حیات کے تمام رنگ بکھیرتی آب گاہیں
انسان اور فطرت کا ٹوٹا ہوا رشتہ مضبوط کیجیے
آئیے ایک دن اپنی مصروف زندگی
سے چرا کر اپنے گھر کے قریب موجود فطری نظاروں کے بیچ کسی جھیل، پارک، ساحل یا جنگل
میں گذاریئے
اور پھر اس دن کے کرشماتی اثرات کو محسوس کیجیے۔ یہ جسمانی سرگرمی آپ کو نہ صرف جسمانی
طور پر بلکہ ذہنی اور نفسیاتی طور پر بھی چاق و چو بند اور توانا کردے گی۔صدیوں سے
انسان اس کا تجربہ کرتا آیا ہے اور اب سائنسی تحقیقات بھی اس کی تصدیق کررہی ہیں۔ تازہ ترین تحقیقات کے مطابق فطری ماحول کے قریب انجام
دی گئی اس قسم کی کوئی بھی سرگرمی آپ کے کام کرنے کی استعداد کو بڑھاتی اور تخلیقی
صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے۔ دنیا بھر میں ایسی سرگرمیوں کو Green Exercise کہا جاتا ہے ، ہم اسے ہری بھری تفریح یا سر سبز مشق
بھی کہہ سکتے ہیں۔ان ہری بھری مشقوں میں سبزہ زاروں میں چہل قدمی،سائیکل چلانا،دریا
یا جھیلوں میں کشتی رانی ، ماہی گیری، کھلے علاقوں میں پرندوں کے لیے دانہ پانی وغیرہ
مہیا کرنا اور فطرت کی حفاظت کے اور بہت سے کام شامل ہیں۔سرسبز جگہوں پر گذارا ہوا
یہ وقت آپ کی کیلوریز گھٹائے گا ، بلڈ پریشر اور اعصابی دباؤ کم ہوگا اورایک بے نام
سی خوشی اور فرحت و مسرت کا احساس آپ کو تمام دن ہشاش بشاس رکھے گا بلکہ آنے والا پورا
ہفتہ اسی سرشاری میں گذرے گا، آزمائش شرط ہے۔
2 فروری کو دنیا بھر
میں آب گاہوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے کم از کم اس ایک دن کو کسی آب گاہ کے کنارے فطرت
اور انسان کے کمزور رشتے کو مضبوط بنانے کے لیے مخصوص کیجیے۔اس سال یہ دن آب گاہیں
اور جنگلات(wetlands
and forests) کے عنوان کے تحت منایا جارہا ہے۔
یہ دونوں عناصر ہی زمین پر حیات کی رنگا رنگی کا سبب ہے۔ ان کی حفاظت کیجیے اور ان
کے قریب رہیے۔ جب تا یہ آپ کے قریب نہیں ہوں گے آپ بھی ان کے قریب نہیں ہوں گے۔ یہ
ہرا بھرا شوق آپ کی صحت کے لیے کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ ماہرین کی رپورٹوں سے بھی لگا سکتے ہیں۔
صحت کے لیے کام کرنے والی بہت سی تنظیمیں خصوصا WHO خبردار کر رہی ہے کہ مصروف ترین مشینی زندگی نے ہم
سے ہماری تفریحات چھین لی ہیں اورخصوصا فطری مناظرسے ہمیں بہت دور کردیا ہے۔آسائشات
نے ہمیں حد درجہ کاہل کردیا ہے اور جسمانی محنت کم سے کم ہوکر رہ گئی ہے ، جس کا نتیجہ
تباہ کن امراض کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔شہروں میں یہ صورت حال بد سے بد ترین ہوکر
رہ گئی ہے۔پچھلے 25 سالوں میں دنیا کی آبادی کا تیز ترین بہاؤ شہروں کی طرف رہا ہے۔
عالمی آبادی کا 37%سے49% شہروں کا رخ کرچکا ہے۔اس سے زرعی زمینیں شہری استعمال مثلا
رہائشی اور صنعتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے لگیں۔جنگل فالتو چیز سمجھ کر کاٹے جانے
لگے اور ہرے بھرے علاقے کم سے کم ہوتے چلے گئے۔
شہری سرگرمیوں نے لوگوں کوکاہل بنایا اور جسمانی مشقت کی
کمی نے انسانی صحت کو گھن لگادیا۔کھانے کی زیادتی اورکاہلی نے موٹاپے کو بڑھ کر دعوت
دی اورذیابیطس ،بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں نے انسانوں کو لپیٹ میں لے لیا۔ اور اب
تازہ رپورٹ بتا رہی ہیں کہ موٹاپا صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں
کا بھی سبب ہے۔تخمینہ ہے کہ دنیا بھر میں 1.9ملین اموات کا سبب موٹاپا اور اس سے متعلقہ
بیماریاں ہیں۔صرف یورپی ممالک میں 2سے8%افراد کی بیماریوں اور10سے13%اموات کا سبب کم
بخت یہی موٹاپا ہے۔ WHO کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر موٹاپے پر قابو نہ پایا
گیاتو 2020 تک یہ ہر طرف تباہی مچا رہا ہوگا۔صرف یو کے میں اگر چھ میں سے ایک شہری
بھی بیمار ہوا تو نیشنل ہیلتھ سروسز کا قومی سطح پر خرچہ 12.5بلین پاؤنڈاور معیشت پر
اس کے اثرات 13.1بلین پاؤنڈ ہوگا۔ ہم ترقی پذیر لوگوں کا تو ذکر ہی کیا؟
اس سا ل آب گاہوں اور انسانی
صحت کے مابین گہرے فطری تعلق کو اجاگر کیا جارہاہے۔دیگر قدرتی وسائل کی طرح ہمارا ملک
اس وسیلے سے بھی مالا مال ہے۔ آب گاہیں(Wetlands)
دراصل قدرتی سپر مارکیٹ ہیں جہاں انسانوں، جانوروں اور پرندوں کے لیے وافر
پانی اور خوراک کا عظیم ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔آب گاہوں کی اصطلاح بہت وسیع معنوں کی
حامل ہے۔ اس میں جھیلیں، دلدل، ساحلی علاقے، جوہڑ،قدرتی ندی نالے ، دریا اور ڈیلٹا
شامل ہیں۔ان آب گاہوں کا ایک اپنا مکمل ماحولیاتی نظام ہوتا ہے جس میں مختلف اقسام
کے جان دار زندہ رہنے کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔جان داروں کی ان مختلف اقسام
کو زنجیر کی کڑیوں سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جو آپس میں مل کر زندگی کے سلسلے کو قائم
رکھتی ہیں۔ اور انسان ان سب پر انحصار کرتا ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ آب گاہیں دراصل
زندگی کی پناہ گاہیں ہیں۔زندگی کی مالا کے موتی بکھرنے سے بچانے کے لیے ان کا تحفظ
بہت ضروری ہے۔
آب گاہوں کے حوالے سے پاکستان عالمی سطح پر اس وقت پہچانا
گیا جب 1976 میں پاکستان نے رامسر کنونشن پر دستخط کیے۔یہ کنونشن ایران کے شہر رامسر
میں1971میں تشکیل پایا۔یہ ایک عالمی سطح کا معاہدہ ہے جس کے تحت آب گاہوں کے تحفظ کے
لیے کوششیں اور وسائل مہیا کیے جاتے ہیں۔
رامسر کنونش کے تحت عالمی سطح پر ایسی آب گاہوں کی فہرست
تیار کی گئی ہے جو متعینہ معیار کے مطابق عالمی اہمیت کی حامل ہیں تاکہ ان آب گاہوں
کی حفاظت کے لیے ترجیحی بنیادوں پر منصوبے بنائے جائیں۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے والے
ممالک کو تین عہد ایفا کرنے ہوتے ہیں۔
(1) عالمی اہمیت کی آب گاہوں کو
رامسر فہرست میں شامل کروانا
(2) تمام آب گاہوں کے دانش مندانہ
استعمال کے لیے منصوبہ بندی کرنا
(3)
انواع اور پانی کے مشترکہ نظاموں
کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعاون کرنا۔
اس کنونشن میں ابتدائی
طور پر138 ممالک شریک تھے ۔جب پاکستان نے اس پر دستخط کیے تو ہمارے ملک کی مجموعی آب
گاہوں کا مجموعی رقبہ تقریبا 7,800کلو میٹر تھا۔ اور یہاں عالمی معیار کی آٹھ آب گاہیں
تھیں۔2003ءتک ان آبی ٹھکانوں کی تعداد 16 ہوگئی تھی۔اقوام متحدہ نے جب 2003ءکے سال
کو"میٹھے پانی کا سال" کے طور پر
منایا تو اس سال کی نسبت سے 3نئی آب گاہیں رامسر سائٹ میں شامل کی گئیں ۔یہ تینوں آب
گاہیں یعنی’انڈس ڈیلٹا 472,800ہیکٹر،رن آف
کچھ(566,375) ہیکٹراور دیہہ اکڑو (20,500) ہیکٹر سندھ میں واقع ہیں۔ ان تین نئی آب
گاہوں کے اضافے سے پاکستان میں بین الاقوامی اہمیت کی حامل آب گاہوں یعنی رامسر سائٹ
کی تعداد 19ہوگئی۔ ان آب گاہوں کے نام درج ذیل ہیں
استولا آئی لینڈ بلو چستان
چشمہ بیراج ’ پنجاب
دیہہ اکڑو ، سندھ
ڈرگ جھیل، سندھ
ہالیجی جھیل سندھ
حب ڈیم ، سندھ بلوچستان
انڈس ڈیلٹا سندھ
انڈس ڈولفن ریزرو ،سندھ
جیوانی کوسٹل آب گاہ ، بلوچستان
جبھو لگون ، سندھ
کینجھر جھیل سندھ
میانی ھور، بلوچستان
نرڑی لگون ، سندھ
اومارہ ٹرٹل بیچ ، بلوچستان
رن آف کچھ سندھ
ٹانڈا ڈیم، سرحد
تونسہ بیراج ، پنجاب
تھانے دار والا، سرحد
اچالی کمپلیکس (کھبیکی، اچالی اور جھلر جھیل) ،پنجاب
پاکستان مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے اس
لیے بہت سے پرندے جو وسطی اور شمالی ایشیا میں پیدا ہوتے اور پرورش پاتے ہیں وہ افغانستان
کے راستے وادی سندھ کا رخ کرتے ہیں اور خصوصا سندھ کی آب گاہوں پر قیام کرتے ہیں۔یہ
آب گاہیں ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی سرمائی رہائش گاہ کا درجہ رکھتی ہیں۔
ساحلی علاقوں اور دریاؤں کے دہانوں پر واقع یہ آبی ٹھکانے
طری طرح کی آبی حیات یعنی مچھلیوں، جھینگوں اور کیکڑوں وغیرہ کے انڈے بچے دینے اور
ان کی پرورش کے لیے بہترین جگہ تصور کی جاتی ہیں۔موسم سرما میں نقل مکانی کرکے آنے
والے ہزاروں اقسام کے آبی پرندے لاکھوں کی تعداد میں ان آب گاہوں پر قیام کرتے ہیں۔
آئیے اب رامسر سائٹ کی فہرست
میں شامل 19آب گاہوں میں سے ایک آب گاہ کا قریب سے جائزہ لیتے ہیں جس کے ماتھے پر وقت
کے تغیرات نے نہیں بلکہ دست انساں نے تباہی کی مہر لگائی ہے۔
ماضی کی یہ خوبصورت جھیل نرڑی ضلع
بدین کی تحصیل بدین میں ہزاروں ایکڑوں کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ایک زمانہ تھا جب یہ
جھیل اپنے قدرتی حُسن کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھی۔ارد گرد کے گاؤں دیہات آباد تھے
اور تقریبا5000مقامی افراد کا انحصار اسی جھیل پر تھا۔ گھاس کی بہت ساری اقسام اس وسیع
جھیل کے کناروں اور جھیل اندر ننھے ننھے جزیروں پراگتیں۔ جس سے جھیل کی مچھلیوں کے
لیے چارہ میسر آتا اور اس کی جڑیں مچھلی کے لیے محفوظ ہیچریز کا کام دیتیں۔ مقامی پرندے
اس گھاس پر اپنے گھونسلے بناتے جس سے ان مقامی پرندوں کو تحفظ ملتا اور وہ ایک قدرتی
ماحول میں نشو و نما پاتے۔ مقامی لوگوں کے لیے یہ گھاس بڑی اہمیت کی حامل ہوتی، ایک
تو بکریوں، بھیڑوں کے لیے چارہ فراہم ہوتا۔علاوہ ازیں لوگ اپنے گھر اسی گھاس سے بناتے
اور یہ گھاس زمین پر ایک بچھونے کی طرح بھی کام بھی آتی۔ اس کے علاوہ یہاں کی لمبی
گھاس جسے مقامی زبان میں پن کہا جاتا ہے کے
سوکھنے کے بعد اس سے پنکھے بنائے جاتے جن کی شہروں میں بڑی مانگ ہوتی اوریہ
آمدنی ان غریب ماہی گیروںکو معاشی پریشانیوں سے بچاتی۔
نریڑی جھیل کے اطراف میں زیادہ تر ماہی گیرآباد ہیں جوماہی
گیری کے سوا کچھ نہیں جانتے حتی کہ وہ زراعت سے بھی ناواقف ہیں۔ ان کا ذریعہ معاش صرف
اور صرف ان جھیلوں اور سمندر سے مچھلی پکڑنا ہی ہے۔ موسم سرما میں یہ جھیل سائیبیریا
سے آئے ہوئے پرندوں سے بھر جاتی۔ اس جھیل سے وافر مقدار میں مچھلی اور جھینگا پکڑا
جاتا تھا۔یعنی یہ جھیل ہزاروں لوگوں کا ذریعہ معاش تھی اور بلا مبالغہ کئی گاؤں اس
جھیل کی گھاس، مچھلی اور پرندوں پر آباد تھے۔ جھیل پرموسم سرما میں آنے والے پرندوںکی
تعداد 1990 میں 71,335۔ 2001 میں 43,115 اور 2002 میں 50,997 ریکارڈ کی گئی۔
نوے کی دہائے کا آخر تھا کہ
جب سائیکلون 2A آیا۔
جس میں ’چولری ویئر‘ جو ایل۔بی۔او۔ڈی، کا انتہائی اہم حصہ تھا وہ ٹوٹ گیا۔ جس کی وجہ
سے دن میں دو بار ، مدو جزر کے وقت سمندر کا پانی اس جھیل میں، چولری ویئر کے راستے
اندر داخل ہوتا اور جب Low tide ہوتی تو اپنے ساتھ جھیل کا
میٹھا پانی بھی بہا کر لے جاتا۔جس سے نرڑی جھیل میں شوریدہ پانی کی مقدار بڑھتی گئی۔اسی
سبب کی وجہ سے مقامی گھاس جو سیکڑوں ہیکٹروں میں پھیلی ہوئی تھی برباد ہوگئی۔ مقامی
جنگلی حیات خواب و خیال ہوکر رہ گئی۔پرندے، گیدڑ، جنگلی بلیوں کی چار اقسام بڑی حد
تک متاثر ہوئیں۔مچھلی کا نام و نشان تک ختم ہوگیا۔وہ ماہی گیروں کے خاندان جو نرڑی
کے گرد و پیش میں بستے تھے۔ وہ اس جھیل کے برباد ہونے کے بعد نقل مکانی کرنے پر مجبور
ہوگئے۔ مقامی لوگوں کے لیے یہ ایک شدید دھچکا تھا۔ لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑی، کیونکہ
ضلع بدین کی ساحلی پٹی میں، ایل بی او ڈی کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح مسلسل بڑھ
رہی ہے۔ جس کی وجہ سے زرعی زمینیں برباد ہوکر رہ گئی ہیں۔
اس علاقے کے لوگ خصوصا وہ
جو اس جھیل پر انحصار کرتے تھے اب غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گذار رہے ہیں ۔
لیکن افلاس اور غربت کا شکار یہ بہادر لوگ اب بھی حوصلہ
مند اور پر امید ہیں کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت اس جھیل کی بحالی کا کام انجام دے ہی
لیں گے ۔دور دور تک پھیلی تباہ حال نرڑی جھیل کو دیکھ کر جب میں نے ان غریب ماہی گیروں
کو دیکھا تو مجھے لگا کہ شاید یہ نا ممکن کام ہوگا ، کیسے، کس طرح ؟ میرا سوال تھا۔جواب
میں انہوں نے جو تفصیل بتائی اگرچہ کہ وہ تمام کام ممکن ہیں لیکن اس کے لیے ان مٹھی
بھر لوگوں کے حوصلے کے ساتھ ساتھ بہت سا سرمایہ بھی درکار ہے ۔ یہاں متعلقہ سرکاری
اداروں کو اپنا فرض انجام دینا ہوگا اوریہ جھیل چونکہ بین الاقوامی اہمیت کی آب گاہوں
کی فہرست یعنی رامسر سائٹ میں شامل ہے لہذا حکومت اس جھیل کی بحالی کے لیے رامسر کے
بین الاقوامی ادارے سے مالی مدد اورمہارت طلب کرسکتی ہے۔ہمیں یقین ہے کہ اس جھیل کی
بحالی سے اور بہت سی تاریک راہوں میں روشنی پھیلے گی ۔ اسے مثال بنا کر بہت سے لوگ
اپنی مدد آپ کے تحت میدان میں اتر آئیں گے۔ہماری آنے والی نسلوں کی جسمانی اورذہنی
صحت کے لیے ان آب گاہوں کی بقا بہت ضروری ہے۔