پہاڑ کی چوٹی سے موبائل کال اور اب نیپالی جوڑے کے عہد و
پیماں
اب کسی بات پر حیرت نہیں ہوتی!
چاہے وہ دنیا کی بلند ترین چوٹی سے کی جانے والی فون کال
کا ذکر ہو یا ہزاروں فٹ بلندی پر شادی رچانے کا تذکرہ ، اب کسی با ت پر حیرت نہیں ہوتی۔
پچھلے دنوں برطانوی کوہ پیما راڈ بابر نے دنیا کی بلند ترین
چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سے موبائل فون کال کرکے ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے ۔ اکیس مئی
کی صبح راڈ نے چوٹی کی شمالی کگر سے دو کالیں کیں ۔ پہلی کال میں انہوں نے ایورسٹ کے
موسم اور منظر کو بیان کیا اور بتایا کہ وہ بیس کیمپ پہنچ کر کیا کرنا چاہتے ہیں اور
اس کے بعد انہوں نے دوسری کال اپنے اہل خانہ کو کی ۔ راڈ کا پہلی کال کو ان کی مہم
کے اسپانسر نے ایک وائس میسیج پر ریکارڈ کیا تاکہ کال کا ثبوت باقی رہے ۔ ایورسٹ کی
چوٹی سے کال یا موبائل کا استعمال اس وقت ممکن ہوسکا جب یہاں چین کی طرف سے ایک بیس
اسٹیشن تعمیر کیا گیا جو ایورسٹ کی شمالی کگر کی حد میں ہے ۔ ہمالیہ میں ٹیلی فون کی
سروس چینی فوج کی ایورسٹ میں موجودگی کی وجہ سے بہتر ہورہی ہے جو اولمپک کی مشعل چوٹی
پر لے جانے کی تیاری کررہی ہے ۔
راڈ بابر وسط اپریل میں ایورسٹ کے بیس کیمپ پہنچے تھے اور
اس کے بعد انہوں ن اپنے آپ کو بلندی کا عادی بنایا ۔ بابر اور ان کی ٹیم نے پندرہ مئی
کو چوٹی کی جانب چڑھنا شروع کیا ۔آٹھ ہزار آٹھ سو اڑتالیس میٹر کی بلندی سے فون کال
کرنے کے لیے بابر کو اپنا آکسیجن ماسک بھی اتارنا پڑا اور منفی تیس درجہ حرارت میں
راڈ کے پاس یہ تاریخی کارنامہ سر انجام دینے کے لیے صرف پندرہ منٹ تھے ۔ کیونکہ یہی
وہ وقت ہے جو پہاڑ سر کرنے والے کوہ پیما چوٹی پر گذارتے ہیں ۔ تاہم راڈ نے نہ صرف
دو کالیں کیں بلکہ وہ دنیا کے بلند ترین مقام سے ایس ایم ایس بھیجنے والے پہلے شخص
بھی بن گئے ۔
اسی عرصے میں بہت سے دوسرے ریکارڈ بھی قائم ہوئے مثلا نیپال
کے ایک شیر پا نے ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھنے کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے، شیرپا اپا
نے بارہویں دفعہ آٹھ ہزار آٹھ سو فٹ بلند پہاڑ کی چوٹی سر کی اور اس طرح انہوں نے اپنے
ہی قائم کردہ ریکارڈ کو توڑ ڈالا۔اسی دن پچاس سے زائد دوسرے افراد بھی بلند ترین پہاڑ
کی چوٹی تک پہنچے جن میں پہلی بار ایورسٹ سر کرنے والے ایک شخص کا پوتا بھی شامل ہے۔
نیپال کی وزارت سیاحت کے مطابق تینتالیس سالہ شیر پا اپا
نے ماؤنٹ ایورسٹ پر متعدد بار چڑھنے کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ وہ جنوبی راستے
سے پہاڑ پر چڑھے، تریپن دوسرے افراد جو کہ دنیا بھر سے آئی ہوئی آٹھ مختلف ٹیموں میں
بٹے ہوئے تھے ان کے پیچھے پہاڑ پر چڑھے ۔ ان کے ہمراہ تاشی وانگ چک تین ژنگ بھی تھا
جو دنیا میں سب سے پہلے ایورسٹ سر کرنے والے نیوزی لینڈ کے ایڈمنڈ ہیلری کے ساتھی تین
ژنگ نورگے کا پوتا ہے۔ ہیلری اور نورگے نے 1953 میں اکھٹے ایورسٹ کی چوٹی سر کی تھی۔
ایڈمنڈ ہیلری اور نورگے کے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے بعد
سے اب تک تقریبا ایک ہزار افراد اسے سر کرچکے ہیں اور ساٹھ سے زیادہ بدقسمت افراد ایسے
ہیں جو اسے سر کرنے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔
مہم جوئی کے شوقین کوہ پیماؤں کواپنی مہمات کو یادگار بنانے
کا جنون انہیں نت نئی سرگرمیوں پر اکساتا رہتا ہے، نیپال کے ایک جوڑے نے بھی اپنی مہم
کو یادگار بنانے کے لیے ایورسٹ کی چوٹی پر شادی رچائی۔یہ پہلا موقع ہے کہ کسی نے ایورسٹ
کی چوٹی پر شادی اور زندگی بھر ساتھ نبھانے کے عہد و پیماں کیے۔ دولہا اور دولہن نے
اپنے ارادوں کو خفیہ رکھا تھا اور ان کے ساتھ چوٹی تک چڑھنے والے تیسرے فرد کو بھی
نہیں معلوم تھا کہ وہ چوٹی پر ایک دوسرے سے شادی کے عہد و پیماں کریں گے۔
چوٹی پر پہنچ کر مونی مولے پتی اور پریم دورجی شرپا نے چند
منٹ کے لیے اپنے آکسیجن ماسک اتارے اور ایک دوسرے سے شادی کے وعدے دہرائے ، ایک دوسرے
کو پلاسٹک کے پھولوں کے ہار پہنائے اور پریم دورجی نے مونی کی مانگ میں سیندور بھرا۔کھٹمنڈو
واپسی پر دلہن نے بتایا کہ شادی کی تمام رسومات تو چوٹی پر ممکن نہیں تھیں لہذا وہ
اتنا ہی کرسکے بعد ازاں بہت جلد وہ اپنی شادی کی تمام تقریبات منعقد کریں گے۔دولہے
پریم دورجی نے بتایا کہ ماضی میں کئی جوڑے ایورسٹ کی چوٹی پر شادی کرنے کا ارادہ کرتے
رہے ہیں لیکن وہ چوٹی پر نہیں پہنچ سکے ، ان دونوں نے بھی ناکامی کے ڈر سے اپنا ارادہ
کسی کو نہیں بتایا تھا اور ان کے خاندان والوں کو بھی اس کا علم نہیں تھا۔
اس کے علاوہ بھی اس سال ماؤنٹ ایورسٹ پر کئی نئے ریکارڈ
قائم ہوئے ۔ دو ایرانی خواتین چوٹی پر پہنچ کر ا یورسٹ سر کرنے والی پہلی مسلمان خواتین
بنیں جبکہ اپا شیرا نے چوٹی پندرہویں مرتبہ سر کرکے اپنا ہی ریکارڈ توڑا۔
پاکستان دنیا کے عظیم
سلسلہ کوہ ہمالیہ ، قراقرم ،ہندوکش اور پامیر کے سنگم پر واقع جغرافیائی اعتبار سے
اک منفرد ملک ہے ۔ اس کے پہاڑی سلسلوں میں قطبی علاقوں کو چھوڑ کرسب سے زیادہ گلیشیئرز
یہیں واقع ہیں ۔ یہ گلیشیئرز صف شفاف پانی کے ذخیرے ہیں جو سال بھر ہمارے دریاؤں کو
رواں رکھتے ہیں۔ عالمی حدت میں اضافے کی وجہ ہمالیہ کے گلیشیئرز کی برف تیزی سے پگھلنا
شروع ہوگئی ہے جس سے برصغیر پاک و ہند اور چین کے کروڑوں لوگوں کی زندگی خطرے ہیں ہے۔
یہ گلیشیئر اوسطا دس سے پندرہ میٹر ( تینتیں فٹ سالانہ ) کے حساب سے کم ہورہے ہیں۔موسموں
کی بے ترتیبی کے علاوہ پہاڑی چوٹیوں خصوصا ماؤنٹ ایورسٹ کے لیے ایک اوربڑھتا ہوا خطرہ
وہ کچرا ہے جو سیاح اپنی کوہ پیمائی کے دوران چھوڑ جاتے ہیں۔یہ کچرا ہر سال بڑھتا ہی
جارہا ہے ۔اس حوالے سے رواں سال میں خاصی پیش رفت ہوئی کہ نیپال کے ساتھ مل کر جاپان
کے کو پیماؤں نے اس بلند ترین چوٹی سے کچرا واپس لانے کی ٹھانی۔جاپان کے ایک کوہ پیما
دنیا کے بلند ترین پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سے کئی ٹن وزنی کچرا نیچے لانے میں کامیاب
بھی ہوگئے، لین نو گوچی نامی یہ کوہ پیما جنہوں نے ماؤنٹ ایورسٹ سے کچرا جمع کرنے والے
جاپانی اور نیپالی کوہ پیماؤں پر مشتمل ایک ٹیم کی قیادت کی تھی دنیا کے اس بلند و
بالا پہاڑ کی کوہ پیمائی سے واپسی پر 500 کلوگرام وزن کے پرانے خیمے، کھانے پینے کی
اشیا، خالی ڈبے اور ادویات اپنے ساتھ لائے ہیں جو کئی عشروں سے وہاں پڑی تھیں جنہیں
مختلف کوہ پیما پہاڑ کی چوٹی پر چھوڑ کر چلے آئے تھے۔ان کے اندازے کے مطابق انہوں نے
ایورسٹ کی چوٹی سے اپنی پانچ مہموں کے دوران نو ہزار کلوگرام وزنی کچرا جمع کیا ہے۔
پہاڑ کی اس چوٹی کو عام طور پر دنیا کی سب سے بلند کچراگاہ تصور کیا جاتا ہے۔ مسٹر
نوگوچی کا کہنا تھا کہ وہ ٹوکیو اور سیول میں اپنے ساتھ لائی کچھ اشیا کی نمائش بھی
کریں گے تا کہ دنیا کی اس بلند ترین اورمقبول ترین چوٹی کو صاف رکھنے سے متعلق عوامی
شعور بیدار کیا جاسکے۔
اپنی پہلی ہی مہم کے بعدانہوں
نے بتایا کہ اس سال کی صفائی مہم کے دوران انہوں نے یہ بات محسوس کی کہ وہاں پھینکی
جانے والی اشیا کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ان کہنا تھا کہ 1953 میں ماؤنٹ ایورسٹ
کو سب سے پہلے سر کرنے والے دو کوہ پیما ایڈ منڈ ہیلری اور شیر پا تین ژنگ کے بعد سے
پچھلے چون برسوں میں پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنے کے دوران اس کی چوٹی پر کوئی پچاس ٹن
کچرا جمع ہوا ہے جو وہاں پڑا تھا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ اس قدر بلندی، برف اور آکسیجن
میں کمی کے باعث کوہ پیماؤں کے لیے کوڑا نیچے لانا انتہائی دشوار کام ہے لہذا مسٹر
نوگوچی کے اس کام پر انہیں جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے۔
گذشتہ دہائیوں کے دوران نیپالی حکومت نے دنیا کے اس بلند
ترین پہاڑ کو صاف کرنے کے لیے کافی کوششیں کی ہیں، اور اس مقصد کے لیے پہاڑ کی چوٹی
پر جانے والے مہم جوؤں سے کچھ اضافی رقم جمع کرانے کو کہا جاتا ہے جو انہیں اسی صورت
میں واپس مل سکتی ہے جب وہ اپنے ساتھ لے جانے والا کچرا واپس لائیں۔
ایک جینیئس ریاضی داں
آئیے دنیا کے بلند ترین پہاڑ کی بلند ترین چوٹی کے حوالے
سے ایک ایسے شخص کو یاد کرتے ہیں جس کا تذکرہ کیے بغیر ایورسٹ کا ذکر ہمیشہ ادھورا
سمجھا جائے گا۔بی بی سی ویب سائٹ کے مطابق ، یہ بات راج برطانیہ کے زمانے کی ہے سن
1852کی جب ہندوستان پر بر طانیہ کی حکومت تھی، ایک روز شمالی قصبے دہرہ دون کے ایک
دفتر میں ایک نوجوان بھاگتا ہوا آیا اور اپنے افسر کے سامنے جاکر چلایا” جناب میں نے
دنیا کی سب سے اونچی پہاڑی چوٹی دریافت کرلی ہے۔ یہ نوجوان رادھا ناتھ سکدھر تھا۔
اعداد و شمار کو قابل فہم بنانے کے لیے تقریبا چار برس پر
مشتمل محنت شاقہ میں مصروف رہنے کے بعد رادھا ناتھ سکدھر اس قابل ہوا تھاکہ سلسلہ کوہ
ہمالیہ کی اس پندرہویں چوٹی کی اونچائی معلوم کر سکے، اسی بلند ترین پہاڑ کو بعد میں
ماؤنٹ ایورسٹ کا نام دیا گیا جو دراصل اس وقت کے سروے ڈپارٹمنٹ کے اعلی ترین سرویئر
جنرل سر جارج ایورسٹ سے منسوب کیا گیا تھا جنہوں نے اس پہاڑ کی انتیس ہزاردو فٹ یا
آٹھ ہزار آٹھ سو چالیس میٹر اونچائی کو سر کیا۔ سکدھر کا یہ کارنامہ ، جس کے بارے میں
بہت سے بھارتیوں کو علم ہی نہیں ہے لندن کے علاقے بروک لین میں ایک عظیم نمائش میں
پیش کیا گیا، بھارتی حکومت کے تعاون سے یہ نمائش لندن میں برصغیر کی نقشہ بندی کے دو
سو برس مکمل ہونے پر لگائی گئی تھی۔
برصغیر کی نقشہ بندی کے اس کام کا آغاز جسے ”علمی تاریخ
“کا سب سے عظیم ترین اور حیران کن کارنامہ قرار دیا گیا سن اٹھارہ سو دو میں مدراس
میں تعینات برطانوی فوج کے ایک افسر ولیم لیمبٹن نے کیا تھا۔ اس سروے میں بعد میں ہزاروں
ہندوستانیوں نے حصہ لیا اور سن اٹھارہ سو انیس میں سروے کے اس کام کو عظیم مثلثیاتی
( علم ریاضی یا حساب دانی کا وہ شعبہ جو تکون زاویوں سے متعلق ہو) کا نام دیا گیا۔ اس کام کے ذریعے سولہ سو میل رقبے
کے نقشے بنائے گئے جن کی تکمیل کے دوران بے شمار لوگ لقمہ اجل بنے ، زیادہ تر ہلاکتیں
چیتوں یا ملیریا کے مرض کی وجہ سے ہوئیں۔
انتالیس سالہ سکدھر اس وقت سروے کرنے والے مختلف دستوں کے
جمع کیے ہوئے اعداد و شمار کا حساب کتاب لگایا کرتا تھا۔ اس موضوع پر دو کتابیں تخلیق
کرنے والے برطانوی مورخ جان کے نے بتایا کہ سکدھر جس کام میں مصروف تھا اسے انجام دینے
کے لیے علم ریاضی یا حساب دانی پر دسترس بہت ضرورت تھی جو اس میں تھی ، سر جارج ایورسٹ
نے سکدھر کو غیر معمولی قابلیت کا حامل جینیئس ریاضی داں قرار دیا تھا۔برطانوی مورخ
جان کے کا کہنا ہے کہ سر جارج ایورسٹ کی طرح ممکن ہے کہ سکدھر نے بھی کبھی خود پہاڑ
کی یہ چوٹی نہ دیکھی ہو۔1847 میں جب سروے کرنے والوں نے پہلی بار دارجلنگ کے مقام سے
اس چوٹی کا نظارہ کیا ہو تب شاید اسے ممکنہ طور پر دنیا کی سب سے اونچے مقام کے برابر
اونچائی یا چوٹی قرار دیا گیا ہو، تاہم 1856تک جب تک ان اعداد و شمار و معلومات کا
حساب کئی بار پھر نہ کر لیا گیا اس کا باقاعدہ سرکاری اعلان نہیں کیا گیا کہ یہ دنیا
کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔
سکدھر ، کلکتہ کے قدیم شہر جوروسانکو کے ایک بنگالی برہمن
کے گھر اکتوبر 1813 میں پیدا ہوا ،اس نے شہر کے مشہور ہندو کالج سے علم ریاضی کی تعلیم
حاصل کی۔ تھوڑی بہت شدھ بدھ انگریزی زبان کی بھی تھی، کام میں جٹے رہنے والے سکدھر
نے زندگی بھر شادی نہیں کی، ان کے افسر سر جارج نے انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا
تھا۔
انیس سو پچپن میں ماؤنٹ ایورسٹ چوٹی کی اونچائی میں چھبیس فٹ کا اضافہ ہوا اور
یہ بڑھ کر انتیس ہزار اٹھائیس فٹ ہوگئی، انیس سو ننانوے میں اس کی اونچائی مزید سات
فٹ اونچی ناپی گئی ، آج دنیا کی بلند ترین چوٹی انتیس ہزار پینتیس فٹ اونچی ہے۔کوہ
پیمائی کی تاریخ ہمیشہ سکدھر اور اس جیسے بہت سے دوسرے جینیئس افراد کی احسان مند رہے
گی