Thursday, February 15, 2007

بگلہیار ڈیم کا تنازع

بگلہیار ڈیم کی تعمیر پر صدائے احتجاج ایسا ہی ہے جیسا ”لکیر پیٹنا“۔ 1999 میں ہزاروں مربع میٹر سے زائد رقبے پر تعمیر ہونے والا یہ ڈیم کیا اتنا ہی چھوٹا تھا کہ 2002 تک ہمیں اس کی تعمیر ہی نظر نہ آسکی اور آج جب غیر جانبدار ثالثی ماہرین نے ہمارا ایک آدھ اعتراض مان لیا ہے تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں اور امید کررہے ہیں کہ بھارت اپنے کروڑوں ڈالر کے پروجیکٹ کو تکمیل کے آخری مراحل میں لا کراسے توڑ پھوڑ کر ہماری مرضی کے مطابق ڈھال دے گا۔

اگر ماضی کے کچھ صفحات پلٹ کر دیکھیں تو اس حوالے سے ہماری بے پروائیوں کے چند تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔ بگلہیار ڈیم کی منصوبہ بندی وولر بیراج سے بھی پہلے کی گئی تھی (وولر بیراج کو کشمیری مجاہدین نے اڑا دیا تھا اور اس سے بھارت کو تقریبا دو ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔) 1992 میں پہلی دفعہ بھارت نے پاکستان کو اپنے اس منصوبے سے آگاہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ اس منصوبے کا ڈیزائن کسی بھی طرح سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔   1960میں کیے گئے سندھ طاس معاہدے کے مطابق دریائے چناب کے تمام تر پانی پر پاکستان کا حق ہے اور اس کے تحت مغربی دریاں پر تعمیر کیے جانے والے ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ کے ڈیزائن اور آپریشن، پانی ذخیرہ کرنے والی جھیلوں کی گنجائش اور دریا پر کیے جانے والے دیگر کاموں کے معیار مقرر کیے گئے ہیں اور چند پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ انڈیا اس کا بھی پابند ہے کہ وہ ایسے کسی بھی منصوبے کے آغاز سے کم از کم چھ ماہ پہلے پاکستان کو تکنیکی معلومات فراہم کرے تاکہ پاکستان اپنا اطمینان کرسکے۔سندھ طاس معاہدہ دونوں فریقوں کو ایسے منصوبوں کے معائنے کے حق دیتا ہے اور اسی کے مطابق جب جب پاکستان نے معائنے کی بات کی تواسے مسلسل چار برسوں تک ٹالا گیا اور یہ معائنہ بالآخر اکتوبر 2003 میں ہواجب ڈیم خاصا تعمیر ہوچکا تھا۔ڈیم کے معائنے کے بعد پاکستانی کمشنر برائے انڈس واٹرز نے کہا تھا کہ ڈیم کی تفصیلات ان نقشوں کے مطابق نہیں پائی گئیں جو انڈیا نے انہیں فراہم کیے تھے۔معائنہ ٹیم کی اس رپورٹ نے پاکستان کا یہ اعتراض درست ثابت کردیا کہ بگلہیار ڈیم کی تعمیر میں سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ایسی صورت حال میں ہمیں فوری طور پرعالمی بینک سے رجوع کرنا چاہیے تھا لیکن ”بوجوہ“ اس اقدام میں تاخیر ہوتی گئی اور جب یہ قدم اٹھایا گیا تو مذکورہ ڈیم کی تعمیر خاصی آگے بڑھ چکی تھی۔

خدا کا لاکھ لاکھ احسان ہے کہ دریائے سندھ کا پانی مکمل طور پر بھارت کی دست برد سے محفوظ ہے ۔تبت سے نکلنے والا یہ پاکستان کا سب سے بڑا دریا جسے ہم بجا طور پر پاکستان کی شہ رگ بھی کہہ سکتے ہیں لداخ کے مقام سے آزاد کشمیر میں داخل ہوتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اس دریا کے راستے میں کوئی ایسا مقام نہیں ہے جہاں دریائے سندھ پر کوئی ڈیم بھی بنایا جاسکے۔دیگر ذیلی دریا ؤ  ں کا پانی آزاد کشمیر میں دریائے سندھ میں آکر واپس مل جاتا ہے لہذا دریائے سندھ کا پانی جوں کا توں پاکستان کو مل جاتا ہے۔

چناب دریائے سندھ کا ذیلی دریا ہے جو کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع متنازع وادی کشمیر سے شروع ہوتا ہے اور یہی وہ دریا ہے جو بھارت کی دست برد کا سب سے زیادہ شکار ہوسکتا ہے۔یہ دریا دریائے راوی  سے صرف پچاس میل کے فاصلے سے بہتا ہے اور راوی پر سندھ طاس معاہدے کی رو سے بھارت کا حق ہے۔ بھارت اگر ہٹ دھرمی اور شرارت پر اتر آئے تو ایک نہر تعمیر کرکے چناب کا پانی راوی میں کھینچ سکتا ہے۔ اس طرح وہ چناب سے ملنے والے پانی کو کھینچ کر راجھستان تک لے جاسکتا ہے۔

 مذکورہ بگلہیار ڈیم مقبوضہ کشمیر کے ضلع ڈوڈا میں دریائے چناب پر تعمیر کیا جارہا ہے۔ اس جگہ کم و بیش 3 دریا ؤ  ں کا پانی جمع ہوتا ہے جو پاکستان کی طرف بہہ کر اس کی زراعت کو نئی سانسیں فراہم کرتے ہیں۔پاکستان نے کہا تھا کہ بگلہیار ڈیم کی تعمیر سے اس کی زراعت پر برا اثر پڑے گا اور اس کی 60 فیصد زمین پیاسی رہ جائے گی۔جبکہ بھارت کے پاس لفاظی کے علاوہ کچھ نہیں ہے، وہ دعوی کر رہا ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر کا مقصد پاکستان کی زراعت کو نقصان پہنچانا نہیں ہے بلکہ اپنے عوام کے لیے 9 سو میگا واٹ کی بجلی حاصل کرنا ہے لیکن ماہرین اس دعوے کو رد کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ بھارت کا توانائی والا موقف درست نہیں ہے کیونکہ اس نے حال ہی میں امریکا سے سول ٹیکنالوجی کا جو بین الاقوامی معاہدہ کیا ہے اس کے بعد اسے توانائی کا کوئی بحران درپیش نہیں رہے گا ۔ یہ ڈیم پاکستان کے تربیلا ڈیم سے بلند ہو گا جو کہ دنیا میں مٹی سے بننے والا دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے۔اس ڈیم کی تعمیر سے دریائے چناب کے راستے پاکستان آنے والے پانی میں 8 ہزار کیوسک کی یومیہ کمی ہو جائے گی اور یوں 28 دن کی کمی سے ہماری زراعت پر کیا گذرے گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔بالخصوص دسمبر سے فروری کے مہینوں میں جب پہاڑوں پر برف باری سے دریا کا پانی منجمد ہو جاتا ہے اور نیچے پاکستان میں ربیع کی فصل کی تیاری اور آبیاری کا یہی موسم ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیم کی تعمیر سے ایک اندازے کے مطابق 3لاکھ21 ہزار ایکڑ اراضی ناقابل کاشت ہوجائے گی اور یہ رقبہ بڑھ بھی سکتا ہے۔اس ڈیم کے حوالے سے پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ بھارت اس ڈیم کے ذریعے جب چاہے گا پاکستان میں پانی کی قلت پیدا کردے گا اور جب چاہے گا اس ڈیم کے دروازے کھول کر پاکستان پر سیلاب مسلط کردے گا۔
یاد رہے کہ بھارتی ذرائع واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ بھارت ساڑھے چار ہزار کروڑ کے پروجیکٹ کو تکمیل کے آخری مراحل میں لا کر ختم کردے۔

 آئیے سندھ طاس معاہدے پر ایک نظر ٹالتے ہیں : برصغیر کی تقسیم کے بعد دونوں ملکوں کے مابین 18 دسمبر 1947 کو ایک معاہدہ کیا گیا جس کی رو سے دونوںممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کی صورت حال، تقسیم سے قبل والی ہی رکھنی تھی لیکن 8 ماہ سے بھی کم مدت کے اندر اندر مصالحتی ٹریبونل کے توڑے جانے کے بعد بھارت نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے آب پاشی کے لئے مخصوص ہر اس نہر کو بند کر دیا جو فیروز پور اور گورداسپور سے نکل کر دونوں ملکوں کی سرحد عبور کر رہی تھیں۔ بھارت کی اس کارروائی کے باعث پاکستانی کی کھڑی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا۔

انڈیا کا مطالبہ تھا کہ بھارتی پنجاب سے گزرنے والے تمام دریاؤں پر پاکستان، بھارت کا حق تسلیم کرے اور ان دریاؤں کے پانی پر پاکستان پنجاب کے باشندوں کے حق اور حصے کا مطالبہ نہیں کرے۔ اس کے برعکس پاکستان کے اس مطالبے کو وقت نے درست ثابت کیا کہ پانی کے ا ستعمال یا کھپت کی موجودہ صورت حال جوں کی توں رہنے دی جائے البتہ زائد پانی کو دونوں ممالک کے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے اس مطالبے کو متعدد معاہدوں اور ملکوں کی حمایت حاصل تھی۔


اس مطالبے کے جواب میں بھارت نے وہ اصول پیش کیا جو اگرچہ کئی بین الاقوامی مذاکرات میں پیش تو کیا گیا تھا لیکن اس معاہدے کی پذیرائی کسی ملک نے نہیں کی تھی۔ اس اصول کے مطابق دریاؤںکے بالائی بہاؤ پر واقع ملک کو دریا کے پانی پر مکمل حق حاصل ہوتا جب کہ زیریں بہاؤ پر قائم ملک کو پانی صرف اس صورت میں مل سکتا جب دونوں ممالک آپس میں کوئی معاہدہ کر لیتے۔

یکم اپریل 1948 کو اٹھایا گیا یک طرفہ بھارتی اقدام، دو ممالک سے ہو کر گزرنے والے دریاؤں کے متعلق بین الاقوامی قانون کی روح کے منافی تھا۔ 1921 کا بارسلونا کنونشن، بھارت نے جس پر دستخط کئے تھے، کسی بھی ملک کو ایسے دریاؤں کا پانی روکنے یا ان کا رخ تبدیل کر دینے کی قطعی اجازت نہیں دیتا جو کسی ملک کی سرحد عبور کر کے پڑوسی ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ مذکورہ کنونشن کے مطاق کسی ملک کو دریاؤں کے پانی کی اس حد تک اور اس طریقے سے استعمال کی اجازت بھی حاصل نہیں کہ اس کے پڑوسی ملک کی زمینیں سیراب نہ ہو سکیں یا وہ پانی کو درست طور سے استعمال نہ کر سکے۔ دریاؤں کے بالائی بہاؤ پر واقع متعصب بھارت نے اپنی حیثیت اور طاقت کا غیر قانونی مظاہرہ کرتے ہوئے اپریل 1948 میں پاکستان کو دریاؤں کے پانی کی فراہمی روک دی تھی جس کے نتیجے میں پاکستان کے ایک وزارتی وفد کو نئی دہلی کا ہنگامی دورہ کرنا پڑا اور پانی کی بحالی کے لئے بات چیت کرنی پڑی۔ لیکن ان مذاکرات میں بھارت نے اصرار کیا کہ مشرقی جانب سے آنے والے تمام دریاؤں پر پاکستان، بھارت کا ملکیتی حق تسلیم کرے۔ 4 مئی 1948 کو ہوئے مذاکرات میں بھارت نے پاکستان وفد کو ایک ایسے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا جس کے تحت اسے ریزرو بینک آف انڈیا میں، بھارتی وزیر اعظم کی مقرر کردہ رقم جمع کروانا پاکستان کے لئے ضروری تھا اور اس کے بعد ہی پاکستان کو پانی کی فراہم بحال کی جانی تھی۔

سندھ طاس میں واقع دریائی نظام، دریائے سندھ اور اس کے پانچ ذیلی دریاؤں جہلم، بیاس، چناب، راوی اور ستلج پر مشتمل ہے۔ یہ تمام دریا پاکستان میں مٹھن کوٹ کے مقام پر دریائے سندھ سے مل جاتے ہیں۔ جس کے بعد کراچی کے جنوب میں واقع بحر ہند میں جا گرتے ہیں۔ سندھ طاس کا کل رقبہ لگ بھگ 365,000 مربع میل پر مشتمل ہے جو زیادہ تر پاکستان میں شامل ہے جب کہ اس کا بقیہ معمولی حصہ مقبوضہ کشمیر، بھارت، چین اور افغانستان تک پھیلا ہوا ہے۔ آزادی کے وقت پاکستان کو میسر 37 ملین ایکڑ میں سے 31 ملین ایکڑ رقبے پر آب پاشی ہوتی تھی۔ دونوں ممالک کے مابین سرحدوں کا تعین کرتے وقت برصغیر پاک وہند میں قائم نہری نظام پر توجہ نہیں دی گئی تھی البتہ باؤنڈری کمیشن نے یہ تنازع تسلیم کیا تھا۔ متاثرہ علاقوں کے نمائندوں نے ثالثی کمیشن کے سامنے البتہ اقرار کیا تھا کہ پانی کی سپلائی پر دونوں ممالک کا حق ہے۔ پھر آزادی کے ا بتدائی برسوں کے دوران 4 مئی 1948 کو دونوں ممالک نے ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے خطے کے دریاؤں سے پانی کے حصول کی خاطر پاکستان کو مقررہ رقم بھارتی حکومت کو ادا کرنی تھی۔ واضح رہے یہ محض عارضی معاہدہ تھا جو پانی کی سپلائی بحال رکھنے کی غرض سے کیا گیا تھا اور پانی کی تقسیم کے مستقل حل کی تلاش کے لئے دونوں ممالک کے مابین مذاکرات جاری رہنے تھے۔

چونکہ دونوں ممالک کی حکومتیں اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھیں لہٰذا مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے۔ اس معاملے کو پاکستان نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے جانے کی دھمکی دی جس پر بھارت نے یقین دہانی کروائی کہ پانی کی تقسیم کا یہ مسئلہ باہمی بات چیت کے ذریعے حل کر لیا جائے گا۔ یہ بہانہ بھارت ہمیشہ سے ہی بناتا آ رہا ہے اور برسوں کے تجربے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کسی بھی مسئلے کے حل میں تعطل پیدا کر دینے کا یہ وہ بہترین ہتھکنڈا ہے جسے بھارت مہارت سے استعمال کرتا ہے۔

مئی 1948 کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد پاکستان سے بین الاقوامی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ 1951 تک بھارت کے غیر سنجیدہ رویہ کے باعث دونوں ممالک کے درمیان اس مسئلے پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ بھارت کی جانب سے سمجھوتہ نہ کرنے کی خواہش کے باوجود دونوں ممالک اس مسئلے کا حل چاہتے تھے کیوں کہ انہیں علم تھا دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کا معاملہ اگر حل نہیں ہوا تو مستقبل میں بے شمار تنازعات کو جنم دے گا۔

اس دوران بھارت نے دریائے بیاس اور ستلج کے بالائی حصے میں، فیروز پور سے آگے ہریک کے مقام پر بیراج کی تعمیر شروع کر دی تھی اور بھاگرا کی ڈیم سائٹ پر بھی کام شروع تھا لہٰذا پاکستان کی ہر کوشش اور ہر اعتراض کو اس نے مسترد کر دیا۔

ماحول اور قدرتی وسائل پر گہری نظر رکھنے والے پی سی ایس آئی آر کے سابقہ ڈائریکٹر مرزا ارشد علی بیگ کی ایک رپورٹ کے مطابق چونکہ اس مسئلے سے لاکھوں لوگوں کی قسمت وابستہ تھی اور پرامن مذاکرات کے ذریعے اس کا حل بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا لہٰذا امریکہ کے ایک مشہور رسالے کولیئر (جو1957 میں بند ہوا) نے ٹینیسی ویلی اتھارٹی کے سابق چیئرمین اور امریکی اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈیوڈ ای کو حقائق تلاش کرنے کی غرض سے بھارت اور پاکستان کے دورے پر بھیجا۔ اس کا کام اس مسئلے پر ایک رپورٹ تیار کرنا تھا جس کی مدد سے یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا۔

وطن واپسی پر ڈیوڈ نے سلسلے وار آرٹیکلز کی صورت میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اس سلسلے کا پہلا آرٹیکل ”کولیئر“ کے 4 اگست 1951 کے شمارے میں شائع ہوا۔ اس نے اس میں لکھا تھا۔ ”ابتدائی نکتہ، جس سے شروعات کی جائے یہ ہو کہ پاکستان کو پانی سے محرومی اور اسے صحرا بنا دیئے جانے کے خدشات ختم کئے جائیں۔ اس کے پانی کے حالیہ استعمال کے حجم کی بھارت تصدیق کرے اور اسے (پاکستان کو) پابند کیا جائے کہ وہ اور بھارت صحیح معنوں میں دریا کے بین الاقوامی طاس میں مل کر کام کریں انجینئرنگ کی بنیادوں پر جو بھارت کے مستقبل کے پانی کے استعمال کی بھی یقین دہانی کروائے گا۔ علیحدہ علیحدہ کام کرنے کی صورت میں مذکورہ دونوں ممالک یہ مقصد حاصل نہیں کر سکیں گے کیوں کہ دریا (سندھ) دونوں ممالک کی سرحد کو خاطر میں نہیں لاتا اور کشمیر، بھارت اور پاکستان سے گزرنے والے اپنے قدرتی راستے پر گامزن رہتا ہے۔ اس پورے نظام کو بطور ایک اکائی ترقی دی جانی چاہئے اور امریکہ کے سات ریاستوں کےٹی  وی اے سسٹم کی طرح بطور ایک اکائی ہی اسے چلایا جانا بھی چاہئے۔

اس وقت کے عالمی بینک کے صدر یوجین بلیک نے ڈیوڈ کے تحریر کردہ آرٹیکلز پڑھے اور اس سے رابطہ کر کے اس سے پوچھا کہ بھارت اور پاکستان کے لئے اس کی تجاویز کی طرح قابل قبول ہو سکتی ہیں۔ ڈیوڈ سے مشاورت کے بعد بلیک نے دونوں ممالک کے وزرا کے نام خطوط لکھے اور دریائے سندھ کے پانی کے تنازع کے حل کے لئے مذاکرات کے لئے اپنے دفتر کی خدمات پیش کر دیں۔ بلیک دونوں ممالک کو اپنے دفتر میں مذاکرات کرنے کے لیے راضی کرنے میں کامیاب ہو گیا اور یہ مذاکرات مئی 1952 میں عالمی بینک کی نگرانی میں شروع ہوئے۔ یہ مذاکرات وقفے وقفے کے ساتھ نو طویل برسوں تک جاری رہے اور ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ اس تنازع کے حل کے لئے آخر عالمی بینک کو اپنا کردار ادا کرنا پڑا اور تنازع ختم کرنے کے لئے اس نے تین مغربی دریاؤں کے پانی پر پاکستان کو حقدار ٹھہرایا اور دیگر تین مشرقی دریا، بھارت کے حوالے کر دیئے۔ اس کے بعد پاکستان نے نکتہ اٹھایا کہ بھارت کی جانب سے بھاکرا ڈیم بنائے جانے کے باعث مغربی دریا ؤ  ں کا بہاؤمتاثر ہو گا اور فصلوں کی بوائی کے موسم میں ملنے والا پانی اس کے لئے ناکافی ثابت ہو گا۔

عالمی بینک کے اس استفسارپر کہ بھارت اپنے مشرقی دریاؤں کے پانی کو کس طرح کام میں لائے گا؟ بھارت نے ایک اسکیم پیش کی جس کے مطابق وہ 8 ملین ایکڑ فٹ پانی راجھستان کو فراہم کرے گا۔ 7.2 ملین ایکڑ فٹ پانی پنجاب کو اور 0.5 ملین ایکڑ فٹ پانی کشمیر کو۔ پانی کی تقسیم کا یہ فیصلہ اس وقت کے یونین منسٹر گلزاری لال نندرا کی بلائی گئی ایک ہنگامی میٹنگ میں کیا گیا تھا۔ اس میٹنگ کے فیصلے کے مطابق راجھستان کو دیا گیا پانی، دونوں جانب کے پنجاب کو دیئے گئے پانی کی کل مقدار سے بھی زیادہ تھا حالانکہ مشرقی پنجاب کے دریا ؤ  ں سے راجھستان کا کوئی تعلق نہ بنتا تھا۔ شاید اس میٹنگ میں شامل سیاستدان اور ٹیکنوکریٹ کچھ دیر کے لئے شیخ چلی بن گئے تھے اور راجھستان کے صحرا کو نخلستان بنانے کا خواب دیکھنے لگے تھے۔

کوئی حل برآمد ہوتا نہ دیکھ کر آخر عالمی بینک نے مغربی ممالک سے، پاکستان اور بھارت کے لئے اس معاہدے کی شرائط طے کرنے اور ایک ارب ڈالر کی رقم کی ضمانت دینے کے علاوہ پاکستان میں پانی کے تعمیراتی منصوبوں کے لئے بھی 200 ملین ڈالر کی رقم دینے کو کہا۔ اس کے بعد انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس معاہدہ) پر 19 ستمبر 1960 کو بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور اس وقت کے پاکستانی حکومت کے سربراہ صدر ایوب خان نے کراچی میں دستخط کئے۔ اس معاہدے کے تحت بھارت، پاکستان کو مدھو پور اور فیروز پور ہیڈ ورکس اور وہاں سے نکلنے والی نہروں کی دیکھ بھال اور آپریشن پر اٹھنے والے اخراجات کی ادائیگی کے بعد پانی فراہم کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ اس کے علاوہ اس نے مذکورہ ہیڈ ورکس کی نعم البدل پاکستان میں تعمیر کرنے کے لئے 100 کروڑ کی رقم بھی دینے کا وعدہ کر لیا۔ سندھ طاس معاہدے پر کراچی میں اس وقت کے پاکستانی صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور اس وقت کے صدر عالمی بینک ڈبلیو اے بی الیف نے 19 ستمبر 1960 کو کئے۔ اس معاہدے کا مقصد 365,000 مربع میل کے علاقے کو سندھ طاس میں واقع دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کرنا اور دونوں ممالک کو اپنی اپنی سرحدوں کے اندر پانی کو قدرتی وسیلے کو محفوظ کرنا اور اس کا انتظام کرنا ہے۔ یہ معاہدہ یکم اپریل 1960 سے موثر ہوا۔ اس معاہدے کے اہم نکات یہ تھے۔
 19 ستمبر 1960 کو کراچی میں ہوئے سندھ طاس معاہدے کی چیدہ چیدہ شقات یہ ہیں۔

مشرقی دریاؤں کے متعلق تصریحات

الف۔ مشرقی دریاؤں کا تمام تر پانی بھارت کے مکمل استعمال کے لئے مہیا ہو گا۔

                    ب۔ صرف گھریلو استعمال اور ایسے استعمال کے ضمن میں کہ پانی کی مقدار کم نہ ہو، دریاؤں کا بہاؤرکھنے کی ذمہ داری پاکستان کی ہے اور وہ مرکزی ستلج اور مرکزی راوی پر ان مقامات سے پہلے، جہاں سے یہ پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے ہیں، پانی کے بہاؤمیں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دے گا۔

ج۔ پاکستان میں داخل ہونے والے تمام دریاں کے پانی پر اور ان ذیلی دریاؤں کے پانی پر، جو اپنی قدرتی گزرگاہ سے ہوتے ہوئے مرکزی ستلج اور مرکزی راوی میں ضم ہو جاتے ہیں، پاکستان میں داخل ہونے کے بعد پاکستان کا حق ہو گا۔

مغربی دریاؤں کے متعلق

الف- مغربی دریاؤں کے تمام تر پانی پر پاکستان کا کلی حق ہوگا۔
           ب- مغربی دریاؤں کے تمام پانی پاکستان میں بہہ کر آنے کی ذمے داری بھارت کی ہوگی اور وہ پانی کے بہاؤکو روکنے کا مجاز نہیں ہے۔سندھ طاس  معاہدے کے تحت یہ مکمل طور پر واضح ہے کہ بھارت کو دریائے چناب کے پانی کا ذخیرہ کرکے اسے روکنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے لیکن بھارت کی تاریخ ایسی عہد شکنی کے واقعات سے بھری ہوئی ہے ۔

اب جبکہ ریاست جموں اور کشمیر میں بھارت کی طرف سے بنائے جانے والے بگلیہار ڈیم اور پن بجلی گھر کا فیصلہ ورلڈ بینک کے غیر جانبدار ماہرین نے پیر کے روز کر دیا ہے تب بھی پاکستان کے خدشات جوں کے توں برقرار ہیں اور وہ ہر حوالے تحفظات کا شکار ہے۔
ورلڈ بینک کے غیر جانبدار ماہر نے پاکستان کی طرف سے بگلیہار ڈیم اور پن بجلی گھر کے ڈیزائن پر چار اعتراضات اٹھائے تھے۔ ان میں سے تین اعتراض پر تنقید کی گئی جب کہ ایک اعتراض کو درست مانا گیا۔

بھارت نے دعویٰ کیا کہ 5 کروڑ مکعب میٹر پانی کا ذخیرہ سندھ طاس معاہدے کی رو سے متفقہ ہے اور پاکستان کے اعتراض کو رد کر دیا گیا کہ وہ اس پانی کو آبپاشی کے لئے استعمال کرے گا۔ بھارت نے کہا کہ اگر ڈیم کی بلندی پاکستان شرائط کے مطابق رکھی جائے تو بجلی کی پیداوار صرف 50 میگا واٹ رہ جائے گی۔ سردیوں میں ڈیموں میں پانی کی قلت ہو جانے کی بنا پر کشمیر میں بجلی کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔

 پاکستان نے ڈیم پر چھ فنی اعتراض کئے جو منصوبے کی ہیئت کے بارے میں تھے۔

 ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان نے 1960 میں سندھ طاس معاہدے میں اپنی پوزیشن کو طویل مذاکرات کے نتیجے میں کمزور کر لیا اور آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی پر مضبوط اعتراض نہ کیا حالانکہ اس شق میں درج ہے کہ اگر کوئی بھی پارٹی کوئی بھی ایسا تعمیری کام کرنا چاہتی ہے جو پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ بنتا ہے تو دوسری پارٹی کو اس کا تمام تعمیری نقشہ اس کی لبائی چوڑائی بتانا ہو گی۔
یاد رہے کہ پاکستان نے ڈیم کی تعمیر پر اعتراض کرنے کے بجائے اس کے ڈیزائن پر اعتراض کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس کی تعمیر سے ہماری طرف آنے والے پانی کے بہاؤمیں کمی واقع نہ ہونے پائے۔

بھارت نے یقین دلایا کہ پانی کے بہاؤ میں فرق نہ آنے پائے گا تاہم پاکستان نے پانی کے ذخیرہ، پانی کی ڈیم کی سطح سے بلندی، پانی کے اخراج پر اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا تھا۔

پاکستان کا اعتراض یہ بھی تھا کہ پانی ذخیرہ کرنے کی وسیع جگہ کی موجودگی کی بنا پر بھارت جب چاہے گا پانی کے ذخیرے میں اضافہ کرے گا۔ لہٰذا ڈیم کی بلندی کم کی جائے۔ غیر جانبدار ماہر نے بھی رپورٹ میں لکھا تھا کہ بھارتی اعداد وشمار غلط ہیں لہٰذا اس نے بھارت کو متنبہ کیا کہ وہ پانی کی سطح سے اوپر ڈیم کی بلندی کو 4.5 میٹر سے کم کرے اور یوں خالی جگہ کے رقبے میں 33 فیصد کمی کا فیصلہ دیکر بھارت کو خوش کر دیا۔

 بھارت ڈیم کی بلندی میں 1.5 میٹر کی کمی کرنے کی تجویز پر کتنا عمل کرتا ہے اس کا ماضی دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
پاکستان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ بجلی پیدا کرنے کے لئے جمع کیا جانے والا پانی سندھ طاس معاہدے کے مطابق کیا جائے۔ غیر جانبدار ماہر نے کہا کہ بھارت نے اس کی بلندی کم رکھی ہے لہٰذا اس نے فیصلہ دیا کہ پانی کو گرانے کے لئے موجودہ بلندی 818 میٹر کو بڑھا کر 821 میٹر یعنی 3 میٹر زیادہ کیا جائے۔

پاکستان نے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں کمی کا مطالبہ کیا۔  ماہر نے بھارت کو ہدایت کی کہ پانی جمع کرنے کے استعداد 37,722,000 مکعب میٹر سے کم کر کے 32,560,000 مکعب میٹر کی جائے تاہم اس میں اس بات کی ضمانت کا کہیں ذکر نہیں کہ دسمبر سے فروری تک کے مہینوں میں پاکستان کو روزانہ 8000 کیوسک پانی کی کمی نہ ہو گی۔

اضافی پانی کے اخراج اور دروازوں کی بناوٹ پر پاکستان تحفظات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا تاہم بھارتی وزیر کا کہنا ہے کہ بہت سے ٹیکنیکل اور قانونی معالات پر پاکستان کے ساتھ مستقبل میں بھی گفتگو ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق ”اگر موقع پر اضافی پانی کے اخراج کے لئے دروازے بنانا ضروری ہوا تو دروازہ بند ہونے کی صورت میں اس کا معائنہ کیا جائے گا جس میں اس کی مضبوطی، مناسب ڈیزائن ا ور تسلی بخش تعمیر کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔“ پاکستان کا اعتراض یہ تھا کہ اضافی پانی کے اخراجی دروازے اسپل وے کے ڈیڈ اسٹوریج لیول (ایسا مقام جس سے نیچے پانی صرف ہنگامی مواقع پر ہی لایا جا سکتا ہے) غیر ضروری ہے۔ غیر جانبدار ماہر نے پاکستان کی بات نہ مانی اور اصرار کیا کہ اسپل وے کے دروازے بین الاقوامی معیار اور قانون کے عین مطابق ہیں۔

قابل غور بات یہ ہے کہ پاکستان 1960 میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے مطابق غیر جانبدار ماہر کو قائل کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔ کیا اس کے بعد بھارت سے یہ توقع رکھنا عبث نہیں کہ وہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق ڈیم میں رد و بدل کرے گا۔