کھاتوں میں کہیں نظر نہ آنے والی یہ ہستی پاکستان کے شہر شہر اور گاؤں گاؤں میں اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلاتی ہے لیکن اس کے باوجود اس کے کام کو خاطرخواہ تسلیم کرنے میں ابھی بھی بہت سی رکاوٹیں باقی ہیں۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو کپاس کی پیداوارمیں بہترین سمجھے جاتے ہیں۔2004 کے اعداد و شمار کے مطابق کپاس کی تمام عالمی پیداوار کا 50% چین ،انڈیا اور پاکستان سے حاصل ہوا تھا ۔اور تقریبا ایک ارب لوگ دنیا بھر میں براہ راست اوربالواسطہ طور پر اس صنعت سے وابستہ ہیں ۔

  زرعی ملک ہونے کے ناتے ہماری زراعت کا زیادہ تر دارو مدار کپاس پر ہی ہے۔ہر سال کپاس کی پیداوار سے خطیر زرمبادلہ حاصل کیا جاتا ہے۔خصوصا سندھ کی آب و ہوا کپاس کی پیداوار کے لیے بہت زیادہ ساز گار ہے۔حیدرآباد، نوبشاہ،میرپور خاص ، سانگھڑ، سکرنڈ اور عمر کوٹ جیسے علاقے کپاس کی کاشت کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔سندھ میں کپاس کی چنائی کا عمل اکتوبر نومبر سے شروع ہوجاتا ہے۔اسے سندھی زبان میں چونڈو کہتے ہیں۔کپاس کی چنائی کا نوے فیصد کام خواتین انجام دیتی ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ ان کی تیز رفتاری ہے۔ وہ مردوں کے مقابلے میں کئی گنا تیزی ، مہارت اور بہت نرمی و نفاست سے یہ کام انجام دیتی ہیں۔مردوں کے کھردرے ہاتھ اوربھونڈا انداز اس نرم و نازک فصل کے لیے موزوں نہیں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کاشت کار اس کام کے لیے خواتین ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔کپاس چنتے ہوئے خواتین اپنے دوپٹے کو ایک خاص انداز سے اوڑھتی ہیں جسے کانبھو کہا جاتا ہے۔پشت پر اس دوپٹے کا تھیلا سا بن جاتا ہے جس میں وہ کپاس جمع کرتی جاتی ہیں۔انہیں کاٹن کے دوپٹے استعمال کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے کیونکہ ریشمی کپڑے کا دوپٹہ کپاس کے معیار پر اثر انداز ہوتا ہے۔

 کپاس کا بیج جون میں بو دیا جاتا ہے اور اس کی پہلی چنائی نومبر سے شروع ہوتی ہے اور فروری تک جاری رہتی ہے۔اندازہ صرف سندھ اور جنوبی پنجاب میں کپاس چننے کے کام سے 20لاکھ سے زائد خواتین وابستہ ہیں۔

  عورت اپنی سماجی حیثیت میں خصوصا دیہی معاشرے میں مرد کے مقابلے میں ہر طرح سے کم تر تصور کی جاتی ہے ، اور اکثر جگہ تو گھر کے کام کاج ، بچے سنبھالنے کے ساتھ ساتھ گھر چلانے کے لیے بھی اسے ہی محنت کرنی پڑتی ہے لیکن ان سب ذمے داریوں کو اٹھانے کے باوجود وہ مرد کے مقابلے میں انتہائی کم تر وجود رکھتی ہے اور چند ایکڑ زمین بچانے کے لیے کہیں تا عمر اسے شادی اور ازدواجی زندگی کی خوشیوں سے محروم کردیا جاتا ہے اور کہیں نام نہاد غیرت کے نام پرکاری کردیا جاتا ہے۔ اسی کم تر حیثیت کی اس بے زبان عورت کا استحصال صرف گھر والے ہی نہیں کرتے بلکہ وہ جہاں بھی کام کرتی ہے اسے اسی سلوک اور رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ مرد مزدوروں مثلا کپاس پر اسپرے کرنے والے یا ٹریکٹرچلانے والوں کے مقابلے میں بہت کم اجرت پاتی ہے۔

 وہ پورا سال کپاس کی چنائی کے ان دنوں کا انتطار کرتی ہے کہ جب وہ کچھ روپے کما لے گی جس سے اپنے لیے ایک آدھ جوڑا اور بچے کے لیے کوئی کھلونا خرید لے گی ، بہت دن سے بیمار بچے کے لیے دوائی بھی آجائے گی لیکن یہاں بھی اس کے ساتھ ہیرا پھیری کی جاتی ہے ، کبھی پیسے کم دیے جاتے ہیں تو کبھی تول میں ڈنڈی ماری جاتی ہے۔کپاس کی چنائی انتہائی مشکل کام ہے ۔ تیز دھوپ میں انہیں سارا دن کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ ان خواتین کے کپڑے بھی پھٹ جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوتے ہیں ۔ کیڑے مکوڑے اور مختلف جانوروں سے ان بچوں کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔

 تیز چنائی کرنے والی ایک خاتون اندازہ ایک من (چالیس کلو گرام) کپاس چن لیتی ہے۔ 1996/97کی ایک رپورٹ کے مطابق ان خواتین کی اجرت فی من 40 روپے تھی۔ جبکہ 2005/06میں یہ اجرت بڑھ کر50سے80روپے فی من تک پہنچ گئی۔جبکہ اس دوران کپاس کی قیمت کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور زمین داروں کا منافع کئی سو گنا بڑھ گیا۔لیکن اس غریب اورتعلیم سے بے بہرہ عورت کو نہ اپنے ساتھ کی گئی ناانصافی کی خبر ہے اور نہ اپنے استحصال کا پتا ہے۔وہ یہ بھی نہیں جانتی کہ کنزیومر پرائزانڈکس میں اسی عرصے کے دوران 42% کا اضافہ ہوا۔یہ تو تھا مالی استحصال ، اس حوالے سے تو کبھی نہ کبھی صورت حال بدل سکتی ہے لیکن اس کام کے دوران اس کی صحت، زندگی اور اس کے بچوں کو جو خطرات لاحق ہیں وہ ناقابل تلافی ہیں۔

 پاکستان کے کھیتوں میں چھڑکے جانے والے کیڑے مار زہر کا80% کپاس کے کھتوں میں چھڑکا جاتا ہے ۔جس سے خواتین اور ان کے بچے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ان کھیتوں میں کام کرنے والی عورت مسلسل بیماریوں کی زد میں ہوتی ہے ۔تیز دھوپ اور ان زہر کے اثرات سے وہ جلدی امراض کا شکار ہوتی ہے۔ کیڑے مار زہرکا فصلوں پر کثرت سے اور بے سوچے سمجھے استعمال آج بھی پورے زور شور سے جاری ہے۔یہ زہر غیر نقصان دہ کیڑوں ،پرندوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور غذائی سلسلے کو بھی زہریلا بناتا ہے۔ یہ زہریلا مواد ان خوتین کے جسموں میں بھی ذخیرہ ہوتا ہے اور پھراس زہر کا کچھ حصہ ماں کے دودھ کے ذریعے بچے تک منتقل ہوجاتا ہے۔ اکثر اوقات بچے اپنی ولادت سے قبل ہی ان کیمیکل سے متاثر ہوجاتے ہیں اور یہ اثرات ان کی پیدائش کے وقت ظاہر بھی ہوجاتے ہیں۔ان میں کچھ کیمیکل تولیدی نظام کو متاثر کرتے ہیں ،کچھ ذہنی صلاحیت کو کم کرتے ہیں اور کئی بیماریوں کے خلاف مدافعتی نظام کو کم زور بنادیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کیمیکل کا اثر رحم مادر میں ہی ہوجاتا ہے لیکن اس کے نمایاں اثرات بچوں پر نوجوانی میں ظاہر ہوتے ہیں ۔

 کھیتوں پر چھڑکے جانے والا یہ زہر صرف کپاس ہی نہیں بلکہ سبزیوں پر بھی وافر مقدار میں چھڑکا جاتا ہے جس سے یہ زہر باآسانی ہماری غذائی زنجیر میں شامل ہوجاتا ہے ، کھیتوں کا یہ زہر آلود پانی بہہ کر ندی نالوں اور دیگر آبی ذخائر میں شامل ہوجاتا ہے ۔ یہی آلودہ پانی زمین میں جذب ہوکر زیر زمین موجود پانی کے ذخائر میں بھی شامل ہوجاتا ہے ۔ دیہاتوں میں کنوؤں کے پانی کا استعمال بہت زیادہ ہے ۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کیڑے مار زہر سانسوں، غذا اور پانی کے ذریعے انسانی جسم میں باآسانی داخل ہوجاتا ہے ۔

 زراعت میں کیمیائی ادویات کا استعمال ترقیاتی منصوبوں کے تحت تیسری دنیا کے ممالک میں متعارف کرایا گیا۔پاکستان میں 1960 کی دہائی میں سبز انقلاب کے نام پر یہ کیمیائی کھادوں اور ان کیڑے مار زہروں کا استعمال شروع ہوا۔ سبز انقلاب میں استعمال ہونے والے کیمیائی کھاد اور زہریلی ادویات سے انسان سمیت دیگر جان داروں اور ماحول کو شدید جانی اور ماحولیاتی نقصان پہنچتا ہے۔ ان وجوہات کی بنیاد پر دنیا بھر میں کھیتی باڑی اور حق خود ارادیت برائے خوراک اس وقت شدید بحران سے دوچار ہے۔روایتی طریقہ زراعت سبز انقلاب کے تحت ختم ہونے کے بعد ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کی زرعی و کیمیائی صنعت کی اجارہ داری قائم ہو کر رہ گئی ہے۔دراصل ترقیاتی منصوبوں کا مقصد سرمایہ دارانہ نظام کو پروان چڑھانے اور منافع کمانے کا جدید طریقہ تھا جس کے ذریعے بین الاقوامی زرعی کیمیائی صنعت نے بیج ،کھاد ،ادویات،ٹریکٹرز ،ٹیوب ویل اور دیگر اشیا کے کاروبار کو بھر پور فروغ دیا۔زراعت کے شعبے سے زرعی و کیمیائی صنعت کا منافع نچوڑنے کا بڑھتا ہوا رحجان عوام کو بھوک و افلاس کی طرف مزید دھکیل رہا ہے۔

صنعتی اور زرعی استعمال سے لے کر صحت کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کی ایک طویل فہرست ہے۔اس صنعت کا دائرہ زراعت اور صحت سے لے کر خوراک کی صنعت تک پھیلا ہوا ہے۔اس کاروبار سے عالمی سطح پر بڑی بڑی کمپیاں منسلک ہیں جو دنیا کے ہر ملک میں ادویات کی تیاری ، فراہمی اور کاروبار سے کسی نہ کسی حوالے سے منسلک ہیں۔ اس طرح زرعی و کیمیائی کمپنیاں مضبوط ترین بین الاقوامی کمپنیوں کے صف میں شامل ہیں۔

کیمیائی کاروبار ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کا منافع کمانے والا ایک اہم بازو ہے۔جس کی وجہ سے اس کاروبار کے خلاف دنیا بھر جمع ہونے والی سائنسی تحقیقات عوامی خدشات اور تجاویز کو یکسر مسترد کیا جاتا ہے بلکہ زرعی و کیمیائی کاروبار کو فروغ دینے والی کمپنیوں کے دلائل کو ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔بین الاقوامی اداروں، عالمی اور مقامی حکومتوں کی طرف سے کیمیائی صنعت کی پشت پناہی نے کیمیائی ادویات میں کمی کے بجائے اس کے استعمال کو اور بڑھادیا ہے۔

کیمیائی ادویات کے خلاف عالمی سطح پر مہم چلائی جارہی ہے جس میں کئی ادارے ،تنظیمیں ، سیاسی پارٹیاں، کسان گروہ شامل ہیں۔اس مہم کی ایک وجہ ان کمپنیوں کی ادویات کا زہریلا پن ہے جو کہ نہ صرف انسانی صحت پر شدید منفی اثرات رکھتا ہے بلکہ ماحولیات کے نظام کو بھی یکسر تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔اگرچہ بین الاقوامی سطح پر سرگرم تنظیموں اور اداروں کی بھر پور کوششوں سے انسان اور ماحول کے لیے خطرناک کیمیائی ادویات کے استعمال کے خلاف متحدہ بنانا ممکن ہوسکا ہے اور چند ادویات پر مکمل پابندی بھی لگائی گئی ہے لیکن ان اقدامات سے صورت حال میں عموعی سطح پر بہتری پیدا نہیں ہوئی۔

جدید دور کو بین الاقوامی کمپینوں یا کارپوریشنوں کا دور کہنا بے جا نہ ہوگا۔ان کارپوریشنوں کے اعلی عہدیداران کا امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے حکمران طبقے سے گہرا تعلق ہے۔یہ کمپنیاں ان ممالک میں انتخابات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔اس لیے ہر بر سر اقتدار حکومت کو ان کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کرنا پڑتا ہے۔ یہ کمپنیاں امریکی صدر ، سینیٹ اور کانگریس کے اراکین کے انتخابی مہم پر لاکھوں ڈالرز خرچ کرنے کے علاوہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے انہیں نقد چندہ بھی دیتے ہیں۔

ضروری نہیں کہ سبھی لوگ اس تحقیق سے متفق ہوں،خاص طور پر کیمیکل انڈسٹری کے لوگ کیونکہ ان کی اپنی سوچ ہے اور وہ ہمیشہ تصویر کا وہی رخ دیکھتے ہیں جو ان کے لیے منفعت بخش ہوتا ہے ۔حالانکہ یہ مسئلہ انتہائی گمبھیر ہوچکا ہے ۔کیونکہ کیمیکل انڈسٹری کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی کسی بھی پروڈکٹ کے لیے پہلے سائنسی تحقیق مکمل کرے لیکن اربوں ڈالر کا کاروبار کرنے والی یہ انڈسٹری اس کام کے لیے تیار نہیں ہوتی ہے۔اگرچہ کچھ کمپنیوں نے مشکوک کیمیکلز کا استعمال رضاکارانہ طور پر ترک کردیا ہے لیکن اس کے باوجود بیشتر کمپنیوں نے اپنی نفع پسندی کے رحجان کو نہیں چھوڑا اور وہ یقینا اس وقت تک اس کام کو جاری رکھیں گی جب تک ان پر قانونی طور پر پابندی عائد نہیں کی جائے گی۔ہم پورے وثوق سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ کرہ ارض پر انسانیت کو بقا کا شدید خطرہ لاحق ہے کیونکہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اپنے جسم میں مصنوعی کیمیکل کی ایک خاص مقدار کے ساتھ اس دنیا میں جنم لے رہا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ انسانوں نے جس طرح ان ہزارہا کیمیائی مرکبات کا بے دریغ استعمال شروع کر رکھا ہے ، وہ فی الحقیقت ایک ایسا بڑا تجربہ ہے جو کسی بڑی لیبارٹری میں نہیں ہورہا ہے بلکہ حقیقی زندگی میں ہورہا ہے اور یہ کسی چوہے وغیرہ پر نہیں بلکہ کرہ ارض کے تمام انسان اس خطرناک تجربے کا تختہ مشق بنے ہوئے ہیں ۔
 پاکستان میں ان کیمیائی زہروں کی درآمد کا آغاز 1954میں ہوا ۔ ابتدا میں ان کا استعمال ٹڈی دل، مچھروں یعنی ملیریا کے خاتمے سمیت گنا، کپاس،چاول اور تمباکو کو لاحق بیماریوں اور انہیں فصلی کیڑوں سے بچانے کے لیے کیا جاتا تھا ۔ جبکہ کسانوں کو یہ کیمیائی زہر اور اسپرے امدادی قیمت پرفراہم کیا جاتا تھا ۔حکومت کی جانب سے کھیتوں پر مفت فضائی اسپرے بھی کیا جاتا تھا ۔ان کیمیائی زہروں کا 10%سبزیوں پر بھی کیا جاتا تھا ۔ ابتدا میں ان اقدمات کا مثبت نتیجہ نکلا اور پیداوار میں اضافہ ہوا لیکن یہ دراصل دھوکا تھا اور چند سال بعد ہی زمین کی پیداواری قوت گھٹنے لگی ۔ کیمیائی کھادوں اور کیمیائی زہروں کے اندھا دھند استعمال سے زمین کی قدرتی نمو کی طاقت گھٹتی چلی گئی اورآخری حدوں تک جا پہنچی۔

 پاکستان میں ان خطرناک کیڑے مارکیمیائی زہروں کی فروخت نجی شعبے میں ہونے اور اس کے آزادانہ استعمال کے باوجود سرکاری محکموں کا دعوی ہے کہ ان زہروں کا استعمال متعلقے محکموں کی نگرانی میں ہوتا ہے ، اگرچہ کہ حقائق کچھ اور ہیں ۔زائد المعیاد زہروں(Expired) کا استعمال بھی عام ہے ۔ایسے آؤٹ ڈیٹڈ کیمیکل زیادہ تر لوگ چین سے ڈرموں میں منگواتے ہیں پھر مقامی طور پر ان کی چھوٹی اور خوبصورت پیکنگ کرکے فروحت کے لیے مارکیٹ میں پہنچا دیا جاتا ہے۔بیچنے والوں کو اس میں 50 تا 55 فیصد تک کمیشن ملتا ہے۔

 فصلوں پر اگر ان کیمیکل کو چھڑکنا نا گزیرہو تب بھی یہ ایک انتہائی اہم اورذمے دارانہ اور تیکنیکی کام ہے۔  ان کیمیکل کے انتخاب، وقت،استعمال اور مقدارتک سبھی کچھ ماہرین کی ذمے داری ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ بیچنے والا دکان دار ہی سارے فرائض انجام دیتا ہے ، سادہ لوح کسانوں کی وہی رہنمائی بھی کرتا ہے اور ان کے لیے ان زہروں کا انتخاب بھی خود ہی کرتا ہے۔صورت حال کی گمبھیرتا اور متعلقین کی ”ذمے داریوں“ کا حال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے صحت  WHOنے جن خطرناک کیمیائی زہروں پر پابندی لگائی ہے اور انہیں انسانی صحت اور ماحول کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے وہ پاکستان میں باآسانی مل جاتے ہیں اور استعمال بھی ہو رہے ہیں۔ڈی ڈی ٹی تو ہمارے گھروں تک بھی پہنچی ہوئی ہے اسے ہم فنس کے نام سے گھروں میں استعمال کر رہے ہیں ۔حتی کہ مچھر مار ادویات میں بھی یہ موجود ہے ۔

 دنیا بھر میں 12خطرناک کیمیائی زہروں کی درآمد برآمد پر پابندی ہے جنہیں ترقی یافتہ ممالک "Dirty Dozen"کے نام سے یاد کرتے ہیں ان میں سے اکثر ہمارے ملک میں باآسانی مل جاتے ہیں جس کا ثبوت ڈی ڈی ٹی ہے ۔

 ترقی یافتہ ممالک نے ان خطر ناک کیمیکل کو مسترد کردیا ہے اور اب وہ دوبارہ فطرت کے قریب ہونے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہیں اور ایسے تمام قدرتی طریقوں کو  Integrated pest managementکا نام دیا گیا ہے۔اس کے تحت تمام روایتی طریقہ کار کو دوبارہ رائج کرنا ہے اور ان کیمیکل کے بجائے قدرتی جراثیم کش مثلا نیم وغیرہ کی مصنوعات کا استعمال بڑھانا ہے ۔

 ہم کبھی بھی ایسے معاشرے کو تشکیل نہیں دے سکتے جو خطرات سے بالکل پاک ہو تاہم کم از کم سطح پر عوام کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ وہ کون سی کیمیائی زہر ہیں جو انہیں اور ان کے بچوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔نیز وہ اس چیز کو بھی جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ اب تک سائنس کی تحقیقات کہاں پہنچ چکی ہیں ۔

1973 کے کیڑے مار ادویات کے قوانین اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے خوراک و زراعت کے بین الاقوامی ضابطہ اخلاق کے تحت کیڑے مار ادویات کے پھیلا اور استعمال کے قوانین اور 2005 کی قومی ماحولیاتی پالیسی کے تحت Integrated Pest Management (IPM)  کو ترجیح دینی چاہیے یعنی زیادہ سے زیادہ قدرتی طریقوں کا فروع اور کیمیائی زہر سے اجتناب۔

کیمیائی زہروں سے مسموم اس فضا میں اس وقت ہلچل مچ گئی جب 1962میں سائنس داں ریچل کارسن کی کتاب خاموش بہار Silent Spring منظر عام پر آئی ۔ اس کتاب نے پہلی مرتبہ سر سبز انقلاب کا قصیدہ پڑھنے والوں کی سوچ کو جھنجوڑا اور فصلوں پر چھڑکے جانے والے کیڑے مار زہر کے نقصان دہ اثرات کو سائنسی حقائق کی روشنی میں پیش کیا۔ان اثرات میں جنگلی حیات کی تباہی، قدرتی توامن میں بگاڑ اور انسان کے ارد گرد کے ماحول کا زہر آلودہ ہوجانا شامل ہیں۔ کارسن کا موقف تھا کہ جب کیڑے مار دوا سے غیر نقصان دہ کیڑے بھی ختم ہوجائیں گے تو نتیجے کے طور پر وہ کیڑے بھی مر جائیں گے جن کی خوراک کا دارو مدار ان کیڑوں پر ہے۔اور یوں بہار اجڑ جائے گی۔جب یہ حقائق سامنے آئے تو لوگوں میں ہلچل مچ گئی۔جس نے ایک تحریک کو جنم دیا۔ریچل میرین بائیولوجسٹ تھی اورامریکی ادارے فش اینڈ وائلڈ لائف سے وابستہ تھی۔اس کی کتاب نے امریکی سماجی زندگی میں ایک خاموش انقلاب کی بنیادرکھی۔ریچل کا انتقال 56 کی عمر میں ہوا۔

 ریچل کی یہ کتاب 1962 میں لکھی گئی تھی اور46 سال گذرنے کے باوجود پاکستان کے تناظر میں اس کتاب کی سچائی برقرار ہے۔
 کارسنکی کتاب سائیلنٹ اسپرنگ جس کے اب تک 30 ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اس میں اس نے جو سوالات اٹھائے ہیں ان کے جوابات ہمیں لازمی تلاش کرنا چاہیے۔یہ کتاب دراصل انسان کی بنائی ہوئی حشرات کش ادویات کے نتیجے میں ابھرنے والے خطرات کے متعلق ایک جامع اور ہنگامی نوعیت کی تنبیہہ تھی۔انسانیت ہمیشہ ریچل کارسن کی شکر گذار رہے گی۔